آٹھ مارچ: تاریخ اور حاصلات

تحریر: گُل رُخسار مُجاید
(ترجمہ: زنوبیا الیاس)

آٹھ مارچ____محنت کش عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر 8مارچ 2019ء کو پاکستان کے شہروں میں منعقد ہونے والے عورت آزادی مارچ، عورت مارچ اور عورت کانفرنسوں و جلسوں میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں نے اپنے حقوق کے لئے اور پدر شاہی جبر کے خلاف احتجاج کئے۔ اور لوگوں کی توجہ آج کے دور کے عورت کے سوال کی جانب مبذول کرائی۔ یہ تاریخی دن دنیا کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ 8 مارچ کے تاریخی پس منظر کو جاننا دور حاضر کی عورت جو آج بھی صنفی برابری کی جنگ لڑ رہی ہے، کے لئے بہت ضروری ہے۔

اگرچہ اس دن کو ہر طبقے، مکتبہ فکر، چاہے وہ دائیں بازوں ہویا اعتدال پسند غیر سیاسی یا پھر ترقی پسند جماعتیں یا تنظیمیں ہوں، مناتی ہیں۔ تاہم اس دن کی تاریخی جڑیں انیسویں صدی کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اشتراکی فیمینزم سے جاملتی ہیں۔

سال 1894ء میں سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی جرمنی کی رہنما کلارا زیٹکِن کا ایک آرٹیکل سوشلسٹ رسالے ”مساوات” میں شائع ہوا۔ یہ تحریر جرمن فیمنزم کے بنیادی دھارے سے مختلف تھی۔ کلارا نے اپنی تحریر میں واضح کیا کہ سرمایہ دارانہ فیمنسٹ تحریک اور محنت کش فیمنسٹ تحریک دو مختلف سماجی تحریکیں ہیں۔ اُن کے مطابق، سرمایہ دارانہ فیمنسٹ تحریک محض اصلاحات تک محدود رہتی ہے۔ یہ تحریک صنف/جنس کے درمیان اور اپنے طبقے کے مردوں کے خلاف تحریک کے طور پہ ہی کام کرتی رہتی ہے۔ لیکن یہ تحریک سرمایہ داری کے وجود پہ کوئی سوال نہیں اٹھاتی۔ اس کے برعکس محنت کش عورتیں، طبقے کے خلاف جدوجہد اور اپنے طبقے کے مردوں کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کے ساتھ عورتوں کے حقوق کی تحریک کو سرمایہ داری سے باہر نکال کر لے جاتی ہے۔

سال 1907ء میں جرمنی کے شہر اسٹرٹگرٹ میں سوشلسٹ خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس ہوئی۔ جس میں پہلی بار کسی بھی شرط بشمول جائیداد۔، ٹیکس، تعلیم اور کسی بھی قسم کی رکاوٹ سے ہٹ کر ووٹ کا عالمگیر حق یعنی حق بالغ رائے دہی دینے کا اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس کانفرنس کے شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ بالغ رائے دہی کے عورتوں کے اس بنیادی حق کے لئے مزدور طبقہ خواتین کو اشتراکی (سوشلسٹ) پارٹیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ 20ویں صدی کی ابتداء میں عورت مزدور، محنت کش قومی دھارے میں تو شامل ہو چکی تھی، تاہم اس کے باوجود بھی وہ ایک عام شہری کی حیثیت سے ووٹ دینے سے محروم تھی۔ اس دوران یورپ اور آسٹریلیا میں عورت کے حق بالغ رائے دہی کی تحریک زور پکڑ چکی تھی۔

اس کے دو سال بعد ہی یعنی 1909ء میں نیویارک شہر میں گارمنٹس فیکٹر ی ورکرز نے گیارہ روزہ ہڑتال کا آغاز کیا جسے مورخین’ دی اپرائزنگ آف دی 20,000 ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مشہور مصنفہ سمانتھا سمتھ اپنی کتاب ویمن اینڈ سوشلزم میں لکھتی ہیں کہ یہ ہڑتال دو مہینے سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہی اور اس کے نتیجے میں خواتین مزدوروں کی عالمی 25 لوکل یونینوں میں سے اکثریت میں خواتین مزدوروں اور ورکروں کے حقوق کو تسلیم کر لیا گیا۔اس سے پہلے ان یونینوں کے ہر چھوٹے بڑے عہدے پہ مرد فائز ہوا کرتے تھے۔ امریکہ کی مزدور طبقے کی جدوجہد کی تاریخ میں خواتین لیبر ورکرز کی اس ہڑتال، تحریک اور مظاہرے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اور اس کے صلے میں حاصل ہونے والی فتح کے اعزاز میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے مارچ 1910ء میں ویمنز ڈے مارچ پورے امریکہ میں منعقد کرائیں۔

اپنی امریکن کامریڈوں کی پیروی کرتے ہوئے جرمن سوشلسٹ لوئیس زیٹ اور کلارا زیٹکن نے 1910میں محنت کش خواتین کے عالمی دن کا اعلامیہ پیش کیا۔ اس موقع پر 17 ممالک سے تعلق رکھنے والی 100سے زائد خواتین مندوبین بھی شریک ہوئیں اور ان سب نے اس اعلامیہ کی حمایت کی۔ لہٰذا ہڑتالوں اور مظاہروں کے ذریعے حق بالغ رائے دہی کے ذریعے عورتوں کی سیاسی اور سماجی حیثیت کو منانے اور منوانے کے لئے کسی ایک مخصوص دن کو مقرر کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عورتوں کا پہلا عالمی دن 8 مارچ کے بجائے 19 مارچ 1911ء کو منایا گیا۔ اس دن کو 1848ء میں جرمن انقلاب کی یاد منانے کے لیے چنا گیا تھا۔ اس سے پہلے یہ دن شہید سورماوؤں کی یاد میں منایا جاتا تھا۔ جرمنی میں خواتین کے حقوق کے پہلے عالمی دن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک اشتہار تیار کیا گیا جس کی 20لاکھ کاپیاں تقسیم کی گئیں۔ سوشلسٹ ڈیموکریٹ پارٹی جرمنی کے خواتین کے ترجمان رسالے مساوات (ڈائی گلائچ ہائیٹ) میں اس دن کو منانے کی کچھ ان پُرجوش لفظوں میں دعوت دی گئی:۔

ساتھیو! محنت کش عورتو! محنت کش لڑکیو!- 19 مارچ تمہارا دن ہے۔ یہ تمارا حق ہے۔ تمہارے مطالبے اور حقوق کے پیچھے سوشل ڈیموکریسی اور منظم مزدور کھڑے ہیں۔ تمام ملکوں کی سوشلسٹ عورتیں آپ سے اظہار یکجہتی کرتی ہیں۔ مارچ انیس تمہاری عظمت کے اعتراف کا دن ہونا چاہیے۔

ابتداء سے ہی عالمی یوم خواتین ملازمت پیشہ، مزدور طبقہ عورتوں کا دن تھا۔ جس کو منانے کا ایک مقصد عورتوں کو ووٹ دینے کا عالمگیر حق دلوانا تھا۔ تاہم اس دن کے بنیادی اغراض و مقاصد اس سے وسیع اور بالاتر تھے۔ یہ دن سرمایہ دار، سامراجی اور پدرشاہی نظام کے تحت پنپنے والے جمہوری نظاموں کے خاتمے کے خلاف عورتوں کی عظیم الشان جدوجہد کا دن ہے۔ جس دن انہوں نے ہر قسم کی داخلی اور اقتصادی غلامی کی زنجیر توڑنے کیلیے تحریک چلائی اور تعلیم کو عام کرنے کے لئے کوششیں کیں۔

آٹھ مارچ کے دن کو محنت کش عورتوں کی سب سے درخشاں اور دنیا بھر کی عورتوں کے لئے مثبت ترین نتائج برآمد کرنے والی روسی خواتین ٹیکسٹائل ورکرز کا1917 ء کا مارچ مانا جاتا ہے جس نے عالمی جنگ، غذائی بحران اور خواتین ورکرز کو درپیش مشکلات کے خلاف احتجاجوں کا آغاز کیا۔ تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ بالشویک انقلاب کا آغاز 8 مارچ 1917ء کو محنت کش عورتوں کے عالمی دن پر روس کے اُس وقت کے رشین ایمپائر کے دارالخلافے پیٹروگراڈ (انقلاب کے بعد لینن گراڈ، اور موجودہ سینٹ پیٹسبرگ) کے مرکز ی شاہراہ ‘نیوسکی پراسپکٹ’ پر رومانوف خاندان کی مطلق العنان (اتھارٹیٹیو) بادشاہت کے فوڈ راشننگ کے خلاف اس مارچ سے ہوا۔ اگلے دن ڈیڑھ لاکھ مزدور نکلے اور جلوس میں آفس ورکرز، طلباء، اور تاجر بڑی تعداد میں شامل ہو گئے اور پورے شہر کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ جنگ اور مہنگائی کے خاتمے اور بریڈ (روٹی) کی ڈیمانڈ کے نعرے لگا تی عورتوں نے فوجی بیرکوں میں پمفلٹ تقسیم کئے۔ پانچ دن کی لڑائی کے نتیجے میں زار روس کی مطلق العنان بادشاہت کا قلع قمع ہوا، جو روس میں سوشلسٹ انقلاب کی داغ بیل بنی۔ اور اس ہی سال اکتوبر میں انقلاب برپا کر کے سوویت یونین تشکیل دیا گیا۔ انقلاب روس نے دنیا میں سب سے پہلا صنفی انقلاب بھی بپا کیا، جس کے نتیجے میں صنفی مساوات کو عالمی طور پذیرائی ملی۔

اس سے قبل1914ء میں پہلی جنگِ عظیم کے دہانے، بالشویکوں نے مزدور خواتین کے لئے رسالہ ‘خواتین مزدور’ (ریبوٹنیٹسا) شروع کیا، جسکا پہلا پرچہ 8 مارچ کے دن نکالا گیا، جس پر سات پرچوں کے نکالنے کے بعد سرکار نے پابندی لگا دی، جو 1917 ء تک برقرار رہی۔

انقلابِ روس کے بعد دُنیا میں سوشلسٹ انقلابات کا زبردست سلسلہ شروع ہوا، تقریباََ تمام ممالک میں کمیونسٹ پارٹیاں بنیں اور انقلابات کرنے کی کوششیں کی گئیں، کچھ ایکشنز کامیاب ہوئے اور باقی سسٹم ریفارم پر منتج ہوئے۔ یہ لہر تقریباََ چھ دہائیوں تک چلی، کئی ممالک نے اپنے سوشلسٹ انقلابات کے اندر صنفی انقلاب بپا کئے،8 مارچ کو بھی پبلک ہالیڈے بنایا اور بڑے پیمانے پر منایا۔ ایشیاء سے یورپ، امریکہ، افریقہ کے براعظموں تک۔ تازہ ترین مثال ہمارے خطے میں افغانستان اور نیپال ہیں۔

اِس طرح بیسویں صدی میں عورت کا سوال دُنیا کے سیاسی منظر نامے پر اُبھرا، اور سرمایہ دارانہ جمہوریتوں کو بھی پدرشاہی کی کئی شکلوں کو مٹانا پڑا مگر یہاں اب بھی عورتیں احتجاج کر رہی ہیں کہ اب بھی عورت کا سوال حل نہیں ہوا۔ کئی ممالک میں سوشلزم کے انہدام کے بعد، پدر شاہی اور سرمایہ دار قوتیں ایک بار پھر اُبھر رہی ہیں اور عورتوں کو سوشلزم میں ملے ہوئے حقوق اور صنفی مساوات واپس غصب کیٔے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں پہلی سوشلسٹ فیمنسٹ تنظیم 1950ء میں طاہرہ مظہر علی خان نے “انجمن جمہوریت پسند خواتین” کے نام سے بنائی۔ اسی تنظیم نے پہلی بار پاکستان میں آٹھ مارچ منایا۔ دوسری تنظیم “ویمن ڈیموکریٹک ایسوسی ایشن (ڈیوہ ( پختونخو۱ )” کے نام سے 1987ء میں عصمت شاہ جہان اور شاہدہ انعام نے بنائی۔ ڈیوہ نے پختونخوا کے لیفٹ کی تاریخ میں پہلی بار آٹھ مارچ کو 1988ء میں منایا۔ یہ آزاد تنظیمیں تھیں، اور کمیونسٹ پارٹی پاکستان سے جُڑی ہوئی تھیں۔

تاریخ کی اِن روشن مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر آج سے ایک صدی قبل مزدور طبقے کی عورتیں اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھا کے آمرانہ نظام سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں تو دور جدید کی عورت بھی اپنے آپ کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کیا کچھ نہیں کر سکتی۔

سال 1917ء میں ہی روسی خواتین کا حق رائے دہی مانا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی کی دوسری عالمی کانفرنس برائے خواتین کی صدارت کلارا زیٹکن نے ماسکو میں کی۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر کی اشتراکی پارٹی اور محنت کش خواتین اور تنظیموں کو 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے پر راضی کیا اور اعلامیہ منظور کرا لیا۔ آج عالمی یوم خواتین دنیا بھر میں 8مارچ کو منایا جاتا ہے۔ اور ہر سال ان محنت کش خواتین کی جدوجہد کو خراج پیش کیا جاتا ہے۔

تاہم مغرب میں 1920 کے عشرے کے بعد خواتین کا عالمی دن منانے کا جوش و جذبہ مفقود ہو گیا تھا۔ جسکے بعد فیمینزم کے سیکنڈ فیز یعنی دوسرے مرحلے میں 60کی دہائی میں اس تحریک نے ایک بار پھر زور پکڑا۔ اور اب خواتین کا دن غیراشتراکی فیمنسٹ، حکومتی اور غیر حکومتی اداروں اور تنظیموں کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ نے 1977میں 8 مارچ کو ہی خواتین کے عالمی دن کے طور پہ منانے کا اعلامیہ جاری کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے اس تاریخی دن کو سوشلسٹ تاریخ اور جدو جہد سے کاٹنے کے لئے اس کا نام تک بدل دیا اور اسے “انٹرنیشنل ورکنگ ویمن ڈے ” سے بدل کر صرف “اننٹرنیشنل ویمن ڈے” کر دیا، اور پرولتاری عورت کو بورژوا فیمنسٹ بنایا۔ اور یوں اس دن کو ایک غیرسیاسی، غیر نظریاتی اور عامیانہ قسم کے خواتین کے جشن کے طور پر منانے کی بگڑی ہوئی شکل دے دی گئی۔ اور یوں خواتین کی اپنے حقوق کے لئے کی گئی تاریخ ساز جدوجہد کو کہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی گئی۔

آٹھ مارچ خواتین کے حقوق کے لیے اور جبر کے خلاف جدوجہد اور آواز اٹھانے کی تاریخ کا دن ہے جو کہ موجودہ دور کے کمرشلزم کی چکاچوند میں تاریخ کے گمشدہ اوراق میں کہیں گم ہو گیا ہے۔ آٹھ مارچ اس امر کی دلیل ہے کہ عورتوں نے سامراجی طاقتوں اور خودساختہ سماجی روایتوں کو مسترد کیا اور انکے خلاف سیاسی جنگ لڑی اور جیتی۔ آٹھ مارچ کا دن سرمایہ دارانہ نظام، سامراج اور پدر شاہی کے سائے میں پھلنے پھولنے والی ناقص جمہوریت کے خلاف جدوجہد کا فلک شگاف آواز بلند کرنے کا دن ہے۔

پاکستان کی فیمنسٹوں اور اشتراکی فیمنسٹوں کو چاہیے کہ وہ اس دن حقیقی معنوں میں استحصال زدہ محنت کش طبقے کی عورت کے حقوق اور مطالبات کے لیے متحرک ہوں اور جبر کی تمام شکلوں اور ڈھانچوں کے خاتمے کے لئے سیاسی طور پر لڑیں۔ موجودہ پدرشاہی کی سرمایہ داری شکل جس کو ‘سرمایہ دارانہ پدرشاہی’ بھی کہا جاتا ہے، کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ آٹھ مارچ کو اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھا اور سمجھا جائے۔ اس جدوجہد میں عورت اور مرد کے بیچ کے سماجی رشتوں کو مکمل طور پر تبدیل کر کے انقلابی بنیادوں پر ایک نئے غیر استحصالی اور برابری پر مبنی سماج کے قیام کی بات کی جائے۔ اس جدوجہد اور جنگ کو صرف ایک دن تک محدود رکھنے کے بجائے سارا سال، ہر دن خواتین کے حقوق کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانا دور حاضر کی بنیادی ضرورت ہے۔


References

Davis, M. (2018). The origins of International Women’s Day. Peoples World.
Frencia, Cintia. and Gaido, Daniel. (1017). The Socialist Origins of International Women’s Day. JACOBIN.

Jimenez, Miguel. (2018). The origins and historical development of 8 March. In Defence of Marxism.

Kaplan, Temma. (1985). On the Socialist Origins of International Women’s Day. Feminist Studies, 11(1), 163.
Smith, Sheron. (2015). Women and Socialism: Class, Race and Capital. Haymarkett Books

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .