تحریر: فرزانہ باری
تعارف
سامراج اور دنیا کے تمام مذاہب میں دو قدریں مشترک ہیں: دونوں سرمائے کے ارتکاز اور نجی ملکیت کے فروغ کی بات کرتے ہیں، اور دونوں عورتوں پر مردوں کی فوقیت اور تسلط کی حمایت کرتے ہیں۔ تاریخی تناظر میں دیکھیں تو سامراج اور مذہب کا آپس میں گہرا رشتہ رہا ہے۔ سامراجی قوتیں مذہب کو اپنے مفادات کے بڑھاوے کے لئے اور اپنی تقسیم کرو اور حاکمیت کرو (ڈیوائید اینڈ رول) کی حکمت عملی کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں۔ عور ت کے سوال کو سامراج نے دنیا پر تسلط قائم کرنے اور دنیا پر جنگیں مسلط کرنے میں استعمال کیا ہے۔ اور کالونیل توسیعات میں بھی مذہب کا بھرپور سیاسی اور ثقافتی استعمال کیا ہے۔ یہ مضمون پاکستان کے پس منظر میں سامراجیت، انتہا پسندی، اور عورت کے سوال کے تاریخی، نظریاتی اور سیاسی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔
تاریخی اور نظریاتی جڑ یں
برطانوی سامراج نے بر صغیر میں عورتوں کے حالاتِ زندگی کو نو آبادی کے لئے ڈھال بنایا۔ عورتوں پر پدر شاہی جبر، چھوٹی عمر کی شادیوں، ستی کے رسم و راج، پردہ اور بیواؤں کے ساتھ ناروا سلوک کو کالونائزیشن کے لئے جواز بنایا (دی وائیٹ مینز برڈن)۔ مغرب نے اپنے سامراجی مفادات کو چھپانے کے لئے یہ کہا کہ وہ قبضہ کیٔے گئے علاقوں اور ممالک میں عورتوں کو” ثقافتی ظلم و تشدد” سے بچانے اور وہاں کے لوگوں کو “مہذب” بنانے کے لئے اِن ممالک کو اپنے قبضے میں لے رہے ہیں (سانگاری:1987ء)۔1 دوسرے لفظوں میں، پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور عورت کے سوال کو سمجھنے کے لئے ہمیں مذہبی انتہا پسندی اور سامراجیت کے گٹھ جوڑ کو عالمی تناظر میں سمجھنا ہو گا۔
اگر ہم 1950ء کی دہائی کا تجزیہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ امریکی سامراج نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مذہبی انتہا پسندوں کی ریاستی سرپرستی کی۔ مِصر میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد نہر سوئیز کو قومی تحویل میں لیے جانے سے جو انقلابی لہر اُٹھی، وہ مِصر سے باہر ایران، شام، یمن، انڈونیشیا اور دوسرے مسلم ممالک میں سوشلسٹ تحریک کے اُبھار کا سبب بن رہی تھی۔ اُس کو روکنے کے لئے امریکہ نے جان فوسٹر ڈولِس ،سیکریٹری آف اسٹیٹ کو امریکی صدر آئزن ہاور کے زمانے میں (صدر ’ڈوائٹ آئزن ہاور‘ ایک ری پبلکن تھے اور سابقہ فائیو اسٹار جنرل بھی تھے) یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ سی آئی اے کی مدد سے اخوانُ المسلمین اور جماعت اِسلامی جیسی مذہبی گروہوں کی بنیاد رکھے، تاکہ وہ اِن ممالک میں سوشلسٹ تحریکوں کا راستہ روک سکیں۔
اسی طرح امریکی سامراج نے سرد جنگ (کولڈ وار) کے دور میں افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کا رستہ روکنے اور سوویت یونین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے تمام دنیا سے مذہبی انتہا پسندوں اور جنگجوؤں کو اکٹھا کر کے، سوشلزم کے خلاف جہاد کے لیے استعمال کیا گیا۔ آخر کار انقلابی سوشلسٹ قوتوں کو شکست دے کر افغانستان کو طالبان کے حوالے کر کے خود وہاں سے نکل گیا، جنہوں نے مذہبی انتہا پسندی کی ابتداء عورتوں کو کوڑے لگانے، سنگسار کرنے، اور انہیں گھروں کی چار دیواریوں میں بند کر نے سے کی۔ طالبان کی حکومت نے افغان عورتوں پر زندگی تنگ کر دی، اُنہیں معیشت کے تمام اہم شعبوں سے نکال دیا، یہاں تک کہ جنگ اور غربت کے ہاتھوں افغان عورتیں سڑکوں پر بھیک مانگنے اور جسم فروشی کا کام کرنے پر مجبور کر دی گئیں۔
روس میں سوشلزم کے انہدام کے بعد 1989ء میں دنیا میں سرمایہ داری نظام کی برتری اور دنیا پر غلبے کے حوالے سے امریکہ میں فرانسس فوکویاما نے “دی اینڈ آف ہسٹری ” کتاب لکھی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اب سوشلزم پوری دنیا میں ناکام ہو چکا ہے، اور اب صرف سرمایہ داری اور لبرل جمہوریت کا نظام ہی پوری دنیا میں نافذ ہو گا (فوکویامہ:1989ء)۔2 اور 1996ء میں سیموئیل ہنٹنگٹن نے” کلیش آف سولائزیشنز ” نامی کتاب لکھی, جس میں اُن کا مؤقف تھا کہ پوسٹ کولڈ وار ورلڈ آڈر میں نظریات کی سیاسی اور معاشی تقسیم ختم ہو گئی ہے اور اب جو تنازعہ بھی دُنیا میں ہو گا، وہ ثقافت اور تہذیبوں کے درمیان جنم لے گا۔3 ۔
پھر نائن الیون کا واقعہ ہوا اور “کلیش آف سولائزیشنز” کے تھیسس کو شد و مد سے ہر جگہ آگے بڑھایا گیا۔ کیونکہ سرمایہ داری نظام آج اس نہج پر پہنچ چکا ہے، کہ مختلف ریاستوں کے اندر طبقاتی تقسیم بے حد بڑھ چکی ہے، یہاں تک کہ دنیا کی 80 فیصد دولت دنیا کے صرف 10 فیصد لوگوں کے قبضے میں ہے۔ 7 ارب لوگوں میں آدھے سے زیادہ دنیا کی آبادی غربت کی سطح سے نیچے گر رہی ہے، جس کی قوتِ خرید اب ختم ہو چکی ہے۔ سرمایے میں منافع کے لئے اب جنگ/تنازعہ معیشت کے لئے ضروری ہو جائے گا۔ سرمایہ داری نظام میں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس تنازعات کو ایکسپورٹ کر رہے ہیں، وہ بھی زیادہ تر ترقی پذیر مسلم دُنیا کے اندر۔ اِس صورتحال میں عالمی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گردی کا کلنک لگا کر بدنام کیا جا رہا ہے، جس سے شناخت کی سیاست اُبھر کر سامنے آئی ہے، جس نے مسلم ورلڈ کے اندر مذہبی انتہا پسندی کو جِلا بخشی ہے۔
کالونیل جڑ یں
اس عالمی پس منظر میں پاکستان کے اندر مذہبی انتہا پسندی کے رجحانات کو سمجھنے کے لیے ہمیں پاکستان کی ریاست کی کالونیل اور پوسٹ کالونیل ہیت کو سمجھنا ہو گا۔ برطانوی سامراج نے برصغیر میں صدیوں سے بسنے والے لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا۔ 1872ء میں پہلی دفعہ مذہب کا ’خانہ‘ مردم شماری میں شامل کیا گیا۔ پھر مذہب کو ہندوستان میں “تقسیم کر کے حکومت کرو “، یعنی ڈیوائید اینڈ رول کی پالیسی کے تحت استعمال کیا گیا۔ بالآخر اِسی بنیاد پر برِصغر کا بٹوارہ کیا، جس کے نتیجے میں مذہب کے نام پر 2.7 ملین لوگوں کا قتلِ عام ہوا۔ تقسیمِ ہند میں جبری ہجرت کے دوران خونریزی انسانی تاریخ کی بد ترین خونی ہجرت میں شمار ہوتی ہے۔
اِسی مذہبی تقسیم کی بنیاد پر جو ریاست وجود میں آئی، حمزہ علوی کے مطابق اُسکا ڈھانچہ از حد بڑھا ( اوور گرون) ہوا تھا۔ جس کے اوپر فوجی اشرافیہ ( ملٹری بیوروکریٹک اولیگارکی ) اور میٹرو پولیٹن بورژوازی کا تسلط تھا (علوی:1972)، جس نے اپنے مفادات کے لئے ایک عوامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے بجائے قومی سلامتی کی ریاست (نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ)بنا دیا۔4 حکمران طبقات کو قومی سلامتی کی ریاست بنانے کے لئے جو بیانیہ درکار تھا، اُس میں اُنہوں نے مذہب کو، اور سلامتی کے خوف کو استعمال: کہ “مسلمان پاکستان “کو ” ہندو انڈیا ” سے خطرہ ہے۔ اور یوں پاکستان اِسلامی جمہوریہ پاکستان بنا اور قراردادِ مقاصد کے ذریعے مذہب کو ریاست کی تشکیل میں ایک کلیدی کردار دے دیا گیا۔
مُلا ملٹری گٹھ جوڑ شروع سے ہی پاکستان کی ریاست کی اساس میں رہا۔ جس کی انتہا ہم نے 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کے پراجیکٹ کی شکل میں دیکھی۔ اس نے افغانستان میں امریکہ کی پراکسی جنگ لڑنے کے لئے اپنی زمین مہیا کی، جہاں دنیا بھر سے مذہبی انتہا پسندوں اور ’جنگجووں‘ کو یہاں لا کر جہاد کے لئے ٹریننگ دی گئی۔ ’نیبراسکا یونیورسٹی‘ امریکہ سے مدارس کا نصاب تیار کیا گیا۔ مدارس کا ایک جال پھیلایا گیا، جہاں جہادی ذہن سازی کی گئی۔ اور پھر روس میں سوشلزم کے انہدام کے بعد اِنہی مذہبی گروہوں نے طالبان کی صورت میں پاکستان اور افغانستان میں تباہی پھیلائی۔ خاص طور پر عورتوں پر زندگی تنگ کر دی۔ جنرل ضیاءالحق نے عورتوں کے خلاف قوانین پاس کیٔے، جس میں عورت کی گواہی آدھی کی گئی، اور قصاص و دیت اور حدود اور زنا آرڈیننس جیسے قوانین کا نفاذ کیا گیا۔ اور یہی طالبان القاعدہ اور داعش کی صورت میں مذہب کی بنیاد پر شرعی نظام کے نفاذ کے لئے متحرک ہیں، جس میں عورت کا وجود میدانِ جنگ ہے۔
آخر میں
ریاست اور مذہب کے گٹھ جوڑ کی پالیسی نے مذہبی انتہا پسندی کو سماج کی ہر پرت اور پہلو تک اُتار دیا، جس کا اظہار ہمیں آئے دن زیرِ عتاب مذاہب اور مُسلم فرقوں کے لوگوں پر حملے، ہندو بچیوں کے اغوا ء اور زبردستی کی شادیاں، مشال جیسے نوجوانوں کے ہجوم کی طرف سے تشدد کے ذریعے بہیمانہ قتل، پولیو اور لیڈی ہیلتھ ورکرز پر حملوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ سرمایہ داری نظام آج بھی اپنے خلاف اُٹھنے والی مزاحمتی تحریکوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مذہبی رجعت پسندی اپنی انتہا پر ہے۔
یہاں بات صرف اِسلام کی نہیں، بلکہ تمام دنیا کے بڑے مذاہب چاہے وہ عیسائیت ہو، یہودیت ہو، ہندو مت ہو، یہاں تک کہ بُدھ مت میں بھی مذہبی انتہا پسندی اپنی انتہا پر نظر آتی ہے۔ جس کی مثال ہمیں برما میں مینمار میں مسلمانوں کے قتلِ عام کی صورت میں نظر آتی ہے۔ اِس لئے نسلِ انسانی کی بقاء کے لئے آج صرف طبقاتی اور صنفی شعور کے ساتھ ہی سرمایہ داری اور مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اِس لیے آج فیمنسٹ اور سوشلسٹ تحریکوں کا ایک تاریخی فریضہ بنتا ہے کہ وہ مشترکہ طور پر سرمایہ داری اور سامراجیت کے خلاف ایک منظم تحریک کا آغاز کریں جو پچھڑے طبقات، عورتوں اور محکوم قوموں کو غلامی سے نجات اور آزادی دلائیں۔
Reverences:
- Sangari, Kumkum.1987, Politics of the Possible: University of Minnesota Press. ↩︎
- Fukuyama, Francis. 1992, The End of History and the Last Man: Free Press, “Simon & Schsuter” Inc., New York. ↩︎
- Huntington Samuel.1996. The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order. “Simon & Schsuter” Inc., New York. ↩︎
- Alvi, Hamza.1972, The State in Post-colonial Societies: Pakistan and Bangladesh: New Left Review. ↩︎