سماج اور ریاست: پدرشاہی نظام کی بدلتی شکلیں

Art work: Aryan Ismail and Ismat Shahjahan
Art work: Aryan Ismail and Ismat Shahjahan

تحریر: سدرہ کامران

تعارف

“آج ہمارا معاشرہ تباہ ہو گیا ہے کیونکہ عورتیں گھروں کو چھوڑ کے باہر کام کے لئے نکل رہی ہیں۔ پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ یہی بات ہے”۔ میرے خیال میں تقریباً ہم سب نے اس جملے کو کسی نہ کسی شکل میں ضرور سنا ہو گا۔ کچھ ہی دن پہلے میں نے یہ الفاظ اپنے ماموں سے سنے۔ کسی روسی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ معاشرے کی تمام روحانی، معاشی، اور اخلاقی خرابیاں تب شروع ہوئیں، جب عورت کو گھر سے نکالا گیا، اشتہارات میں شائع کیا گیا اور دفتروں میں نوکریاں دی گئیں۔ اس طرح کے دعوے اِس نکتے پر مبنی ہیں کہ یہ قدرتی امر ہے کہ عورت بغیر معاوضہ گھر میں کام کرے اور مرد اُجرت کے لئے گھر سے باہر کام کرے۔

مگر یہ تاریخی واقعہ جس کی لوگ بات کرتے ہیں، کہ “جب عورت گھر سے نکالی گئی”، کیایہ واقعہ سچ ہے؟ اور آخرکار یہ کب ہوا؟ فیمنسٹ اِس موجودہ نظام کو، جو کہ محنت کی صنفی تقسیم اور صنفی امتیاز پر قائم ہے، جسے”پدرسری نظام “کہتے ہیں، کیا یہ پدرسری نظام واقعی قدرتی ہے؟ کیا یہ ایک آفاقی اَمر ہے؟

یہ مضمون سوشلسٹ فیمنسٹ نظریہ کی بنیاد پر یہی نقطۂ نظر واضح کرتی ہے کہ پدرشاہی حقیقت میں ایک قدرتی یا آفاقی نظام نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ سے وجود میں نہیں تھا اور نہ ہی ضروری طور پر ہمیشہ قائم رہے گا۔ جیسے فریڈرک اینگلز اور سلویا فڈریچی لکھتے ہیں کہ یہ نظام تاریخ میں ایک مخصوص وقت میں اُبھرا، اور تقریباً اُس وقت اُبھرا جب نجی ملکیت اور ریاست کا ظہور ہوا۔ پدر شاہی ایک پیچیدہ سماجی ڈھانچہ ہے جو کئی تاریخی عوامل کے نتیجے میں تاریخ کے ایک خاص مرحلے پر وجود میں آیا اور متعدد شکلوں میں آشکار ہوا۔

یہ مضمون تین کلیدی پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے جن سے ہمیں ’پدرسری نظام‘ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے:(1) پدرسری نظام کی تاریخ، (2) اس کی بنیادوں پر بحث، خاص طور پر ریاست اور سرمایہ داری نظام میں اِس کی جڑیں، اور (3) پدرشاہی کے متعدد اور اکثر متضاد چہرے۔

اِس موضوع پر بحث صرف نظریاتی معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سیاسی معاملہ بھی ہے۔ یہ بحث فیمنسٹ تحریک کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینے کے لئے بھی ضروری ہے۔ کوئی بھی سرسری تجزیہ پدر شاہی کی تشکیل، تاریخی ارتقاء اور سرمایہ داری سے اس کے تعلق کی وضاحت نہیں کر سکتا، بلکہ سرسری تجزیہ ہمیں ایک ایسے فکری اور سیاسی مغالطے سے بھی دوچار کر سکتا ہے کہ ہم سمجھیں کہ ہم تو پدر شاہی کو گرانے کی جدو جہد کر رہے ہیں، مگر در حقیقت ہم اُسے مضبوط نہ کر رہے ہوں۔

 پدرشاہی کا تاریخی ظہور

مردانہ غلبہ کی داستان (متھ آف میل ڈومینیشن) جسے عام طور پر خدا کا بنایا ہوا قدرتی اور آفاقی نظام مانتے ہوئے ایک غیر تاریخی نظام بنا کے پیش کیا جاتا ہے، جس پر کئی فیمنسٹ اور ماہرین بشریات/انسانیات نے سوال اُٹھایا ہے(لاکاک اور کریٹر 1981ء، فریڈریک اینگلز 2010ء)۔1 2 اِس افسانے کی حقیقت کو سب سے زیادہ مارکسی تھیسس نے بے نقاب کیا ہے۔ وہ ماہر انسانیات ’لیوس ایچ مورگن‘ کے قدیم (پرمیٹیو) معاشرے کی ابتدائی دور پہ لکھی گئی کتاب (1877ء)کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پدرشاہی نظام ازل سے وجود نہیں رکھتا تھا،یہ انسانی سماج کی ارتقاء میں ایک خاص وقت پر اُبھرا، لگ بھگ اُسی وقت جب نجی ملکیت، خاندان اور ریاست تشکیل پانا شروع ہوئے۔3 ۔

:قبائلی معاشرہ
تاریخی طور پر، تقسیمِ محنت صنفی بنیادوں پر موجود رہی ہے، مگر درجہ بندی یعنی رُتبہ بندی ہمیشہ سے موجود نہیں تھی۔ مثال کے طور پر ’ہنٹگ گیدرنگ‘ سماج جس میں شکار اور خوراک اکھٹا کیا جاتا تھا، اُس میں عورتیں جڑی بوٹیاں اور خوراک جمع کرتی تھیں جبکہ مرد شکار کرنے کے لئے جاتے تھے۔ تاہم ان مختلف قسم کے کاموں کے درمیان درجہ بندی اور رُتبہ بندی نہیں کی جاتی تھی، یعنی کہ کون سا کام گھٹیا اور کون سا کام اعلیٰ ہے۔ ایک قسم کے کام کو دوسرے پر امتیاز حاصل نہیں تھا اور صنفی تعلقات میں مساوات تھا۔ انفرادی گھر بنیادی طور پر پیداواری یونٹ نہیں تھا، قبائل کو اکثر مادری شجرے (میٹرلیئلٹی) کی بنیاد پر منظم کیا جاتا تھا جس میں سلسلہ نسب ماں کی طرف سے تھا۔ اور معاشرے میں عوامی اور نجی بنیادوں پر مبنی دوہرا  (بائنری) نظام موجود نہیں تھا۔ مشترکہ طور پر جمع کیے گئے وسائل کو قبائل مل بانٹ کر استعمال کرتے تھے، ان وسائل کو نجی ملکیت نہیں سمجھا جاتا تھا۔ عورتیں فیصلے سازی، روایات، اور نئے آلات اور اوزار کی تخلیق میں ایک اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ عورتیں مجموعی طور پر خود مختار تھیں – اس زمانے کو ابتدائی کمیونزم (پریمیٹو کمیونزم) یا قبائلی سماج کہتے ہیں۔

:جاگیرداری اور پدر شاہی کا ظہور
آہستہ آہستہ لوگوں نے مو یشی اور فصل کاشت شروع کی اور تب تاریخ میں پہلی بار انسانوں نے اپنی فوری ضروریات سے زیادہ پیداوار کی۔ اینگلز کا استدلال ہے کہ تاریخ کے اسی پیداواری مرحلے میں نجی ملکیت اور اس کو برقرار رکھنے کے لئے، خاندان اور ریاست ابھرنے لگے۔ اور ساتھ ہی ساتھ طبقاتی سماج اور تقسیم کار کی درجہ بندی شروع ہوئی انہی عوامل نے عورت کی ماتحت حیثیت کا تعین کیا۔ زرعی زمین، اوزار، غلام اور ’مویشی‘ نجی ملکیت کے نظام میں لائے گئے۔ طرز پیداوار (موڈ آف پروڈکشن) تبدیل ہوئے اور سماج ابتدائی کمیونزم یعنی قبائلی دور سے جاگیردارانہ اور غلامی دور میں تبدیل ہوا۔ خونی رشتے اہم رہے مگر زندگی کی ضروریات پیدا کرنے کا طریقہ بدل گیا-

اس طرح پہلی بار ایک طبقاتی نظام قائم کیا گیا جس میں صرف چند لوگ پیداوار ی ذرائع کے مالک بنے اور باقی اُن کے غلام بنے۔ ان تبدیلیوں نے سماج میں عورت کی حیثیت پر سخت منفی اثر ڈالا۔ قبائلی معاشرہ میں عورتیں اور بچے مرد پر انحصار نہیں کرتے تھے کیوں کہ پیداواری ذرائع کی ملکیت مشترکہ تھی اور سماج میں عورتوں اور مردوں کی حیثیت ایک برابر کی تھی۔ تاہم، یہ حالات نجی ملکیت کی آمد کے ساتھ تبدیل ہو گئے۔

نجی ملکیت کی واراثت کو اگلی نسل تک منتقلی کے لئے “جائز وارث” پیدا کرنے کے لئے نئے جنسی اور تولیدی کانٹریکٹ کا آغاز ہوا، اور نرینہ اولاد ضرور پیدا کرنے کا رواج بنا۔ عورتوں کو جنسی اور تولیدی پابندیوں، اور گھر کے کاموں میں دھکیلا گیا۔ نجی ملکیت کی وارثت کا حق مردوں نے صرف خود لے لیا، اور عورتیں مزدور غلام کے طور پر کھیتی باڑی کرنے لگیں۔ اگرچہ وہ گھر اور باہر کے دونوں کام کرتی تھیں، مگر محنت کی صنفی تقسیم کی درجہ بندی وجود میں آئی۔ اور اس طرح ایک مضبوط پدر شاہی نظام کا قیام ہوا، جس کو بعد میں چرچ کی بھی حمایت حاصل ہوئی۔ جاگیردارانہ پدرشاہی میں دونوں عورتیں اور مرد زرعی غلام، یعنی جاگیردار سے منسلک تھے، جس کا اختیار خاوند یا والد کے اختیار سے زیادہ تھا (فیڈریچی)۔4 ۔

اینگلز تاریخی مادیت کا نقطۂ نظر (تاریخ کا مادی نظریہ) اپناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سماج کی معاشی تنظیم میں تبدیلی سے پیداواری تعلقات اور سماجی رشتوں میں تبدیلیاں آتی ہیں، جیسے کہ نجی ملکیت کے ظہور سے، سماجی تنظیم میں تبدیلیاں آئیں۔ جیسے کہ ابتدائی کمیونزم کے دور کے پہلے مراحل میں گروپ میریج (بیک وقت متعدد ساتھی) اور پیئرنگ میریج تھی، بیک وقت صرف ایک ساتھی، اور جس میں خاندان ایک معاشی یونٹ نہیں تھا، اور یہ یک زوجگی (مونو گمی) کی طرف پہلا قدم تھا۔ تاہم، نجی ملکیت کے آغاز کے ساتھ منسلک تہذیب میں یک زوجگی شادی کی مروج قسم بن گئی اور “خاندان” معاشرے کا بنیاد اقتصادی یونٹ بن گیا۔ اینگلز کے مطابق اس ہی دور میں وراثت کے باپ کی طرف سے شجرہ نسب نے ماں کی طرف سے شجرہ نسب کی جگہ لے لی اور والد کی جمع کر دہ مالیت اور ملکیت اس کی اولاد کو منتقل ہونا شروع ہوئی۔

:سرمایہ دارانہ پدرسری نظام
بالآخر جب مشترکہ زمینوں (کامنز) کو جاگیرداروں نے ضبط کیا اور اپنی نجی ملکیت بنا دیا تو غلامی اور بیگار کی جگہ اُجرتی محنت نے لے لی۔ اور پھر سرمایہ دارانہ نظام وجود میں آیا جس نے جاگیرداری نظام کو اپنے اندر ضم کر لیا۔لیبر کی صنفی تقسیم میں زیادہ اضافہ ہوا اور عورتیں مردوں پر زیادہ منحصر ہو گئیں۔ مردوں کا عورتوں کی محنت اور جنس پر غیر معمولی کنٹرول قائم ہو گیا اور وہ ”مالک” بن گئے۔ مویشی اور زمین مشترکہ ملکیت نہیں رہے، اور ساتھ ہی خاندان کی نگہداشت اور بچوں کی دیکھ بھال کا کام بھی عورتوں کی ذمہ داری بن گئی۔

اینگلز کے مطابق یک زوج ’مونوگیمس‘ خاندان اور طبقات تقریباً ایک ہی وقت پر اُبھرنا شروع ہوئے۔ غلام اور مزدور کا سرمایہ دار کے ساتھ ایک تضاد کا رشتہ قائم ہوا۔ اور ریاست ایک ایسا سیاسی اوزار ہے جو اس بڑھتے تضاد کو سنبھالے کے لئے اُبھری۔ ان کا کہنا ہے کے بورژوا ریاست اپنے آپ کو معاشرے سے ایک الگ ادارہ دکھاتی ہے مگر حقیقت میں بورژوازی کے فوائد کو ہی ترجیح دیتی ہے۔

:پدرسری کے ظہور کا مارکسی نظریہ
کچھ مارکسی فیمنسٹ اسکالرز اینگلز کے تھیسس کی تنقید کرتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں پدرشاہی کی یہ تفصیل محض یورپ کے گرد گھومتی (یورو سینٹرک) ہے، یعنی  ہے، اکانومسٹک ہے اور تاریخی و ارتقائی فریم ورک پر زیادہ منحصر ہے۔’ماریا میز‘ اس تنقید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پدرشاہی کے ظہور کی متبادل تفصیل بیان کرتی ہیں۔ اینگلز کے برعکس ’ماریا میز‘ پدرشاہی نظام کو سرپلس کے ساتھ نہیں جوڑتیں، کیونکہ ان کا ماننا ہے کے سرپلس ہنٹنگ گیدرنگ زمانے میں بھی ہوتا تھا۔ وہ لکھتی ہیں کے پدرشاہی کی شروعات سمجھنے کے لئے ہمیں مرد اور عورت کا قدرت کے ساتھ تاریخی اور سماجی (حیاتیاتی نہیں) رشتہ سمجھنا ہو گا۔

مصنفہ ‘ماریا میز’ کا تھیسس ہے کہ سماج کے ابتدائی قبائلی دور میں شکار، جو کہ مرد کرتے تھے، قدرت کے ساتھ ایک تباہی اور غارت گری کا رشتہ تھا، جب کہ عورتوں کا قدرت کے ساتھ ایک پیداواری  رشتہ تھا۔ اُنکا ماننا ہے کہ شکار زندگی کا بنیادی اور پائیدار وسیلہ نہیں تھا، کیونکہ وہ کبھی ملتا تو کبھی نہیں۔ اِس لئے شکار نے مردوں کو عورتوں پر حاکمیت دلانے میں کردار ادا نہیں کیا، بلکہ ا ن ہتھیاروں نے ادا کیا، جن سے وہ شکار کرتے تھے۔ ان ہتھیاروں میں تشدّد کی قوت نے مردوں کو ایک شکار خور اور غارتگر طرز پیداوار دیا، جس کے ذریعے انہوں نے عورتوں پر، قدرت پر، اور دوسرے انسانوں پر جبر کیا۔ یہ جبر جس کی بنیاد تشدد ہے، ہم آج بھی سرمایہ داری نظام میں دیکھتے ہیں۔ حالانکہ آخرکار مرد عورت کو تشدّد کے ذریعے اپنے ماتحت لانے میں کامیاب ہو گیا، مگر عورتوں نے تاریخ میں اس جبّر کی بھرپور مزاحمت کی اور ایسا ہرگز نہیں تھا کہ انہوں نے آسانی سے ایک نچلا درجہ قبول کر لیا (فیڈریچی اور میز)۔

اگرچہ پدرشاہی کے ظہور اور شروعات کے بارے میں فریڈرک اینگلز اور ماریا میز کے نقطہ نظر میں اِس فرق پر حتمی بات کرنا مشکل ہے، خاص طور پر قبائلی دور کے بارے میں اختلافی نقطۂ نظر پر۔ مگر دونوں کے نقطہ نظر سے یہ حقیقت ضرور بے نقاب ہوتی ہے کہ پدر شاہی کوئی قدرتی یا الہٰی امر نہیں ہے، بلکہ پدر شاہی نظام تاریخی طور پر مخصوص طرزِ پیداوار سے جُڑے پیداواری، سماجی اور صنفی تعلقات کا پیدا کردہ ہے۔ دونوں اِس بات پر بھی متفق ہیں کہ تاریخ میں ایسا دور ضرور گزرا ہے جس میں عورت اور مرد کے درمیان صنفی بنیادوں پر تقسیمِ محنت کی درجہ بندی اور رُتبہ بندی موجود نہیں تھی۔ اور یہ کہ پدرشاہی ازلی نہیں ہے اور نہ ہی پدرشاہی کا ظہور کسی جسمانی برتری پر مبنی ہے۔ مگر انسانی تاریخ میں انسانی اور صنفی مساوات پہلے بھی رہے ہیں، اور مستقبل میں بھی انسانی اور صنفی مساوات قائم کئے جا سکتے ہیں۔ اور یہ بات دنیا میں سوشلسٹ انقلابات اور عورتوں کی آزادی کی تحریکوں کی تاریخ نے بڑی حد تک ثابت بھی کر دی ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ پدرشاہی کی شروعات اور ظہور پر اِس بحث میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان تعلقات کے ماضی اور تاریخ کے بارے میں علمی بصیرت خود سے نئی تاریخ رقم کرنے کی راہ دکھاتی ہے، اِس لئے یہ بحث ضروری ہے۔

:”قبائلی، جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ پدرشاہی اور”ترقی
پدرشاہی کا درج بالا تاریخی نقطہ نظر صاف واضح کرتا ہے کہ پدرشاہی ایک قدرتی امر نہیں ہے۔ بےشک سرمایہ داری نظام سے پہلے بھی پدرشاہی تھی، مگر پدرشاہی مرد کی قدرتی صلاحیتوں پر مبنی نہیں ہے۔ پاکستانی پس منظر میں ہمیں قبائلی اور جاگیردارانہ پدرشاہی ابھی بھی نظر آتی ہے مگر سرمایہ دارانہ پدرشاہی پورے ملک پہ غالب ہو رہی ہے۔ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے جیسے جاگیرداری نظام کمزور ہو رہا ہے اور شہروں کی آبادی بڑھ رہی ہے، عورتوں کی بھلائی ہو رہی ہے اور جدیدیت میں ان کے حقوق زیادہ ہیں۔ جاگیرداروں کے بارے میں اکثر سننے میں آتا ہے کہ ’وہ پسماندہ  ہیں‘، اور کسانوں کے اوپر جبر کرتے ہیں مگر اس طرح کے الفاظ صنعت کاروں کے لئے کم ہی استعمال ہوتے ہیں، کیونکہ ان کو اکثر ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جاگیرداری نظام کو عورتوں کے لئے خاص طور پر انتہائی خطرناک دکھایا جاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جاگیردارانہ نظام عورتوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے اور جرگہ، پنچایت، جبری محنت، جائیداد، اور مذہب کے معاملات میں یہ ایک نہایت ہی سخت پدرسری نظام ہے۔ البتہ یہ کہانی اتنی سادہ نہیں ہے۔ ایک طرف جاگیردارانہ نظام عورتوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے اور بِلا شبہ سرمایہ دارانہ نظام عورتوں کو جاگیردارانہ روایات سے چھٹکارا دلانے میں مدد کر کے ان کی آزادی کا سبب بنتا ہے – مگر دوسری طرف اصلیت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام خو دسے عورت کو بکنے والی جنس بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا، اور سامراجی اور ریاستی جبر کے ذریعے محنت کے استحصال، جبر اور تشدد کی نئی اور الگ قسمیں پیدا کرتا ہے: جیسے کہ معیشت و سیاست کی ملٹرائزیشن اور سیکیوریٹائزیشن، انتہائی غربت، اُجرت میں امتیاز وغیرہ۔ خلاصہ یہ ہے کہ تشدد اور عورتوں کا وسائل سے محروم رہنا، اور عدم صنفی مساوات دونوں نظاموں میں عام ہے، بس شکلیں اور ڈگری میں فرق ہیں۔

سرمایہ دارانہ پدرشاہی پیداواری اور تولیدی کام کے درمیان ایک مخصوص تعلق پر مبنی ہے۔ عورتیں بلا اُجرت خاندان کی نگہداشت (سوشل ری پروڈکشن) کا کام کر تی ہیں، جس میں بچوں کو پیدا کرنا، ان کی پرورش کرنا، پورے خاندان کے افراد کی خدمت و افزائش وغیرہ شامل ہیں۔ آج بہت سی عورتیں، خاص طور پر محنت کش طبقہ کی عورتیں ”ڈبل شفٹ” کام کرتی ہیں، یعنی گھر اور باہر دو جگہ پر کام: گھر کے اندر معاوضہ کے بغیر تولیدی اور خاندان کی خدمت کا کام، اور گھر سے باہر بہت ہی کم معاوضہ اور برے حالات میں اُجرتی کام۔‘تیتی بھٹاچریا’ کہتی ہیں، کہ اگرچہ سرمایہ دارانہ پدرشاہی میں کچھ عورتیں شیشے کی چھت کو (گلاس سیلنگ)  توڑ رہی ہیں تو باقی عورتوں کی اکثریت فرش پر ٹوٹے ہوئے شیشے کی صفائی کر رہی ہیں۔ یعنی سرمایہ دارانہ پدر شاہی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جو تھوڑی بہت ”ترقی” حاصل ہوتی ہے، وہ بورژوا عورتوں تک محدود ہوتی ہے، جبکہ غریب طبقے کی عورتوں کا استحصال ہوتا ہے اور اُن پر ظلم ہوتا ہے۔ جنسی جبر اور طبقاتی جبر دو مختلف، خودمختار نظام نہیں ہیں – یہ ایک ہی نظام ہے جو اَمیر اور غریب عورت میں فرق پیدا کرتا ہے۔ جب تک ہم مکمل طور پر سرمایہ دارانہ پدرشاہی نظام سے نہیں لڑیں گے عورت کی آزادی ایک ادھورا خواب ہی رہے گا۔

 پدرشاہی کی تعریف

مارکسسٹ فیمنسٹ دانشور پدرشاہی کی تاریخی خاصیت کو تو قبول کرتے ہیں مگر پدرشاہی کی مخصوص تعریف،خاص طور پر اسکی بنیادوں پر بحث کرتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں کچھ مارکسسٹ تو مکمل طور پر پدرشاہی کے تصور کو مسترد کرنے کے حق میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ظلم ہوتے ہیں اور صرف کوئی ایک تصور ان سب کی وضاحت نہیں کر سکتا۔ مثلاََ صنفی امتیاز، عورت اور مرد کے درمیان اُجرت میں فرق، اور جنسی تشدد پدرشاہی کی عالمی شکلیں ہیں۔ اور کچھ شکلیں، جیسے کہ جہیز، تیزاب پھینکنا، چولھے سے جلا کر مار دینا، چادر اور چاردیواری، اور جرگہ پنچائیت پدرشاہی کی مقامی شکلیں ہیں۔ تو پھر ’آخرکار‘ پدرشاہی کی بنیاد یا جڑ کیا ہے؟ کچھ فیمنسٹوں نے صنفی عدم مساوات کی حیاتیاتی جڑوں پر زور دیا، دوسروں نے پدرشاہی کو ایک نظریہ کی حیثیت سے تفسیر کیا، اور بعض نے اس کی ثقافتی وضاحت پر توجہ مرکوز کی۔

عورت کے سوال پر روایتی مارکسی تجزیہ کرنے والوں نے نجی ملکیت اور پیداواری تعلقات پر ہی فوکس رکھا، جبکہ سوشلسٹ فیمنسٹوں نے اس کے ساتھ ساتھ محنت کی صنفی تقسیم اور پیداواری اور تولیدی کام میں عورت کے کردار، گھر کے کام اور خاندان کی افزائش، جنسی اور تولیدی جبر، اور پدر شاہی کی ثقافتی اور نظریاتی جڑوں کو بھی اہمیت دی۔ یعنی کہ انہوں نے پدرشاہی اور طرز پیداوار کے رشتے کو اہم سمجھا، بجائے اس کے کہ وہ پدرشاہی کا صرف مرکزی عنصر تلاش کریں۔ آج ہم پدرشاہی نظام کو ایک منظم اور اداریاتی سماجی نظام کے طور پر سمجھتے ہیں جس میں مرد کے پاس ایک سماجی گروپ کے طور پر طاقت ہے اور وہ یہ طاقت عورتوں کے اوپر جبر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

البتہ یہ پدرشاہی کا لفظ سب سے پہلے میکس ویبر (1968ء) نے سماج کے ان گھروں کے لئے استعمال کیا جہاں عورتیں اور نوجوان دونوں ایک مرد سربراہ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔5 تاہم وقت کے ساتھ ساتھ پدرشاہی نظام کے معنی بدل گئے اور آج ہم اس لفظ کو اس سماجی نظام کے لئے استعمال کرتے ہیں جس میں تمام مرد عام طور پر (نہ صرف ایک مرد، جو کہ گھر کا سربراہ ہے) عور توں پر حکمران ہیں۔’سلویا والبی‘ سمجھتی ہیں کہ ہمیں پدرشاہی نظام کو کسی ایک سبب سے نہیں جوڑنا چاہئے بلکہ اس کے چھ ڈھانچوں کو سمجھنا چاہئے: (1) پدرسری طرز پیداوار جس میں عورت کا کام اس کا شوہر ضبط کرتا ہے، (2) اُجرت کے کام میں پدرسری تعلقات، (3) جنسیت میں پدرسری تعلقات، (4) مرد کا تشدد، (5) پدرسری ثقافت، اور (6) پدرسری ریاست۔6 ۔

:پدرسری ریاست
جب سرمایہ د ارانہ نظام قائم ہو رہا تھا تو گھر کے مرد سربراہ کے ساتھ ساتھ ریاست بھی ایک پدر سالار سربراہ کا کردار اپنا رہی تھی۔ جو “تحفظ” کی روایات گھر کا مرد سربراہ عورتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔اسی طرح کے ملتے جلتے جواز ریاست اپنے شہریوں پر اختیار قائم رکھنے کے لئے آزماتی ہے۔ لبرل فیمنسٹ ریاست کو غیر جانبدار سمجھتی ہیں اور بھروسہ کرتے ہیں کہ ریاست قانون سازی سے عورتوں کی فلاح اور بھلا ئی کے لئے فیصلے لینے کی گنجائش رکھتی ہے۔ اس کے برعکس مارکسی فیمنسٹ ریاست کو بنیادی طور پر نہ صرف جانبدار سمجھتے ہیں، بلکہ وہ سرمایہ دارانہ ریاست کے استحصالی، پدر شاہانہ اور پرتشدّد کردار کی شناخت کرتے ہیں، کیونکہ سرمایے کی تشکیل اوربقاء ریاست کے اِس کردار سے مشروط ہے۔یہ تلخ حقیقت ہمیں واضح طور پر پاکستانی ریاست کے سامراجی، بورژوا، اور مذہبی انتہا پسند قوتوں کے گٹھ جوڑ اور مضبوط اتحاد کی شکل میں نظر آتی ہے۔ مارکسی فیمنسٹ سرما یہ دارانہ ریاست کے بجائے سوشلسٹ ریاست کو صنفی مساوات کا حامی سمجھتی ہیں، کیونکہ سوشلسٹ نظام ایک غیر سرمایہ دارانہ، اور سماجی و صنفی مساوات کا نظام ہے۔

ریاست، خاندان، اور نجی ملکیت سرمایہ دارانہ پدرشاہی کے اہم اداروں میں شامل ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں، ریاست وہ ادارہ ہے جس کے خلاف عورتوں کی تحریک نے ماضی میں بھی پدرشاہی کے خاتمے کے لئے منظم طور پر جدوجہد کی ہے۔ خاندان کے اندر جبر اور اُجرت میں صنفی امتیاز کے موضوعات حالیہ فیمنسٹ اور عورتوں کی تحریکوں کا ہدف بنے ہیں، جو کہ محنت کی صنفی تقسیم اور جنسیت وغیرہ کے بارے میں آواز بلند کر رہے ہیں (روبینہ سیگل2016ء)۔7 عائشہ جلال (1991ء) لکھتی ہیں کہ عورتوں کی تحریکوں نے خاندان کے بجائے ریاست کو نشانہ بنایا کیونکہ ان تحریکوں میں بنیادی کردار اپر مڈل کلاس عورتوں نے ادا کیا اور وہ خاندان میں اپنی سماجی حیثیت بگاڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ لہٰذا ان کے لئے یہ نسبتاً زیادہ آسان تھا کہ وہ کثیر زوجگی کے خلاف لڑیں اور اسلامی وراثت سے متعلق قانون کے لئے لڑیں۔ اس سے ان کا فائدہ بھی ہوا، سرمایہ دارانہ ریاست کی بنیاد بھی مضبوط رہی، اور ان کا طبقاتی مقام بھی برقرار رہا۔8

اگر مرکزی پدرشاہی نظام میں تبدیلی نہ بھی آئی ہو، پھر بھی پاکستانی ریاست اور پدرشاہی قوتوں کے اتحاد میں اتار چڑھاؤ تاریخ کے مختلف مرحلوں پر ضرور نظر آتا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں ریاست نے اسلامی نظریے سے اپنے آپ کو منسلک کرنے کا ارادہ کیا۔ تقسیم ہند کے بعد ریاست نے اپنے غیرمستحکم وجود کو مضبوط بنانے کے لئے کئی طریقے استعمال کئے۔ ان میں سے ایک طریقہ عورتوں پر پابندیاں لگا کر انتہا پسند مذہبی سیاسی پارٹیوں کو مطمئن کیا (راوس1986ء)-9 یہ سب سے واضح طور پر ضیاء کی حکومت میں ظاہر ہوا، لیکن ریاست نے مذہبی جماعتوں کے ساتھ پاکستان کی تاریخ میں اکثر اوقات سمجھوتہ کیا ہے(سیگل 2016ء)- ریاست نے بار بار ”نجی دائرے”(جو کہ ریاست کی ہی ایجاد ہے) میں مداخلت کی تاکہ وہ شادی، جنسیت اور عورتوں کی نقل و حرکت پر قابو پا سکے۔

تاہم، ریاست نے عورتوں کی تحریک کو کچھ رعایتیں بھی دیں، بنیادی طور پر فیملی لاء 1961 جیسی قانونی اصلاحات، جائداد اور جنسی ہراسانی پر قوانین بنائے، عورتوں کے لئے حکومتی ادارے بنائے۔ سیاسی اور حکومتی اداروں میں عورتوں کی نمائندگی کے لئے کوٹہ مقرر کیا – عائشہ جلال عورت پر ظلم کے حوالے سے ریاست کے لچکدار رویئے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ تقسیم کے بعد آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) کے ساتھ سمجھوتے سے لے کر مختلف فوجی اور جمہوری حکومتوں کے طرف سے رعایات تک، یہ سب پدرشاہی ریاست کی اپنی بقاء کے لئے سوچی سمجھی چال ہے، چونکہ اس کا ایک ”سیکورٹی کمپلیکس” ہے- جب ریاست کے وجود کو خطرہ پیش ہوا تو اس نے مذہبی جماعتوں کا سہارا لیا- قومی ریاست  (نیشن سٹیٹ) کا تصور عورتوں کے سوال سے بہت قریبی طور پر جڑا ہوا تھا اور عورتوں پر اخلاقی پابندی ایک ایسا طریقہ بن گیا جس کے ذریعے پاکستانی ریاست اپنے آپ کو قائم اور مضبوط کر سکے- جب اس کو طبقاتی جنگ کا خطرہ پیش ہوا تو اس نے عورتوں کی بورژوا انجمنوں جیسے ‘اپوا ‘ کا ساتھ دیا تاکہ کسی وسیع تر عوامی تحریک سے اصل خطرہ نہ پیش آ ئے۔

پاکستان کی پدرسری ریاست کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کے ہم ریاست کے پدرسری فوجی اور مذہبی قوتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کو سمجھیں – آج بھی ہماری فوج وہی مردانگی کی زبان استعمال کرتی ہے۔ مادرِوطن کے دفاع کے بہانے نگرانی اور جبر بڑھاتی ہے اور احتساب سے بچتی ہے۔ جنگوں کے اثرات ہمیں اُن ماؤں اور بہنوں کے مایوس چہروں پر نظر آتے ہیں جن کے خاندان کے مرد جبری طور پر گمشدہ کئے گئے ہیں۔

جب ریاست پر عالمی دباؤ آتا ہے یا وہ بین الاقوامی فنڈز حاصل کرنا چاہتی تو وہ اکثر اپنے آپ کو بظاہر پدرشاہی کے خلاف پیش کرتی ہے۔ اس طرح گو کہ پاکستان میں عورت کے حق میں قانون سازی کے ذریعے پدرشاہی کی شکل تبدیل ہوتی نظر آتی ہے، مگر دراصل یہ بنیادی طور پر سرسری تبدیلی ہے۔

بظاہر پاکستانی ریاست مذہب سے مخصوص رشتہ کی وجہ سے پدرسری نظر آتی ہے، مگر ریاست اپنی اساس میں پدرسری ہی ہوتی ہے، وہ بھی خاص طور پر سرمایہ دارانہ۔ امریکی ریاست اِس کی ایک بہترین مثال ہے، جو کہ ایک ایسی پدرسری ریاست ہے جو اپنے آپ کو غیرجانبدار اور عورت دوست پیش کرتی ہے، جب اِسے سامراجی مداخلت کرنا ہو۔ امریکی ریاست نے افغانستان میں اپنی خونی جنگ کا جواز یہ دیا کہ اسے مسلمان عورتوں کو افغانستان کی مذہبی اور رسمی پدرشاہی سے بچانا ہے – تاہم، یہ وہی امریکی حکومت تھی جس نے طالبان کو مالی امداد سے قائم کیا، وہ طالبان جن کی زن بیزاری اور پدرسری سزاؤں اور روایات نے ا فغان عورتوں کا افغانستان میں اور پاکستان میں پناہ گزین کیمپ میں استحصال کیا، اور وہ افغانستان میں آج تک جنگ لڑ رہی ہیں – آج ہم افغان عورتوں کی کوئی بامعنی آزادی نہیں دیکھتے بلکہ جو 1980ء کی دہائی تک ترقی کی گئی تھی اس کی بھی کایا پلٹدی گئی ہے۔جیسا کہ صبا گُل خٹک (2004ء) لکھتی ہیں، کہ ایک پدرسری ریاست کی سیاست سے عورت کبھی آزادی نہیں حاصل کر پائے گی۔10 گی

کئی فیمنسٹ حلقے سامراجی ریاست پر تنقید تو کرتے ہیں مگر فلاحی ریاست کی پھر بھی حمایت کرتے ہیں جو عورتوں کے حق میں کچھ پالیسیاں اور پروگرام بناتے ہیں۔ مارکسسٹ فیمنسٹس کا کہنا ہے کہ فلاحی ریاست کے صحت، تعلیم، اور سماجی تحفظ پروگرام (جیسے کہ بینظر انکم سپورٹ پروگرام) محض طبقاتی تضاد کو قابو کرنے کا ذریعہ ہے تاکہ سرمایہ داری کو بچایا جا سکے۔  یہ معاملات، جیسے کہ این جی اوز کو ریاست کے فرائض سونپنا اور نجکاری اور لبرلائزیشن شہریوں کے سامنے ایسے پیش کیے جاتے ہیں جیسے کہ یہ عورتوں کے لئے فائدہ مند ہیں۔ لیکن حقیقتاً یہ غریب دشمن اقدام ہوتے ہیں اور محنت کش عورتوں کی مز احمت کی پیش قدمی کو روکتے ہیں۔ ریاست اکثر سماجی تحفظ پروگرام اور خیرات کی وکالت کرتی ہے اور ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کا راستہ صاف کرتی ہے۔

عمران خان کی مدنی فلاحی ریاست کا تصور تو بالکل بھی وہ متبادل ریاست نہیں ہے جو عورتوں کو مکمل نجات اور آزادی دے سکے۔ عورت کو آزادی تو صرف تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب نجی ملکیت، سرمایہ داری اور پدرشاہی نظام کا خاتمہ ہو۔

جدیدیت’ میں پدرشاہی کے متضاد چہرے’

اب تک میں نے پدرشاہی کی بدلتی شکلوں کو ایک تاریخی نظریے سے بیان کیا ہے۔ مگر پدرشاہی کی یہ مختلف شکلیں ایک ہی وقت میں ایک ہی معاشرے میں بھی موجود ہوتی ہیں۔ سوشلسٹ فیمنسٹوں کا ماننا ہے کہ ہم پدرشاہی کو فقط ایک ثقافتی، حیاتیاتی یا معاشی حقیقت کے طور پر نہیں سمجھ سکتے۔ بلکہ ہمیں اسے سرمایہ داری کے اہم اداروں جیسے نجی ملکیت، ریاست، اجرتی محنت، سامراجیت، خاندان، ثقافت اور سماجی اداروں، اور ان سے جُڑی ہوئی نفسیات کی صورت میں بھی سمجھنا ہو گا۔ یہی ادارے ہماری مادی اور سماجی زندگی دونوں کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں سماجی مظاہر کا عمومی انداز میں تجزیہ کرنا ہے۔ جب مجموعی تشخیص کا آغاز کرتے ہیں تو، یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کے پدرشاہی کو ختم کرنے کا مطلب ہے کے ہمیں لازمی طور پر نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا ہے بلکہ اس سے جُڑے صنفی جبر کے تمام ڈھانچوں کو بھی ختم کرنا ہو گا۔

اکثر لبرل فیمنسٹ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ جدیدیت نے عورتوں کی تحریک کو آگے بڑھایا ہے ’کیونکہ‘ آج عورتوں کی خاصی تعداد رسمی اور غیر رسمی شعبوں میں کام کرتی ہیں اور اجرت اور کاروبار کے ذریعے اپنی انفرادی آزادی حاصل کرتی ہیں – ترقی پذیر ممالک جیسے کہ پاکستان میں، ترقی (ڈیویلپمنٹ) اور سماجی بھلائی کے کاروبار (سوشل انٹر پرینور شپ) کو بھی اہمیت دی جاتی ہے اور سمجھا جاتا ہے کے مقامی پدرشاہی کا مقابلہ اس طرح کے اقدامات سے کر کے صنفی نابرابری کو کم کیا جا رہا ہے۔

اس بارے میں سوشلسٹ فیمنسٹ نکتۂ نظر اور ہے۔ وہ بہت سی مقامی روایتوں کو عورت کے استحصال میں برابر کا شریک تو سمجھتے ہیں،مگر وہ بیک وقت سرمایہ دارانہ جدیدیت کو بھی پدرشاہی کی ایک شکل سمجھتے ہیں – مثال کے طور پر بعض فیمنسٹ بڑھتے ہوئے لیبر فورس پارٹسپیشن ریٹ کو پدرشاہی کے خاتمے کی نشانی سمجھتی ہیں۔ مگر سوشلسٹ فیمنسٹ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک بچوں کی سماجی نگہداشت (سوشلائزڈ چائلڈ کئیر)، نجی ملکیت کا خاتمہ، اور گھریلو کام میں برابری نہیں آ ئے گی، صرف لیبر مارکیٹ میں شرکت کرنے سے عورتوں کو آزادی نہیں ملے گی۔ کچھ ہی مہینے پہلے کے ایف سی نے کافی شو شا اور چمک دمک سے عورتوں کو موٹر بائک دے کے ہوم ڈیلیوری کی نوکری پر رکھا ہے۔ ایک طرف تو یہ عورتوں کی معاشی آزادی اور گھومنے پھرنے کی آزادی ایک خوشخبری ہے۔ تو دوسری طرف یقیناً ان میں سے کئی عورتیں اپنے گھروں اور ملازمت کی جگہوں پہ بھی استحصال کا شکار ہوں گی، اور جنسی ہراسانی کا سامنا بھی کریں گی۔

کیا جدیدیت کو ہمیں پدرشاہی کے خلاف جیت سمجھنا چاہیٔے؟ کس چیز کو پدرشاہی کے خلاف جیت سمجھنے کا پیمانہ سمجھا جائے؟ جب ہم یہ بات سمجھ جائیں گے کہ سرمایہ داری عورتوں کے جبر پر منحصر ہے اور عورتوں پر جبر سرما یہ داری کو مزید توانا بناتا ہے، تو ہمارے لیے دونوں نظاموں کا الگ الگ تجزیہ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس بات کی وضاحت فیمنسٹ ماہر معاشیات نائلہ کبیر (2002ء) کی تحقیق سے کی جا سکتی ہے۔11 وہ لکھتی ہیں کہ بنگلہ دیش میں جہاں پر صنفی بنیادوں پر’جداگانہ‘ نظام/پردے کا نظام (صنفی تقسیم/جینڈر سیگریگشن) کا رواج عام ہے، گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس کے برعکس وہ تارکینِ وطن بنگلہ دیشی عورتیں جو لندن میں رہتی ہیں، جہاں چادر اور چار دیواری کا رواج عام نہیں، گھروں کے اندر پیس ورک کرتی ہیں اور کارخانوں میں جا کر کام نہیں کرتیں۔ وہ اپنی کتاب میں اس غیر متوقع رجحان کی چند وضاحتیں پیش کرتی ہیں جن میں سے ایک وجہ برطانوی اور بنگلہ دیشی ریاست کا مختلف کردار ہے۔ بنگلہ دیش میں مزدور طبقے کی عورتوں کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ انہیں بنیادی ضرورتیں پوری کرنے اور زندہ رہنے کے لئے کارخانوں میں جا کر نوکری کرنی پڑتی ہے۔ اس وجہ سے ان کو مجبوراً صنفی علیحدگی کے معمول کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ البتہ تارکین وطن بنگلہ دیشی عورتیں، جو لندن میں رہتی ہیں، جانتی ہیں کہ ُان کے پاس فلاحی ریاست کی طرف سے ایک سوشل سیفٹی نیٹ موجود ہے۔ اس لئے وہ صنفی علیحدگی کی ثقافتی روایت کو اپناتی ہیں اور اکثر اُن کے خاندان بھی جبر کے ذریعہ عورتوں سے یہ روایت منواتے ہیں۔ لہٰذا، ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف فلاحی ریاست کے ہوتے ہوئے ثقافتی طور پر پدرشاہی مضبوط ہو رہی ہے اور دوسری طرف، فلاحی ریاست کی غیر موجودگی میں سرمایہ دارانہ پدرشاہی مضبوط ہو رہی ہے۔

صرف عورتوں کی ملازمت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا، یا فلاحی ریاست کی حمایت کرنا پدرشاہی کے مسئلہ کا حل نہیں ہے، جب تک ہم اس کے ساتھ ساتھ سرما یہ داری نظام پر سوال نہ اٹھائیں۔ حقیقت میں، اگر ہم اور گہرائی میں جائیں تو بنگلہ دیش میں صنعتی افرادی قوت میں شمولیت، بڑے پیمانے پر عالمی لیبر مارکیٹ میں داخلہ، عورتوں کی عالمی تقسیمِ محنت سرمایہ داری نظام پر ہی مبنی ہے۔ گلوبل ساؤتھ کی محنت کش عورتوں کو گلوبل افرادی قوت میں ”ترقی” کے بیانات کے ذریعہ شامل کیا جاتا ہے، کیونکہ انہیں لیبر کی ایک سستی اور مستحکم قسم سمجھا جاتا ہے۔(میز 2014ء اور کبیر2002ء)۔12 ۔

پدرشاہی کے یہ متضاد چہرے صرف اس وقت واضح نہیں ہوتے ہیں جب ہم مختلف ممالک کا موازنہ کرتے ہیں، بلکہ ہم اکثر ایک معاشرہ میں ایک ہی وقت میں ایسے تضادات دیکھتے ہیں۔مثال کے طور پر، آج ہم پاکستان کے شہروں میں دو نئے شعبے مشہور ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں: سیلز کا کام (ریٹیل ورک) اور بیوٹی پارلر کا کام۔ بیوٹی کا کام عموماً ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں صرف عورتیں ہوتی ہیں،اور سیلز کا کام ایسے شاپنگ مالز اور اسٹورز میں ہوتا ہے جہاں عورتیں اور مرد دونوں ساتھ کام کرتے ہیں۔ ان موجودہ ’حالات‘ میں ’سرمایہ دارانہ‘ پدرشاہی خود کو برقرار رکھنے کے لئے دو مختلف میکانزم ’کا‘ تعین کرتی ہے۔ ایک طرف وہ چادر اور چار دیواری کی مقامی روایت کو بروئے کار لا کر بیوٹی کو جنس (کموڈٹی) بنا کر معاشی سرگرمی کرتی ہے، اور پدر شاہی روایات کے ‘ذریعے’ منافع سازی کرتی ہے، تو دوسری طرف منافع سازی کے لئے روایات کو اپنی ضرورتوں کے مطابق ترمیم کرتی ہے ۔

مثال کے طور پر بیشتر بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی عورتوں کو اپنے خاندانوں کی طرف سے ایسی جگہوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے جہاں مرد بھی کام کرتے ہیں۔ اور معاشرے میں عورتوں کے لئے بہت کم جگہیں ایسی ہیں جہاں وہ سکون سے اپنا فارغ وقت گزار سکیں۔ اس لئے بہت سی عورتیں بیوٹی پارلر میں کام کرنا چاہتی ہیں اور بہت سی بیوٹی پارلر میں کسٹمر کے طور پر آنا چاہتی ہیں۔ اگر سرمایہ داری ایک طرف عورتوں کے لئے الگ جگہوں کا فائدہ اٹھا رہی ہے، تو دوسری طرف وہ سیلز گرلز کے جسم کی نمائش اور عورت کی جنسیت کا استحصال کر کے منافع جمع کر رہی ہے۔

سرسری طور پہ تو یہ دو الگ اور متضاد منطق نظر آتی ہیں۔ مگر جب ہم پدرشاہی اور سرمایہ داری کو ایک دوسرے کا حصّہ سمجھتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ یہ دونوں منطق اصل میں ایک ہی منطق ہیں جو کہ سرمایہ داری طرز پیداوار کی منطق ہے، یعنی منافع سازی کی منطق۔ دونوں صورتوں میں سرمایہ داری منافع بنانے کے لئے پدر شاہی روایات کا استعمال بھی کر رہی ہے، اور ان میں اپنی ضرورت کے مطابق ترمیم بھی کر رہی ہے۔

ایک طرف، افرادی قوت میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی شرکت کا لبرل فیمنسٹ جشن مناتی ہیں۔ تو دوسری طرف واضح طور پر نظر آتا ہے کہ عورتوں کے لئے یہ سچی آزادی نہیں ہے – اکثر وہ صرف کچھ وقت کے لئے گھر اور خاندان کے نجی دائرے کے اندر پدرشاہی سے نجات تو پا لیتی ہیں مگر روزگار کی جگہ پر عوامی پدرشاہی کا سامنا کر رہی ہیں۔

آخرمیں

ان سب حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں ایسی تحریک بنانی ہو گی جس سے ہم سرمایہ دارانہ پدرشاہی کے کلیدی اداروں سے لڑ سکیں جن میں نجی ملکیت، ریاست اور خاندان، مذہبی انتہا پسندی شامل ہیں۔بیشک ہم تہیہ کر لیں کہ ہم ریاست سے عورتوں کے لئے قوانین مانگیں گے مگر ہمیں ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ ریاست جبر پر مبنی ایک پدرسری ادارہ ہے۔ بیشک بعض اوقات خاندان پیار اور تحفظ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، مگر ہمیں خاندان کا پدرشاہی اور سرما یہ داری نظام کے ساتھ جوڑ یاد رکھنا ہوگا۔ لبرل اور نیولبرل فیمنسٹ صرف عورتوں کو موجودہ نظام کے اندر مراعات کے ذریعے طاقتور (امپاور) کرنا چاہتے ہیں، یعنی امپاورمنٹ کا مطلب ہے کہ سرمایہ داری اور پدر شاہی نظام کے اندر رہتے ہو ئے ایک محدود انفرادی کامیابی اور مراعات حاصل کرنا۔ ہم جو سوشلسٹ فیمنسٹ ہیں، اور عورتوں اور تمام پسے ہوئے طبقات اور گروہوں کے لئے مکمل آزادی چاہتے ہیں، یعنی کہ مجموعی طور پر نظام میں تبدیلی۔ ہم ’محض‘ طاقت نہیں، بلکہ ہم استحصال، طاقت اور جبر سے آزادی چاہتے ہیں!۔


ڈاکٹر سدرہ کامران سوشیالوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، اور لوئس اینڈ کلارک کالج امریکہ میں پڑھاتی ہیں۔ وہ سیاسی طور پر ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ سے وابستہ ہیں۔

Bibliography: 

  1. Leacock, Eleanor Burke and Urs P. Kreuter. 1981. Myths of Male Dominance: Collected Articles on Women Cross-Culturally. Monthly Review Press New York. ↩︎
  2. Engels, Friedrich. 2010. The Origin of the Family, Private Property and the State. Penguin UK.
    Leacock, Eleanor. 1972. Introduction to the Origin of the Family, Private Property and the State. Engels, F. The Origin of the Family, Private Property and the State 7-67. ↩︎
  3. Morgan, Lewis Henry. 1877. Ancient Society; or, Researches in the Lines of Human Progress from Savagery, through Barbarism to Civilization. H. Holt. ↩︎
  4. Federici, Silvia. 2004. Caliban and the Witch. Autonomedia. ↩︎
  5. Weber, Max. 1968. Economy and Society, Edited by G. Roth and C. Wittich. New York: Bedminster. ↩︎
  6. Walby, Sylvia. 1989. Theorising Patriarchy. Sociology 23(2):213-234. ↩︎
  7. Saigol, Rubina. 2016. Feminism and the Women’s Movement in Pakistan Actors, Debates, and Strategies. Islamabad: Friedrich Ebert Stiftung. ↩︎
  8. Jalal, Ayesha. 1991. Women, Islam and the State.” in Women, Islam and the State, edited by D. Kandiyoti. ↩︎
  9. Rouse, Shahnaz. 1986. Women’s Movement in Pakistan: State, Class, Gender. South Asia Bulletin 6(1):30-37. ↩︎
  10. Khattak, Saba Gul. 2004. Adversarial Discourses, Analogous Objectives: Afghan Women’s Control. Cultural Dynamics 16(2-3):213-36. ↩︎
  11. Kabeer, Naila. 2002. The Power to Choose: Bangladeshi Women and Labor Market Decisions in London and Dhaka. Verso. ↩︎
  12. Mies, Maria. 2014. Patriarchy and Accumulation on a World Scale: Women in the International Division of Labor. Zed Books Ltd. ↩︎

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .