معاشی بُحران اور مزدور تحریک

روبینہ جمیل، جنرل سیکریٹری، آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن سے گفتگو

انٹرویو: شازیہ خان

شازیہ خان: حالیہ  کووڈ 19 کی وباء نے کم و بیش زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے، اس وباء نے مزدوروں اور محنت کشوں پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟

روبینہ جمیل: اس وباء نے سرمایہ د اری نظام یعنی مارکیٹ اکنامی اور اسکی نمائندہ ریاست کی مزدور دشمن نوعیت کو بے نقاب کیا ہے۔ اگر نظام میں مزدوروں کے لئے کوئی وسائل اور احساس ہوتا، تو اُج کروڑوں مزدور نوکریوں سے بیدخل نہ ہوتے۔ اس وباء کے سب سے زیادہ منفی اثرات ورکنگ کلاس پر پڑے ہیں۔ جب چین کے بعد دنیا میں کورونا وائرس پھیلنے کا سلسلہ شروع ہوا تو کیا ہماری حکومت یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ وباء پاکستان بھی پہنچے گی؟ انہوں نے کیا انتظامات کیے؟ ان کو چاہیے تھا کہ اس صورتحال میں مزدوروں کے نمائندوں سے بات کرتے کہ اس وباء اور لاک ڈاؤن کے نتیجے میں معاشی بحران سے کس طرح نبرد آزما ہونا ہے؟ اس وبا سے دیہاڑی دار مزدور، کانٹریکٹ ورکر کو بے حد نقصان پہنچا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ سرمایہ داروں کی کٹھ پتلی حکومت اس صورتحال سے نمٹنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ عمران خان نے سرمایہ داروں کو کروڑوں روپے کی بیل آؤٹ پیکیج اور ٹیکس بریکس دیے، اور مزدوروں کو صرف اعلانات۔ عمران خان نے پچاس لاکھ لوگوں کو روزگار دینے کا کہا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچاس لاکھ مزدور بیروزگار ہونے جا رہے ہیں۔ مختلف فیکٹریوں، اداروں اور سٹیل ملز سے مزدوروں کو نکالا جا رہا ہے۔ حکومت جو مزدوروں کو راشن فراہم کر رہی ہے اس سے ان کی بھوک نہیں مٹے گی، ہم ان کے لیے روزگار، تحفظ اور سوشل سیکورٹی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مزدوروں کی اکثریت چونکہ رجسٹرڈ نہیں ہوتی اور روزانہ کی اجرت یا کانٹریکٹ پر کام کرتے ہیں اسی وجہ سے فیکٹری مالکان کے لیے ان محنت کشوں کو اس وبا کے دنوں میں فارغ کرنا آسان تھا۔

شازیہ خان:  کیا آپ کے پاس کوئی ڈیٹا موجود ہے کہ اس وباء کے دنوں میں کتنے مزدوروں اور محنت کشوں کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا؟

روبینہ جمیل: اعداد و شمار تو اخباروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہی ہے کہ اگر مزدور رجسٹرڈ ہوتے تو ہمارے سامنے واضح صورتحال ہوتی کہ کتنے لوگوں کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں تقریباً آٹھ سے دس لاکھ مزدوروں کو نوکریوں سے فارغ کیا جا چکا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ تعداد چالیس سے پچاس لاکھ تک جا پہنچے گی۔ زیادہ متاثر ہونے والے شعبے گارمنٹس اور ٹیکسٹائل سیکٹرہیں جن میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے، ان میں خواتین کا بہت استحصال ہو رہا ہے۔ 12-14 گھنٹے کام کروانا، اپائنٹمنٹ لیٹر نہ دیے جانا، جنسی ہراسانی وغیرہ یعنی لیبر قوانین کا کوئی اطلاق نہیں۔ اسی طرح ” یو ایس اپیریل اینڈ ٹیکسٹائل” سے کم از کم تین ساڑھے تین ہزار ورکرز کو فارغ کیا جا چکا ہے۔ فیکٹریاں، جہاں حکومت کا کہنا تھا کہ ورکرز کو تنخواہیں دی جاتی رہیں گی، ان میں عید سے قبل ورکرز کو تنخواہ ہی نہیں ملی۔ گارمنٹس سیکٹر، ہوم بیسڈ اور ڈومیسٹک ورکرز زیادہ تر خواتین ہیں اور اس وبا سے ان کا روزگار بری طرح متاثر ہوا ہے۔ زیادہ تر خواتین ورکرز رجسٹرڈ ورکرز نہیں ہیں۔ لاکھوں مزدوروں کے بے روزگار ہونے پر ٹریڈ یونین والے چیختے رہے لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی۔ اس وبا سے نمٹنے کے لیے حکومت کا کوئی پلان نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی معیشت کو چلتا رکھنا چاہتے ہیں۔ حکومت محنت کشوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے ایک ہی راگ الاپ رہی ہے، کرپشن، کرپشن، کرپشن۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ فیکٹریاں کھولو، لوگوں کو روزگار مہیا کرو اور تنخواہوں کی ادائیگی کرو۔ ہمیں یہ تھیلے اور توڑے نہیں چاہیں۔

 شازیہ خان:  ڈومیسٹک ورکرز پر کووِڈ 19 کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟

روبینہ جمیل:    ڈومیسٹک ورکرز کے لیے حکومت ایک ایکٹ لے کر آئی۔ اگرچہ ا س کے لیے بنیادی کام تو سوِل سوسائٹی کی ایک تنظیم ہوم نیٹ نے کیا لیکن ہم نے اسے مکمل سپورٹ کیا، کیونکہ ہمارا ڈومیسٹک ورکرز میں کام ہے۔ حکومت نے کہا کہ ان خواتین ڈومیسٹک ورکرز کی سوشل سیکورٹی بیت المال سے ادا کی جائے گی لیکن بعد میں حکومت اس سے مکر گئی اور کہا کہ یہ خواتین جہاں پر کام کر رہی ہیں وہی ان کی سوشل سیکورٹی ادا کریں۔ ظاہر ہے جب حکومت ان کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے تو لوگوں سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ اس وبا سے سب سے زیادہ ڈومیسٹک ورکرز متاثر ہوئی ہیں اور انہیں گھر بیٹھنا پڑا ہے۔ کچھ نے ان کی تنخواہیں ادا کیں اور کچھ نے نہیں کیں۔ ان ڈومیسٹک ورکرز کو سارا سارا دن گھر کے کام کرنا پڑتے ہیں اور انکے کوئی طے شدہ اوقات کار نہیں ہیں اکثر مار پیٹ اور جسمانی ہراسانی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وباء کے دنوں میں تو ان کو بیس تیس روپے دے کر روزانہ کی بنیاد پر کام کروایا جاتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ڈومیسٹک ورکرز کا استحصال بے حد زیادہ ہے۔ ایکٹ آنے کے بعد اس پر جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈومیسٹک ورکرز کے لیے سندھ میں قانون سازی ہو چکی ہے لیکن پنجاب میں اس ضمن میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

شازیہ خان:  خواتین فیکٹری ورکرز کس طرح اس وباء سے کس طرح متاثر ہوئی ہیں اور کن مسائل کا شکار ہیں؟

روبینہ جمیل:   فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کی بہت کم تعداد ٹریڈ یونین سے منسلک ہے۔ مالکان ٹریڈ یونین بننے ہی نہیں دیتے تاہم جو خواتین ٹریڈ یونینز کے ساتھ وابستہ ہیں وہاں ٹریڈ یونین کی کوشش ہوتی ہے کہ خواتین کو کام کی اجرت مساوی اور سہولیات بھی ملیں۔ وبا کی وجہ سے بیشتر ورکرز کو بغیر تنخواہوں کے گھر بیٹھنا پڑ گیا ہے۔

 شازیہ خان: ہمیں ٹریڈ یونین کی لیڈر شپ میں خواتین کی زیادہ تعداد نظر نہیں آتی، اس کی کیا وجہ ہے؟

روبینہ جمیل:   ٹریڈ یونین بھی اسی پدر شاہی نظام کا حصہ ہے اور اس نظام کی اپنی بہت سی قباحتیں ہیں۔ جو خواتین ورکرز ٹریڈ یونین سے منسلک ہوتی ہیں، فیکٹری میں تو ان کے برابر کے حقوق کے لیے جدو جہد کی جاتی ہے لیکن ٹریڈ یونین کی لیڈر شپ میں خواتین نظر نہیں آتیں۔ سرمایہ داروں اور ان کے خاندان کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ پہلے خواتین کافی زیادہ ٹریڈ یونین میں حصہ لیتی تھیں لیکن اب ایسی صورتحال نہیں ہے۔ ٹریڈ یونین کی سرگرمیاں بہت کم ہو گئی ہیں لیکن جہاں پر ٹریڈ یونین موجود ہے وہاں ان کو ٹریننگ فراہم کر رہے ہیں، لیگلائز کر رہے اور ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا بھی کر رہے ہیں کہ اپنی آواز اٹھائیں۔ خواتین مختلف فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں اور اگر وہاں یونین نہیں بھی ہے تو وہ تنظیم کی ممبر ضرور ہیں۔ وہ ٹریڈ یونین کے لیے تنظیم سازی کی کوشش کرتی ہیں لیکن کر نہیں پا رہیں کیونکہ ان پر سماجی و روایتی دباؤ بہت ہیں۔ خاندان کا پریشر ہوتا ہے کہ آپ کام کرنے جاتی ہیں سیاست کرنے نہیں۔ سرمایہ داروں کا خواتین کو فیکٹریوں میں رکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ خواتین بڑی تابعداری سے کام کریں گی۔ اس وبا نے ہمیں ایک صدی پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ہم تو 87ء اور 98 ء کے قوانین پر عمل درآمد کے لیے کوشاں تھے لیکن اب تو مستقل ملازمین کے حقوق کا تحفظ بھی مشکل ہو رہا ہے اور چونکہ ملازمین کی اکثریت کانٹریکٹ پر یا سیزنل تھی، لہٰذا ان کا استحصال بھی زیادہ ہوا۔

ٹریڈ یونین کا کام بہت مشکل کام ہے اور جو خواتین ٹریڈ یونین میں کام کر رہی ہیں۔ ان سے پوچھیں کہ وہ اس سفر میں کن کن مشکلات سے گزری ہیں۔ اپنے آپ کو منوانا پڑتا ہے اور آپ کو اپنے فیملی سیٹ اپ سے باغی ہونا پڑتا ہے۔ اپنے روایتی سماجی معمول سے ہٹ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ ٹریڈ یونین کا کام تو موبلائز کرنا ہے۔ سرمایہ داروں کی مشینری آپ کے خلاف کام کرتی ہے اور آپ کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے، دوسرے پدر شاہی نظام ہے، تیسرے ٹریڈ یونین میں خواتین کو آگے آنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ میں خود تنقید کرتے ہوئے کہتی ہوں کہ اس کی وجوہات کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہر ٹریڈ یونین کے منشور میں جس حد تک خواتین کی نمائندگی لکھی ہوئی ہے وہ خواتین کو ملنی چاہیے اور اگر ہم اس میں کامیاب نہیں ہوتے تو یہ ہماری ناکامی ہو گی۔

شازیہ خان:  پاکستان میں ٹریڈ یونین کی رجسٹریشن کا طریقہ کار کیا ہے؟

روبینہ جمیل:   سب سے پہلے تنظیم بنائی جاتی ہے اور دیے گئے طریقہ کار کے مطابق الیکشن کروا کے نمائندہ تنظیم رجسٹریشن کے لیے ڈسٹرکٹ آفس لیبر کو بھیج دی جاتی ہے۔ ڈسٹرکٹ آفس لیبر تنظیم کی چھان بین کرتا اور ادارے کا وزٹ کرتا ہے نیز ٹریڈ یونین نمائندگان سے ملاقات کرتا ہے۔ پھر ٹریڈ یونین کی رجسٹریشن ہوتی ہے۔ ملک گیر ٹریڈ یونین کی رجسٹریشن “نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن ” (این آر سی) کے ساتھ ہوتی ہے۔ ٹریڈ یونین کی رجسٹریشن کے بعد یونین کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیونشن، اور ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای .او. بی .آئی) میں رجسٹرڈ ہوں۔ رجسٹریشن کے بعد ورکرز کا ایک ڈیٹا ورکرز ویلفئیر بورڈ، ورکرز ویلفئر فنڈ کو فراہم کیا جاتا ہے تاکہ ان کے تحت جو سہولیات میسر ہیں وہ ورکرز کو دلوائی جا سکیں۔ یہی نظام ہر صوبے میں ہے۔

شازیہ خان: ٹریڈ یونینز بننے اور رجسٹریشن کے عمل میں کیا کیا دشواریاں حائل ہیں؟

روبینہ جمیل:   ٹریڈ یونینز کے بننے کے دوران جب انکوائری ہوتی ہے تو فوراً یونین سازی کرنے والوں کو نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے، ان پر دہشت گردی کے کیس بنا دیے جاتے ہیں۔ مالکان، سرمایہ دار، سرمایہ دارانہ نظام کی حامی حکومت ٹریڈ یونین کے بننے کے عمل میں رکاوٹ ہیں۔ جب کسی ادارے میں ٹریڈ یونین بن جاتی ہے تو مالکان پاکٹ یونین بنا لیتے ہیں۔ کسی بھی ادارے میں ایک ٹریڈ یونین ہونی چاہیے تاکہ وہ بہتر انداز میں کام کر پائے۔ لیکن پاکستان میں کالے قوانین جیسے کہ 2010 ء ایکٹ موجود ہیں جس میں دوسری ٹریڈ یونین بنانے کا حق دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد اصل ٹریڈ یونین کو ختم کرنا ہے اور یہ قانون مالکوں کے حق میں ہے۔ ٹریڈ یونین بننے کے عمل کے دوران لیبر ڈیپارٹمنٹ کے افراد اس ادارے کی مینیجمنٹ سے بھی رابطہ کرتے ہیں اور مالک کی کوشش ہوتی ہے کہ کچھ دے دلا کر تنظیم سازی کے عمل کو روکا جا سکے۔ جب یونین بنانے کے لیے کاغذات لیبر ڈیپارٹمنٹ جمع کروائے جاتے ہیں تو لیبر ڈیپارٹمنٹ کے افسران مالکوں کو اطلاع کرتے ہیں کہ آپ کی فیکٹری میں فلاں فلاں لوگ یونین بنا رہے ہیں۔ مالک اس عمل کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض صورتوں میں تو یونین بنانے والے افراد کو نوکری سے بھی نکال دیا جاتا ہے۔ ہم لیبر ڈپارٹمنٹ میں کاغذ جمع کرواتے ہی این آئی آر سی سے سٹے آڈر لے لیتے ہیں تاکہ ورکرز کو نوکری سے نکالا نہ جا سکے۔ اس کے باوجود مالک یونین بنانے والے افراد کو نوکری سے نکال دیتا ہے۔ ہمارا کہنا ہے کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ کو انکوائری کرنے کی بجائے ٹریڈ یونین کو فوری رجسٹر کر لینا چاہیے۔

پاکستان میں زراعت کے شعبے میں خواتین نے بڑا اہم کردار ادا کیا اور اب بھی کر رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں صنعت کو فروغ ملا اور یہاں بھی خواتین نے اپنا کردار اچھے طریقے سے نبھایا۔ صنعتی شعبے میں 1970ء سے لے کر 1986ء تک ٹریڈ یونین تحریک بہت عروج پر رہی، اس میں خواتین محاذ عمل، آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن نے اہم کردار ادا کیا۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد ان فیکٹریوں میں کام کر رہی تھی لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ مالکان خواتین کو اس لیے رکھتے ہیں کہ وہ بہت تابعدار ہوتی ہیں۔ بچپن سے ان کی تربیت ہوتی ہے کہ آہستہ آواز میں بات کرنی اور تابعداری کرنی ہے۔ خواتین پر فیملی کا بہت پریشر ہوتا ہے کہ بس نوکری کرنی ہے اور گھر واپس آنا ہے۔ یہ ہم نے اپنے تجربے سے دیکھا ہے کہ سیمسونائٹ میں یونین بنائی تو ان کی فیملی یونین میں متحرک ہونے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ ٹرپل ایم، بگ میکس، جی ملر، وائتھ میں ہماری یونینز تھیں اور ہر طرف ایک جال تھا ٹریڈ یونینز کا۔ جن میں ہم خواتین کو لے کر آتے تھے ان کی ٹریننگ ہوتی تھی۔ لیکن اب صورتحال پہلے جیسی نہیں رہی۔

شازیہ خان: سرمایہ دارانہ نظام کے اس نئے فیز میں کام صنعتوں اور فیکٹریوں کی بجائے گھروں میں ہونے لگ گیا ہے۔ ان ہوم بیسڈ ورکرز کے کیا مسائل ہیں؟

روبینہ جمیل: صنعتوں میں 12-14 گھنٹے کام کی شفٹ کے بعد چھٹی ہو جاتی ہے لیکن ہوم بیسڈ ورکرز سارا سارا دن اور رات گئے تک کام کرتے ہیں۔ اندرون شہر لاہور میں گھروں میں کام کرنے والوں کا جال بچھا ہوا ہے اور یہی صورتحال کم و بیش پورے پاکستان میں ہے۔ حیدر آباد میں چوڑیاں بنانے والوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے۔ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے خواتین کی تنظیموں نے آواز اٹھائی۔ ان میں روبینہ جمیل، اُمِ لیلیٰ، زہرہ خان اور نصرت بشیر ظفر شامل ہیں۔ جب ہم فٹبال بنانے والے یونٹس کا سروے کرنے سیالکوٹ گئے، جہاں پر نائیکی اور ایڈیڈاس کے لیے کام ہوتا تھا۔ تو ہم نے جانا کہ وہاں پر جنسی ہراسانی اور تشدد کے بہت سے واقعات ہوتے ہیں۔ عام طور پر خواتین مار پیٹ کوہی تشدد سمجھتی ہیں لیکن میں کہتی ہوں جہاں وقت پر تنخواہ اور اوور ٹائم نہیں ملتا وہ نفسیاتی تشدد ہے۔ یہ ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیاں خواتین کو بیٹھنے کے لیے علیحدہ جگہ اور کھانا تو فراہم کر رہی ہیں لیکن خواتین کے استحصال کی شکل بدل گئی ہے۔ ورکرز فیکٹری میں کام کرنے کی بجائے گھر پر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سلائی کڑھائی، آر کا کام، جوتے کے تلے لگانے کا کام، لفافے بنانے کا کام، سب گھروں پر ہو رہا ہے۔ باٹا جوتے بنانے والی فیکٹری کا بھی کام اب گھروں پر ہی ہوتا ہے۔ گھروں پر کام کرنے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ورکرز کو پورا معاوضہ نہیں ملتا۔

شازیہ خان: ہوم بیسڈ ورکرز کی لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ رجسٹریشن کے لیے اور حقوق کے لیے کوئی اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

روبینہ جمیل: لیبر ڈیپارٹمنٹ کو انڈسٹری میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے اور مالکوں نے انڈسٹری سے ٹریڈ یونینز کو فلاپ کروا دیا ہے۔ یہ تو 87ء اور 98ء کے قوانین پر عمل نہیں کروا سکتے لیکن ہم آواز اٹھا رہے ہیں کہ تمام ورکرز کو رجسٹر کرو، قانونی تحفظ فراہم کرو اور لیبر قوانین کا اطلاق ک

کراچی گارمنٹس اور فارماسوٹیکل سیکٹر میں جو آگ لگ رہی ہے وہ بھی یونین نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ فیکٹریوں کا صرف ایک دروازہ ہوتا ہے جسے ورکرز کے اندر آنے کے بعد بند کر دیا جاتا ہے اگر وہاں ٹریڈ یونین ہوتی تو حفاظتی معاملات پر بھی توجہ دی جاتی۔

شازیہ خان: ہوم بیسڈ ورکرز کو منظم کر نے کے لئے آپ کی تجاویز کیا ہیں؟

روبینہ جمیل: ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ ہوم بیسڈ ورکرز کا %72 خواتین ہیں اور ہم ان کے حقوق کی جد و جہد امِ لیلیٰ (ہوم نیٹ) کے ساتھ مل کر کر رہے ہیں۔ ان ورکرز پر لیبر قوانین کیوں لاگو نہیں ہوتے؟ سوشل سیکیورٹی کارڈز کیوں نہیں مل رہے؟ اس عمل میں ہمیں حکومت کے ساتھ بیٹھنا ہو گا کہ ان کو تنظیم سازی کی اجازت ہونی چاہیے اور ان کو لیبر قوانین کے تحت لایا جائے۔

شازیہ خان: کیا پاکستان میں ڈومیسٹک ورکرز کو تحفظ دینے کے لیے کوئی قانون سازی ہوئی ہے؟

روبینہ جمیل: ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ آگیا ہے۔ جس کے تحت ان ورکرز کی سوشل سیکیور، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے بیت المال سے دینی تھی۔ اس سلسلے میں ہم کئی بار خواتین ورکرز کو لے کر لیبر منسٹر سے اس سلسلے میں ملے۔بھٹہ مزدور کی غلامی کا مسلہ بھی اُٹھایا۔ مگر ان کے مسائل حل نہیں ہوئے، اور نا ہو نگے۔ آئے روز بڑے بڑے بنگلوں میں چائلڈ لیبر بچیوں پر بہیمانہ تشدد ہوتا ہے، مار کر قتل کیا جاتا ہے۔ ہم آواز آٹھاتے ہیں، مگر سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں حقوق صرف کاغذوں پر ہوتے ہیں۔ جاگیرادرانہ اور سرمایہ دارانہ طرزِ معیشت میں غریب ترین طبقات کو اسی طرح کی غیر رسمی شعبوں میں ملازمتیں ملتی ہیں، جن کو کسی بھی طریقے سے ریگلولیٹ نہیں کیا جا سکتا۔ اوپر سے پاکستان میں شدید بیروزگاری کی وجہ سے غریب محنت کش ا س طرح کی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ طرز پیداوار، اور یہ پیداواری رشتے ہی استحصالی ہیں۔ ان استحصالی ڈھانچوں کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ٹریڈ یونین تحریک کی لیڈر شپ میں زیادہ سے زیادہ خواتین مزدوروں کو آگے لائیں، کیونکہ انکو دوہرے جبر و استحصال کا سامنا ہے، ایک محنت کش طبقے کی وجہ سے، اور دوسرا پدر شاہی جبر کی وجہ سے۔ انکو اپنی صنف کی بنیاد پر سب سے کم تنخواہ والی ملازمتیں ملتی ہیں، یکساں کام کی یکساں اُجرت نہیں ملتی، اور اوپر سے کام کی جگہ پر اور کام پر جاتے ہوئے رستے میں انکو روزمرہ کی بنیادوں پر جنسی ہراسانی کا سامنا ہے۔

شازیہ خان: بھٹہ مزدوروں کے لیے بھی کچھ عرصہ قبل قانون سازی ہوئی تھی، کیا اس پرعمل درآمد ہو رہا ہے؟

روبینہ جمیل: بھٹہ مزدوروں کے لیے ہم گزشتہ بیس سال سے گلزار چوہدری اور بشیر ظفر کی قیادت میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ غلام فاطمہ نے بھی اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے لیکن آج بھی بھٹوں کے مسئلے وہی ہیں۔ ابھی تک بھٹوں پر جبری مشقت ہوتی ہے جب کہ کورٹ کی ججمنٹ میں جبری مشقت کے خاتمے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔

شازیہ خان: پاکستان میں صرف %2 انڈسٹریل ورکر ز ٹریڈ یونین کے ساتھ وابستہ ہیں جبکہ پاکستان کے بننے کے وقت یہ شرح تقریباً %25 تھی، ٹریڈ یونین کے اس زوال کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں؟

روبینہ جمیل: پاکستان میں طویل عرصے تک آمریتیں رہیں، اور سیاسی سرگرمیاں، بنیادی جمہوری و آئینی حقوق معطل ہی رہے۔ حقِ تنظیم سازی اور اظہارِ رائے پر بھی پابندیاں رہیں۔ پاکستان میں صنعت سازی اور تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ جو تھوڑی بہت صنعت تھی، وہ سامراجی جنگوں، لاقانونیت، اور بھتہ خوری کی نظر ہو گئی۔ اوپر سے گیس اور بجلی کے مسلسل بحران سے صنعتیں بند ہو گئیں۔ فوجی ملکیت کی صنعتی چلتی رہیں (وہاں یونین نہیں بن سکتی)مگر سول صنعتکاروں نے سرمایہ دوسرے ملکوں میں منتقل کیا۔ مزدور تحریک اور محنت کشوں کے حقوق سے بچنے کے اکثر صعنتوں نے پیداوار کے غیر رسمی طریقوں کو اپنایا، اور غیر رسمی سیکٹر لیبر لاء سے باہر ہے۔ ان حالات کے نتیجے میں اکثر محنت کش دہاڑی دار بنے، یا روزگار کی تلاش میں گلف ممالک چلے گئے۔ جنگ زدہ پشتون علاقوں سے اکثر مزدور بھی شدید بے روزگاری کی وجہ سے گلف ممالک میں روزی روٹی کی تلاش میں چلے گئے۔ ان عوامل اور اوپر سے پے در پے نجکاریوں اور کانٹرکٹ سسٹم نے ٹریڈ یونین تحریک کو بہت نقصان پہنچایا۔

جب جب پاکستان میں آمریت آئی تو جہاں دیگر سیاسی اداروں کو تباہ کیا گیا وہیں پر ٹریڈ یونینز کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی، ان کو نسل اور زبان کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا۔ اس عرصے میں بے تحاشا این جی اوز بنیں جس سے ٹریڈ یونین تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، ہر سرگرمی کے لیے ورکرز کو کرایہ اور پیسے ملنے لگے جبکہ ٹریڈ یونین تو چلتی ہی چندے پر ہے۔ اب یہ بات تو میرے پر بھی آتی ہے کہ میں نے بھی ’ورکنگ ویمن آرگنائزیشن‘ بنائی جو ایک این جی او تھی لیکن ہم نے اسے ایک تحریک کے طور پر بنایا تھا۔ ان پے در پے حملوں سے ٹریڈ یونین تحریک کمزور ہوئی ہے۔

شازیہ خان: ہم نے ماضی میں دیکھا کہ ٹریڈ یونین تحریک نہ صرف سرمایہ داری کے خلاف بلکہ ملک میں جمہوریت اور خواتین کے حقوق کے لیے بھی عملی کوششیں کر تی رہی، لیکن اب نیو لبرل ازم کے ایجنڈے پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ کیا اب ٹریڈ یونینز کی تحریک اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ جو بھی ایجنڈا بین الاقوامی سطح پر طے ہو جائے اس کو مانے بِنا کوئی چارہ نہیں ہے، اور اس تحریک نے مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیے ہیں؟

روبینہ جمیل: ہم نے این آر ڈی (موومنٹ فار دی ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی) اور وومن ایکشن فورم (اویف) میں خواتین کے امتیازی قوانین کے خلاف بھی جدوجہد کی ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ ہم نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ ٹریڈ یونین نے ہمیشہ نجکاری کے خلاف مزاحمت کی ہے اور جہاں پر بھی ٹریڈ یونین کو کمزور کرنے کی کوشش ہوئی ہم نے وہاں جڑت کی کوشش کی ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ سرمایہ داری نظام اور نیو لبرل ازم ایجنڈا کے تحت ٹریڈ یونین تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا حال دیکھ لیں۔ آپ صرف ٹریڈ یونین کی بات کیوں کر رہی ہیں؟ کیا سیاسی اثرات ٹریڈ یونین پر نہیں پڑتے؟ ہماری راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اوربغاوت کے مقدمے بنائے گئے۔ان توڑنے کی کوششوں کے باوجود بھی اگر ٹریڈ یونین تحریک چل رہی ہے، چاہے وہ آل پاکستان ورکرز کنفیڈریشن، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن اور نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کی شکل میں، تو سلام ہے ان تحریکوں پر۔

ملک کی مختلف سیاسی پارٹیوں کا ٹریڈ یونینز کے حوالے سے کیا کردار رہا ہے؟

روبینہ جمیل: پاکستان میں تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے لیبر ونگ ہوتے ہیں اور یہ ان کا سیاسی حق ہے۔ لیکن یہ جاننے اور دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ لیبر ونگ فعال ہیں اور وہ مزدور کے لیے کام کر رہے ہیں یا سرمایہ داروں کے لیے؟ آیا وہ سرمایہ داری اور نیو لبرل ازم کو فروغ دے رہے ہیں؟ ٹریڈ یونین تحریک کو دانستہ طور پر دیوار کے ساتھ لگایا گیا ہے لیکن ہم پسپا نہیں ہوں گے اور اپنی آواز اٹھائیں گے۔ یہاں پر سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا گیا ہے اس ملک کے منتخب حکمرانوں کو مار کر پھینک دیا گیا۔ ملک کے سیاسی اثرات کو ٹریڈ یونین سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ اگر ملک میں سیاسی پارٹیاں کمزور ہیں تو ٹریڈ یونین تحریک بھی کمزور ہو گی۔

شازیہ خان: ایک کمزور ٹریڈ یونین تحریک کس طرح ملک میں مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے کام کر سکتی ہے؟

روبینہ جمیل: اگرچہ ملک میں صرف %2 مزدور یونینائزڈ ہیں لیکن ہم مستقل مزاجی کے ساتھ مزدوروں، خواتین اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لیے کوشاں ہیں اور میں اس سلسلے میں بہت پر امید بھی ہوں۔ ہم اس صورتحال میں یونائٹیڈ فرنٹ اور کنفیڈریشن بنا کر اکٹھے کام کرتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان ورکرز کنفیڈریشن اور آل پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کو اکٹھا ہونا چاہیے اور ہم نے اس کے لیے کوشش بھی کی تھی۔ میں خود اس کمیٹی میں شامل تھی۔ اکبر خان اور یوسف بلوچ سب کی خواہش ہے کہ ہمیں ایک ہونا چاہیے لیکن تاحال ہم کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے۔

شازیہ خان: اس ضمن میں آپ انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کردار کو کس طرح دیکھتی ہیں؟

روبینہ جمیل: آئی ایل او کاکام صرف کور کنونشن بنا کر حکومتوں سے توثیق کروانا نہیں ہونا چاہیے۔ ہم ان کنونشن پر عمل درآمد کی بات کرتے ہیں تو اس پر آئی ایل اور ہمارا ساتھ نہیں دیتی۔ آئی ایل او یونائیٹڈ نیشن کی تنظیم ہے اور حکومت کے ساتھ کام کرتی ہے۔ آئی ایل او پر میری تنقید یہ ہے کہ یہ حکومت کی من پسند ٹریڈ یونین کے ساتھ کام کرتی ہے۔ ہمارے ساتھی ان کی کمیٹیوں میں ہیں اور مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے وہاں اپنی آواز اٹھاتے ہیں۔

شازیہ خان: سول سوسائٹی آرگنائزیشنز محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد میں کیا کردار ادا کر رہی ہیں؟

روبینہ جمیل: زہرہ خان (ہوم بیسڈ ورکرز ویمن فیڈریشن) اور ام لیلیٰ( ہوم نیٹ)، دونوں نے اپنے کام سے اپنا لوہا منوایا ہے، آج وہ حکومت کی کمیٹیوں میں بیٹھی ہوئی ہیں اور وہاں پر جو لیگل سیٹ اپ بن رہا ہے اس میں بہترین کردار ادا کر رہی ہیں، میں ان کی بہت قدر کرتی ہوں کہ انہوں نے ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے آواز اٹھائی۔

شازیہ خان: کیا خواتین صنعتی مزدوروں کو میٹرنٹی لیو جیسے بینیفٹ ملتے ہیں؟

روبینہ جمیل: ہم بحیثیت ٹریڈ یونین اس کے لیے کوشاں ہیں کہ خواتین مزدوروں کو میٹرنٹی لیو ملے ، لیبر قوانین کا اطلاق ہو، اور ان کو سوشل سیکیورٹی ملے۔ اتنی آواز اٹھانے کے بعد کچھ جگہوں پر خواتین کے سوشل سیکیورٹی کارڈز بنے ہیں اور وہ جو مستقل بنیادوں پر رجسٹرڈ ورکرز ہیں، ان کو تمام بنیفٹ ملتے ہیں۔

شازیہ خان: آپ نے کہا کہ ٹریڈ یونینز پاکستان میں بہت کمزور ہیں اور ان میں تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے، ذرا اس پر روشنی ڈالیں۔

روبینہ جمیل: ٹریڈ یونین تحریک اور طلباء جمہوریت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسے پہلے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں طویل آمریتیں رہیں۔ فوجی آمروں اور سرمایہ داروں کی طرف سے جمہوریت پر پے در پے حملوں کے نتیجے میں ٹریڈ یونین اکثر اوقات آئینی اور قانونی طور پر معطل کئے رکھا گیا، اس پر پابندیاں لگائی گئیں۔ ان کے جلوسوں پر گولیاں چلائی گئیں، رہنماوں کو زندانوں میں ڈالا گیا، انہوں نے پرچے بھی بھگتے۔ اور پرانے کولونیل’ ڈیوائیڈ ایند رول’ کے ہتھکنڈوں اور سازشوں کے ذریعے توڑا گیا۔

استحصالی سرمایہ دارانہ نظام نے مزدور تحریک کو توڑنے میں اپنا پورا زور لگایا۔مزدوروں کو منظم ہونے سے باقاعدہ طور ر پر روکا گیا۔ اور ٹریڈ یونین بنانے کی کوشش کرنے والے مزدوروں کو جوق در جوق کارخانوں سے نکالا گیا۔ کانٹریکٹ سسٹم، غیر رسمی پیداواری نظام، اور ایکسپورٹ پروسسنگ زونز بنا کر (جہاں لیبر لاء لاگو نہیں ہوتے) سرمایہ داروں نے مزدوروں کو حقِ تنظیم سازی سے بےدخل کیا۔ حتیٰ کہ جنرل مشرف نے لیبر انسپکشن پر پابندی لگائی اور مزدوروں کو سرمایہ داروں کے آگے ڈال دیا گیا، جس کے خلاف ہم نے جدوجہد کی اور دوبارہ بحال کیا۔ یہ الگ بات ہے، کہ لیبر انسپکٹر سرمایہ داروں کے ساتھ مزدوروں کے خلاف مل بھی جاتے ہیں۔ جہاں یونین نہیں ہے، وہاں چیمبر آف کامرس میں بیٹھے بڑے بڑے سرمایہ داروں پر لیبر قوانین توڑنے کی سزا اور فائن نہیں ہے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ کو غیر فعال کیا گیا، لیبر رجسٹریشن اور شکائتوں کا نظام نہیں بنا گیا۔

ریاستی سرپرستی میں دائیں بازو اور سرمایہ داروں کی حمایت یافتہ فیڈریشنوں کو کھڑا کیا گیا۔ مگر پھر بھی ترقی پسندٹریڈ یونین تحریک آمریت کے خلاف، نجکاریوں کے خلاف، کانٹریکٹ سسٹم، اور مزدور دشمن پالیسیوں اور بجٹ کے خلاف صف آرا ہو کر لڑتی رہی ہے۔

سوویت یونین اور سوشلسٹ بلاک کے انہدام کے بعد دینا بھر اور پاکستان میں لیفٹ تتر بتر ہو گیا، جو ترقی پسند ٹریڈ یونین کی نظریاتی اور سیاسی نمو میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔ اس صورتحال نے ترقی پسند ٹریڈ یونین تحریک کو بھی کافی متاثر کیا۔ اور کیڈرآ ہستہ آہستہ کم ہو گیا۔ مزدوروں نے سخت معاشی حالات سے تنگ آ کر آسان رستے ڈھونڈے اور پاکٹ یونین بنیں۔ رائٹ ونگ کو بھی ٹریڈ یونین تحریک میں منظم طور پر اتارا گیا۔

آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن (اے .پی. ٹی. یو .ایف) لیفٹ سے وابستہ شاندار مزدور جدوجہد کی تاریخ رکھتی ہے۔ترقی پسند ٹریڈ یونین تحریک اور مرزا ابراہیم کی فیڈریشن پاکستان بننے سے قبل کی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد ایک تحریک انڈیا میں رہ گئی۔ آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس ( اے آئی ٹی سی) کی شکل میں، اور ایک تحریک پاکستان آ گئی، ریلوے ورکرز یونین ورکشاپ مرزا ابراہیم کی قیادت میں۔ پھر متحدہ مزدور مجلس عمل، پھر آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن (پی. ٹی. یو ا.یف)بنیں۔ سبھی لیڈران نے بہت اعلیٰ کام کیا اور سبھی قابلِ ستائش ہیں۔ پی ٹی یو ایف اور اے پی ٹی یو ایف دونوں پہلے ایک ہی تنظیم اور ترقی پسند قوت تھے، مگر علیحدہ ہوئے۔ اب ہماری بات چل رہی ہے کہ پی ٹی یو ایف اور اے پی ٹی یو ایف کو دوبارہ سے متحد ہونا چاہیئے۔

میری نظر میں مزدور تحریک،ترقی پسند قوتوں اور فیمنسٹ قوتوں کا متحدہ یونائٹیڈ فرنٹ ہی محنت کش تحریک کے لئے بامعنی جدوجہد لڑ سکتا ہے اور سرمادرانہ جبر و استحصال کے ڈھانچوں میں بنیادی تبدیلی اور سرمایے کی غلامی سے محنت کش طبقے کی آزادی کی راہیں کھول سکتا ہے۔

شازیہ خان: آپ نے  نے ساری عمر مزدور جدوجہد کی، یہ جدوجہد کس طرح کے سماج کے خواب کے گرد تھی؟

روبینہ جمیل:  اس سماج کا اصل مسلہ طبقاتی کشمکش اور منافع خوری کے لئے انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال اور تذلیل ہے، اور پدر شاہی کے ہاتھوں عورتوں کا استحصال اور تذلیل ہے۔ جو بھی حکومتیں آئی ہیں، وہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کی نمائندہ اور کٹھ پُتلی حکومتیں رہی ہیں۔ وہ سامراجی طاقتوں، اور ورلڈ بینک اور آئی ایم سے پہلے سے معاہدے کر کے آتی ہیں، کہ محنت کش طبقے کے کیا کیا حقوق کاٹنے ہیں اور پھر عالمی مالی سامراجی نظام انکے پیچھے کھڑا ہوتا ہے۔ اور یہ حکومتیں اپنی کٹھ پُتلی لیبر فیڈرشن کے ذریعے نجکاریاں اور مزدوروں کو تقسیم کئے رکھتی ہیں۔ اس ملک پر تو غلبہ سامراجیت، آمریت اور سرمایہ داریت کا ہی رہا ہے۔اب تو کووِڈ 19 کی آڑ میں مزدوروں کے پہلے سے حاصل کئے گئے چھوٹے موٹے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ مزدوروں کے ویلفئیر اورسوشل سیکوریٹی کے اداروں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ نجکاری جاری ہے، حتیٰ کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی۔ سٹیل مل کے لئے بھی چھری تیز ہو رہی ہے۔ خواتین کو زندگی کے ہر پہلو میں مسلسل پیچھے دھکیلا جا رہاہے۔ ہم ان حملوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، مگر ہمارا مقصد یہیں پر پورا نہیں ہوتا۔ ہمیں تو اس سماج کو تبدیل کرنا ہے۔

ہمیں ٹریڈ یونین کی سیاست کی محدودیت کا اندازہ ہے، مگر مزدور تحریک کے ذریعے آواز بلند کرنے کا ایک رستہ نکل سکتا ہے۔ مگر یہ نظام، جس میں امیر، امیر تر ہو رہا ہے، اور غریب، غریب تر ہو رہا ہے، جس میں 20 فیصد لوگ پیداواری وسائل پر قابض ہیں، اور باقی 80 فیصد نسل در نسل غربت اور غلامی میں جی رہے ہیں، بے وسائل اور بے بس ہیں۔ جس نے طبقاتی کشمکش کو جنم دیا ہے، اور اس کو کو ختم کرنے کے لئے انقلابی جدوجہد اور بولڈ سٹیپس لینے پڑیں گے۔ ہمیں سرمایہ داری اور جاگیر داری کے خاتمے تک لڑنا پڑے گا۔ پیداواری وسائل کی منصفانہ تقسیم تک لڑنا پڑے گا۔ زرعی اصلاحات اور بے زمین کسانوں میں زمینیں تقسیم کرنے کی جدوجہد کرنی ہو گی۔ خواتین ورکرز کی بات صرف میٹرنٹی لیو، اور یکساں اُجرت کی بات نہیں ہے، بلکہ پدر شاہی نظام کا مکمل خاتمہ اور زندگی کے ہر پہلو میں مساویانہ حق زندگی ہے، اور نمائندگی ہے۔

ہمیں پرانا کیڈر ڈیویلپمنٹ کا سسٹم ٹریڈ یونین تحریک میں دوبارہ لانا پڑے گا۔ یوتھ اور طلباء تحریکیں کھڑی کرنی پڑے گی، کسان تحریک پھر سے بنانی پڑے گی، ترقی پسند فیمنسٹ تحریک میں عورتوں کو متحریک کرنا پڑے گا۔ ترقی پسند دانشوروں، ادیبوں اور فنکاروں کو متحرک کرنا پڑے گا۔ سب تحریکوں، بشمول ٹریڈ یونین تحریک کے، عورتوں کو لیڈرشپ میں مساوی نمائندگی دینی ہو گی۔ عورتوں کی شمولیت کے بغیر، کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔

ہماری فیڈریشن اور میری اپنی سیاسی تاریخ بھی طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ آمریتوں سے لڑنے کی تاریخ ہے۔صنفی امتیاز اور پدر شاہانہ تفریق و جبر سے لڑنے کی تاریخ ہے۔ اور ایک ایسے سماج کا خواب رکھتے ہیں، جس میں کوئی غریب نہ ہو۔ جس میں سماجی انصاف ہو، اور جس میں ریاست بنیادی ضروریات جیسے تعلیم، روزگار، علاج اور رہائش، اور سماجی مساوات کی آئینی ضمانت دے۔ جس میں کسان کا استحصال نہ ہو، جس میں عورت کا استحصال نہ ہو، اور اسے برابر کے انسان کی حیثیت حاصل ہو، اور اسی طرح مذہبی اقلیتوں کو برابر کی حیثیت ملے۔ جس میں قومی جبر اور جنگیں نہ ہوں۔ جس میں محنت کش کا استحصال نہ ہو اور سرمایے اور جبر کا راج نہ ہو اور سوشلسٹ اصولوں پر استوار ہو۔ ایسے ہی سماج میں ہی انسانیت کی بقاء ہے!۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .