ترجمان: زینوبیا الیاس

Read in English

۔’’عرب عورتوں کے لیے ہر رکاوٹ کو دور کرنے کا ایک ہی راستہ ہے: بات کریں۔ بغیر ُرکے،مسلسل بات کریں،کل اور آج کے بارے میں،آپس میں بات کریں، عورتوں کے ہر حلقے میں،روایتی اور گھریلو حلقوں میں بھی، آپس میں بات کریں اور دیکھیں، دیواروں اور زندانوں سے باہر جھانکیں!‘‘۔

اس شمارے میں شامل ایک مضمون میں امل زمان نے الجزائر کی فیمنسٹ آسیہ جبار کی کتاب ’’ویمن آف الجیئرز‘‘ سے اقتباس کیا ہے، تاکہ یہ بتا سکیں کہ فیمنسٹ مزاحمت وہ حدیں عبور کرتی ہے جو خواتین کے لیے ’’مناسب‘‘ قرار دی گئی ہیں۔ ناریواد کا موجودہ شمارہ بھی اسی جذبے کو ُدہراتا ہے: پاکستان بھر میں سوشلسٹ فیمنسٹوں کے درمیان گفتگو کو فروغ دینا اور ایک آزاد مستقبل کے لیے ’’باہر دیکھنا‘‘۔ ہم ایسے وقت میں جی رہے ہیں جب سرمایہ داری، سامراج، اور  پدرشاہی کی گرفت گہری ہوتی جا رہی ہے۔

یہ اداریہ ایک ایسے وقت میں لکھا جا رہا ہے جب پاکستانی ریاست بلوچ تحریک پر شدید کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔یہ تحریک قیامِ پاکستان کے وقت  سے ہی موجود ہے،اور حالیہ برسوں میں بلوچ خواتین اس کے انقلابی محاز پر نمایاں ہوئی ہیں۔ کوئٹہ سے کراچی تک گرفتاریاں، پولیس کی بربریت، سنسرشپ، خاموشی، اور جبری گمشدگیاں معمول بن چکی ہیں۔ جہاں بلوچ اپنی سرزمین پر خود مختاری کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں، وہیں سندھ میں ’’گرین پاکستان انیشی ایٹو‘‘ کے تحت ایک نہری منصوبے کے خلاف، ماحولیاتی بگاڑ کے خلاف ،عوامی مزاحمت ابھرتی جا رہی ہے۔ شمال کے جنگ زدہ علاقوں میں کُرم مسلسل محاصرے میں ہے، جہاں زمین کے تنازعات اور جغرافیائی طاقت کے تصادم نے شیعہ-سنی کشیدگی کو جنم دیا ہے، اور ہر روزافغان پناہ گزینوں کی زبردستی جلاوطنی ایک بوجھل کردینے والا سامراجی طاقتوں کا ”گریٹ گیم” بن چکا ہے ۔ جبار کی یہ ہدایت کہ ’’ہم سب آپس میں بات کریں‘‘ اور ’’باہر دیکھیں‘‘، ایسے نازک دور میں سوشلسٹ فیمنسٹ تجزیے کے لیے اور بھی زیادہ بامعنی بن جاتی ہے۔

پاکستانی ریاست سرمایہ دارانہ ترقی، عسکریت، پدرشاہی اور مذہبی نظریات کی بنیاد پر علاقائی اور سیاسی اتحاد کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہم ان کے احکامات کی مزاحمت کرتے ہیں اور اپنی انقلابی یکجہتی کا ویژن پیش کرتے ہیں۔ یہ ویژن ’’سانجھی جدوجہد اور سانجھی آزادی‘‘ پر مبنی ہے۔ ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کے منشور میں کہا گیا ہے کہ ’’جب تک سیاسی تنظیمں شعوری طور پر مظلوم گروہوں کے ساتھ باہمی یکجہتی قائم کرنے پر زور نہیں دیتیں۔۔۔ تب تک ہماری آزادی ممکن نہیں: یا تو ہم سب مل کر آزاد ہوں گے، یا کوئی آزاد نہیں ہوگا!‘‘ اسی جذبے سے رہنمائی لیتے ہوئے، اور ان مادی حالات سے جن کی نوعیت علاقائی پیش رفت کے ساتھ سیاسی اتحاد کا تقاضا کرتی ہے، یہ شمارہ مختلف جدوجہد کے سیاق و سباق میں سرگرم فیمنسٹ آوازوں کو یکجا کرتا ہے: شہری و دیہی محنت کش  طبقے اور اندرونی نوآبادیاتی خطوں سے۔

سمجھنے کی ضرورت ہے کے ’’سانجھی جدوجہد‘‘ اور ’’سانجھی آزادی‘‘ کا آج کے سوشلسٹ فیمینزم کے لیے کیا مطلب ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ ’’سانجھی جدوجہد‘‘ کوئی رومانوی خیال یا وقتی چال نہیں، بلکہ ایک مستقل عمل ہے جو اجتماعی یکجہتی کو پروان چڑھاتا ہے، نہ کہ صرف اس کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ ’’سانجھی جدوجہد‘‘ ہم سے ایک اخلاقی، فکری اور یکجہتی پر مبنی سیاست کا مطالبہ کرتی ہے ۔ ایک ایسی سیاست جو اس سچ کو پہچان سکے کہ سرمایہ داری کی نہ ہموار ترقی مختلف خطوں میں سرمایاداری کی مخالف سیاست کی مختلف قسموں کو جنم دیتی ہے۔

ناریواد کا  ۲۰۲۵ کا شمارہ نو مضمونوں کو اکٹھا کرتا ہے جو اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح خواتین، خواجہ سرا، اور صنفی طور پر غیر روایتی لوگ گھر کے اندر ان پر مسلط پدرانہ توقعات کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری اور سامراج کی آپس میں جڑی ہوئی قوتوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ اور کس طرح سرمایہ داری اور سامراج کی جُڑی ہوئی طاقتیں ان کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ مضامین آج کے دور کی  فیمنزم سے جڑے اہم موضوعات پر روشنی ڈالتے ہیں ، جن میں شناخت کا سوال،مرکزی دھارے  میں حمایت پیدا کرنا اور متبادل کمیونٹیز بنانا، لبرل نسوانی نظریات سے آگے بڑھنا، اور مرکز سے دور فیمنسٹ تحریکوں  کوسمجھنا ۔زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہر ایک مضمون اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پدرشاہانہ نظام کے مسئلے کو سرمایہ داری اور سامراج سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح، ناریواد کا پانچواں شمارہ پاکستان میں فیمینزم کے بارے میں وسیع تر تفہیم کی فوری ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو انفرادی حقوق اور آزادیوں کے تصورات سے بالاتر ہو کر ایک ایسی فیمنزم کی طرف بڑھتا ہے جو گھر، ریاست اور سرمائے سے جُڑے پدرشاہانہ نظاموں پر تنقید کرتی ہے اور سب کے لیے ایک ترقی پسند مستقبل کی تعمیر پر اصرار کرتی ہے۔ اس شمارے کے ذریعے، ہم پاکستان میں سوشلسٹ فیمینزم کے لیے ایک نئے  پیمانہ کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔

یہ شمارہ نسوانی تحریکوں کی کثیر تعداد کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم نے ایسے مضمونوں کی تلاش کی جن میں فیمینزم  کی مزاحمت کا واضح بیان، ان کے فوری سیاق و سباق سے ہٹ کر پدر شاہی کے نظریات، اور ترقی پسند مستقبل کی تعمیر کے لیے حکمت عملی شامل تھی۔ ان تحریکوں کو اکٹھا کرنے کے پیچھے ہمارا مقصد آج پاکستان میں سوشلسٹ فیمینزم کی مختلف کوششوں کا اعتراف اور جشن منانا نہیں تھا بلکہ اتحاد سازی کے اہم کام کو آگے بڑھانا تھا۔ موجودہ دور کے پاکستان میں سیاسی، معاشی اور سماجی جبر کی روشنی میں، مختلف تحریکوں میں مخلصانہ اتحاد بنانا بہت ضروری ہے۔ خواتین اور صنفی غیر روایتی لوگ، خاص طور پر وہ لوگ جو محنت کش طبقہ کا حصہ ہیں یا مظلوم قوموں اور مذاہب کی نمائندگی کرتے ہیں، تاریخی طور پر ریاستی جابرانہ پالیسیوں کا خمیازہ بُھگت رہے ہیں۔ پاکستان کی سامراجی معیشت ان کی مزدوری پر انحصار کرتی ہے۔ کم اجرت والی غیر رسمی مزدوری اور بلا معاوضہ دیکھ بھال کرنے والے بھی اس میں شامل ہیں۔ لہذا، تمام محازوں پر فیمینزم کی مزاحمت کو ترقی پسند مستقبل کی تعمیر کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

اس شمارے میں دُر بی بی لکھتی ہیں کہ بلوچستان میں ترقی پسند مستقبل بلوچ خواتین کے بغیر تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ وہ مختلف حکمت عملیوں پر روشنی ڈالتی ہیں جو بلوچ عورتوں نے ماورائے عدالت قتل اور بلوچ عوام کی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ریاست سے جوابدہی کا مطالبہ کرنے کے لیے برسوں سے کی ہیں۔ ۲۰۱۳ اور ۲۰۱۴ کے بعد سے، پہلے بلوچ لانگ مارچ کے واقعے کے ساتھ ساتھ جلاوطن بلوچ طالب علم کارکن کریمہ بلوچ کی موت کے بعد، بلوچ تحریک کے کردار میں تبدیلی آئی ہے جس کے نتیجے میں خواتین نے تحریک کی فرنٹ لائن سنبھال لی ہے۔ اس کے نتیجے میں انہیں سیاسی تشدد کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ چاہے وہ ڈاکٹر ماہ رنگ ہوں، سمی دین ہوں یا بیبو بلوچ، تحریک میں سب سے آگے بلوچ خواتین کی موجودگی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہیں ریاستی حراست میں اغوا، قید یا ان کے  انسانی حقوق سے انکار کی صورتوں میں جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ،طیبہ جیوانی کی نظم ’’بات کیا‘‘ ایک ایسی کہانی بیان کرتی ہے جو مرکز سے دور علاقوں اور طاقت کے مرکز کے درمیان اختلافات کی گونج کو ظاہر کرتی ہے۔ نظم میں طنزیہ انداز میں بار بار دہرایا جانے والا فقرہ ’’بات کیا؟‘‘ صرف ایک سادہ سوال نہیں، بلکہ یہ اندرونی کالونی اور مرکز کے درمیان تاریخی تعلقات کو چیلنج کرتا ہے۔ آخر میں، جیوانی ان دونوں انتہاؤں کو آپس میں جوڑتی ہیں تاکہ بلوچستان کے اصل حالات اور ریاست کے اُلٹ بیانیےٴ کے درمیان فرق کو نمایاں کیا جا سکے۔

امل زمان ’’بغیر روکے‘‘ میں ہمیں فیمنسٹ مزاحمت کی داستانوں کی تلاش میں لے جاتی ہیں جس کا مقصد ہمارے قارئین کو فیمینٹ مصنفین سے متعارف کراتے ہوئے انگریزی پر مبنی اور یورپی ادبی اصولوں کی حدود کو پار کرنا ہے ۔وہ قارئین کو ایسی فیمنسٹ مصنفات سے متعارف کرواتی ہیں جن کی سرمایہ داری پر تنقید غلامی، نوآبادیات، اور نسل پر مبنی مشقت جیسے حقیقی حالات سے جنم لیتی ہے ۔ امل زمان ترجمہ کیے گئے ادب کے ذریعے سوشلسٹ فیمنسٹ سیاسی تعلیم کے لیے نئے مواقع پیش کرتی ہے جو افریقی، ایشیائی اور تیسری دنیا کے تعلقات کو نمایاں کرتا ہے۔ امل کا اس بات پر زور  ہے کہ ادب کو سوشلسٹ فیمنسٹ تصور کرنے کے لیے، اسے پدرانہ نظام اور سامراج کے ساتھ ایک ہی مجموعے کے دو حصوں کے طور پر مقابلہ کرنا چاہیے، اور پاکستان میں اشرافیہ، انگریزی اور اردو مرکوز تعلیم کے غلبہ کے اندر علاقائی زبانوں اور ثقافتوں میں بیان کیے گئے فیمینزم کے نقطہ نظر کو مٹانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ الجزائر کی انقلابی آسیہ جیبار اور گواڈیلوپین مصنف مریس کونڈے کے حقوق نسواں کے ناولوں پر بحث کرتی ہیں، ایسی کتابیں جو سلطنت اور غلامی کے تحت صنفی زندگی کو بیان کرتی ہیں۔ تحریر کے آخر میں کچھ تجاویز دی گئی ہیں جو گلوبل ساؤتھ کی فیمینسٹ تحریروں پر مبنی مطالعے کے حلقے کے لیے ایک بہترین نصاب بن سکتی ہیں ۔

اجتماعی گروہوں کی تشکیل بھی فیمینسٹ مزاحمت کی ایک اہم شکل ہے، جو اس شمارے میں مختلف انداز سے نظر آتی ہے — چاہے وہ طبقاتی فرق کے باوجود عورتوں کے درمیان یکجہتی کو مضبوط بنانے کی صورت میں ہو، جیسا کہ عالیہ حیدر کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے، یا بلوچ خواتین کا گھر کی تنہائی سے نکل کر سیاسی جدوجہد میں شامل ہونا ہو۔ فہمیدہ ریاض کا رسالہ’’آواز‘‘، جو ضیاء الحق کی آمریت اور سرمایہ دارانہ طبقے کے ظلم کے خلاف طلبہ اور مزدوروں پر ہونے والے جبر کے خلاف اُٹھا ، نے فیمینسٹ  مزاحمت کو سیاسی جبر کے خلاف ایک مضبوط دیوار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کراچی سے اسی کی دہائی میں آمریت مخالف میگزین آواز کے لیے فہمیدہ ریاض کے تحریر کردہ اداریے پاکستان میں سوشلسٹ فیمنسٹ کے لیے کام کرنے والوں کے لیے ایک تاریخی مثال قائم کرگئے۔کیونکہ ان کے ذریعے سرمایہ داری، پدرشاہی نظام اور سامراج کے ساتھ مل کر مزاحمت کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ 

عورت مارچ لاہور بھی مزاحمت کے مقصد سے ہماری فیمینسٹ سوچ کو وسعت دینے کی بات کرتا ہے۔ ایک مشترکہ طور پر لکھی گئی تحریر میں، عورت مارچ لاہور یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اگر ہم سرمایہ دارانہ پیمانوں کو استعمال نہ کریں، تو کسی تحریک کی کامیابی کو کیسے ناپا جا سکتا ہے؟ یہ تحریر اس بات پر بھی سوال اٹھاتی ہے کہ کیا صرف  پبلک کی نظروں میں آنا  ہی  سیاسی اثر ڈالنے کی علامت ہے؟ یہ ناکامی کو تحریک سازی کا ایک ضروری حصہ مانتی ہے، اور اجتماعی کام میں یکجہتی کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ آخر میں عورت مارچ لاہور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ایک ترقی پسند فیمنسٹ مستقبل کی بنیاد تبھی رکھی جا سکتی ہے جب ہم اپنے سانجھے فیمنسٹ ڈھانچوں کو مضبوط کریں۔

شمارہ ’’آواز‘‘ کی بازگشت کے طور پر، ہمارا شمارہ بھی اُن فیمنسٹ کوششوں کو مرکزی اہمیت دیتا ہے جو پدرشاہی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے سرمایہ داری اور سامراج کی مزاحمت بھی کرتی ہیں۔ عالیہ حیدر کا تجربہ، جنہوں نے چونگی امر سدھو کی سڑکوں پر کام کرنے والی خواتین کے ساتھ صاف پانی، صحت کی سہولیات اور مناسب اجرت کے لیے جدوجہد کی، ہمارے لیے یہ سوچنے کا ایک گہرا موقع دیتا ہے کہ سوشلسٹ فیمنسٹ اور محنت کش طبقے کی انقلابی جدوجہد آج کے پاکستان میں کیسے جُڑتی ہیں۔ انتخابات میں ناکام ہونے کے باوجود، عالیہ مستقبل کے بارے میں پُرامید ہیں، کیونکہ انتخابی مہم کے دوران جو سیاسی سرگرمیاں ہوئیں، اُنہوں نے ایچ کے پی کے ہمدردوں میں انقلابی سوچ پیدا کی اور پارٹی کی مزدوروں اور طلبہ میں تنظیم سازی کے امکانات کو بڑھایا۔ 

ریاست کے سوشلسٹ فیمنسٹ تجزیہ پر مبنی، پریانکا حفیظ ڈیرو کا تحقیقی مضمون ترقی کے نقاب کے پیچھے زمین اور اس کے لوگوں کے ساتھ ریاست کے استحصالی تعلقات کی مختلف مثالیں پیش کرتا ہے۔ خیرپور سندھ میں بابرلوئی بائی پاس پر نہر کے احتجاج سے سوشلسٹ فیمنزم کی جدوجہد کے اپنے ذاتی تجربات کی عکاسی کرتے ہوئے، ڈیرو کا مضمون بتاتا ہے کہ کس طرح پنجاب میں گرین پاکستان انیشی ایٹو جیسے منصوبے مظلوم گروہوں کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ نوآبادیاتی ترقیاتی منصوبے ریاستی سرمایہ داری اور پدرشاہی نظام کے سنگم کی پیداوار ہیں،جو  مقامی آبادیوں کو ان کے اپنے علاقے سے الگ کر رہے ہیں، ان کا معاشی طور پر استحصال کر رہے ہیں، اور ان کی زمین پر ان کی خودمختاری چھین رہے ہیں۔ عورتیں ان ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں، کیونکہ وہ زمین اور پانی سے ایک غیر سرمایہ دارانہ تعلق کو برقرار رکھنے پر زور دیتی ہیں۔ ان کی مزاحمت ایک مختلف سیاسی سوچ کو جنم دیتی ہے، جو زمین سے گہرے تعلق پر مبنی ہے۔

سوشلسٹ فیمنسٹ تحریکیں اُس عملی جدوجہد پر زور دیتی ہیں جو خواتین اور صنفی غیر روایتی افراد کو موجودہ لمحے میں سیاسی شرکت کی اجازت دیتی ہے، تاکہ وہ ایک ترقی پسند مستقبل کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس شمارے میں شامل کئی تحریریں ان وسائل پر بات کرتی ہیں جو سوشلسٹ فیمنسٹ نظریے کے حامل افراد کو ترقی پسند مستقبل کی تعمیر کے لیے درکار ہوتے ہیں، جیسے اندرونی اجتماعی ڈھانچوں کو مضبوط کرنا اور ترقی پسند ادب تک رسائی حاصل کرنا۔ زارا کی تحریر غیر روایتی صنفی تجربات پر روشنی ڈالتی ہے، جو ترقی پسند تحریکوں میں جاری سیاسی تعلیم کی کوششوں میں مددگار ہے۔ ایسی سیاسی تعلیم صنفی شناخت کے تجزیے کو مرد، عورت اور خواجہ سرا کی روایتی اقسام سے آگے بڑھاتی ہے۔

سال ۲۰۱۸ میں تاریخی ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ حقوق) ایکٹ منظور کیا گیا ، جو پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کو قانونی حقوق فراہم کرتا ہے۔ اس ایکٹ پر منظم حملے کےٴ جا رہے ہیں۔ اس ایکٹ اور ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ اکثر ٹرانس جینڈر کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے، ’’خواجہ سرا‘‘ اور ’’انٹر سیکس‘‘ کو نسبتاً قابل قبول قرار دیتا ہے۔ کچھ قدامت پسند حلقے ’’انٹر سیکس‘‘ اور تاریخی و سماجی طور پر تسلیم شدہ خواجہ سرا گروہوں کو معمولی سطح پر تسلیم کرتے ہیں، مگر ٹرانس جینڈر کے تصور کو چیلنج کرتے ہیں، اور اسے مغربی طرز کے ایل جی بی ٹی کیو  ڈھانچے کا حصہ سمجھتے ہیں، جس کا مقصد ان کے خیال میں پاکستان کے اخلاقی نظام کو بگاڑنا ہے۔ یہ تمام باتیں صنفی شناخت کے بارے میں ایک غلط فہمی پر مبنی ہیں، جس کے مطابق صنفی شناخت کے خانے پکے، واضح، اور آسانی سے پہچانے جا سکتے ہیں، اور اسی لیے انہیں قابو میں رکھنا اور ریگولیٹ کرناممکن ہے۔ اس کے برعکس، زارا کی تحریر ذاتی کہانی کو طبی اور سیاسی مباحث کے ساتھ جوڑتی ہے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ صنف کی پہچان، تجربہ، اور درجہ بندی کا معاملہ کتنا پیچیدہ اور نازک ہے۔ 

ان مختلف فیمنسٹ تحریکوں کی روشنی میں، ناریواد پاکستان کے تناظر میں سوشلسٹ فیمنزم کے تجزیہ کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔جب ہم بلوچستان، سندھ، اور پنجاب کی نسوانی جدوجہد کو ایک ساتھ دیکھتے اور جانچتے ہیں تو یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہر علاقے کے اپنے خاص مادی اور سیاسی حالات ہوتے ہیں۔ اس وقت، سوشلسٹ فیمنسٹ یکجہتی محض نمائندگی کا عمل نہیں ہے — ہمیں سیاسی دوستیوں کو استوار اور قائم رکھنا ہوگا، مقامی سیاق و سباق سے جُڑی سیاسی تعلیم کو فعال طور پر اپنانا ہوگا۔ ایسی پدرشاہی مخالف اور مزدور طبقے کی تحریکوں سے سیکھنا ہو گا جو نوآبادیاتی ریاست کے مرکز سے دوری میں ابھر کے سامنے آتی ہی ہمیں ان کی قیادت کرنے کے بجائے، ان کی جدوجہد سے سیکھنا ہو گا۔ ہماری اجتماعی آزادی کا راستہ یہی ہے ۔ ہر جدوجہد کی انفرادیت سے مالامال، اور ایک ایسی مشترکہ مزاحمت کی شکل میں جو سامراج، اندرونی نوآبادیاتی نظام، ماحول سے بے دریغ فائدہ اٹھانے، اور محنت کشوں کے استحصال جیسے جبر کے خلاف کھڑی ہو۔ اسی مقصد کے تحت ایک سیاسی جریدہ نہ صرف سوچنے اور غور کرنے کی جگہ مہیا کرتا ہے بلکہ یہ سیاسی تجزیے کو آگے بڑھانے کا ایک لازمی ذریعہ بھی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وقت کے ساتھ ناریواد پاکستان میں سوشلسٹ فیمنسٹ کی زبان ، اصطلاحات اور فکری سمجھ پیدا کرنے میں مدد دے گا۔

زینوبیا الیاس ایک پاکستانی لکھاری، مترجم اور فلم ساز ہیں۔ انہوں نے الیکٹرانک میڈیا میں پرائم ٹائم کرنٹ افیئرز شوز کی پروڈیوسر کے طور پر کام کیا ہے اور کئی دستاویزی فلمیں بھی بنائی ہیں۔

 

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .