پاکستان میں فیمنسٹ تحریک:  کیا سیکھا اور کیا پایا؟

ویمن ایکشن فورم کی بانی ممبر اور رہنماء، اور لیفٹ سے وابستہ آپا نسرین  اظہر سے گفتگو

انٹرویو:  عصمت شاہجہان

زندگی بھر اِستحصال، جبر اور انسانی و جمہوری حقوق کی پامالی کے خلاف بے لوث لڑنے والی، ہم سب کی پیاری اور ہماری سیاسی آپا – – – – آپا نسرین اظہر کی جدوجہد ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے، اور ہم اُن کی جدوجہد کو لال سلام پیش کرتے ہیں۔ اُن سے یہ انٹرویو اُن کی سیاسی جدوجہد، تجربے اور مشاہدے کا مختصر احاطہ کرتا ہے۔ یہ نئی فیمنسٹ جنریشن تک فیمنسٹ تاریخ پہنچانے کی ایک کاوش بھی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ فیمنسٹ تحریک کو درپیش موجودہ سوالات اور چیلنجز پر اُن سے ایک مشورہ بھی ہے۔

آپا نسرین اظہر چار دہائیوں سے مختلف ترقی پسند سیاسی تحریکوں، جمہوری تحریکوں، فیمنسٹ تحریکوں اور انسانی حقوق کی تحریکوں سے وابستہ رہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے عملی سیاسی جدوجہد کا تو آغاز ویمن ایکشن فورم (ویف) سے ہی کیا تھا مگر اُسی میں رہ کر اور اُسی میں سیکھ کر اور اپنے دماغ کو کچھ سکھا کر پھر آگے مختلف تحریکوں کے ساتھ وابستہ ہوئی اور کام کیا”۔ آمریتوں کے خلاف جمہوریت کی بحالی اور انسانی حقوق کی تحریکوں میں بھی کام کیا۔ وہ آج کل اسلام آباد میں رہتی ہیں اور ابھی بھی ویمن ایکشن فورم کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ اِسکے علاوہ وہ ایچ آر سی پی کے ساتھ بھی کام کرتی ہیں۔

آپا نسرین اظہر کا شمار’ ویف’ کی بانی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ 16 ستمبر 1981ء کو کراچی میں ویف کی بنیاد رکھنے والے تاریخ ساز اجلاس اور اس کا پہلا چارٹر لکھنے والوں میں شامل تھیں۔ یہ ایک ہنگامی اجلاس تھا، جس میں جنرل ضیاء کی مارشل لاء میں عورتوں کے خلاف اِسلامائزیشن اور امتیازی قوانین جیسے قانون شہادت، قصاص اور دیت اور حدود آرڈینینس، اور سیاسی پالیسیوں کے خلاف کیمپین کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اور بعد میں اِسی کیمپین کی بنیاد پر ویف تشکیل دی گئی۔ اِس کے بعد اُنہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ اور اُس سے جُڑے ترقی پسند تھیٹر گروپ” دستک “کے ساتھ بھی کافی عرصہ کام کیا۔

عصمت شاہجہان: تنظیم کاری میں سب سے بڑا مسئلہ کیا درپیش آیا؟

آپا نسرین اظہر:   مستقل طور پر کام کرنے والی رضا کار عورتوں کی کمی ہمیشہ سے فیمنسٹ تحریک کا مسئلہ رہا ہے۔ میرا تقریباََ چالیس سال کا عورتوں کے ساتھ رضاکارانہ سیاسی اور فلاحی کام کا تجربہ ہے اور میں نے اکثر دیکھا ہے کہ کسی بھی رضاکارانہ کام، بھلے وہ کسی تحریک کا ہو یا کسی فلاحی گروپ کا، صرف چند عورتیں ہی مستقل بنیادوں پر کرتی ہیں، دوسری عورتیں سرگرمی تک محدود رہتی ہیں، مسلسل کوئی شامل ہو رہی ہوتی ہیں، اور کوئی نکل رہی ہوتی ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں عورت کے لئے رضاکارانہ کام بہت مشکل ہے۔ وہ اپنے مسائل میں بہت گھری ہوئی ہے۔ خاندان کے کام، بیماروں کی تیمارداریاں، بچوں کی پیدائش اور ذمہ داریاں، ملازمت میں ٹرانسفرز وغیرہ کی وجہ سے وہ مستقل بنیادوں پر رضاکارانہ کام نہیں کر سکتیں۔ مگر بھر بھی ہر شہر میں چند مستقل رضاکار کارکن اکٹھے کئے بغیر، کوئی بھی تحریک چلانا مشکل ہوتا ہے۔ آج کل کا دور بھی ایسا ہے کہ ہر کسی کو کوئی نہ کوئی مصیبت پڑی ہوئی ہے۔ مہنگائی اتنی ہے کہ زندگی کھانے پینے اور بنیادی ضروریات کی فکر میں ہی لگ جاتی ہے۔ اُوپر سے دہشت گردی کے خطرات اور مذہبی انتہا پسندی، سیاسی کارکنوں سے پُرتشدد ریاستی برتاؤ اور آواز اُٹھانے پر حملوں کا خوف۔ سیاسی ماحول میں مسائل ہیں، خاص طور پر عورت کے لئے کوئی مثبت ماحول نہیں ہے، وہ بھی فیمنسٹ عورت کے لئے۔ اِن وجوہات کی وجہ سے عورتوں کا سیاسی سرگرمی میں شرکت کرنا، اور پھر مستقل رضاکارانہ سیاسی کام کرنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ آفرین ہے اُن عورتوں پر جو اِن حالات میں بھی مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں۔ لیکن ہمیں نئے رستے ڈھونڈنے ہوں گے تا کہ زندگی کے ساتھ جدوجہد کو لے کر چلیں، تاکہ عورتوں کو سہولیات ملیں، حقوق ملیں، اُن کی جان بھی محفوظ ہو، اور برابری کی جدوجہد بھی جاری رہے۔

عصمت شاہجہان:  فیمنزم اور فیمنسٹ تحریک سے آپ کی کیا مراد ہے؟

آپا نسرین اظہر:   میری نظر میں فیمنزم یہی ہے کہ جہاں بھی آپ دیکھیں کہ نا انصافی ہے، بھلے وہ خاندان کے اندر ہونے والی ناانصافیاں ہو، یا ملک اور دنیا میں کہیں بھی ہوں، آپ اُس کے خلاف آواز آٹھائیں۔ اور ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں اور دنیا بھر میں بہت ناانصافیاں ہیں، اور وہ ناانصافیاں عورتوں کے ساتھ بھی ہو رہی ہیں، خاص طور پر پاکستان میں۔ ساتھ ہی ساتھ، پدر شاہی عورت کا سنگین مسئلہ ہے۔ اور ان تمام مسائل پر عورتوں کو اپنی پوری رائے کا اظہار کرنا چاہیئے۔ عورتیں دنیا کی آدھی آبادی ہیں، اگر وہ اپنی آواز نہیں اُٹھائیں گی، تو جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اُن کے ساتھ بھی ہوتا رہے گا۔ جنگیں ہو رہی ہیں اور جو بجٹ ہوتے ہیں وہ ہتھیاروں میں جاتے ہیں۔ اور اِن سارے معاملات پر لازمی ہے کہ ہم آواز اُٹھائیں۔ اور یہ سب پہلو فیمنسٹ تحریک کا حصہ ہیں۔


ویف بناتے وقت ہمارا نقطہ نظر یہ تھا کہ پدر شاہی کا شکار صرف عورتیں نہیں، بلکہ مرد بھی ہوتے ہیں، اور غریب طبقات زیادہ اس کی زد میں آتے ہیں۔ پاکستان میں جاگیرداری نظام جن علاقوں میں موجود نہیں بھی ہے، وہاں بھی جاگیردارانہ سوچ حاوی ہے، خاص طور پر عورت کے بارے میں۔ اسمبلیوں پر بھی یہ سوچ حاوی ہے۔ پنچائیتیں عورت کی زندگی کے فیصلے کرتی ہیں، اور روایات بھی جاگیردارانہ ہیں۔ پاکستان میں زرعی اصلاحات اور جاگیرداری کے اداروں کے خاتمے کی جدوجہد بھی فیمنسٹ ایجنڈے کا لازمی حصہ ہونا چاہیئے۔

آج کل سماجی انصاف کے ایجنڈے پر مبنی مزاحمتی فیمنسٹ سیاست کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس کے بجائے پاکستان میں اِس وقت فیمنسٹ تحریک نیو لبرل نظریات اور تصورات کی لپیٹ میں (کو آپٹیڈ) ہے۔ فیمنزم کو سیاسی تحریک بنانے کے بجائے، فیمنسٹ عورتوں کی اکثریت موجودہ نظام کے اندر ہی صرف عورتوں کے قانونی حقوق کی بات کر رہی ہیں۔ فیمنزم کو تنگ نظر ی سے دیکھا جا رہا ہے۔ رضاکارانہ کام کے بجائے اب تنخواہوں پر کام ہوتا ہے۔ ہمیں رضاکارانہ سیاسی کام کی روایت اپنی تنظیموں میں لانی ہوگی۔ فیمنسٹ تحریک کو نیو لبرل ازم سے دور رہنا ہو گا، کیونکہ عورت کی نجات اور آزادی منصفانہ نظام کی جدوجہد میں ہے، جس میں سب کو سماجی انصاف اور برابری حاصل ہو۔ نابرابری اور ناانصافی کی ہر شکل کے خاتمے کی صورت میں ہی عورت آزاد ہو سکتی ہے۔

افغان انقلاب کے بعد سے ہمارے خطے اور ملک میں سامراجی مداخلت بڑھی ہے۔ جنگوں پر خرچے بڑھے ہیں اور ملک بہت مقروض ہو گیا ہے، اور یہ سارے قرضے عوام سے اکھٹے کئے گئے ٹیکسوں سے بھرے جاتے ہیں۔ عورت کی تعلیم، علاج اور حقوق کے لئے بجٹ نہیں بنتے، بلکہ اسلحے کی خریداری پر خرچے ہوتے ہیں۔ عوام کے معاشی مسائل بھی بڑھے ہیں۔ پچھلے چالیس سالوں میں پاکستان میں قومی، طبقاتی اور عورت کا سوال بہت گہرا ہوا ہے اور مذہبی انتہا پسندی بہت بڑھی ہے، جس نے دہشت گردی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ہمیں سامراجیت کے خلاف بھی آواز بلند کرتے رہنا چاہیئے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتی کی ویمن ایکشن فورم پوری کی پوری سامراجیت کے خلاف ہے، لیکن میں ضرور ہوں۔ فیمنسٹ تحریک کو یہ سارے ایشوز اُٹھانے چاہیں۔

دہشت گردی سرمایہ داری نظام کا ایک نیا چہرہ ہے، اور انٹرنیشنل پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بھی ہے۔ اِس کے خاتمے کی جدوجہد فیمنسٹ تحریک کا ضرور حصہ ہونا چاہیئے کیونکہ اس نے دنیا بھر میں عورتوں کی زندگیوں کو کافی متاثر کیا ہے۔ کئی ملکوں میں دہشت گردوں نے مذہب کی آڑ میں عورتوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، خاص طور پر پاکستان، افغانستان، عراق، اور شام وغیرہ۔ میں تو یہ کہوں گی کہ دہشت گردی کا خاتمہ نہ صرف فیمنسٹ، بلکہ ہر عوام دوست اور امن پسند تحریک کا حصہ ہونا چاہیئے۔

عصمت شاہجہان: سیکولرازم کے بارے میں آپ کا کیا مؤقف ہے؟

آپا نسرین اظہر:   یہ جو مذہب کے نام پر سیاست چل رہی ہے اس کا عورت کی زندگی اور حقوق پر بہت منفی اثر پڑا ہے۔ مطلب یہ کہ عورتوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگانے کی بات کی جاتی ہے، چھوٹی چھوٹی بچیوں کی کمسنی میں شادیاں کی جاتی ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے۔ لڑکیوں سے پوچھتے نہیں ہیں، کہ آپ اِس شادی سے خوش ہیں کہ نہیں، اس کی رائے شامل نہیں کی جاتی، مرضی کی شادی پر قتل کر دی جاتی ہیں۔ روز اخباروں میں آتا ہے۔ ہر معاملے میں پدر شاہی روایات کو مذہب کی آڑ میں عورت کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ جنرل ضیاء نے بھی مذہب کی آڑ میں عورتوں کی سماجی حیثیت کو منظم طریقے سے گھٹایا۔ اور ایسے عورت مخالف ظالمانہ قوانین بنائے جس سے عورتوں کو شدید خطرات ہیں۔ عورت کو وراثت میں مساوی حق نہ دینے کو جائز مانا جاتا ہے۔ عورت کے لئے تعلیم اور روزگار مشکل ہو گیا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ بھی مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ ریاست اور سیاسی پارٹیاں مذہب کا سیاسی استعمال کرتی ہیں۔ فرقہ وارانہ منافرت بھی بڑھ گئی ہے۔ پاکستان میں مذہبی جبر اور انتہا پسندی بہت بڑا مسئلہ رہا ہے اور پچھلے چالیس سالوں میں یہ مزید بڑھا ہے، خاص طور پر فوجی آمروں نے مذہب کا بہت سیاسی استعمال کیا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ مذہب کو سیاست اور ریاست سے الگ کیا جائے۔

میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ سیکولرازم فیمنسٹ تحریک کا ایک لازمی جزو ہونا چاہیئے۔ ویف میں شروع دن سے میرے علاوہ کئی دوسری سیکولر عورتیں بھی تھیں، اور ہمیشہ اس موضوع پر بحث رہتی تھی۔ ویف نے سیکولرازم کو تنظیم کے باقاعدہ نقطہ نظر کے طور پر1991ء میں اپنا لیا تھا۔ سیکولرازم کے بغیر کوئی بھی لبرل یا ترقی پسند سیاست نامکمل ہو گی۔ اِسی بات کو سمجھتے ہوئے میں ہمیشہ سیکولرازم کی حامی رہی ہوں۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا، کہ ہر چیز پر عورتوں کو اپنی آواز اُٹھانا چاہیئے۔

عصمت شاہ جہان:  فیمنسٹ تنظیموں کے سیاسی جماعتوں سے تنظیمی اور سیاسی رشتے ہونے چاہیئیں؟

آپا نسرین اظہر:   شروع شروع میں، میں ویف میں یہ بحث ہوتی تھی، کہ ہمارا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی رشتہ نہیں ہوگا، اور ہم الگ سے اپنا کام کریں گے۔ مگر جلد ہی یہ بات سب کو سمجھ میں آگ کہ سیاسی کام سیاسی پارٹیوں سے الگ ہو کر نہیں ہو سکتا، وہ بھی اُس فوجی آمریت کے خلاف، جس نے عورت دُشمنی کی حد کر دی تھی۔

میرا خیال ہے کہ فیمنسٹ تحریک نے سیاسی پارٹیوں سے بہت کچھ سیکھا۔ اور سیکھنے کے اس عمل میں ہم نے کم از کم یہ بھی سیکھا کہ ساتھیوں کے ساتھ بیٹھو، اور جو مسئلہ ہے اُسے سمجھنے کی کوشش کرو، اور اگر کوئی چیز سمجھ میں نہ آئے تو کسی کو بُلا لیں۔ مثلاََ اگر کوئی قانونی مسئلہ ہو تو قانون دان اور سیاسی وکیل کو بُلا لیں، سیاسی مسئلہ ہو تو سیاسی لوگوں کو بُلا لیں۔ اور اس طرح اپنے کانفرنسز اور جلسے جلوسوں میں اُن کو بلاتے تھے۔ اُن کے ساتھ عورتوں کے لئے قانون سازی اور پالیسی سازی کے لئے لابینگ کرتے تھے، اور اب بھی کرتے ہیں۔

ہم ویف اور ایم آر ڈی کے کام کے سلسلے میں سب سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کے پاس جاتے تھے، خاص طور پر ترقی پسند جماعتوں سے ہمارے اچھے روابط تھے اور ہیں، اور اُنہوں نے ہمیشہ ہمیں سپورٹ کیا ہے۔ ہم سب کو بلاتے تھے اُن کو ویف کی سرگرمیوں میں شمولیت کی دعوت دیتے تھے، معاملات پر بحث کرتے تھے۔ ہم کمیونسٹ پارٹی کے پاس جاتے تھے، مزدور کسان پارٹی کے پاس جاتے تھے، اور ٹریڈ یونینز کے پاس بھی جاتے تھے۔ ہم نے ویف میں اپنی تمام سرگرمیوں میں جتنی بھی ترقی پسند پارٹیاں تھیں، اُن کو شامل رکھا۔ میرے خیال میں تو یہ بہت ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں سے یکجہتی رکھی جائے، خاص طور پر ترقی پسند جماعتوں سے۔ اصل میں تو یہ سیاسی جماعتیں ہی ہیں، جو معاشرے اور نظام میں تبدیلی لا سکتی ہیں۔

میں خود بھی کمیونسٹ پارٹی کی ممبر تھی۔ کمیونسٹ پارٹی اپنی تنظیم کے اندر عورت کے سوال اور فیمنزم کو نظر انداز کرتی تھی، اور روایتی نقطہ نظر رکھتی تھی کہ جب طبقاتی انقلاب آئے گا تو نابرابری کی ہر شکل خودبخود مٹ جائے گی۔ مگر اُنہوں نے اور دوسری تمام ترقی پسند جماعتوں، ٹریڈ یونینز اور ادبی تنظیموں نے ہر جگہ ویف کو سپورٹ کیا۔ آج کل اکثر ترقی پسند جماعتوں میں عورت کے لئے فیمنسٹ ایجنڈا ہوتا ہے اور عورتوں کی نمائندگی بھی ہوتی ہیں۔مگر دوسری جماعتوں نے ویمن ونگز تو بنا دیے، اور اُن کو جو بھی کہا جاتا ہے، وہ وہی کرتی ہیں۔ اُن میں فیمنسٹ شعور لانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اسی لئے سب پارٹیوں کے ساتھ کام کرنا چاہیئے۔

جہاں تک کسی ایک مخصوص سیاسی پارٹی سے سیاسی وابستگی کا سوال ہے، تو وہ “سرگرمی” کی حد تو ٹھیک ہے مگر کسی ایک سیاسی جماعت سے “تنظیمی” وابستگی فیمنسٹ تحریک میں عورتوں کی شرکت کو محدود کر دیتی ہے۔

عصمت شاہ جہان: این جی اوز کے بارے میں آپ کا کیا مؤقف ہے؟

آپا نسرین اظہر: جنرل ضیاء کے دور میں ویمن ایکشن فورم بننے کے بعد عورتوں کے حقوق کی کئی این جی اوز بنیں، جو عورتوں کے لئے کافی ملازمتیں بھی لے کر آئیں، اور عورتوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کی بات بھی کی۔ مگر یہ بات درست ہے کہ عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والوں کی اکثریت پہلے جذبے پر چلتی تھی اور اب فنڈز پر چلتی ہے۔ این جی اوز کا کام پراجیکٹوں تک محدود ہوتا ہے، اور جو فنڈز دیتے ہیں، حقوق کی تعریف بھی وہی کرتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ موجودہ نظام کے خاتمے اور سماجی انصاف کے نظام کے قیام کے لئے سیاسی جدو جہد این جی اوز کا کام نہیں ہے، یہ سیاسی تحریکوں اور پارٹیوں کا کام ہے۔ اور حقیقی تبدیلی تو صرف رضا کارانہ سیاسی تحریکیں ہی لاتی ہیں۔

عصمت شاہ جہان:  کہا جاتا ہے کہ ویف اَپر کلاس شہری عورتوں کی تحریک رہی ہے۔ کیا یہ درست ہے؟

آپا نسرین اظہر:   لاہور ویف میں شائد َاپر کلاس عورتیں ہوں مگر کراچی ویف لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس عورتوں نے ہی شروع کی تھی۔ ہم نے سماج کے پسے ہوئے طبقات کے ساتھ مل کر سیاسی کام کیا، خاص طور پر سندھیانی تحریک، کمیونسٹ تحریک، ٹریڈ یونین تحریک، اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ ویف میں لبرل اور سوشلسٹ دونوں طرح کی خواتین تھیں۔ جب ویف وجود میں آئی تو اُس کے کچھ لوگ سماجی انصاف و طبقاتی سیاست کے خلاف جدوجہد کا تصور اور نظام کی تبدیلی کا نقطہ نظر رکھتے تھے، مگر یہ درست ہے کہ آہستہ آہستہ یہ نقطہ نظر رکھنے والے کم ہوتے گئے، اور لبرل زیادہ ہو گئے۔

عصمت شاہ جہان:  پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت عوام کے لئے، عورت کے لئے، اور جمہوریت کی مضبوطی کے لئے کچھ کرے گی؟

آپا نسرین اظہر :  میرا نہیں خیال۔ پی ٹی آئی نے خود اپنی ہی پارٹی کی عورتوں کو پیچھے رکھا ہوا ہے،۔ کتنی عورتیں ہیں جو منسٹر ہیں یا اہم عہدوں پر ہیں؟ یا جو ہیں وہ کوئی فیمنسٹ کردار ادا کر رہی ہیں؟ یہ ایک مشکل دور ہے، جس طرح اُنہوں نے جمہوریت پر قدغنیں لگائی ہوئی ہے، میڈیا پر قدغن لگائی ہوئی ہے، اظہارِ رائے بھی کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ عورتوں کے لئے، مزوروں، کسانوں اور طالب علموں کے لئے، محکوم قوموں اور مائنارٹیز کے لئے، انسانی حقوق کے دفاع اور جبری گمشدگیوں کے بارے میں اُن کے پاس کوئی پروگرام نہیں۔ بہت ہی مشکل دور ہے۔ اُمید تو یہی ہے کہ ہم اِس مشکل دور سے جلد نکل جائیں گے۔

عصمت شاہ جہان: آج کے دور میں فیمنسٹ تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے سب سے ضروری کام کیا ہے؟ ہماری نوجوان قیادت کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

آپا نسرین اظہر:   سب سے ضروری بات یہ کہ آپ جس بھی مسئلے کو اہم سمجھیں، اور اُس کو اُٹھانا چاہتی ہوں، پھر اُس ہی مسئلے پر مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے- – یعنی جہد مسلسل۔ یعنی کہ ایسے نہیں کہ، آپ نے ایک دن کام کر لیا، پھر بھول گئے یا مسئلے کو پیچھے ڈال دیا۔ اس طرح نہ صرف تحریک کا کام ضائع ہوتا ہے، بلکہ کچھ بدلتا بھی نہیں۔ لگ کے کام کرنے کی ضرورت ہے، اور آج بھی عورتوں کی تحریک کو یہی کرنا چاہیئے۔

جب لڑکیا ں نئی نئی تحریک میں آتی ہیں، تو اُن کا جذبہ قابلِ قدر ہو تا ہے، مگر اُن کی اکثر یت فیمنزم کا محدود تصور رکھتی ہے، اور نظریاتی طور پر اُلجھی رہتی ہے۔ اور اُوپر سے تنگ نظر فیمنزم اب ایک مین سٹریم اور سب پر حاوی نظریہ بن چُکا ہے، جو اُنکو مزید اُلجھا دیتا ہے۔ اُن کے لئے سٹڈی سرکل کرنا اور فیمنزم کو باقاعدہ پڑھنا لازمی ہے۔ اور جیسے کہ میں نے پہلے کہا کہ فیمنسٹ تنگ نظری سے دور رہا جائے، اور ساتھ ہی ساتھ نیو لبرلزم سے بھی دور رہا جائے۔ اور تمام سیاسی جماعتوں اور تحریکوں سے یکجہتی کے رشتے بنائیں، خاص طور پر ترقی پسند سیاسی تحریکوں اور جماعتوں سے مضبوط رشتے بنائیں جائیں۔


آپا نسرین اور اُنکے شریک حیات اسلم اظہـر (فوٹو: نفیسہ ہود بھائی)
عورت فاوؑنڈیشن کی طرف سے حبیب جالب ایوارڈ (فوٹو: عورت فاوؑنڈیشن)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .