مقامی اوربیرونِ ملک جدوجہد دستاویزی شکل میں فہمیدہ ریاض کا جریدہ “آواز” پاکستان میں سوشلسٹ فیمینسٹ کام کے لیےتاریخ سےایک نظیر ہے۔
ترجمان:کوکب جہاں
Read in English
فہمیدہ ریاض ایک معروف مارکسسٹ فیمنسٹ ترقی پسند ادیب تھیں، جن کی تحریروں نے فیمنسٹ ادب اور مزاحمتی ثقافت پر ایک ناقابلِ فراموش اث چھوڑا ہے۔ زیرِ نظر مضمون فہمیدہ ریاض کے شائع کردہ جریدے ماہنامہ ’’آواز‘‘ کے پرانے شماروں کے تجزیے کے ذریعے ان کی سوشلسٹ فیمنسٹ سیاست کا تعارف کرانے کی ایک کوشش ہے۔ جریدہ ’’آواز‘‘ کا آغاز فہمیدہ ریاض اور ان کے شوہر ظفر علی اُجن کی مشترکہ کوشش تھی۔ ’’آواز‘‘ میں ریاض کے سوشلسٹ فیمنسٹ سیاست پر مبنی اداریوں اور ان کے ادارتی انداز کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ مضمون فیمنسٹ آرکائیوز پر نظر ڈالنے اور ان بے شمار امکانات کو جاننے کی کوشش ہے جو ہمارے انقلابی ماضی میں موجود ہیں۔ یہ کاوش آج کے فیمنسٹ پراجیکٹس کا ماضی کے اقدامات اور ان کے علمی سفر کے ساتھ رابطہ جوڑنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
فہمیدہ ریاض ۱۹۴۵ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئیں، جہاں انہوں نے اردو زبان و ادب سے بھرپور دنیا میں آنکھ کھولی۔ فہمیدہ ابھی پانچ سال کی تھیں کہ ان کے والد اس دنیا سے کوچ کر گئے، جس کے بعد ان کی والدہ خاندان کی واحد کفیل رہ گئیں۔ فہمیدہ نے کم عمری میں ہی لکھنا شروع کر دیا تھا اور حیدرآباد میں اپنے کالج کے دنوں میں، انہوں نے اپنی شاعری، مشہور ترقی پسند ادیب احمد ندیم قاسمی کے ادبی رسالے فنون میں شائع کرانا شروع کر دی تھی۔ وقت کے ساتھ ان کی سیاسی اور ادبی سرگرمیاں ساتھ ساتھ آگے بڑھیں۔ انہوں نے اپنے کالج کے زمانے میں طلباء یونین میں شمولیت اختیار کی اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم کے دوران، وہ کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئیں، جس سے ان کی سوشلسٹ سیاست سے وابستگی مزید مستحکم ہوئی۔ تاہم، ۱۹۶۷ء میں، فہمیدہ ایک ناخوشگوار شادی میں داخل ہوئیں جس کے بعد وہ انگلینڈ میں مقیم ہو گئیں۔
لندن میں، فہمیدہ ریاض کی زندگی گھریلو ذمہ داریوں اورفلمی مطالعے کی حدود سے آگے بڑھ گئی۔ لندن کے طویل، پژمردہ دن ان کی شاعری کی مشہور اور متنازعہ کتاب ’’بدن دریدہ‘‘ کی تخلیق کا سبب بنے، جو عورت ہونے کی پیچیدگیوں میں جھانکتی ہے۔ یہ کتاب سماجی ممنوعات کو الٹا کر خواتین کی خواہش، جنسی تعلق، حمل، حیض، اور مذہب پر تبصرہ کرتے ہوئے اردو ادب میں نیا آہنگ متعارف کراتی ہے۔ فہمیدہ نے اپنی داستان کا مرکز خواتین کے جسم کو بنا کر اور نظم کے ذریعے اپنی سچائیوں کو بیان کر کے، مروجہ پدرشاہی روایات پر ضرب لگائی۔ اس کے نتیجے میں ان کی شاعری کو ’’بدچلن‘‘ اور ’’فحش‘‘ جیسے اشتعال انگیز القابات دیے گئے۔
پہلی شادی سے علیحدگی کے بعد، فہمیدہ اپنی بیٹی کے ساتھ کراچی واپس آئیں اور ۱۹۷۶ء میں سیاسی کارکن ظفر علی اُجن سے شادی کر لی۔ ان دونوں نے مل کر ’’آواز‘‘ کے نام سے ایک سیاسی رسالہ شروع کیا، جو جلد ہی ریاست کی کڑی نگرانی اور مخالفت کا نشانہ بن گیا۔ میگزین کی اس وقت کے حالات پر بےباک تنقید کی وجہ سے فہمیدہ اور اُجن دونوں پر بغاوت کے الزامات عائد کیے گئے۔ اُجن کو جیل میں ڈال دیا گیا تو فہمیدہ نے ہندوستان میں پناہ لینے کی کوشش کی۔
انڈیا میں، انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔1 زندگی کے اس دور نے، جو کہ جلاوطنی کا عرصہ تھا، فہمیدہ کو وطن میں اپنے مقام کے بارے میں سوچنے کی طرف مائل کیا۔ یہ کشمکش ان کی تحریروں، خاص کر ان کی کتاب پاکستان:لیٹرےچر اور سوسایٹی اوربنگلہ دیش کے بارے میں ان کے ناول ’’زندہ بہار لین‘‘ میں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ یہ تحریریں خاص طور پر دو قومی نظریے کے جبر کے خلاف لکھے گئے اس ادب کو اجاگر کرتی ہیں جسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔ فہمیدہ کے نزدیک سرحدیں رکاوٹ نہیں تھیں، اور ایک مترجم کی حیثیت سے، وہ انہیں پار کرکے ایک وقت میں ایک سے زیادہ ثقافتوں کا حصہ بن سکتی تھیں اور یہی نقتہ ان کی سیاست میں بھی، خاص طور پر رسالہ ’’آواز‘‘ کی اشاعتوں میں نمایاں رہا۔
آواز کا انقلابی رجحان
آواز کا قیام ۱۹۷۰ء کی دہائی کے آخر میں فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے مارشل لاء نظام کی تنقید کرنے کے لئے کیا گیا۔ اس کا مقصد آمریت کے دوران چھِن جانے والی آزادیوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد میں پسماندہ طبقات اورعوام کے کردار کو اجاگر کرنا تھا۔ اس دور میں، پریس کی سنسر شپ بڑھ رہی تھی اور بہت سے سیاسی مجلوں اور اخبارات پر پابندی لگ چکی تھی۔ آواز، خاص طور پر بعد کے شماروں میں، کچھ پابندی شدہ رسالوں جیسے ’’الفتح‘‘ اور ’’معیار‘‘ کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا۔
جون ۱۹۷۹ء کے شمارے کا پہلا صفحہ اس تعاون کو ظاہر کرتا ہے، جس میں آواز اور الفتح کے لوگو، صفحے کے اوپر دکھائے گئے ہیں۔ صفحے کا باقی حصہ آواز کی ادارتی کمیٹی کی تفصیلات فراہم کرتا ہے اور رسالے میں شامل اہم مضامین کی فہرست دیتا ہے۔ یہ دلچسپ پہلو نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ آواز کے پاس نہ صرف مقامی رپورٹرز تھے، بلکہ بین الاقوامی رپورٹرز بھی تھے، جن کے نام اس صفحے پر درج ہیں۔ یہ صفحہ اجتماعی کوششوں کا مظہر ہے اور ان حدود کو وسیع کر دیتا ہے کہ بہت سے مختلف علاقوں میں ہوتے ہوئے بھی ایک جگہ سے تعلق رکھنے کے کیا معنی ہیں۔
آواز کے جون ۱۹۷۹ کے شمارے کا پہلا صفحہ ۔ بشکریہ پنجاب پبلک لائبریری
یہ رسالہ شدید ردعمل اورریاست کی کڑی نگرانی کا سامنا کرتا رہا۔ بالآخر ۱۹۸۰ء کی دہائی کے آغاز میں آواز کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی اور فہمیدہ اور اُجن پر غداری کا الزام عائد کر دیا گیا۔ بطور ایڈیٹر ان چیف، فہمیدہ رسالے کی تیاری کے عمل میں بھرپور کردار ادا کرتی تھیں۔ تراجم، شاعری، طنز و مزاح، کالم، صحافتی مضامین اور انٹرویوز کے انتخاب کی نگرانی کرتیں اور تمام شماروں کے لیے اداریے بھی لکھتیں۔ مضامین کا انتخاب اور ان کا تعارف فہمیدہ کی ترقی پسند سوشلسٹ فیمیسٹ اور تیسری دنیا کی علمبردار (تھرڑ ورلڈیست)سیاست سے وابستگی کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہ ایک بہترین امتزاج ہے جو ہمیں جدوجہد کی اہمیت کے بارے میں بتاتا ہے اور باہمی روابط کی قدر پر زور دیتا ہے۔ ایک آمرانہ حکومت کے زیر سایہ یہ سب حاصل کرنا ہماری توجہ اور تعریف کا مستحق ہے، کیونکہ اس سے ہمیں فہمیدہ اور ان کے میگزین میں موجود جرات سے سیکھنے کی راہیں دکھائی دیتی ہیں۔
فوجی آمرانہ حکومت کے خلاف چیلنج
ضیاء الحق کی فوجی آمرانہ حکومت کی تنقید کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ضیاء ۱۹۷۷ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے۔ انہوں نے بھٹو کو گرفتار کیا، اسمبلیوں کو تحلیل کیا، پاکستان کا آئین معطل کیا اور مارشل لاء نافذ کیا۔ ضیاء کے دور حکومت میں سوشلسٹوں اور سوشلسٹ نظریے کو منظم انداز میں نشانہ بنایا گیا، جس کی بڑی وجہ ان کی افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی حمایت تھی۔ انہوں نے قومیائی گئی صنعتوں کو واپس نجی ملکیت میں دے دیا اور مزدور اور طلبہ یونینز پر پابندی عائد کر دی۔ اسلامائزیشن کا سیاسی عمل، جسے عام طور پر ضیاء کی ذہنی اختراع سمجھا جاتا ہے، انہوں نے شروع نہیں کیا تھا لیکن ان کی سیاست نے یقینی طور پر اسے مضبوط کیا۔ ان کی اسلامائزیشن کی پالیسیوں نے خاص طور پر مذہبی اور صنفی اقلیتوں کو نقصان پہنچایا، توہینِ رسالت کے قوانین اور بدنامِ زمانہ حدود آرڈیننس نے خواتین کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا،ان میں زناء اور ریپ کے جرائم کے درمیان فرق کو دھندلا دینا بھی شامل تھا۔ ضیاء نے قومی شناخت کے ایک منفرد تصور کو فروغ دیا، جو مذہبی تقویٰ، فوجی اقدار اور مرکزی ریاستی کنٹرول پر مبنی تھا۔ نتیجتاً، سوشلزم اور کسی بھی نظریے کو جس نے آمریت کے اس نظریے سے انحراف کیا سخت سزا دی گئی، اور بہت سے صحافیوں، طالب علم رہنماؤں اور خواتین کارکنان کو گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا گیا اور سرِعام کوڑے مارے گئے۔ حالانکہ فہمیدہ کے اس دور کی فیمنسٹ خواتین جیسے خواتین ایکشن فورم کے ساتھ تعلقات پر کوئی تحقیق موجود نہیں ہے، تاہم کچھ واقعاتی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس وقت ویمن ایکشن فورم کے اجلاسوں میں شریک ہوتی تھیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ضیاء کے نظام کے خلاف عملی مزاحمت میں بھی حصہ لیا۔
ایسے پُر آشوب دور میں آواز کی اشاعت، اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمت ریاستی جبر کے تاریک ترین دور میں بھی ممکن ہے۔ فہمیدہ کا مئی ۱۹۷۹ء کے ’’آواز‘‘ کے شمارے کا اداریہ فوجی حکومت اور اس کے مظالم پر بےخوف تنقید کی ایک مثال ہے:۔
۔’’ ہم اپنے آپ کو کسی قیمت پر اس قبیلے میں شامل کرنے پر تیار نہیں جس کی مثال اس رکھوالی کرنے والے کتے کی جو بھیڑیوں کے لئے خیالی خدشات کے تحت انسانوں کو کاٹ کھاتا ہے‘‘۔
یہ تمثیل اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سرگرم کارکنوں، مزدوروں، اساتذہ، طلباء یا کسی بھی شخص کو، جو موجودہ نظام پر تنقید کرتا ہے، تحفظِ عامہ کو یقینی بنانے کے نام پر، ہدف بنائے جانے کے بارے میں ایک نہایت موزوں تشبیہ ہے۔ اس سادہ لیکن واضح تشبیہ کے ذریعے، فہمیدہ طنزیہ لہجے میں ضیاء کی ڈکٹیٹرشپ کی بے وقوفانہ منطق پر تنقید کرتی ہیں، جس میں جبر کو ضروری تحفظ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ان کی تنقید ناصرف حکومت کی غلط منطق کو نمایاں کرتی ہے بلکہ یہ ضیاء کی حکمرانی کے پُرخطر منظرنامے میں براہ راست اس کے غضب کو بھڑکائے بغیر بات کرنے کی کوشش کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ کس طرح تشبیہ کا استعمال معنی کو سیدھے سادے الفاظ کی نسبت زیادہ واضح طور پر دوسروں تک پہنچاتا ہے، کیونکہ یہ اس دقیانوسی تنقید کو بڑہانے کے لئے الفاظ کی تہہ در تہہ معانی کا خاکہ پیش کرتی ہے جو کہ ریاض کی تحریر کی خصوصیت ہے جیسا کہ مریم واصف خان نے بیان کیا ہے۔2
آواز کے مئی ۱۹۷۹ کے شمارے سے۔ بشکریہ پنجاب پبلک لائبریری
اسی اقتباس میں مشہور آئرش ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شا کی فوج پر تنقید کا ذکر ہے، جو فہمیدہ کو (دوسرے متون کا حوالہ دیتے ہوئے) بین السطور فوجی حکومت کی بے وقوفی پر اپنی تنقید بیان کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور پھر یہ تبصرہ اتنا وسیع بھی ہے کہ میگزین کو کسی بھی ردعمل سے بچالے۔
اسی اقتباس میں، وہ آمریت کے دوہرے معیار اور تضادات کو بےنقاب کرتی ہیں جو طالب علموں اور مزدوروں کو احتجاج کرنے پر سزا دیتی ہے جبکہ دوسری جماعتوں، خاص طور پر مذہبی دائیں بازو کو، کھلم کھلا اپنے جلسے جلوسوں کی اجازت دیتی ہے۔
یہ عوام کے حقوق پر ایسے کھلے حملے تھے جنہوں نے فہمیدہ کواپنی توجہ اس ظلم کے خلاف عوام کی جدوجہد پر مرکوز رکھنے اور ضیاء کی آمرانہ حکومت کے بیانیے کو تہہ و بالا کرنے کے لیے متحرک کیا۔ یہ اندازِ تحریر مختلف ادوار کے بارے میں اور مختلف حوالوں سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے اردو زبان کی کثرت معانی کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ آمرانہ حکومتوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے یاددہانی ہے کہ ضیاء کی تنگ نظری پر مبنی اردو سے باہر امکانات کی ایک دنیا ہے اور اس کے ذریعے آمرانہ نظام سے باہر نکلنے کی امید موجود ہے۔
سوشلسٹ-فیمنزم کی عملی شکل
فہمیدہ ریاض کے اداریے سوشلسٹ فیمنزم کے اسباق ہیں۔ جون ۱۹۷۹ء کے شمارے کے ادارتی مضمون کی مثال لے لیں، جو سیاسی قیدیوں کی رہائی، خاص طور پر بیگم نصرت بھٹواور بے نظیر بھٹو کا ذکر کرتے ہوئے ایک مثبت نوٹ سے شروع ہوتا ہے۔ تاہم، وہ مارشل لا ئی نظام کی متضاد پالیسیوں کو اجاگر کرتے ہوئے، ان دوسرے گروہوں کا بھی ذکر کرتی ہیں جو اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے پر مظالم کا شکار ہیں۔ اس میں کالونی ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں کو کوڑے مارنے کی سزا اور دوسرے سیاسی کارکنوں جیسے افراسیاب خٹک ،ان کے حامیوں اور گرفتار شدہ صحافیوں کی صورتِ حال کا ذکر ہے، جن کی صورت حال مزید خراب ہونے کا امکان تھا کیونکہ ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جانے تھے۔ ریاض کے لیے صرف بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی رہائی کافی نہیں تھی۔ درحقیقت، چند نمایاں خواتین سیاسی کارکنوں کو رہا کرنے کا یہ سیاسی اقدام عام لوگوں پر ہونے والے ظلم پر پردہ ڈالنے کے لئے تھا، جس کی طرف وہ اس ادارتی نوٹ میں توجہ دلاتی ہیں۔
جون ۱۹۷۹ کے شمارے سے۔ بشکریہ پنجاب پبلک لائبریری
یہ مضمون طلباء اور کارکنوں کی حالت زار پر روشنی ڈالتا ہے جنہیں ہر محاذ پر حملوں کا سامنا ہے۔ وہ حکومت کو خبردار کرتی ہیں کہ اگر ان لوگوں کے حقوق بحال نہ کیے گئے تو یہ بڑھتی ہوئی بے چینی قابو سے باہر ہو سکتی ہے اور خطرناک نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ وہ پھر جمہوری اقدار اور آزادیاں بحال کرنے، مارشل لاء اور ایمرجنسی قوانین کی واپسی، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، اور فوجی عدالتوں کی بندش کا مطالبہ کرتی ہیں۔ یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تحریر کے ذریعے مظلوم گروہوں کے ساتھ یکجہتی کا احساس پیدا کیا ہےکہ ظلم کے مختلف مظاہر کے پیچھے کارفرما منطق کو پہچان کر ہی لوگ اپنی اجتماعی قوت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، یہ ایک اخلاقی اصول ہے جسے فہمیدہ اپنی تحریر کے ذریعے اجاگرکرتی ہیں۔
میگزین کے باقی حصے بھی اسی اخلاقیات کو ظاہر کرتے ہیں جو فہمیدہ نے قائم کی۔ مثال کے طور پر، مضمون ’’چارسدہ مزدور کنونشن‘‘ کو دیکھ لیجئے جو مئی ۱۹۷۹ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ یہ آل پاکستان مزدور کانفرنس پر روشنی ڈالتا ہے جو چارسدہ شوگر ملز کے ریسٹ ہاؤس میں منعقد ہوئی۔ اس کا انعقاد گل رحمان اور عارف سرحدی نے کیا اور اس میں ورکنگ کلاس کے متعدد رہنماؤں نے شرکت کی۔
آواز کے مئی ۱۹۷۹ کے شمارے سے۔ بشکریہ پنجاب پبلک لائبریری
یہ مضمون مزدوروں کی مشکلات کی تفصیلات بیان کرتا ہے اور ناصرف ضیاء کی جابرانہ حکومت کی مذمت کرتا ہے بلکہ ملک کے سرمایہ داروں پر بھی تنقید کرتا ہے جو اس حکومت کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔ کانفرنس کی روداد پر مبنی اس مضمون میں حکومت کی تنقید کے دوران سماجی واقتصادی پہلو مسلسل مرکزی حیثیت رکھے ہوئے ہیں۔ کانفرنس نے درج ذیل سات اہم مطالبات پیش کیے۔
۔۱۔ مارشل لاء ختم کیا جائےاورٹریڈ یونینز سے پابندی اٹھائی جائے۔
۔۲۔ صنعتوں کی ملکیت کا زیادہ اجتماعی تصور متعارف کرایا جائے۔
۔۳۔ مہنگائی میں کمی کی جائے، بے روزگاری الاؤنس کا آغاز اور تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔
۔۴۔ مزدوروں، کسانوں، طالب علموں، اور ٹریڈ یونین کے رہنماؤں کو رہا کیا جائے اور ان کی گرفتاری کے وارنٹ واپس لیے جائیں۔
۔۵۔ صحافت اور تحریر و تقریرکی آزادی قائم کی جائے اور سینسرشپ کوختم کیا جائے۔
۔۶۔ کسانوں کے حقوق بحال کیے جائیں۔
۔۷۔ کچی آبادیوں کو زمین فراہم کی جائے۔
یہ مضمون اس لیے اہم ہے کہ یہ مزدوروں کی آواز کو اجاگر کرتا ہے جنہیں عموماً محدود علم رکھنے والا سمجھا جاتا ہے اور ’’پری پولیٹیکل‘‘ قرار دیا جاتا ہے جو کہ اشرافیہ کی زبان نہیں بولتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی زبان بالکل درست ہو گی۔ لیکن ان کی زبان سنی جاتی ہے، اپنائی جاتی ہے، اور انہیں اپنی ایک ایسی دنیا تخلیق کرنے کے امکانات فراہم کرتی ہے جو واقعی میں اس دنیا سے کم جابرانہ ہو گی جو آمریت نے بنائی اور سرمایہ داروں کی مدد سے چل رہی ہے۔
تیسری دنیا کی بین الاقوامیت کے امکانات
اس مزدور کانفرنس کا ویژن، جیسا کہ اس مضمون سے ظاہر ہے، جغرافیائی حدود کا پابند نہیں تھا کیونکہ افغانستان کا ثور انقلاب اس کے لئے مشعلِ راہ تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مزدوروں اوران کے رہنماؤں نے صرف اقتدار اور حکومتوں کی تبدیلی کے بارے میں ہی بات نہیں کی، بلکہ انہوں نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ یہ تبدیلی درحقیقت وہاں کے لوگوں کے لیے کیا معنی رکھتی ہے۔ کانفرنس میں اس انقلاب کے سرمایہ داری مخالف اور جاگیرداری مخالف خدوخال پر گفتگو کی گئی اور ان اقدارکی گونج اس کانفرنس کے مطالبات میں بھی سنائی دیتی ہے، جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ انہوں نے اس پر بھی بات کی کہ یہ انقلاب افغان خواتین کے لیے کیا معنی رکھتا ہے اور اس انقلاب کی دلہنیں بیچنے اور جہیز دینے کے رواجوں کی سختی سے ممانعت کا خیرمقدم کیا۔
مئی ۱۹۷۹ کے شمارے سے۔ بشکریہ پنجاب پبلک لائبریری
تیسری دنیا کی اصطلاح سرد جنگ کے پس منظر میں ان ممالک کی پہچان کے طور پر سامنے آئی جومغربی یا مشرقی بلاک کے اتحادی نہیں بنے اور اپنے لیے ایک تیسرا راستہ تراشنے کی کوشش کی۔ آواز کے مضامین میں بین الاقوامیت کا موضوع ویت نام، فلسطین، ایران، انڈونیشیا اور دیگر ممالک کے حوالے سے بار بار دیکھنے کو ملتا ہے۔
یہ بین الاقوامیت یہ سوال نہیں اٹھاتی کہ کیا پہلے آنا چاہیے یا کیا سب سے اوپر ہونا چاہیے۔ آواز کی زبان ان جدوجہدوں کی اس باہمی جڑت کو نمایاں کرتی ہے جسے قومی، ریاستی، اور پدر شاہی سوچ نے جو ناصرف ہماری سرزمین پر بلکہ اس سے آگے بھی حاوی ہے، چھپا رکھا تھا۔ یہ باہمی جڑت ہمیں ایک دوسرے سے سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ ایک احساس موجود ہے کہ ہمارے اختلافات، جو ہمیں متنوع بناتے ہیں اور منفرد شناختیں دیتے ہیں، ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کرتے بلکہ، اکٹھا کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسے وقت میں اہم تھا جب سنسرشپ اور ملک میں مسلط پابندیوں نے اظہارِ رائے کومحدود کر دیا تھا۔ میگزین کا بین الاقوامی نقتۂ نظر اسے وہ کہنے کا موقع دیتا تھا جو وہ مقامی تناظر سے نہیں کہہ سکتا تھا۔ فیض احمد فیض کی “شہداء فلسطین کے نام” نظم، جو پہلی بار ستمبر ۱۹۸۱ء کے شمارے میں شائع ہوئی، میں ایک گہری غمگینی کی گونج موجود ہے، جوان کے اپنے ہم وطنوں کےاس دکھ کی بھی عکاسی کرتی ہے جو فسلطینیوں سے مشترک ہے۔
ستمبر۱۹۸۱ کے شمارے سے۔
میگزین کے بین الاقوامیت کی جانب جھکاؤ نے لکھنے اور پڑھنے والوں کو کسی حد تک آزادی دی اورایک ایسی کمیونٹی بنائی جو ضیاء کے گھٹن زدہ دور میں دیگر امکانات کا تصور کر سکتی تھی اور دوسروں سے سیکھ سکتی تھی۔ یہ خاص طور پر ضیاء کی سیاست کے غلبے کا مقابلہ کرنے کے لیے اہم تھا، جس کے خلاف فہمیدہ کی سیاست نے نوآبادیات مخالف یکجہتی قائم کرنے کے اقدامات کی شکل اختیار کی اور اس کے اظہار کے لئے دوسروں کی مدد لی۔ اسی وجہ سے ترجمے اس میگزین کی پسندیدگی کی ایک بڑی وجہ رہے۔ تراجم میں ایک مثال مستشرق ولیم جونز کے ماضی کے ترجمے ہیں جنہوں نے ہندوستانیوں اور اردو زبان کو نوآبادیاتی سامراجی منصوبے کا حصہ قراردیا۔ ’’آواز‘‘ میں چھپنے والا ترجمہ ہمیں ایسے اتحاد قائم کرنے کے امکانات دکھاتا ہے جنہیں نوآبادیاتی تسلط اور اس کے بعد از نو آبادیاتی ممالک پر اثرات نے منتشر کر دیا ہے۔ فہمیدہ کے مترجم کے طور پر کام نے انہیں اپنے قارئین کے ساتھ دوسرے لکھاریوں کی آواز اور کام کے ذریعے بات چیت کرنے کا موقع فراہم کیا، اور شاید یہی خصوصیت تھی جس کی وجہ سے یہ میگزین ایسے جبر کے دور میں بھی کچھ عرصہ تو جاری رہا ۔
جیسا کہ حیدر شہباز نے اپنے مضمون میں لکھا ہے،3 فہمیدہ اردو زبان کو معانی کی ایک نئی دنیا عطا کرتی ہیں جب وہ یکجہتی کے لیے اٹھائی گئی اپنی آواز میں سرحدوں کے پار موجود مماثل عقلی دلائل کی نشاندہی کر کے اردو زبان کو وہ طاقت بخشتی ہیں کہ وہ میلوں دور رابطے جوڑ سکے۔ اردو دوسرے دور دراز خطوں کے ساتھ رابطے کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے جہاں جدوجہدیں فہمیدہ کی دانش اور صلاحیت کے ذریعے یکجا ہو جاتی ہیں۔ اس طرح ضیاء کی کوتاہ نظری پر مبنی اردو کی اجارہ داری ختم ہوئی کیونکہ اس میگزین میں اردو زبان کو مذہبی و قومی آمرانہ نظام میں جکڑ کر یکجا کرنے والی قوت سمجھے جانے کے خلاف لکھا گیا۔ یہ اجارہ داری پہلے بنگالیوں کے خلاف استعمال ہوئی اور ضیاء کے دور حکومت میں شدید تر ہو گئی۔ ’’آواز‘‘ کی تیاری میں ریاض اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر ایڈیٹروں کی فیمینسٹ محنت کا جائزہ ہم سے یہ اہم اور فوری تقاضہ کرتا ہے کہ ہم اپنی فیمنسٹ سیاست کو اجاگر کرنے کے لئے مقامی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک جبر کی مختلف اشکال کے خلاف باہمی یک جہتی قائم کریں، ایسی سیاست جس کی بنیادی اقدار جدوجہد کے ذریعے نظر انداز طبقات کو مرکزی حیثیت دینے کا مطالبہ کرتی ہوں۔ فہمیدہ کی جرأت مند زبان سے رہنمائی لیتے ہوئے، ہمیں بھی بہادر اور مضبوط ہونا چاہیے۔ یہ فہمیدہ کی استقامت ہے کہ تشدد کی دھمکیوں کے باوجود، ان کی زبان قومی ریاستی نظریے کی جکڑ سے باہر نکلی اور تخلیق کے نئے امکانات کی طرف اشارہ کیا۔
سختیوں کے موجودہ دور میں، ایک جدوجہد جو ہماری توجہ کی متقاضی ہے، وہ خواتین کی قیادت میں بلوچ تحریک ہے، جو اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہی ہے اور ناانصافی کے نظام کو چیلنج کرتے ہوئے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ تاریخی طور پر ان کی جدوجہد توجہ سے محروم رہی ہے اوراگر ہمیں کہیں سے یکجہتی کا آغاز کرنا ہے تو وہ بلوچ عوام کے ساتھ ہونی چاہیے، جن میں سے بہت سے ’’غدار‘‘ قرار دیے گئے ہیں اور جنہیں ’’قومی‘‘ وجود سے باہر رکھا گیا ہے حالانکہ وہ اس کا حصہ ہیں۔ فیمنسٹ دنیا کے لئے ہماری جدوجہد نامکمل ہو گی اگر ہم پچھڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے۔ فہمیدہ ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہماری جدوجہد کی قدر اس وقت بڑھ جاتی ہے جب یہ اپنے جیسی دوسری جدوجہدوں کے ساتھ ملتی ہے، جب ہم اجتماعی آزادی مانگتے ہیں، جب ہم بلوچستان سے غزہ تک زیادہ آزاد دنیاؤں کا تصور کرتے ہیں اور انہیں آباد کرتے ہیں۔
آج کے دور میں، یکجہتی ایک کھوکھلا لفظ بن جائے گا اگر ہم اس کی بنیاد حقیقی کام، حقیقی سرگرمی اور حقیقی جدوجہد پر نا رکھیں۔ یکجہتی، شاید ایک اجتماعی اخلاقیات ہے جس کے معانی لامحدود چیزوں کا احاطہ کر سکتے ہیں، جن میں سے ایک، جیسا کہ فہمیدہ ریاض ہمیں بتاتی ہیں، وہ طریقہ ہے جسے ہم زبان کو معنوں کی اس کہکشاں کا کھوج لگانے کے لئے استعمال کرتے ہیں جو ہمیں جوڑتی ہے، ہمیں انفرادیت سے وسیع تر کرتی ہے۔ اپنی مقامیت سے جڑے رہنا ہمیں اپنی حدود میں قید نہیں کرتا بلکہ درحقیقت، جڑت کا احساس اس وقت بڑھتا ہے جب ہم دوسروں کے اپنے سے ملتے جلتے سماجی و اقتصادی اور تاریخی حالات کو اپنے سے مشترک پاتے ہیں۔ شاید ہماری شناخت کی تکمیل اسی وقت ہو سکتی ہے جب ہم اجتماعی کُل کے ساتھ اس کے جُڑے ہونے کو سمجھیں، جیسے ایک ہی درخت کی جڑیں اپنی اپنی جگہ زمین میں گڑی ہوتی ہیں مگر ایک دوسرے سے مل کر ایک پھلتے پھولتے درخت کو کھڑا رکھتی ہیں جو سب کے لئے سایہ دیتا ہے۔
- Amina Yaqin, “Fahmida Riaz: A Woman Impure” in Gender, Sexuality and Feminism in Pakistani Urdu Writing. Anthem Press, 2022. ↩︎
- Maryam W. Khan, “Epilogue: Us, People / People Like Us: Fehmida Riaz and a Secular Subjectivity in Urdu” in Who is a Muslim? Orientalism and Literary Populisms. Fordham University Press, 2021. ↩︎
- Haider Shahbaz, “Fahmida Riaz’s Āwāz: Translation and Solidarities in the Global South” in Translation and Decolonisation, ed. Claire Chambers, Ipek Demir. Routledge, 2024.
↩︎
مسفرہ خورشید لاہور، پاکستان میں مقیم ایک محقق اورفیمینسٹ سیاسی کارکن ہیں۔
کوکب جہاں سیاسی تجزیہ نگاراورمترجم ہیں اورویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی رکن ہیں۔