نہری نظام، قبضہ اور مزاحمت

 ترقیاتی منصوبے، جیسے کہ گرین پاکستان انیشی ایٹو، ریاستی سرمایہ داری اور پدرشاہی نظام کا امتزاج ہیں۔

اپریل ۱۸، ۲۰۲۵ کو، خیرپور میرس کے ببرلو بائی پاس پر وکلاء، کسانوں،طلبا،عورتوں،بچوں، بزرگوں،سیاسی کارکنوں،سیاسی تنظیموں اور مقامی افراد نے دھرنا دے کر قومی شاہراہ کو بند کر دیا۔ وکلاء کی قیادت میں یہ دھرنا ۱۳ دن جاری رہا جس کے دوران سندھ اور پنجاب کے درمیان گاڑیوں کی آمد ورفت اورسامان کی ترسیل عارضی طور پر معطل رہی۔ یہ مزاحمت جو  نئی نہروں کی تعمیر اور کارپوریٹ فارمنگ کے خلاف تھی، ایک ایسی مزاحمت تھی جس میں سندھ کے نوجوان، بچے، بزرگ اور عورتیں سبھی شامل ہو گئے تھے۔ دھرنے میں شریک ایک  شخص نے بتایا کہ میری بیوی نے مجھے گھر سے یہ کہہ کے نکالا ہے کہ جب ببرلو بائی پاس پر احتجاج ہو رہا ہے تو تم گھر پر کیوں بیٹھے ہو؟ اسی طرح ایک دوست نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ کراچی میں آج کوئی احتجاج ہو رہا ہے؟ میں نے پوچھا کیوں؟ تو وہ کہنے لگیں کہ میرے امی اور  ابو کہہ رہے ہیں کہ اگر کچھ ہو رہا ہے تو ہمیں بتاؤ، ہم بھی وہاں جائیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ زندگی اور موت تو بعد کی بات ہے لیکن یہ دریا تو ہمارا عشق ہے۔میرے والد نے بتایا کہ ان  کے دوست نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے جو جہیز جمع کیا تھا، وہ انہوں نے خوشی خوشی اپنے خاندان کی مدد سے  بیچ دیا اور احتجاج میں شریک لوگوں کو کھانا کھلایا۔ ببرلو بائی پاس اور سکھر کے رہائشیوں نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے اور احتجاج میں شریک لوگوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی۔ کچھ لوگ سائیکلوں پر اور کچھ  پیدل احتجاج میں شامل ہو رہے تھے۔ یہاں میں ایک بات واضح کرنا چاہوں گی کہ سکھر سندھ کے گرم ترین شہروں میں سے ایک  ہے۔ لوگوں نے نہ صرف ۴۰ ڈگری کی گرمی میں احتجاج جاری رکھا بلکہ ہر روز احتجاج میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ 

یہ مزاحمت محض جغرافیائی حدود کو عبور کرنے کی بات نہیں تھی اور نہ ہی یہ صرف پانی کے مسئلے پر تھی۔ یہ محبت تھی سندھو دریا سے، یہ غصہ تھا ان کارپوریٹ اداروں، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت پر جو دریا کو بیچنے کی اور اس کے بہاؤ کو روکنے کی بولی لگا رہے تھے۔یہ مزاحمت ہماری زمین، ہماری شناخت اور ہمارے حقوق کی بات ہے۔

پاکستان کی زراعت،معیشت اور قدرتی وسائل پر قبضہ ایک تاریخی و سیاسی جدوجہد سے منسلک ہے۔ جب ہم نہری نظام،کارپوریٹ فارمنگ اور معدنی وسائل پر ریاستی پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ یہ پالیسیاں کس طرح محنت کش طبقے، خواتین اور دیہی عوام کے حقوق کو روندتی ہیں، اور سرمایہ دارانہ مفادات کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ وفاقی حکومت نے “گرین پاکستان انیشی ایٹو” کے تحت جولائی ۸، ۲۰۲۴ کو سندھو دریا پر چھ نئی نہریں تعمیر کرنے کا منصوبہ پیش کیا، جس کا مقصد چولستان اور دیگر علاقوں میں کارپوریٹ فارمنگ کو فروغ دینا تھا۔ تاہم، سندھ کی عوام نے اس منصوبے کو اپنی زمینوں، پانی کے وسائل، اور ماحولیاتی توازن کے لیے خطرہ قرار دیا۔  

 پاکستان کا نہری نظام نوآبادیاتی دور میں برطانوی حکومت نے تعمیر کیا تاکہ زرعی اجناس کی برآمدات کے لیے بڑے زمینداروں کو مضبوط کیا جا سکے۔ ۱۹۴۷ کے بعد بھی یہ استحصالی نظام جوں کا توں رہا۔ پاکستان کا زرعی نظام تاریخی طور پر طاقتور زمیندار طبقے کے تسلط میں رہا ہے، جو نوآبادیاتی دور کی باقیات کے طور پر جاری ہے۔ پنجاب میں آج بھی ۶۷  فیصد قابلِ کاشت زمین پر محض ۱۱ فیصد بڑے زمیندار قابض ہیں (پنجاب ایگری کلچرل ڈیپارٹمنٹ رپورٹ، ۲۰۲۳)۔ اس غیر منصفانہ ملکیتی ڈھانچے نے نہ صرف چھوٹے کسانوں کو بلکہ کسان عورتوں کو بھی زمین سے بے دخل کر رکھا ہے۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ھیلتھ سروے کے مطابق  صرف ۲ فیصد کیسز میں خواتین کو زمین کی ملکیت دی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دیہی عورتیں نہ تو خودمختار کسان بن سکتی ہیں، نہ ہی انہیں پانی یا پیداوار پر اختیار حاصل ہوتا ہے۔ یہ صورتحال ان کے لیے معاشی استحصال، غیر رسمی مزدوری اور خوراک سے محرومی کا سبب بنتی ہے۔ مارکسی  تنقید کے مطابق یہ ایک طبقاتی ظلم ہے، جو محنت کش طبقے کو جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ گٹھ جوڑ کے ذریعے قابو میں رکھتا ہے۔ اس نظام میں خواتین کا کردار ’’کسان‘‘ کے بجائے ’’معاون مزدور‘‘ تک محدود کر دیا جاتا ہے۔

سال ۲۰۰۳ میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس.عی.سی.پی) نے مُلک میں کارپوریٹ فارمنگ کے لے ٴراستہ کھول دیا ۔ اس پالیسی نے مقامی اور غیر ملکی کارپوریشنوں کو زرعی اراضی لیز پردے کر کارپوریٹ فارمنگ کو قانونی جواز فراہم کیا- اس کے تحت سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کو ہزاروں ایکڑ زمین ۳۰ سالہ لیز پر دی جائیگی۔ ۲۰۲۳ میں شروع ہونے والے گرین ریولوشن 2.0 کے تحت تھر، چولستان، بدین، دادو، ٹھٹھہ اورسجاول جیسے علاقوں میں مقامی زمینوں کو کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا جائیگا۔ گزشتہ سال، سندھ کی نگران حکومت نے ایک فوجی حمایت یافتہ کمپنی کے ساتھ باضابطہ طور پر ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت چھ اضلاع میں ۵۲،۰۰۰ ایکڑ سے زائد اراضی کارپوریٹ فارمنگ کے لیے اس کمپنی کو فراہم کی گئی ہےجس کے لئے سروے ابھی بھی جاری ہے (ایوب، ۲۰۲۴) ۔ نگران حکومتِ سندھ نے چیف منسٹر ہاؤس میں جنوری ۱۹، ۲۰۲۴ کو، گرین پاکستان انیشی ایٹو کے ساتھ ایک مشترکہ منصوبے کے معاہد ے (جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ) پردستخط کیے۔صوبے میں مقامی انتظامیہ نے تقریباً ۵۲،۷۱۳ ایکڑ ’’بنجر‘‘ زمینوں کی نشاندہی کی، جن میں خیرپور میں ۲۸،۰۰۰ ایکڑ، تھرپارکر میں ۱۰،۰۰۰ ایکڑ، دادو میں ۹،۰۳۵ ایکڑ، ٹھٹھہ میں ۱،۰۰۰ ایکڑ، سجاول میں ۳،۴۰۸ ایکڑ اور بدین میں ۱،۰۰۰ ایکڑ شامل ہیں۔ یہ زمینیں کمپنی کے حوالے کی جائیں گی تاکہ وہ اپنے’گرین پاکستان انیشی ایٹو‘ پر عمل درآمد کر سکے (ایوب، ۲۰۲۴)۔ یہ زمینیں سرکاری طور پر ’’بنجر‘‘ قرار دی گئی ہیں، لیکن مقامی افراد اور ماہرین کا مؤقف ہے کہ ان علاقوں کو مویشیوں کے چرانے، موسمی فصلوں کی کاشت یا ماحولیاتی طور پر اہم مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

   سوشلسٹ اور نوآبادیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو سندھ میں کارپوریشنوں کو زمینیں سونپ دینا صرف ایک زرعی مسئلہ نہیں بلکہ قومی انصاف کا معاملہ بھی ہے۔ ’’بنجر‘‘ قرار دی گئی زمینیں دراصل ان سندھی اور بلوچ برادریوں کی زمینیں ہیں، جنہیں تاریخ میں اکثر زمینوں اور وسائل سے محروم رکھا گیا ہے۔ جب یہ زمینیں عسکری حمایت یافتہ یا غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کی جاتی ہیں تو مقامی لوگوں کی روزی روٹی اور ثقافت کو خطرہ ہوتا ہے۔ یہ عمل قومی اور طبقاتی تفریق کو بڑھاتا ہے اور اس نظام کو مضبوط بناتا ہے جس میں طاقتور اور شہری اشرافیہ کے مفادات کو کمزور برادریوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ اقدامات صرف اقتصادی فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ مقامی مزاحمت کو دبانے کابھی ذریعہ بنتے ہیں، جس سے ریاستی طاقت کا غلبہ مزید مضبوط ہوتا ہے۔ 

سال ۲۰۲۳ میں قائم ہونےوالی سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل بظاہر سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا ادارہ ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک نیا معاشی ہتھیار ہے جس کے ذریعے زمین، پانی اور معدنیات جیسے عوامی وسائل کو وفاقی کنٹرول میں لا کر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے .اس ادارے کی آڑ میں نہ صرف لاکھوں ایکڑ زمین غیر ملکی اور مقامی کارپوریٹ اداروں کو دی جانے کی تیاری کی جا رہی ہے  بلکہ زمین کی ملکیت، فصلوں کے فیصلے، پانی کے استعمال اور مزدوروں کے حقوق کے تمام اختیارات بھی ان اداروں کو منتقل کر دیے جائیں گے۔ یہ صرف کسانوں پر نہیں بلکہ دیہی عورتوں، خصوصاً زمین سے جڑے ہوئے قومی، ثقافتی اور ماحولیاتی کرداروں پر براہِ راست حملہ ہے۔

  اٹھارویں ترمیم  کے بعد آئینِ پاکستان کی شق ۱۷۲ (۱۰)کے تحت معدنی وسائل ،خاص طور پر تیل اور گیس کی معدنیات، کو صوبوں کی ملکیت تسلیم  لیا گیا ہے۔ لیکن ۲۰۲۱ سے، وفاقی حکومت مسلسل ایسے اقدامات اٹھا رہی ہے جن سے وہ قدرتی وسائل پر اپنا قبضہ مضبوط کر سکے۔ جیسا کہ وفاقی اداروں کا قیام (پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن)، نئی پالیسیوں کی تشکیل ( نیشنل منرل پالیسی فریم ورک)، اور غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدے۔حکومت پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کو ایک آلہ کار بنا کر سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے وسائل ایسی  بین الاقوامی کمپنیوں کے سپرد کر رہی ہے جو وفاق کے زیرِ اثر ہیں۔

بلوچستان میں ریکوڈک پروجیکٹ اس کی سب سے خطرناک مثال ہے، جہاں کینیڈین کمپنی کو ۸ ارب ڈالر سے زائد کا منصوبہ بغیر کسی عوامی مشاورت یا ماحولیاتی اثرات کے جائزے کے دے دیا گیا۔ ان تمام اقدامات میں ایک چیز مشترک ہے: عوام کی زمین، مقامی حکومتوں کی خودمختاری، اور بالخصوص خواتین کی شرکت اور اختیار کو ختم کر دینا۔ نیچے دی گئی معلومات مختلف ذرائع سے جمع کر کے پڑھنے والوں کے لئے پیش کی جا رہی ہیں۔  اس میں ان کمپنیوں کے نام، وہ معدنیات، صوبے اور منصوبے درج ہیں جن کے تحت یہ وسائل استعمال ہو رہے ہیں۔

Company Project Mineral Province
Barrick Gold Corporation (Canada) Reko Diq Project Copper, Gold Balochistan
China Metallurgical Group (MCC) Saindak Project Copper, Gold, Silver Balochistan
Shanghai Electric Group (China) Thar Coal Block-1 Coal Sindh
Sino Sindh Resources Limited (China) Thar Coal Block-1 Coal Sindh
Tethyan Copper Company (Canada-Chile joint venture, now replaced) Reko Diq (early exploration) Copper, Gold Balochistan
Albanian Minerals (Interest only) Various Explorations (No final contract) Chromite, Other Minerals Khyber Pakhtunkhwa (KP)

یہ وہی ریاستی سرمایہ دارانہ ماڈل ہے جسے نوآبادیاتی دور سے لے کر آج تک جواز بخشا گیا ہے، جس میں ’’ترقی‘‘ کے نام پر وسائل کو عوامی ملکیت سے نکال کر عالمی منڈی کے سپرد کیا جاتا ہے۔

 سوشلسٹ فیمنسٹ تجزیہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ صرف ریاست اور سرمائے کی ملی بھگت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کی پیداوار ہے جو صنفی، قومی، اور طبقاتی جبر کو بیک وقت چلاتا ہے۔ تھر کول منصوبے کی وجہ سے نہ صرف خواتین کو اپنی زمینوں سے محروم ہونا پڑا، بلکہ ان کی زندگیاں بھی انتہائی مشکل ہو گئی ہیں۔ اب وہ نہ صرف اپنی اولاد کی بیماریوں (جو کوئلے کے باعث جلدی امراض میں مبتلا ہیں) کا سامنا کر رہی ہیں، بلکہ انہیں دور دراز سے پانی لانا پڑتا ہے، کیونکہ ان کی زمینوں کا پانی کوئلے کے پلانٹ سے خارج ہونے والے زہریلے پانی کی وجہ سے آلودہ ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ روزانہ غربت سے لڑنے پر مجبور ہیں۔ان عورتوں کی معیشت غیر رسمی تھی، مگر ان کا وجود مقامی ماحول، خوراک، اور ثقافت سے جڑا ہوا تھا۔ یہ سب اب بہت خطرناک حد تک متاثر  ہو چکا ہے۔ جیسا کہ سلویا فیدریچی   (۲۰۱۸) لکھتی ہیں، ’’جب زمین چھین لی جاتی ہے، تو خواتین نہ صرف روزگار کا ذریعہ کھو دیتی ہیں بلکہ وہ اختیار بھی کھو دیتی ہیں جس کے تحت وہ اپنی شرائط پر سماجی زندگی کو منظم کر سکتی تھیں‘‘۔ 

معاشرتی تحریکوں کے تناظر میں زمین یا وسائل پر قبضے کے خلاف عوامی مزاحمت میں عورتوں کی شمولیت اکثر نظر نہیں آتی، حالانکہ تاریخی طور پر دیہی اور نیم شہری تحریکوں میں عورتیں نہ صرف شریک رہی ہیں بلکہ قیادت بھی کرتی آئی ہیں۔ وہ جب دھرنوں، لانگ مارچ یا مقامی مزاحمتی تنظیموں کا حصہ بنتی ہیں تو محض اپنے گھر یا زمین کی حفاظت کے لیے نہیں نکلتیں بلکہ ایک اجتماعی سیاسی شعور کے ساتھ سرمایہ دارانہ اور پدرشاہی نظام کے خلاف صف آرا ہوتی ہیں۔ یوں ان کا کردار صرف متاثرہ فریق کا نہیں بلکہ ایک فعال سماجی ایجنٹ کا ہوتا ہے جو ایک متبادل نظام پیش کرتی ہے۔ سوشلسٹ فیمنزم کی تنقید یہی ہے کہ ریاستی ترقیاتی منصوبے صرف تکنیکی یامعیشتی فیصلے نہیں بلکہ ان میں گہرے صنفی اور طبقاتی مفہوم پوشیدہ ہوتے ہیں ۔جبری بے دخلی، کارپوریٹ زراعت یا وسائل کی نجی ملکیت جیسے اقدامات ان تمام سماجی رشتوں کو متاثر کرتے ہیں جن میں عورت کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ ریاست جب عورتوں کو صرف اعداد و شمار یا مستفید ہونے والی مخلوق کے طور پر دیکھتی ہے تو وہ ان کی اجتماعی شناخت، سیاسی آواز اور خود مختار حیثیت کو نظرانداز کر رہی ہوتی ہے، حالانکہ معاشرتی برابری کے لیے محض وسائل کی منصفانہ تقسیم کافی نہیں بلکہ شناخت اور عزت کے حقوق کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔ دیہی عورتوں کی خود تنظیمی دراصل سوشلسٹ فیمنسٹ تصورِ انصاف کی عملی تعبیر ہے۔  وہ زمین کے حقوق کے لیے اجتماعی مطالبات مرتب کرتی ہیں اور خود فیصلہ سازی کے مقامی نظام قائم کرکے نہ صرف اپنے مادی حقوق کی حفاظت کرتی ہیں بلکہ ایک متبادل سیاسی و سماجی نظام کی بنیاد بھی رکھتی ہیں۔ ریاست اور سرمایہ دارانہ ڈھانچوں کا مقابلہ کرتے ہوئے  وہ ایک اور ممکن دنیا کی جھلک  پیش کرتی ہیں۔

حالیہ نہری نظام کے خلاف جو عوامی تحریک ابھری، وہ صرف پانی کے حق کی لڑائی نہیں تھی بلکہ ایک تہذیبی، ثقافتی اور صنفی مزاحمت کا اعلان تھی۔ اس تحریک میں خواتین کی شمولیت کسی مخصوص زرعی یا معاشی مفاد کی بنیاد پر نہیں بلکہ دریائے سندھ سے ان کے گہرے تاریخی، ثقافتی اور سماجی رشتے کی بنیاد پر تھی۔ ان عورتوں نے صرف مظلوم یا متاثرہ فرد کے طور پر نہیں بلکہ ایک فعال اور باشعور سیاسی فریق کی حیثیت سے مزاحمت کی۔ ان کے نعرے، ان کی موجودگی، اور ان کا اشتراک دراصل اس بات کا اعلان تھا کہ دریا صرف پانی کا ذریعہ نہیں بلکہ شناخت، یادداشت اور زندگی کی ایک اجتماعی علامت ہے۔

سوشلسٹ فیمنزم  کے مطابق عورت کا سیاسی ہونا صرف ایک حق نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے۔ اگر عورت خود کو صرف گھریلو یا سماجی کردار تک محدود رکھے گی تو وہ اس پورے نظام سے کٹی رہے گی جو اس پر فیصلے  مسلط کرتا ہے چاہے وہ زمین کی ملکیت ہو، پانی کی تقسیم، یا مزدوری کے حالات۔ سیاست صرف پارلیمنٹ یا جلسوں میں موجودگی کا نام نہیں، بلکہ اپنے وجود، اپنے حق، اور اپنے وسائل پر اختیار کے لیے آواز اٹھانا بھی ایک سیاسی عمل ہے۔ سوشلسٹ  فیمنسٹ نقطۂ نظر اس بات پر زور دیتا ہے کہ عورت صرف متاثرہ طبقہ نہیں بلکہ متبادل نظام کی معمار ہے اور یہ کردار صرف اسی وقت ممکن ہے جب وہ سیاست میں ایک باشعور اور منظم قوت کے طور پر شامل ہو۔

 

حوالہ جات

  1. Barrick Gold Corporation. 2022. Barrick to Restart Reko Diq Project in Partnership with Pakistan. Press release, March 20. https://www.barrick.com.
  2. China-Pakistan Economic Corridor (CPEC) Authority. 2021. Energy and Mining Projects Overview. http://cpec.gov.pk.
  3. Dawn News. 2021. Mining Sector Updates and Developments. Karachi, Pakistan.
  4. Ayub, Imran. 2024. “Army-Backed Firm to Get 52,000 Acres of Sindh’s Land for Farming.Dawn, January 20.
  5. Federici, Silvia. 2018. Re-enchanting the World: Feminism and the Politics of the Commons. Oakland, CA: PM Press.
  6. Government of Pakistan, Ministry of Energy (Petroleum Division). 2021. Annual Report 2021. Islamabad, Pakistan.
  7. Reuters. 2021. “Pakistan’s Mineral Projects Attract Foreign Interest.” Reuters, July 15. https://www.reuters.com.

 

 پریانکا حفیظ ڈیروایک سیاسی کارکن اورویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی رکن ہیں۔

 

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .