فیمنسٹ ادب کی تلاش۔۔۔ایک ذاتی جستجو

امل زمان ہمیں کرہ ارض کے جنوب (گلوبل سائوتھ) میں موجود فیمینسٹ مزاحمت کے بیانیوں کی تلاش پر لے جاتی ہیں۔

ترجمان: زنوبیا الیاس
Read in English

ایک پاکستانی نوجوان عورت  ہونے کے ناطے حقوق نسواں کے مزا حمتی بیانیہ،ادب اور داستانوں کی تلاش میں میری رہنمائی کیونکر ہوئی؟ کیا وجہ تھی کہ اپنی اس تلاش میں،میں علم اور تحقیق کی شمع لیے پھرتی ہوں؟ ایک ایسی حقوق نسواں کی علمبردار مصنفہ کی حیثیت سے،جس کی توجہ   ادبی دنیا سے فیمنسٹ سوچ کا ریکارڈ جمع کرنا ہو،مجھے اس علم میں موجود خلا ؤں کا سامنا کرنا پڑا۔یہ معلومات کے خلا میرے ذاتی علم میں تو تھے ہی اور ساتھ ہی اس علم میں بھی جو میرے لکھنے کے لیے دستیاب تھا۔ان خلاؤں کو پورا کرنے کے لیے میں عالمی جنوبی دنیا اور مابعد نوآبادیاتی دور میں موجود تحریک نسواں کی علمبردار مصنفوں کی کہانیوں کو ڈھونڈ نکالا۔

    سب سے پہلے میں اپنے ذاتی علم کے بارے میں یہاں واضح کردوں کہ اس کی بنیاد تھی زبان اور علم میں اس ادب کی عدم موجودگی۔ اردو، سندھی اور پنجابی زبان میں لکھے گئے فیمنسٹ ادب تک میری رسائی نہیں تھی۔ جس کی ایک سب سے بنیادی وجہ یہ تھی کہ میرے ادبی ذوق کی پرورش پاکستان کے انگریزی اسکولوں میں ہوئی۔ مجھے امرتا پریتم یا عطیہ داؤد کے بارے میں نہیں پڑھایا ہی نہیں گیا، بلکہ مجھے شارلٹ پرکنس گلمین کی ’’دی ییلو وال پیپر‘‘  پڑھائی گئی۔ یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کی حیثیت سماجی طور پر محدود کرکے گھر کی چار دیواری کی قید میں دھکیل دیا جاتا ہے جہاں وہ اپنا دماغی توزن کھو دیتی ہے۔یہ ایک ایسا پاگل پن ہے جو سماج کی ان پابندیاں کا نتیجہ ہے اوران  سے آزادی کا ایک ذریعہ بھی۔مجھے اس کہانی سے اس تعلق کو سمجھنے میں مدد ملی جو انسان کی سماجی حقیقت ،یعنی وہ طریقے جن سے پدر شاہی معاشرے عورتوں کی زندگیوں اور ان کے تجربات کو محدود کرتے ہیں، اورانسان کی نفسیاتی کیفیت کے درمیان موجود ہوتے ہیں۔ 

 اس ناول کی داستان آج کی پاکستانی لڑکی کی زندگی کی کہانی سے مطابقت رکھتی ہے کیونکہ اسے بھی چادر،چار دیواری اور گھریلو زندگی تک محدود رکھے جانے کے تجربے سے گذر نے پر مجبور کیا جاتا ہے۔تاہم،لبرل یا آزاد خیال حقوق نسواں کے حامیوں کی یہ اور اس جیسی دیگر تحریروں میں اس بات کی کمی تھی کہ ان کی مدد سے میں اپنی حقیقت یا سچائی کا اندازہ لگاسکوں یا اسے سمجھ سکوں۔یہاں لبرل فیمنزم سے میری مراد وہ طبقہ ہے جس کی سوچ کے مطابق مرد اور زن کی سیاسی برابری ایک نمایاں مقصد ہے۔ فیمنزم کی اس قسم کی حدود یہ ہیں ان کی سوچ کے مطابق نہ مرد صرف ایک حقیقت ہیں اور نہ ہی عورت۔ بلکہ بعض دفعہ عورتوں کے ایک گروہ کو تمام دیگر مرد اور عورتوں پہ سیاسی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ 

مجھے یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ ’’دی ییلو وال پیپر‘‘ جیسی کہانی،جسے ایک سفید فام امریکی عورت نے ۱۸۹۲میں لکھا،یا شارلٹ برانٹی کی ’’جین ایئر‘‘،یا ورجینیا وولف کی ’’ٹو دی لائٹ ہاؤس‘‘ میرے لیے اس وجہ سے باآسانی دستیاب نہیں تھیں کہ میں نے ان کو اپنی جستجو سے تلاش کیا تھا۔ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ سفید فام عورت کو ایک ایسی اعلیٰ مثال کے طور پر پیش کیا گیا تھا جس کے معیار تک پہنچنے کی نوآبادیاتی نظام کی عورتوں کو ترغیب دی گئی تھی کہ وہ خود کو اس کے مطابق ڈھالیں۔اس نوآبادیاتی نسل پرستی کو جو کہ ہماری تعلیم اور ادب میں رچی بسی ہے، پہ غور کرنے پہ مجھے یہ اہم نکتہ سمجھنے میں مدد ملی کہ کس طرح میں اور مجھ جیسی دیگر پاکستانی خواتین جو مختلف طبقات سے ہیں اور جنہیں مختلف ذات پات کی مراعات حاصل ہیں، اس  طرز عمل کو دہرا سکتی ہیں،جب ہم خود ان خواتین سے تعلق جوڑتی ہیں جو ہمارے طبقاتی اور مراعاتی درجات سے باہر ہیں۔  

یوں میری دلچسپی اور جستجو میں اضافہ ہوتا گیا کہ کس طرح مابعد نوآبادیاتی نظام کے مختلف سیاق و سباق سے گذرنے والی عورتوں نے سفید فام عورت کے بیانیے کی تقلید کرنے کے بجائے اس طاقت کے خلاف قلم اٹھایا اور فیمنسٹ مزاحمت کی اپنی ایک علیحدہ حقیقت اور نقطہ نظر کے مطابق منظر نامہ پیش کیا۔ ابتداء میں مجھے جن متاثر کن تحریروں کو پڑھنے کا موقع ملا، ان میں گواڈیلوپیئن مصنفہ میغیس کونڈے کی کتاب’’آئی، ٹائیٹوبا،بلیک وِچ آف سیلم‘‘ شامل ہے۔

 کہانی کا مرکزی کردار، ٹائیٹیوبا ایک سیاہ فام غلام ہے، جسے سیلم میں ڈائنوں کے مقدمات میں الزام لگا کر قتل کردیا جاتا ہے اور جس کا ذکر ماضی کی ایک گمنام شخصیت کے طور پر سوائے اس ایک حوالے کے تقریبا ً ناپید ہے۔کونڈے نے بڑی خوبصورتی سے ماضی کے جھروکوں سے اس سیاہ فام کردار کو باہر نکالا اور اپنی اس کہانی میں ایک مکمل افسانوی زندگی عطا کی۔اس بات کا اندازہ مجھے بہت پہلے ہی ہوچکا تھا کہ سفید فام خواتین اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لکھے گئے افسانوی بیانیے باآسانی اور بڑی تعداد میں میسر تھے، اس ایک کتاب کے مطالعے سے مجھے سمجھ میں آیا کہ کس طرح  ایک مصنفہ ایک مخصوص مسئلے کو نقطہ آغاز بناکے اس کے خلاف مزاحمت پیداکرسکتی ہے،کہ وہ زندگیاں جن کا تاریخ کے اورا ق میں ذکر نہ ملتا ہو یا جن زندگیوں کی تاریخ  میں کسی نے نمائندگی ہی کبھی نہ کی ہو،ان زندگیوں کوافسانہ نگاری کو بروئے کار لاتے ہوئے نسوانی مزاحمت کا ایک موثر ذریعہ بنایاجاسکتا ہے۔

میغیس کونڈے نے  فرانسیسی نوآبادیاتی زبان میں لکھا،اور یہ ثابت کیا کہ زبان بذات خود ناآبادیاتی مخالف تحریروں کے لکھنے میں میں یا نوآبادیاتی نظام کی تواریخ لکھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں،بلکہ ایک ذریعہ ہے جسے اپنی بات بیان کرنے کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے بروئے کار لایا جانا ضروری ہے۔ایک اور مصنفہ کا ذکر یہاں ضروری ہے، جنہوں نے نوآبادیاتی نظام کے تحت ان پہ تھوپی گئی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے خلاف جد و جہد کی،وہ ہیں الجیریا کی ناول نگار: آسیہ جبار۔ آسیہ جبار نے نوآبادیاتی نظام کے مرہون منت تعلیمی نظام سے پہنچنے والے نقصان کا مقابلہ اس طرح کیا کہ وہ ان پسماندہ عورتوں کی زندگی کی کہانیوں کو مختلف ذریعوں سے رقم کرنے لگیں جن کے خودنوشتہ بیانیے تحریری شکل میں موجود نہ تھے۔ایک طریقہ جو انہوں نے استعمال کیا وہ تھا ان فیمنسٹ بیانیوں میں ان عورتوں کی کہانیوں کو تلاش کرنا جنہوں نے فرانس کے زیر تسلط الجیریا میں اس کے خلاف گوریلا مزاحمتی تحریکوں کا حصہ بنیں یا ان کی حمایت کی۔انہوں نے ان عورتوں کو ڈھونڈا، ان کے انٹرویو کئے،اور یوں ان خواتین کی گواہیوں کو اپنے ناول ’فانٹاسیا:این الجیریئن کیولکیڈ‘میں رقم کیا۔  

 جبار ایسی ہی ایک عورت،شریفہ،کے بارے میں لکھتی ہیں۔جب شریفہ کو یہ پیغام ملتا ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائیوں کے ساتھ ’ماکی‘ (گوریلا مزاحمتی گروہ) میں شامل ہوجائے تو وہ کہتی ہے ’’میں خوشی سے جھوم اٹھی، میں نے خوشی کی صدائیں روکنے کے لیے اپنے دانتوں کو مضبوطی سے دبائے رکھا‘‘۔

 (Assia Djebar, Fantasia: An Algerian Cavalcade, 1985, 118.)

جیسے ہی شریفہ اپنے بھائیوں کے پاس پہنچیں، ان کا ایک بھائی گھات لگائے حملے میں مارا جاتا ہے۔وہ بعد میں اپنے دوسرے بھائی سے اتنی باقاعدگی سے ملنا جلنا نہیں رکھتی اور ماکی میں بطور ہیلتھ ورکر کام کرتی ہے۔

وہ مجھے میمون ہسپتال لے گئے جہاں سی عمر نگران تھا۔ مجھے اس تبدیلی کی عادت ڈالنے میں کچھ وقت لگا۔ پھر اچانک انہوں نے مجھ سے کہا’’تمہیں شادی کرنی ہوگی‘‘۔

۔’’نہیں۔ میں شادی نہیں کروں گی‘‘ میں نے جواب دیا۔’’تم چاہو تو مجھے جان سے مار ڈالو لیکن میں شادی نہیں کروں گی‘‘۔

 انہوں نے مجھے سمجھانے کے لیے کئی جتن کئے لیکن وہ مجھے راضی نہ کرسکے۔جس ڈاکٹر نے میری پیشہ ورانہ تربیت کی تھی،اس نے میرا اور عمر کاساتھ دیا۔ ’’یہ دونوں تو دراصل ابھی بچے ہیں، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو‘‘۔  

شاید یہ ہی وہ واقعہ تھا کہ جس کی وجہ سے اس کے بعد اس ڈاکٹر کو ’’ماکی‘‘ سے جانا پڑا۔ اس نے کچھ نہیں کیا، اس نے غداری نہیں کی لیکن اس نے خود کو حکام کے حوالے کرنا بہتر سمجھا۔

 جہاں تک اس شادی کا تعلق تھا تواس کا مقصد یہ تھا کہ مجھے تحفے کے طور پر موزایہ صوبے سے تعلق رکھنے والے ایک سردار کے سامنے پیش کیا جائے۔ لیکن میں اپنی بات پر ڈٹی رہی۔ پھر انہوں نے کہا،’’اگر تمہیں اس سے شادی نہیں کرنی تو کسی اور کا انتخاب کرو اوراس سے بیاہ رچاؤ،کوئی اور پسند کرلو‘‘۔

میرا جوا ب تھا:’’کیا میر ا یہاں آنے کا مقصدصرف کسی سے شادی کرنا تھا؟ نہیں،میں کسی سے شادی نہیں کرنا چاہتی،یہ سب مرد میرے بھائی ہیں‘‘۔

   ( Djebar, Fantasia, 131)

شریفہ کے صاف انکار سے وہ فرق صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کیسے اپنی ذاتی حیثیت کو کیسے دیکھتی ہے اور اس کے برعکس دیگر لوگ اس کی اہمیت کو کس پیمانے میں جانچتے ہیں۔ وہ اپنی ایک وسیع تر شناخت پر اس حد تک اصرار کرتی ہے کہ صاف صاف الفاظ میں کہہ دیتی ہے کہ دلہن بننا یا اپنی موت کوقبول کرنے کے علاوہ کوئی اور ممکن صورتحال نہیں۔شریفہ کی آپ بیتی میں شامل کہانیاں ان دیگر ا عورتوں سے ملتی جلتی ہیں جوماکی میں شامل ہوئیں یہاں وہاں رہنے لگیں۔اسی طرح جبار اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ کس طرح الجیریا میں ہونے والی  جنگوں کے دوران شادی کی باراتیں گھات لگائے حملوں کا سامنا کرتی تھیں۔وہ اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ یہ کہانیاں محض نشانیاں،باقیات ہیں،کہ انہیں مزید بہتر انداز سے رقم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جبار کی اپنی تعلیم فرانسیسی زبان میں ہوئی ہے اور ان کے درمیان وقت اور زمانے کی بھی رکاوٹ ہے۔ایک نسوانی مفکر اور مصنفہ کی حیثیت سے ان حدود کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔لیکن ساتھ ہی ان سے انکار کرنا اور ان سے آگے دیکھنے کی کوشش کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔

ایک اور مصنفہ کو مجھے پڑھنے کا موقع ملا، جنہوں نے تاریخی شخصیات کی زندگیوں کو افسانوی دنیا میں تصور کرکے علم کی حدود اور نوآبادیاتی تواریخ کے خلاف مزاحمت کی۔ وہ ہیں میری ویو شووے۔  ان کا ناول ’’ڈانس آن دی والکینو‘‘ مینیٹ نامی کردار کی کہانی سناتا ہے۔ جو ہیٹی میں ہیٹی کے انقلاب سے قبل کی دہائیوں میں پہلی سیاہ فام اوپرا گلوکارہ تھیں۔اسٹیج پہ مینیٹ اپنی آواز کا استعمال اپنے گلوکاری کے فن اور اپنے سیاسی اظہار خیال کے لیے کرتی ہے۔ کیونکہ اسے اپنی سماجی دنیا میں ہر طرف شدید نسلی درجہ بندی کا سامنا ہے۔ حالانکہ تمام رکاوٹیں اور ریت و رواج توڑنے کے بعد وہ اپنے فن کے اس اعلیٰ مقام تک پہنچی ہے، اس کے باوجود اسے سماج کی طرف سے قبول نہیں کیا جاتا۔اسٹیج سے نیچے جب وہ حاضرین کی طرف دیکھتی ہے تو اسے نگا ہ نیچی کرنی پڑتی ہے جو اس بات کا ثبو ت ہے کہ مینیٹ نے ایک ایسی جگہ ایک ایسے زاویے سے عدم مساوات دیکھا ہے جو اس کے نسلی گروہ میں شامل کسی اور فرد پہ ظاہر نہیں ہوسکتی۔     

اسے تقدیر نے گوروں،سفید فاموں کی دنیا میں ان کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا تھا۔اور اپنی صلاحیت کے ذریعے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جس نسل کو وہ انتہائی حقیر سمجھتے ہیں اس نسل میں بھی غیر معمولی شخصیات پیدا ہوئی ہیں۔ سفید فام عوام نے اسے ایک اونچے مقام پر کھڑا کردیا،جہاں سے وہ نیچے د یکھتی ہے تو ساری حقیقت بے نقاب نظر آتی ہے۔اور جو کچھ اسے نظر آیا وہ بھیانک تھا۔ یہ ایک شرمناک بات تھی۔ بغیر پچھتاوے کے امیر ہونا، مقبولیت حاصل کرنا اور کامیابیاں سمیٹنا کتنا سہانا ہوگا۔اس نے بوویس سے نظریں ہٹائے بغیر سرد آہ بھری۔وہ مسکرایا۔یقینا اس کے پاس اداس ہونٹوں پہ تبسم کھینچ لانے کا ہنر موجود تھا۔ 

۔’’کتنی عجیب سی عورت ہے!‘‘ بوویس نے کہا۔ اور پھر اس کے بالکل سامنے جا کھڑا ہوا۔ 

۔’’کیا تم نے کبھی اپنی نگاہیں کسی کے سامنے جھکائی ہیں؟‘‘اس نے پوچھا۔

۔’’کبھی نہیں محترم،جناب،یہاں تک کہ کسی سفید فام کے سامنے بھی نہیں‘‘۔

۔’’کبھی بھی نہیں،ہونہہ‘‘۔

(Marie Vieux-Chauvet, Dance on the Volcano, 1957, 15.)

مینیٹ اسٹیج پر جو کچھ دیکھتی ہے، اس کا جواب،دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیتی ہے۔ وہ دوسروں کے سامنے اپنی نگاہیں نیچی کرنے کی توہین قبول نہیں کرتی۔ نہ سفید فام مرد کے سامنے اور نہ ہی اپنے ہم نسل کے مرد کے آگے۔انکار کا یہ اشارہ توہین کے احساس کو ایک مرئی چیز بنا کر سب کے سامنے ظاہر کرتا ہے۔ ویو شووے کے ناول کے کردار بغاوت کی ایک نئی تصویر دکھاتے ہیں اور پدرانہ تصورات کو ایک انوکھے لیکن موثر انداز میں چیلنج کرتے ہیں۔ کہ کون انقلابی کردار ادا کرسکتا ہے۔ثقافتی اور رومانوی جذبات فراہم کرنے والے بھی اتنا ہی انقلابی کردار ادا کرتے ہیں جتنا کہ وہ جو صف اول میں موجود ہوتے ہیں۔  

سی ایل آر جیمز،ایک ٹرینیڈاڈین مصنف، کی ہیٹی  انقلاب پہ مشہور اور معروف کتاب ’’دی بلیک جیکوبنز‘‘، ’’ڈانس آن دی والکینو‘‘ سے دو دہائی قبل کھی گئی۔ اس میں بھی انقلابی رہنماؤں پہ توجہ مرکوز ہے۔سیاہ جیکوبیئنز کو اس تصور کے گرد منظم کیا گیا ہے کہ ’’عظیم آدمی تاریخ بناتے ہیں،لیکن صرف ایسی تاریخ جو ان کے لیے بنانا ممکن ہے‘‘۔جیمز کے بقول،مورخ کا کام ہیرو کے ماحول کی حدود اور ان  کے پیش نظر ممکنہ کامیابی کی گنجائش کاتصور پیش کرنا ہے۔ ویو شووے کا ناول ایک عظیم عورت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس خیال کو تقویت دیتا ہے جو اپنے معاشرے میں نسلی شناخت کی ممکنا ت سے آگے نکلتی ہے لیکن پھر بھی کئی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرتی ہے۔ مینیٹ صرف اسٹیج پہ پیش آنے والے تجربات سے نہیں بیدار ہوتی بلکہ وہ اپنی ماں کی کہانیوں،اپنے استاد، آزاد سیاہ فاموں کادیگر غلام سیاہ فاموں کو آزادی دلانے کے لیے انقلابی اجتماعات  اور غلاموں اور مظلوموں کی مزاحمت کی صداقت سے بھی متاثر ہوتی ہے۔

یہ تمام مصنف اپنے نوآبادیاتی تعلیمی قیود و پابندیوں سے باہر نظر آتے ہیں اور جو کچھ رسمی تاریخ میں درج ہے کوشش کرتے ہیں کہ اس میں  شامل فیمنسٹ مزاحمت کا تصور کرسکیں۔ 

۔’’عرب خواتین کے لیے ہر رکاوٹ کو دور کرنیکا ایک ہی راستہ ہے: بات کریں۔ بغیر رکے،مسلسل بات کریں،کل اور آج کے بارے میں،آپس میں بات کریں، عورتوں کے ہر حلقے میں،روایتی اور گھریلو حلقوں میں بھی، آپس میں بات کریں اور دیکھیں، دیواروں اور زندانوں سے باہر جھانکیں‘‘۔

(Assia Djebar, Women of Algiers, 1992, 50)

جیل کاٹنے پرمجبور،اور اپنی ماں کی محدود زندگی کے غم میں ڈوبی سارہ نے آسیہ جبار کی تحریر کردہ ’’ویمن آف الجیئرز‘‘ میں آزاد زندگی گذار نے کا عزم کیا۔ ’دیکھو‘ اور ’بات کرو‘ ان لوگوں کے لیے سارہ کی ہدایات ہیں جو اپنے روزمرہ کے جبر کے خلاف مزاحمت کرنا چاہتے ہیں۔جب میں سارہ کے الفاظ یاد کرتی ہوں،تو میرے تصور میں حقوق ِ نسواں کی مزاحمت ہمیشہ آنکھوں یا کانوں کے سامنے آنے والی چیزوں کی ظاہری حدوں سے باہر نظر آتی ہے۔جو معلومات ہمیں آسانی سے میسر ہوتی ہیں ان ہی سے ہماری تخلیقات اور جس چیز پر ہم یقین رکھتے ہیں اس کی تشکیل ہوتی ہیں۔ہمیں ان سے آگے نکل کر اپنے امکانات کو وسعت دینا چاہئے۔

اس خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے میں ان حقوق نسواں کی کارکنوں کے لیے کچھ تحریرں تجویز کرنا چاہوں گی جو اپنی سوچ اور معلومات کو وسعت دینا چاہتی ہیں۔

مزاحمتی تواریخ میں حصہ لینے والی خواتین اور صنفی اقلیتوں سے متعلق بیانیے کے لیے، ۷۰ء کی ظفار کی جنگ میں گوریلا مزاحمت پہ ہاینی سرور کی ۱۹۷۴کی فلم ’’دی آور آف لبریشن ہیز ارائیوڈ‘‘ موجود ہے۔ لیلیٰ خالد کی انقلابی خود نوشت ’’مائی پیپل شیل لِو‘‘ ۔ ہندوستان کی انورادھا گاندھی کی دندکارنیہ کی آدیواسی انقلابی عورتوں کے متعلق تحریریں۔

 نمی گورینا تھن کی سری لنکا،اریٹریا، پاکستان اور کولمبیا کی خواتین جنگجووؤں پہ تحقیق۔

اور کرن کمپورتھ کی لاطینی امریکہ میں گوریلا تحریکوں میں خواتین کی شمولیت اور شرکت کے بارے میں کتاب۔

خواتین کی جیل کی یادداشتوں میں، نول السعادوی کی یادداشت”میموارز فرام دی ویمنز پرِزن”۔

انجیلا ڈیوس کی کتاب”آر پرِزنز آبسولیِٹ؟”

اورسکینہ جانسیز کی کتاب”سارہ: پرزن میموار آف اے کردش ریوولشنری” 

”دی بک آف نائیٹ ویمن” غلام عورتوں کی بغاوتوں پر مبنی تحریروں میں مارلن جیمز کی 

میغیس کونڈے کی”آئی،ٹائیٹیوبا،دی بلیک وِچ آف سیلم” 

اور میری ویو شووے کا ناول”ڈانس آن دی والکینو” 

اور ریبیکا ہال کا اسی موضوع پہ تصویری ناول”ویک”  

 

امل زمان ایک لکھاری، معلم، اورپی ایچ ڈی کی امیدوار ہیں جن کا تعلق کراچی سے ہے۔ ان کی تحقیق کا محورعالمی افسانوی ادب اورثقافت میں جنوبی ایشیائی خواتین کی نمائندگی ہے۔ ان کا کام حال ہی میں ’’ساؤتھ ایشیا: جرنل آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز‘‘ اور ’’جوئیس اسٹڈیز اینوئل‘‘ کے ایشین امریکن اسٹڈیز کے خصوصی سیکشن میں شائع ہوا ہے۔

زینوبیا الیاس ایک پاکستانی لکھاری، مترجم اور فلم ساز ہیں۔ انہوں نے الیکٹرانک میڈیا میں پرائم ٹائم کرنٹ افیئرز شوز کی پروڈیوسر کے طور پر کام کیا ہے اور کئی دستاویزی فلمیں بھی بنائی ہیں۔

 

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .