‘‘پراپیگنڈہ آرٹ: ڈرامہ سیریز ’’عہدِوفا

اس ڈرامے کو ایک کروڑ لوگوں تک پہنچایا گیا (فوٹو: ہم ٹی وی فیس بُک)

ڈرامے میں پنہاں سیاسی اور سماجی تصورات کا تنقیدی جائزہ

تحریر: عصمت شاہجہان اور طوبیٰ سید

تعارف

کارپوریٹ ٹیلی وژن چینل ’’ہم ٹی وی‘‘ اور انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی.ایس.پی.آر) کی مشترکہ پروڈکشن پر مبنی ڈرامہ سیریز ’عہد وفا ‘ نے عوام میں بےحد مقبولیت پائی۔ اِسے ایم ڈی پروڈکشنز کی مومنہ دُرید نے آئی.ایس.پی.آر اور ماسٹر پینٹس کے تعاون سے، اور آئی ایس پی آر کی نگرانی میں پروڈیوس کیا ہے۔’ہم ٹی وی‘ کے ڈائریکٹر سیفی حسن اس کے ہدایتکار ہیں۔ مصطفی آفریدی نے سکرپٹ لکھا ہے۔ اہم اداکاروں میں احد رضا میر، علیزے شاہ، عثمان خالد بٹ، احمد علی اکبر، زارا نور عباس، اور وجاہت علی شامل ہیں۔ ڈرامے میں جہاں ایک طرف ‘خوش شکل” مانے جانے والے اداکاروں کو لیا گیا، وہیں یہ 1997-98ء میں پی ٹی وی پہ چلائے گئے آئی ایس پی آر کے ڈرامے “الفا، براوو، چارلی” کا سیکوئل (تسلسل) ہے، اور اسی ڈرامے سے شہرت پانے والے ’فراز‘ کے کردار کو ایک فوجی دکھایا گیا ہے، جس سے لوگوں میں ایک وابستگی اور نوسٹیلجیا کو ابھارا گیا۔ یاد رہے کہ شعیب منصور کی بنائی ہوئی ڈرامہ سیریز ’’الفا، براوو، چارلی’’ خود سے آئی ایس پی آر کے ایک اور ڈرامے’ سنہرے دن‘ کا سیکوئل ہے، جسے شعیب منصور ہی نے پی ٹی وی کے لئے 1989 میں بنایا تھا۔ پچھلی تین دہائیوں کے دوران آئی ایس پی آر کمرشل سینما کے لئے ذہن سازی  پر مبنی مسلسل اِسی طرح کے موضوعات پر بیشمار بلاک بسٹر فلمیں بھی بنا چکا ہے۔ گویا افغان انقلاب کے بعد سے فوج اپنے لئے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے پچھلی چار دہائیوں سے مسلسل رائے سازی کر رہی ہے ۔

ڈرامہ سیریز ’عہدِ وفا‘ کُل 25 اقساط پر مشتمل ہے۔ اسے ستمبر 2019ء سے مارچ 2020ء کے درمیان دو ٹی وی چینلز (ہم ٹی وی اور پی ٹی وی ہوم) پر چلایا گیا۔ اس کے علاوہ اسے بیک وقت ہم ٹی وی اور آئی.ایس.پی.آر کے یو ٹیوب چینلوں پر بھی چلایا گیا۔ اور اب اِسے پشتو ڈبنگ کے ساتھ اکتوبر 2020 ء سے ٹی وی چینل ’ہم پشتو 1 ‘ پر خاص طور پر پشتونوں کے لئے چلایا جا رہا ہے۔ اب تک تقریباََ دو کروڑ لوگ اسے دیکھ چکے ہیں۔1

یہ مضمون پراپیگنڈہ آرٹ پر مبنی اس ڈرامہ سیریز میں استعمال کئے جانے والے پنہاں تصورات، تشبیہات، اخلاقیات، جمالیات، اور راغب کرنے والے پنہاں پیغام کا تنقیدی جائزہ پیش کرتا ہے، اور ڈراموں کے ذریعے قومی سلامتی ریاست (نیشنل سیکورٹی سٹیٹ) کے تصور کو رائج کرنے، اور فوج کی طرف سے اِس تصور کے حمایت میں عوام کی ذہن سازی کے فنی منصوبوں کو سامنے لاتا ہے۔

ڈرامے میں ریاست کا پنہاں تصور

ڈرامے کے مرکزی موضوع ’’عہد اور وفا ‘‘ ہیں۔  پروپگینڈہ آرٹ پر مبنی یہ ڈرامہ سیریز بظاہر چار لڑکوں (سعد فراز، ملک شاہ زین، شہریار افضل، شارق حبیب) کی دوستی کے گرد گھومتا ہے۔ آغاز کی چند قسطوں میں یہ دوستی لارنس کالج، مری میں زیرِ تعلیم اور اُسی کے ہاسٹل میں رہائش پذیر چار نو عمر لڑکوں کی بےضرر دوستی کے لئے ’’عہدِ وفا‘‘ سے شروع ہوتا ہے، مگر بعد میں ناظرین کی دلچسپی حاصل کر چُکنے کے بعد آہستہ آہستہ یہ ایک سیاسی اور جنگی پلاٹ میں بدل جاتا ہے، اور آخر میں ریاست اور عوام کی طرف سے فوج کے ساتھ ’عہد اور وفا‘ کا پیغام دیتا ہے۔ یہ لڑکے بظاہر اکٹھے پڑھنے کے بعد فوج، سیاست، میڈیا اور سول بیوروکریسی کو کیریر بناتے ہیں، مگر پنہاں طور پر یہ کردار ریاست کے ستونوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ڈرامے کی تخلیق کے بارے میں بی.بی.سی سے گفتگو میں اِس کے ہدایتکار سیفی حسن کا خود کہنا ہے کہ ’’ہمیں آغاز میں کہا گیا تھا کہ چار دوست دکھانے ہیں جو بعد میں اپنے کیریر میں ریاست کے چار ستونوں کی نمائندگی کریں گے‘‘۔2 وہ چار کردار یہ ہیں: مرکزی کردار سعد فراز (فوج)، ملک شاہ زین (مُقننہ)، شہر یار افضل (ایگزیکٹیو)، اور شارق حبیب (میڈیا)۔

ریاست کی نمائندگی کرنے والے چار کردار (امیج: پبلک ڈومین)

علوم پولیٹکل سائنس کی تعریف کے مطابق ہر جدید ریاست چار بنیادی ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، جنہیں ریاست کے اعضاء بھی کہا جاتا ہے: اِن میں مقننہ، ایگزیکٹو، عدلیہ اور میڈیا شامل ہیں۔ میڈیا کو جدید دنیا میں ایک ستون سمجھا جاتا ہے کیونکہ ریاستی امور میں میڈیا کا کردار بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس کے بر عکس ڈرامے میں ریاست کے جو چار ستون دکھائے گئے ہیں وہ فوج، میڈیا، ایگزیکٹیو اور مقننہ ہیں۔ جبکہ پولیٹکل سائنس میں فوج کو جدید ریاست کا ستون نہیں مانا جاتا بلکہ یہ ایگزیکٹیو کا صرف ایک محکمہ ہوتا ہے۔ اور ریاستی و معاشی امور میں فوج کے عمل دخل کو مداخلت اور ’’غلبہ‘‘ یعنی (ہیجیمنی) مانا جاتا ہے۔ ڈرامے میں عدل و انصاف کا تصور اور عدلیہ کو سرے سے غائب کر دیا گیا ہے، اور اس کے بجائے فوج کو ریاست کا ستون مانا گیا ہے۔ جبکہ ’ریاست‘ کو اِن نوعمر لڑکوں کے ’گروپ‘ سے تشبیہہ گئی ہے، اور گروپ (یعنی ریاست) کا نام ’ایس.ایس.جی‘ رکھا گیا ہے۔ ڈرامے میں ایس.ایس.جی کا بظاہر مطلب’’سپیشل ایس گینگ‘‘ دکھایا گیا ہے، کیونکہ ان چاروں دوستوں کے نام ’’ایس‘‘ سے شروع ہو تے ہیں۔ جبکہ اس سمبلزم کے پیچھے حقیقی زندگی میں فوج کا سب سے لڑاکا ونگ سپیشل سروسز گروپ ’ایس.ایس.جی ‘ہے، جو کہ سپیشل آپریشنز اور ڈائریکٹ ایکشنز کرتا ہے۔ گویا ریاست کا پنہاں تصور یہ ہے کہ صرف فوج ہی نہیں بلکہ اُس کی ایس.ایس.جی ہی ریاست ہے، مطلب ڈیپ سٹیٹ ہی سٹیٹ ہے !۔

کردار نگاری اورسماجی تصوارت

اِن چار نو عمر لڑکوں (سعد فراز، شاہ زین، شہریار، اور شارق) کا تعلق سماج کی مختلف پرتوں اور طبقات سے ہے۔ یہ کردار مختلف اقدار کے گرد تراشے گئے ہیں، جن میں طبقاتی اور سویلین تعصب واضح ہے۔

سعد فراز (بڑے ہو کر آرمی کیپٹن بنتا ہے، اور ڈرامے میں ’فوج‘ کی نمائندگی کرتا ہے) کا کردار ریاست اور سماج کی نظر میں ایک آئیڈیل نوجوان کے طور پر تراشا گیا ہے۔ وہ اس کہانی کا ہیرو ہے۔ وہ میجر جنرل کا بیٹا ہے۔ اُسے ہونہار، فرمانبردار اور سلجھا ہوا دکھایا گیا ہے۔ اس کے خاندان میں فوجی باپ، ایک تعلیم یافتہ ملازمت کرنے والی ماں، ایک آرٹسٹ بہن ہیں۔ اس کردار اور خاندان کو ایک خوش باش، خوش اخلاق اور مہذب، دیانت دار، شفیق اور آرٹسٹک خاندان کے طور پر دکھایا جاتا ہے، اور سعد کو اپنے خاندانی وقار کا پاس رکھنے والا وہ ایک بیٹا دکھایا گیا ہے جو اپنے والدین کو کبھی ’’نا‘‘ نہیں کہتا۔ ڈرامے کا زیادہ وقت اسی خاندان، اور کردار کو دیا گیا ہے۔ ڈرامے میں سعد کے کُتے ’’زورو‘‘ کا بھی کردار ہے، جس کو سب احترام دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ حقیقی زندگی میں یہ کُتا اس وقت کے چیف آئی ایس پی آر، جنرل آصف غفور کا پالتو کُتا ہے اور اُس کا حقیقی نام بھی ’’زورو‘‘ ہے۔

ملک شاہ زین (جو بڑے ہو کر سیاستدان/ ایم.این.اے بنتا ہے، اور ڈرامے میں ریاستی ستون’ مقننہ’ کی نمائندگی کرتا ہے) کا تعلق اندرون نارتھ پنجاب کے ایک دیہات میں بڑے جاگیردار گھرانے سے دکھایا گیا ہے۔ گویا شاہ زین (مقننہ کا نمائندہ) کا تعلق نارتھ پنجاب کا فیوڈل گھرانے سے ہے، مطلب سیاست کی شناخت نارتھ پنجاب کے فیوڈل کی ہے۔ اُِس کے خاندان میں ہوشیاری، چالبازی، تشدد، اور تیزوتُند مردانگی دکھائی گئی ہے۔ شاہ زین کا دادا علاقے میں بہت رسوخ رکھتا ہے۔ خاندان قیمتی چمکیلے فانوسوں اور مخملیں پردوں والی ایک بڑی لال حویلی میں رہتا ہے۔ گھڑ سواری، شکار اور کرکٹ کے شوقین ہیں۔ شاہ زین شروع میں اپنے گروپ میں لیڈر، باقیوں کی نسبت شوخ مزاج، اور حاضر جواب دکھایا ہے، مگر بڑے ہو کر یہ والا مزاج کھو دیتا ہے، اور سیاستدان بن کر ضدی اور سازشی دکھایا گیا ہے۔ ڈرامے کا زیادہ وقت دوسرے نمبر پر اِسی خاندان کے گرد منظم ہے۔

شہریار افضل (بڑے ہو کر اسسٹنٹ کمشنر بنتا ہے، اور ریاستی ستون ایگزیکٹیو، سول بیوروکریسی کی نمائندگی کرتا ہے) کا تعلق شروع کی اقساط میں ایک محنت کش طبقے کے خاندان سے ہے۔ اُس کا والد پنڈی کے گلی محلوں کی شادیوں میں موسیقی بجانے والا ایک بینڈ کا ماسٹر ہے اور اکثر بیمار بھی رہتا ہے۔ خاندان میں ایک ماں اور ایک نوعمر بہن ہے۔ شہر یار اپنی پڑھائی کا خرچہ شام کو بینڈ بجا کر پوری کرتا ہے۔ اس کے خاندان کو ڈرامے میں کچھ زیادہ نہیں دکھایا گیا ہے۔ شہر یار کے کردار کو بنیادی طور پر غربت کی زندگی سے نکلنے کا خواب رکھنے والے نوجوان کے گرد بُنا گیا ہے۔ جس کی محنت صرف طبقاتی سیڑھی پر بالا طبقے میں جانے کے لئے ہے۔ پچیس قسطوں کے ڈرامے میں، کہیں بیسویں قسط میں جا کر وہ اسسٹنٹ کمشنر بنتا ہے۔

شارق حبیب (جو بڑے ہو کر ایک مشہور جرنلسٹ بنتا ہے، اور ریاستی ستون ’میڈیا‘ کی نمائندگی کرتا ہے) کا تعلق شروع کے اقساط میں محنت کش خاندان سے ہے۔ اس کی ماں بیوہ ہے اور بہن نرس ہے۔ بہن دو جگہوں پر کام کر کے اُس کی فیس بھرتی ہے، اور گھر چلانے کی ذمہ داری کی وجہ سے کافی مدت تک شادی نہ کرنے پر مجبور ہے، اور پھر آخر میں خفیہ شادی کرتی ہے۔ مکان پکا ہے، مختصر ہے اور شہری اطراف میں ہے۔ اُس کے خاندان کو حرام خور اور بہن کو بدکردار دکھایا گیا ہے۔ اُس کے خاندان کو دکھایا بھی کم گیا ہے۔ شارق بڑے ہو کر سوشل میڈیا پر نیوز رپورٹنگ چینل شروع کرتا ہے، اور بعد میں کسی اعلی نیوز چینل میں نیوز اینکر کے طور پر کام کرتا ہے اور بہت زیادہ شہرت پا لیتا ہے۔پورے ڈرامے میں بار بار دکھایا گیا ہے کہ مین سٹریم میڈیا بدعنوان ہے اور شارق کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، مگر وہ بد عنوان اور جھوٹا نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ شارق کا ذاتی کردار آئی.ایس.پی.آر کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔

اِن چار کرداروں کے علاوہ دو اہم سپورٹنگ کرداروں میں دو نو عمر لڑکیاں (دُعا اور رانی) بھی ہیں، جن میں ایس.ایس جی کے دو لڑکے دلچسپی لیتے ہیں:۔

دُعا کے کردار کو ریاست، فوج اور سماج (خاص طور پر مڈل کلاس) کی نظر میں “بہت اچھی لڑکی” مانے جانے والی لڑکی کے تصور کے گرد تراشا گیا ہے۔ دُعا (بڑے ہو کر فوجی ڈاکٹر بنتی ہے) اِسلام آباد کی رہائشی ہے، اور ایک سویلین مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اُس کا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ دکھایا گیا ہے۔ دُعا اپنے کلاس میں ہمیشہ ٹاپ کرنے والی اور تعلیم اور کیریر پر فوکس رکھنے والی لڑکی دکھایا گیا ہے۔ اُسے بہت سُلجھا ہوا، محب وطن، والدین کی فرمانبردار اور خیال رکھنے والی، نمازی اور آرٹسٹک لڑکی کے کردار میں دکھایا گیا ہے۔ وہ مری میں اپنے چاچا کے گھر آتی جاتی ہے، جہاں اُس کی ملاقات لارنس کالج کے اِس ایس.ایس.جی گروپ کے لڑکوں سے ہوتی ہے۔ فوجی کا بیٹا(سعد) اور جاگیر دار کا بیٹا (شاہ زین) دونوں دُعا میں دلچسپی رکھتے ہیں، بلکہ اُن کے درمیان اختلافات دُعا کے گرد ہی رہتے ہیں۔ ڈرامے کی نویں قسط میں شاہ زین کہتا ہے کہ:۔

۔’’وہ لڑکی مجھے بھی پسند ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اُسے جیت کے لے جاتا ہے، ایک فوجی، یا مَلک شاہ زین!‘‘۔

دوسری لڑکی رانی ہے(بڑے ہو کر شاہ زین کی بیوی بنتی ہے) ، جو شاہ زین میں دلچسپی رکھتی ہے۔ چونکہ اُس کا تعلق شاہ زین سے ہے، اور سیاستدان ہونے کے ناطے ڈرامے میں اُس کی کردار کشی کی گئی، اس لئے رانی کی بہت کردار کشی کی گئی ہے۔ رانی کا کردار باپ کے لاڈ سے بگڑی ہوئی لڑکی کے تصور کے گرد تراشا گیا ہے۔ رانی، شاہ زین کے گاؤں کی رہنے والی ہے، اور وائٹ ہاؤس کی طرح بڑے بڑے سفید ستونوں، بڑے بڑے برآمدوں، بارہ سنگھے رکھنے والے باغوں کی حویلی میں رہتی دکھائی گئی ہے۔ اُس کی ماں کے پاس تین سو تولے سونا دکھایا گیا ہے۔ وہ اپنے والدین کی چہیتی ہے۔ اُسے ایک کاروباری زمیندار چوھدری کی بار بار فیل ہونی والی نالائق اور امتحان میں نقل سے پاس ہونے والی، والدین کو دھوکہ دینے والی، بہت ہی فلمی، شادی کی دیوانی، اور خود بھی ڈرامے باز لڑکی کے طور پر کھایا گیا ہے۔ اُسے ایک معیوب انداز میں گھڑی گھڑی میک اپ کرتے اور طِلے دار رنگین ملبوسات میں دکھایا گیا ہے۔ ایک طرح سے، ڈرامے کے روکھے اور سوکھے پن کو کم کرنے کے لئے رانی کے مزاحیہ کردار کے ذریعے انٹرٹینمنٹ میں اور جان ڈالی گئی ہے۔

ڈرامے کی شروعات اور اختتام

شروع کے تین قسطیں چاروں نوعمر طالب علم لڑکوں کے کرداروں کے تعارف اور پلاٹ کی سیٹنگ، اور اُن کے درمیان بے ضرر دوستی اور تعلق کی تشکیل کے بارے میں ہیں۔ اِس دوران میں اُستادوں اور وارڈن کے کرداروں اور لارنس کالج کے ذریعے مطالعہ پاکستان میں شامل سب ہیروز، تصویروں اور کرداروں اور مقامات متعارف کرائے جاتے ہیں۔

چوتھی قسط سے بیسویں قسط تک ایس.ایس.جی ٹوٹنے، چار کرداروں (شاہ زین، سعد، شہریار، شارق) کے بڑے ہونے، اور شاہ زین (مقننہ) اور سعد (فوج) کی آپسی لڑائی میں لگ جاتے ہیں۔

کہانی تیسری قسط میں ایک دلچسپ موڑ تب لیتی ہے جب ان چار لڑکوں کو ہوسٹل میں کرفیو ڈسپلن کی خلاف ورزی، شرارتیں کرنے، فلمیں دیکھنے کے لئے شام کو ہوسٹل کی دیوار پھاندنے، اور مری میں سڑک پر ’دُعا‘ کو چھیڑنے کی سزا میں لارنس کالج سے نکالا جاتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ دُعا میں سعد کی دلچسپی کو لے کر، اُس کے دوست دُعا سے اس بارے میں سڑک پر بات چیت کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اسی دوران دُعا کا کزن آ جاتا ہے (وہ بھی دُعا میں دلچسپی رکھتا ہے)، اور مارا ماری شروع کر دیتا ہے۔ اِتنے میں پولیس آ جاتی ہے، تین دوست بھاگ جاتے ہیں، اور سعد فراز (فوجی کے بیٹے) کو پولیس لے جاتی۔ جس کے نتیجے میں سب کالج سے نکالے جاتے ہیں، اور اس طرح ایک نوبل فوجی خاندان اور سعد کی سُبکی دکھائی جاتی ہے، جبکہ باقیوں کی سُبکی کا مسئلہ نہیں دکھایا جاتا۔ گویا، تین سویلین فیملیز کے لڑکے (مطلب تین ریاستی ستون)، ایک فوجی فیملی کے لڑکے (مطلب فوج) کا ساتھ نہ دے کر اُس سے ‘بیوفائی’ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں دوستی کا “عہدِ وفا” توڑنے کو لے کر ایس ایس جی (مطلب ریاست) بکھر جاتی ہے۔

سعد فراز کالج سے نکالے جانے کی بات کو دل پر لے لیتا ہے،ا ور اِس کے لئے اپنے دوست ملک شاہ زین کو مورد الزام ٹھہراتا ہے اور اُس سے دوستی ختم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، اور ایس.ایس.جی ٹوٹ جاتا ہے۔ اس پر ملک شاہ زین اپنی شوخ مزاجی کھو بیٹھتا ہے اور بدلہ لینے کے لئے، سعد کی پسند (دُعا) کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ جو کسی وجہ سے شادی نہیں ہوتی ہے اور ’’ہیرو‘‘ یعنی فوجی کا بیٹا (کیپٹن سعد فراز) لڑکی سے وابستہ رہتا ہے۔ 25 قسطوں کے اس ڈرامے میں دُعا کے معاملے پر ان دونوں کی لڑائی تیسری قسط سے اکیسویں قسط تک جاری رہتی ہے۔ جب تک سعد اور دُعا شادی نہیں کر لیتے( یعنی ریاستی اداروں میں لڑائی جاری رہتی ہے)۔

اکیسویں قسط سے بیانیہ بدلنا شروع ہو جاتا ہے اور ان کرداروں کے رویوں میں تبدیلی دکھائی جاتی ہے، اور کرداروں کو دوبارہ تراشا جاتا ہے، جیسے کہ فوج کی نظر میں انہیں ہونا چاہیئے۔ سب دوستوں (مطلب ریاستی اداروں) کے اختلافات کو ختم کیا جاتا ہے۔ سعد کی شادی کے وقت انہیں اکٹھا کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ شاہ زین (مقننہ) کو آخر میں فوج کے نکتہ نظر سے سُدھارا جاتا ہے۔ شاہ زین، سعد (فوج) سے کہتا ہے کہ” تجھے میری نہیں، مجھے تیری زیادہ ضرورت ہے۔ “

تیسری قسط سے ہی پورے ڈرامے کا بیانیہ آہستہ آہستہ نیشنل سیکورٹی سٹیٹ،’بیرونی دشمن‘ یعنی انڈیا سے خطرے کے گرد بُنا گیا ہے۔ جس طرح ’’الفا، براوو، چارلی‘‘ کو سیاچین کے جنگ کے گرد بُنا گیا تھا، جس میں پاکستان فوج کی دلیری اور محافظ کے کردار کو اُبھارا گیا تھا، اور جیت دکھائی گئی تھی، بالکل اُسی طرح ‘عہد وفا ‘ کے آخر میں کشمیر میں پلومہ کے تنازعے کو فوکس کیا گیا ہے، اور انڈین ایئر فورس کے پائلٹ ا بھی نندن کو پکڑنے، اور پاک آرمی کے کردار کو سرخرو دکھایا گیا ہے۔ اور مرکزی کردار کیپٹن سعد فراز کو کشمیر محاذ کے لائن آف کنٹرول (ایل.او.سی) پر لڑتے ہوئے شدید زخمی ہونے کے بعد غازی دکھایا جاتا ہے۔

اختتامی قسطوں میں کشمیر لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں شروع ہونے کے بعد کہانی میں اہم موڑ آتا ہے، اور اسی پس منظر میں ایس ایس جی گروپ کے چاروں دوست ” حُب الوطنی” کے جذبے کے تحت سب اختلافات کو مکمل بھلاتے دکھایا جاتا ہے۔ تینوں کردار (مقننہ، ایگزیکٹو، میڈیا) فوج کا ساتھ دینے کے لئے اکٹھے ہوتے اور کشمیر پہنچتے دکھایا جاتا ہے۔ اختتام سے پہلے پورے ڈرامے کی قسطوں میں سوائے فوج کے، سب کرداروں، ریاستی اداروں اور خاندانوں کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ مگر آخر میں مزاحیہ انداز میں ملک شاہ زین کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین پوسٹ ہوتا دکھایا جاتا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر کو بھی مظفر آباد میں پوسٹ کرا دیا جاتا ہے۔ شارق کو بھی ایل.او.سی سے رپورٹنگ کرتا دکھایا جاتا ہے۔ اور کیپٹن ڈاکٹر دُعا کو بھی کشمیر میں پوسٹنگ لیتے دکھایا جاتا ہے۔ مطلب ریاست کے سب ادارے ِ صرف اُس وقت اچھے ہیں، جب تک وہ فوجی کا ساتھ دیں، اور جنگیں لڑیں!۔

ڈرامے میں سول بیوروکریسی کا تصور

سِول بیوروکرٹیک نظام کی کردارکشی کی گئی ہے، مگر محدود انداز میں۔ اسسٹنٹ کمشنر کو کرپٹ بیوروکرٹیک نظام میں کوشش کرتے، جبکہ سینئر بیوروکریسی کو زمینوں پر قبضہ گیروں کا ساتھ دینے والا دکھایا گیا ہے۔ یہ مکالمے سول بیوروکریسی کے بارے میں ڈرامے میں دئیے گئے نکتہ نظر کی وضاحت کرتے ہیں: شہر یار کہتا ہے کہ ” ایشوز سسٹم میں نہیں ہے، ایشوز سسٹم میں موجود جونکوں (لیچیز) میں ہے (قسط21)۔

شہر یار کے کردار کو فوج کی ضروریات کے لئے” بیسٹ سویلین بیورو کریٹ” کی نظر سے مقننہ و قریب لانے کے سہولت کار کے طور بھی تراشا گیا ہے، یعنی فوج کی نظر میں بیوروکریٹ صرف وہ بیسٹ ہے، جو سعد (فوج) اور شاہ زین (پارلیمان)کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے میں مدد گار اور فرض شناس ہو تا ہے۔ شہر یار جیسے ہی اسسٹنٹ کمشنر بنتا ہے، وہ شاہ زین کو سعد سے نہ ملنے کی وجہ سے ناپسند کرنے لگتا ہے، اور کئی بار یہ مکالمہ کہتا ہے کہ “ہم تینوں کا سعد (فوج) کے بغیر ملنا نہیں اچھا لگتا۔ اگر شاہ زین (مقننہ) ہمارا دوست ہے تو اُس نے سعد (فوج) کا کبھی کیوں نہیں پوچھا؟” مطلب تینوں دوستوں (مقننہ، ایگزیکٹو، اور میڈیا) کی دوستی کا تصور سعد (فوج) کے بغیر نامکمل دکھایا گیا ہے۔

دوسری قسط تک تینوں دوست اکھٹے ہوتے ہیں پھر ایس ایس جی ٹوٹتا ہے۔ تیسری تا اکسویں قسط تین دوست بشمول شاہ زین، شہریار، شارق (یعنی مقننہ، ایگزیکٹیو، اور میڈیا) ایک طرف ہوتے ہیں اور دوست رہتے ہیں، مگر سعد (فوج) دوسری طرف۔ تئیسویں قسط میں سعد کی دُعا سے شادی کے وقت پھر سے چاروں اکٹھے کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ اور اگلی قسط میں پاکستان کی ریاست کو ہندوستان سے کشمیر پر حملے کی روشنی میں سب یک جان دکھائے جاتے ہیں۔ اور سب کو قریب لانے میں شہریار (ایگزیکٹیو) سب سے اہم کردار دکھایا جاتا ہے۔ آخر میں شہریار کو کشمیر میں پوسٹ کرایا جاتا ہے، اور کشمیر جنگ میں لوگوں کو مدد فراہم کرتے ہوئے، انکے لئے خیمہ بستیاں لگاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔۔ یعنی مکمل پوری کی پوری ریاست ‘وار بوائے!۔

ڈرامے میں سیاست کے بارے میں نظریات

ڈرامے میں سیاست کا تصور بہت منفی، ظالمانہ اور بورژوا ہے۔ سیاست کو جاگیرداروں، مَلکوں اور چوھدریوں کے بیچ میں اقتدار کی لڑائی دکھایا گیا ہے۔ اور سیاستدان کو کسی ایسے شخص کے طور پر دکھایا گیا ہے، جو امیر ہوتا ہے اور وہ صرف اقتدار چاہتا ہے، اور اِس کے مخالف سیاستدان یا تو بالکل بدبخت ہیں یا بدتر ہوتے ہیں۔ پورے ڈرامے میں سیاست کو ایک بُری چیز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور شاہ زین (مقننہ) کے کردار کو بہت جارحانہ، متشدد، سازشیانہ، اور شیطانی دکھایا گیا ہے۔

چوتھی قسط میں شاہ زین لڑکی کے مسئلے پر کالج سے نکالے جانے کے بعد، غصے میں آ کر اپنے گھوڑے کو ریس ہار جانے پر ماتھے پر گولی مار کر قتل کر دیتا ہے۔ جب شاہ زین سیاست میں شامل ہونے اور انتخابات لڑنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اُسے وہ اِنسان دکھایا گیا ہے جو صرف اقتدار اور اختیار کے لئے سیاست میں جا رہا ہے۔ سیاست کے بارے میں یہ مکالمہ ایک ایسے کردار کا ہے جو نو منتخب سیاستدان شاہ زین کو سیاست سکھا رہا ہے:۔

اقتدار اور طاقت کے جتنے بھی کھیل یہاں کھیلے جاتے ہیں ان کے کوئی رولز (قواعد)  نہیں ہوتے۔ بس ان کا ایک مقصد ہوتا ہے، اوپر سے اوپر جانا، وہ چاہے کسی کے سر پر پیر رکھ کر چڑھنا پڑے یا دل پر۔ وقت لگے گا لیکن سیکھ جاؤ گے۔

جبکہ دوسری بار انتخابات کے وقت شاہ زین کا دادا اُسے کہتا ہے کہ “کب تک سیاست کے پیچھے ریاست کا حق مارتے رہیں گے؟۔” جس کا مطلب ہے کہ سیاست کی نہیں، ریاست کی بات کرو۔

انتخابات کو دھوکا دکھایا گیا ہے۔ شاہ زین اور اُس کی بیوی کو مردوں اور عورتوں کے جلسوں میں جھوٹے وعدے کرتے، اور اپنے سگوں کے خلاف سازشیں کرتے دکھایا گیا ہے۔ دوسرے الیکشن کے لئے شاہ زین کو خود کو گولی مار کر، اپنے سیاسی حریف / اپنے سالے کو جھوٹے قاتلانہ حملے کے مقدمے میں پھنسا کر، اُس کو نامزدگی کے کاغذات واپس لینے پر مجبور کرواتا دکھایا گیا ہے۔ اس کام میں اُسے اپنی بیوی، اپنے دوستوں (شہر یار اور شارق) کو بھی ملوث کرتا دکھایا گیا ہے اور پھر خود ڈیل کے ذریعے مقدمہ واپس لے کر الیکشن جیتتا دکھایا گیا ہے۔

اکیسویں قسط میں ایک جگہ جب شارق اپنے اسسٹنٹ کمشنر دوست شہر یار کو مشورہ دیتا ہے کہ لینڈ مافیا کے مسئلے پر شاہ زین سے سفارش کرا لیتے ہیں، تو شہر یار کہتا ہے کہ ’’ سارے کام ملک شاہ زین کریں گے اور ہم غبارے بیچنے چلے جائیں؟ ‘‘۔ اس پر شارق کہتا ہے کہ شاہ زین [یعنی سیاست دان] کو سسٹم کے چور دروازوں کا پتہ ہے۔” جیسے کہ سول اور فوجی بیوروکریسی میں کوئی چور دروازے نہیں ہیں!۔

آخر میں شہریار پولیس کے فائرنگ والے کیس میں سچائی اور شواہد سامنے لا کر شاہ زین کو شرمندہ کرتا دکھایا گیا ہے۔ پھر شاہ زین اعترافِ جُرم کرتا ہے، اور انتخابات میں لوگوں سے جھوٹے وعدوں سے توبہ گار ہو جاتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ’’میں اپنی سیٹ سے ہٹنا چاہتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ لوگ مجھے چھوڑ دیں، میں سیاست چھوڑنا چاہتا ہوں۔‘‘ جبکہ اُس کا دادا ملک اللہ یار اُسے سیاست کی نئی تعریف دیتا ہے، یعنی ’خلقِ خُدا کی خدمت‘۔۔۔ مطلب ’’اچھی سیاست‘‘ کو صرف نیکی اور خلقِ خدا کی خدمت کے طور پر پیش کیا گیا، نا کہ عوام اور محکوم قوموں کے حقِ حکمرانی کے طور پر!۔

شاہ زین کی سوچ (یعنی مقننہ) میں تبدیلی کو ووٹروں کے سامنے وعدہ دکھایا جاتا ہے، جہاں وہ ووٹروں سے کہتا ہے کہ “اب میں تین دن اسلام آباد اور چار دن آپ کے ساتھ رہوں گا ” گویا سیاست کوئی علاقائی یا سڑک اور گلی بنانے کا معاملہ ہے، ریاستی نہیں۔ اور آخر میں اُس کے کردار کو “اچھا” بنانے کے بعد اُسے کشمیر کمیٹی کا چیئرمین دکھایا جاتا ہے، اور سیاستدان کو کشمیر اور جنگ کے دفاع پر لگا دیا جاتا ہے۔

طبقاتی اور صنفی نظریات، اور سماجی اقدار

ڈرامے کی پسندیدگی کو یقینی بنانے کے لئے خاص طور پر مڈل کلاس کی خواہشات، جذبات، نفسیات، جمالیات، اور ثقافت کو مدِنظر رکھا گیا ہے۔ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے دوستوں (شہر یار، شارق) کو دولت، شہرت اور احترام محنت کے ذریعے کماتے دکھایا ہے (جیسے کہ باقی لوگ اس لئے غریب ہیں کہ وہ محنت نہیں کرتے)۔ ڈرامے میں غربت و افلاس، استحصال اور تعلیم کی طبقاتی نوعیت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ طبقہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے توڑنا اور اس کو بدلنا ہرگز مُشکل نہیں ہے۔

طبقاتی فرق کو” زندگی کے ایک دور” کی طرح پیش کیا گیا ہے۔ ڈرامے کے اختتام میں تمام دوستوں کی طبقاتی و معاشرتی حیثیت کو تقریباََ ایک جیسا درجہ حاصل ہوتا دکھایا گیاہ ے۔ اور سیاست کا تصور جاگیردارانہ ہے، جیسے کہ سیاست صرف جاگیردار طبقے سے تعلق رکھتی ہے، محنت کش طبقے کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اور نہ ہی وہ مزاحمت کرتی ہو، اور نہ ہی وہ ظالمانہ اور استحصالی طرزِ حاکمیت پر سوال اُٹھاتی ہو۔

ڈرامے میں دکھائے جانے والے صنفی تعلقات، مڈل کلاس پدر شاہانہ روایات پر مبنی ہیں (یعنی تعلیم، روزگار اور پسند کی شادی کی اجازت ہے)۔عورت کو نفاق کی جڑ دکھایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر پورے اسی.ایس.جی کی پدر شاہانہ یکجہتی ایک لڑکی دُعا پر لڑائی کی وجہ سے ٹوٹ جاتی ہے۔ طبقاتی اور مردانہ غرور اور غیرت کو لڑکی کے حصول کے ساتھ باندھا گیا ہے۔ دُعا سے شادی پر تین لڑکوں (دُعا کا کزن راحیل، سعد اور شاہ زین) کا مقابلہ اور لڑائی ہے، اور تینوں کے خاندان بھی اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ اس مقابلے میں ” اچھی لڑکی ” کیپٹن سعد سے شادی کی ہاں کرتی ہے۔ جبکہ سویلین لڑکوں کو مڈل کلاس معیار پر واجبی سی لڑکیاں ملتی دکھائی گئیں ہیں۔ شادی کے بعد دُعا کو حاملہ ہونے کے باوجود بارڈر پر انتھک کام کرتے دکھایا گیا ہے، جس کے ذریعے “ملک کی سلامتی” کے لئے عورتوں میں قربانی کا جذبہ اُبھارنے کو کوشش کی گئی ہے۔

ڈرامے میں فوج کے علاوہ، تمام ریاستی ستونوں کی نمائندگی کرنے والے ان کرداروں کی منفی کردار کشی کی گئی ہے، اور آرمی فیملی کے علاوہ سب کا سفر بھی مشکل ہے۔ معاشرے کا واحد حصہ جس کو بدعنوانی اور اخلاقی دیوالیہ پن سے مکمل طور پر صاف دکھایا گیا ہے، وہ فوج ہے۔ ڈرامے میں ایک کرپٹ میڈیا مالک، مقامی گینگسٹر کے ساتھ ساتھ ایک بدعنوان ڈاکٹر بھی دکھایا گیا ہے جو اپنی بیمار بیوی کے لئے کچھ اضافی نقد رقم حاصل کرنے کے لئے جعلی پوسٹ مارٹم رپورٹس پر دستخط کرتا ہے۔

یہ ڈرامہ معاشرے میں انسانی رشتوں میں عہد اور وفا کے تصورات پر ایک جذباتی حملہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ شروع میں نوعمر لڑکوں کا شرارتوں کے لئے “دوستی کا عہد وفا” ہوتا ہے، مگر آہستہ آہستہ جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے، وفا اور عہد کا تصور ملٹرائز کیا جاتا ہے۔ حبُ الوطنی کے تصور بھی کو ملٹرائز کیا جاتا ہے۔ ڈرامے میں انسانی رشتوں کے وفا اور عہد کے تصورات کو نہ صرف جنگی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا، بلکہ ان تصورات کو ملٹرائز کر کے واپس کالج میں بھی لے جایا گیا۔ گویا آخری تجزیے میں اس ڈرامے میں دوستی، محبت اور بھروسے کے سماجی اقدار جنگی مقاصد کے حصول، اور ہندوستان کے خلاف نفرت بڑھانے کے لئے استعمال ہوئے!۔

کشمیر آپریشن کے بعد ڈرامے کے آخری سین میں ایس.ایس.جی کے چاروں دوست کیپٹن سعد کی سربراہی میں لارنس کالج آتے ہیں، انکو ہیرو ویلکم دیا جاتا ہے، وہ تقریریں کرتے ہیں۔ کالج کے لڑکے انکو کھڑے ہو کر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ گویا نو عمری میں کالج سے نکالے جانے کا داغ بھی فوج کا ساتھ دینے کے عہد وفا سے دھویا گیا!۔

آخری سین میں پس منظر میں گانا بجتا ہے: ’’سب‘‘ عہد وفا تیرے نام کیا!۔

اس طرح  حکمران فوجی اشرافیہ نے کامیابی سے اپنی حاکمیت کے نظریے کو گن پاور کے بغیر عوام کی مرضی سے ان پر نافذ کر دیا، جس کو مارکسی دانشور گرامچی ” کلچرل ہیجیمنی”  یعنی ثقافتی بالا دستی کہتے ہیں۔3 ۔


References:

  1. Ehd-e-Wafa. Wikipedia ↩︎
  2. Mohammad Suhasib. BBC. 10 February 2020.عہد وفا: فوج کے اشتراک سے بنے ڈرامے میں ‘ادارے ‘بدنام کیوں؟ ↩︎
  3. Antonio Gramsci, 1971. Selections from the Prison Notebooks . International Publishers, New York ↩︎

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .