پاکستان میں فیمنسٹ تعلیم اور عِلم و دانش

ڈاکٹر فرزانہ باری سے گفتگو

انٹرویو: عصمت شاہجہان

ڈاکٹر فرزانہ باری اسلام آباد میں قائدِ اعظم یونیورسٹی میں جینڈر سٹڈی سینٹر کی ڈائریکٹر رہی ہیں۔ محقق اور لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی کارکُن بھی ہیں اور لیفٹ کی سیاست  سے وابستہ ہیں۔

عصمت شاہ جہان: پاکستان میں فیمنسٹ تعلیم، ریسرچ، اور علم دانش کا منظر نامہ کیا ہے؟

ڈاکٹر فرازانہ باری:   ویسے تو پاکستان میں ہمیشہ سے فیمنزم کے گرد مبالغہ آرائی ہوتی رہی ہے مگر عورت آزادی مارچ /عورت مارچ پر آنے والا ردِعمل ہماری توجہ اس موضوع کی طرف مبذول کراتا ہے تاکہ ہم دیکھیں کہ پاکستان کی سیا ست اور سماج کے اندر فیمنسٹ شعور اور عِلم کی کیا صورتحال ہے۔ پاکستان میں کئی دہائیوں سے اور اب بھی جو فیمنسٹ عِلم پیدا کیا جا رہا ہے اس کے بڑے حصے کو ہم حقیقی معنوں میں فیمنسٹ عِلم نہیں کہہ سکتے، کیونکہ وہ زیادہ تر فیمنسٹ فریم ورک کے بجائے ڈیویلپمنٹ کے فیلڈ سے متعلق ہے، اور ڈیویلپمنٹ پالیسی کے گرد گھومتا ہے۔ ہاں اُس میں فیمنسٹ “تڑکا” ضرور نظر آتا ہے، مگر جس کو اعلی پائے کا کام کہہ سکتے، وہ فیمنسٹ علم پاکستان میں بہت کم پیدا کیا گیا ہے۔ باہر ممالک میں مقیم پاکستانی فیمنسٹ دانشوروں کی اکثریت کا کام اِسلامک فیمنزم پر ہے، جیسے کہ صبا، عمارہ اور صدف کا کام۔ پاکستان میں اگر کوئی سیکولر اور سوشلسٹ فیمنسٹ نکتہ نظر سے کام ہوا ہے تو وہ عافیہ ضیاء اور روبینہ سیگل کا ہے۔ پاکستانی فیمنسٹ سکالرز بین الااقوامی سطح پر سیکولر اور سوشلسٹ فیمنسٹ علم میں اپنا حصہ نہیں ڈال پائے ہیں۔

عصمت شاہ جہان: پاکستان میں فیمنسٹ تعلیم کی کیا صورتحال ہے؟

ڈاکٹر فرزانہ باری:   فیمنسٹ تعلیم یا فیمنسٹ نقطہ نظر ابھی تک ہمارے پورے کے پورے تعلیمی نظام اور روایتی مضامین میں شامل نہیں کیا گیا ہے، مثال کے طور پر پر ایسا نہیں ہے کہ انٹرنیشنل ریلشنز کے مضمون میں فیمسنٹ نقطہ نظر سے بھی بین الااقوامی سیاست پڑھائی جاتی ہو، یا اکنامکس میں فیمنسٹ اکنامکس بھی شامل ہو، یا انتھروپالوجی، پاکستان سٹڈیز اور تعلیم کے دوسرے مضامین میں فیمنسٹ نکتہ نظر اور مضامین ہوں۔ جینڈر سٹڈی ڈیپارٹمنٹ الگ تھلگ اپنا کام کر رہے ہیں۔ ویسے تو تمام بڑی پبلک سکیٹر یونیورسٹیوں میں جینڈر سٹڈی سینٹرز بن چُکے ہیں، چند ڈیپارٹمنٹس میں تو جینڈر سٹڈیز میں ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے پروگرام بھی شروع ہو چکے ہیں۔ مگر وہاں بھی جینڈر سٹڈیز “ڈیویلپمنٹ “کے تناظر سے ہی پڑھایا جاتا ہے۔ صرف چند ہی سنٹر ایسے ہیں جہاں مضبوط فیمنسٹ فیکلٹی ہے، جیسے کہ قائد اعظم یونیورسٹی کا جینڈر سٹڈی سنٹر یا سندھ یونیورسٹی کی فیکلٹی۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے جینڈر سٹڈی سنٹر کی میں خود ڈائریکٹر رہی ہوں، اِسکا پروگرام اعلیٰ پائے کا ہے، مگر یہاں ابھی تک ماسٹرز لیول کا پروگرام ہی ہے، ایم فِل اور پی ایچ ڈی پروگرام نہیں ہیں۔ اِس سنٹر نے اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے نہ صرف سٹوڈنٹ باڈیز میں تنقیدی فیمنسٹ شعور تشکیل دیا ہے، بلکہ اس سنٹر کے اکثر سٹوڈنٹس مزاحمتی اور سماجی تحریکوں کے لیڈنگ کردار میں بھی نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں ہم فیمنسٹ ٹیکسٹ میں آگے نہیں جا پائے ہیں۔ پاکستانی فیمنسٹ عملی سیاست اور مباحثے کا کام کر لیتی ہیں مگر لکھنے میں تھوڑی سُستی کا مظاہرہ کیا ہے۔

عصمت شاہ جہان: کیا فیمنسٹ تحریک اور دانشوروں کے درمیان میں کوئی باہمی علمی تعلق ہے؟

ڈاکٹر فرزانہ باری:  اگر ہم 80ء کی دہائی کو دیکھیں تو ویمن ایکشن فورم (ویف) کا عملی سیاست میں ایک رول تھا، اُس نے ایک ڈکٹیٹر کو چیلنج کیا، جو کہ عورتوں کے حقوق پر، خاص طور پر لیگل رائٹس پر حملہ آور تھا۔ گو کہ ویف ایک امبریلا سیاسی تنظیم تھی اور اس میں ہر طرح کی خواتین شامل تھیں، انفرادی فیمنسٹوں سے لے کر فلاحی تنظیم اپوا، اور سیاسی جماعتوں تک کی خواتین۔ مگر ویف کا کام فیمنزم سے لبرل ڈیویلپمنٹ فریم ورک میں شفٹ ہوا۔ کئی لوگوں نے این جی اوز کھول لیں۔ گو کہ وہ انفرادی طور پر مضبوط فیمنسٹ تھیں مگر اکثریت ڈیویلپمنٹ پالیسی مشاورت کا کام کرنے لگیں۔

جس باہمی علمی تعلق کی طرف اُپ کا اشارہ ہے، وہ تعلق بائیں بازوں کی سیاسی جماعت عوامی ورکرز پارٹی نے پہلی بار بنایا۔ پارٹی کے اندر سو شلسٹ فیمنسٹ فریم ورک کو پوری قوت سے پلگ کیا گیا۔

اس کے علاوہ میری نظر میں ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ سوشلسٹ فیمنزم کا ایک کلیئر نکتہ نظر رکھتی ہے اور اس باہمی رشتے کو جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت پبلک اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں تعلیم و تدریس سے وابستہ کئی فیکلٹی ممبران نا صرف فیمنسٹ عملی سیاست سے وابستہ ہیں، بلکہ انکی اکثریت سوشلسٹ فیمنسٹ مؤقف رکھتی ہے۔

پاکستان میں جو ینگ شہری خواتین اپنی ذاتی زندگی میں سماجی قدغنوں کے خلاف اپنی شخصی آزادی کے لئے بغاوت پر آمادہ ہیں، وہ فیمنسٹ تحریک میں آ رہی ہیں۔ یہ اپنی نوعیت میں ِ انفرادیت پر مبنی باغیانہ مزاحمت سہی، اور اُنکی مزاحمت ایک شعوری فیمنسٹ جدوجہد ہو یا نہ ہو، ، مگر اِس عمل میں وہ تحریکوں سے جُڑ کر فیمنسٹ علم اور تنقیدی شعور حاصل کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا نے بھی اِس تعلق کو نہ صرف پاکستان میں بنانے، بلکہ بین القوامی طور پر فیمنسٹ نظریات اور بیانیہ بنانے میں ایک مثبت کردار ادا کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر آئیڈیاز کی کراس فرٹلائزیشن ہو رہی ہے، اور اس طرح فیمنسٹ شعور نمو پا کر فیمنسٹ تحریک کا حصہ بن رہا ہے۔ اس کا اظہار ہمیں عورت آزادی مارچ اور عورت مارچ میں نوجوان مردوں کی شرکت کی شکل میں بھی نظر آیا۔

عصمت شاہ جہان: پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیوں میں کیا صورتحال ہے؟

ڈاکٹر فرزانہ باری:   ایک ادارے کے طور پر تو پرائیویٹ یونیورسٹیاں فیمنسٹ سکالرشپ میں کو ئی حصہ نہیں ڈال رہیں مگر ان یونیورسٹیوں کے فیکلٹی میں ترقی پسند اور فیمنسٹ موجود ہیں جو کہ اپنی انفرادی حیثیت میں کام کر رہے ہیں، جیسے کہ لمز یونیورسٹی اور حبیب یونیورسٹی۔ یہاں فیمنزم اور مارکسزم پر علمی بحثیں کرائی جاتی ہیں، نیو لبر ازم کو چیلنج کیا جاتا ہے، اور طلباء بھی اِن موضوعات پر ریسرچ تھیسس کرتے ہیں۔

عصمت شاہ جہان: آپ این جی او سیکٹر کی مطبوعات اور ٹریننگ پروگراموں کے بارے میں کیا نکتہ نظر رکھتی ہیں؟

ڈاکٹر فرزانہ باری:   اُنکا کام انسانی حقوق اور لبرل اکنامک فریم ورک کے اندر ہے، یعنی کہ بورژوا ڈیموکریسی کہتی ہے،وہ جو شہریوں کو مخصوس ہیومن رائٹس دیتی ہے(جو کہ عملی طور پر نہیں ہوتے، مگر تھیوریٹکلی ہوتے ہیں) تو این جی اوز کی سکالرشپ نے اِس تضاد کو ضرور بے نقاب کیا ہے۔ ویسے این جی اوز کا کام موجودہ نظام کے اندر ہی عورتوں کی معاشی، سماجی اور سیاسی امپاورمنٹ کے نکتہ نظر پر مبنی ہے: یہ کہ لبرل/ بورژوا ڈیموکریسی کے اندر جن حقوق کا تھیوریٹکلی وعدہ ہے، ریاست وہ حقوق بھی شہریوں کو نہیں دے رہی، یا اُن حقوق کی راہ میں نظام کی طرف سے کیا رکاوٹیں ہیں، یا اسی اکنامک اور سیاسی نظام کے اندر آگے بڑھنے کا رستہ کیا ہے، این جی اوز کا کام اسی حد تک ہے۔ مگر سوال تو یہی ہے کہ اگر ناانصافی پر مبنی موجودہ نظام کو آپ ایک لیفٹسٹ اور سوشلسٹ فیمنسٹ فریم ورک سے چیلنج نہیں کر رہے، اور حقوق کی راہ میں رکاوٹ اگر نظام ہی ہے، تو پھر اس رکاوٹ کو دور کئے بغیر اور اِس نظام کی ساخت اور ڈھانچہ بدلے بغیر کیا حقوق مل سکتے ہیں؟

اَسی کی د ہائی میں لیفٹ کے چند لوگوں نے این جی اوز کے پلیٹ فارم سے کچھ سیاسی کام کی کوشش کی لیکن این جی اوز کا کام اب بہت پروجیکٹائز ہو گیا ہے اور اب وہ زیادہ تر بہتر جینڈر انڈیکٹرز دکھانے کی رپورٹیں تیار کرتے ہیں۔ اور عورت کی زندگی میں بنیادی تبدیلی اور صنفی مساوات کا عزم نہیں رکھتے۔

جہاں تک ا ین جی اوز کی ٹریننگ پروگراموں کا تعلق ہے، تو وہ بنیادی طور پر ڈیویلپمنٹ پریکٹیشنرز کے لئے ہوتی ہیں اور اِن میں زیادہ تر ڈیویلپمنٹ کاروباری ہوتے ہیں۔

عصمت شاہ جہان: کیا سیکنڈری سطح پر فیمنسٹ تعلیم ہے؟

ڈاکٹر فرزانہ باری:  اس سطح پر ابھی تک فیمنسٹ تعلیم کو متعارف نہیں کرایا گیا ہے، مگر یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ ایسا کرنا چاہئے۔ باقی نوجوانوں میں فیمنسٹ شعور بنیادی طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے ہی اُجاگر ہو رہا ہے، اور وہ فیمنسٹ تحریک میں آ رہے ہیں۔

عصمت شاہ جہان: آپکے تجزئے کے مطابق مجموعی طور فیمنسٹ تعلیم، اور علم و دانش کی صورتحال انتہائی خراب ہے، اور جو بھی تھوڑا بہت کام ہوا ہے، وہ اکثر لبرل فیمنسٹ یا مذہبی فیمنسٹ نوعیت کا ہے۔سوشلسٹ فیمنسٹ علم و تعلیم کو بڑھانے کے لئے آپ کیا تجویز کریں گی؟

ڈاکٹر فرزانہ باری:   سب سے پہلے تو فیمنسٹ دانشوروں اور لکھاریوں، خاص طور پر سوشلسٹ فیمنسٹوں کی نشاندہی کی جائے، اُنکی لِسٹ بنائی جائے، پھر اُنکا ایک اکٹھ بنایا جائے، تاکہ وہ آنے والی نسلوں کے لئے کچھ لکھ چھوڑیں۔سوشل میڈیا کی وجہ سے ٹیکسٹ بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ علمی اور فکری لحاظ سے ٹیکسٹ بہت اہم ہے۔ یہ اکٹھ انفرادی اور مشترکہ طور ٹیکسٹ پروڈیوس کریں، اور چھوٹے پمفلٹس بھی لکھیں۔ ناریواد سوشلسٹ فیمنسٹ ٹیکسٹ پروڈیوس کرنے کا ایک بہت اچھا ذریعہ ہے۔

جو فیمنسٹ علم و شعور مباحثوں کے ذریعے پیدا ہو رہا ہے، اُن مباحثوں کو بھی ڈاکومنٹ کرنے کی ضرورت ہے: کہ سوال کس طرح کے اُٹھ رہے اور جواب کس طرح کے چاہئیں۔ اُن سوالوں کو دانشوروں، خاص طور پر ایکٹیوسٹ ماہرین تعلیم کے پاس لے جایا جائے۔ اس کے علاوہ ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی طرز پر ٹیکسٹ کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ سٹڈی سرکل کئے جائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .