تحریر: عصمت شاہ جہان اور جلیلہ حیدر
تاریخی طور پر پاکستان میں صنفی مساوات پر مبنی عائلی قانون سازی (خاندان کے معاملات سے متعلق)، اور قوانین پر عملدرآمد میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی، بلکہ اُلٹا عورتوں کو کالونیل دور سے میسر محدود حقوق پر بھی رجعتی قوتوں کی یلغار رہی ہے۔ یلغار کا یہ سلسلہ خاص طور پر1977ء کے مارشل لاء دور سے تیز ہوا جسے سماج میں پہلے سے موجود رجعت پرست حلقوں نے اپنی مکمل طاقت سے عورت کے خلاف استعمال بھی کیا۔ شُکر ہے کہ عدلیہ نے عورت کو سنگسار کرنے کی سزا کو رد کیا اور عملی طور پر اس کو نافذ نہیں کیا۔
ہم سمجھتے ہیں عورت کی قانونی حیثیت پر بحث میں ریاستی نظریات اور ڈھانچہ سب سے اہم ہیں۔ پاکستان کا آئین تضادات کا مجموعہ ہے۔ ایک طرف ایک رسمی شق میں لکھا ہے کہ جنس کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جائے گا، مگر دوسری طرف عورتوں کی زندگی سے جُڑے تمام ریاستی قوانین، پالیسیاں اور اس کا ہر فقرہ صنفی امتیاز اور جبر پر مبنی ہیں۔ سارا کا سارا ریاستی نظام اوپر سے نیچے تک، مقننہ سے لے کر عدلیہ، ایگزیکٹیو اور میڈیا تک نہ صرف صنفی امتیاز پر مبنی ہے بلکہ ایک مضبوط پدر شاہی قلعہ ہے۔
ڈیڑھ سو سال سے اوپر انگریز کی حکمرانی کے عہد کے بیشمار ایسے قوانین موجودہ نظام میں موجود ہیں جو ہمارے یہاں مروجہ روایتی، مذہبی، قومی رواج و دستور، اور طبقاتی ضابطوں کے اصولوں سے مختلف ہیں، مگر صرف ازدواجی قوانین کو خاص طور پر مذہبی سیاست میں اُلجھایا رکھا گیا۔
اِس کے باوجود کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد عائلی قوانین کی قانون سازی کا آئینی اختیار صوبوں کے پاس چلا گیا ہے، مگر صوبے پھر بھی عورت کی زندگی سے متعلق ہر قانونی بِل کو فیڈرل گورنمنٹ کے ادارے ’اسلامی نظریاتی‘ کونسل کو بھیج دیتے ہیں، اور اس طرح اپنا آئینی اختیار فیڈرل گورنمنٹ کو خوشی خوشی دے دیتے ہیں۔ عورتوں سے متعلق بلز کے علاوہ کوئی بھی دوسرا بِل آج تک صوبائی حکومتوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کو نہیں بھیجا۔ مثال کے طور پر بجٹ بِل، جو کہ سُود مذہب اِسلام میں حرام ہے، مگر پوری کی پوری سرمایہ دارانہ معیشت اور اسکے بجٹ سُود پر چلتے ہیں۔
اس وقت پی ٹی آئی حکومت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے جانب سے ایک اور بِل تیار کیا جا رہا ہے، جس میں خواتین کو طلاق کے حق کے لئے نکاح نامے میں کسی ”تبدیلی” کی بات ہو رہی ہے۔ ہم عورت کو طلاق کے حق کے ضمن میں کسی بھی قانون سازی کو، جو کہ صنفی و سماجی مساوات کے ٹھوس بنیادوں پر مبنی ہو، کو خوش آمدید کہتے ہیں، مگر اس وقت کوئی نئی بات نہیں ہو رہی، اور بحث صرف “موجودہ” نکاح نامہ میں عورت کے خلع کے حق کے طریقہ کار پر ہی ہو رہی ہے۔ جبکہ موجودہ نکاح نامہ کے اندر تو عورت کو خلع کا حق کی شق پہلے سے موجود ہے۔ مگر اس کو نکاح کے دوران پہلے ہی سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ تو پی ٹی آئی حکومت اور اسلامی نظریاتی کونسل تجویز کر رہی ہے کہ اس شق کو صرف عورت سے پوچھ کر کاٹا جا سکتا ہے۔ مگر یہاں تو پدر شاہی روایات اتنی مضبوط ہیں کہ خاندان کے مرد اکثر لڑکیوں سے شادی کے لئے ہی مرضی نہیں پوچھتے، خلع تو دور کی بات ہے۔ ہماری نظر میں یہ عمل بذات خود صنفی امتیاز پر مبنی ہے اور عورت کے برابری اور اس کے حقوق کے منافی ہے۔ سوال یہ ہے کیا مرد سے بھی نکاح کے وقت پوچھا جائے گا، کہ وہ طلاق کا حق کاٹنا چاہتا ہے؟ اس میں پوچھنے نہ پوچھنے کی کیا بات ہے، حقِ علیحدگی دونوں صنفوں کا برابر انسانی حق ہے۔ اوپر سے موجودہ فیملی لاء محض مسلمان عورت کے طلاق کے حق کی بات کرتا ہے جبکہ پاکستان میں مختلف قوموں اور ثقافتوں، اور مذاہب کے لوگ موجود ہیں، جن پر اس مسلم فیملی لاء کا اطلاق مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔
یہ تو سادہ سی بات ہے۔ نکاح نامہ میں موجود شق (جس میں عورت کو طلاق کا حق خلع کے ذریعے ‘تفویز‘ کیا گیا ہے) نکاح کے وقت اِس شِق کے کاٹے جانے کی صورت میں نکاح رجسٹرار نکاح کو غیر قانونی قرار دے اور رجسٹر ہی نہ کرے۔ پارلیمنٹ کو چاہیئے کہ اپنا وقت بچائے اور وہ اپنی ساری توجہ لوگوں کے اصل مسائل، معاشی بدحالی، انصاف تک رسائی، سماجی برابری، بنیادی حقوق کے پاسداریوں پر لگا دے تو سماج اور عورت ایک بہتر سماجی صورتحال کی جانب بڑھ سکیں گے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ صرف سیاسی مقاصد کے لئے عورت کو ایک بار پھر سے اِسلامی نظریاتی کونسل کے آگے ڈالا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ جیسے ادارے ضیائی اور ایوبی آمرانہ دور کے پیداوار ہیں جن کے ذریعے ریاست کے اندر ریاست بنائی گئی، جس کا خمیازہ آج پورا پاکستان کسی نا کسی شکل میں بھگت رہا ہے۔ آج تک کوئی جدید مالیاتی، اقتصادی، یا خارجہ پالیسی کو تو اِن اداروں کے مشورے اور ‘شریعت ‘ کے مطابق نہیں بنایا گیا، بس اِن اداروں کو محنت کش طبقات، اقلیتوں اور عورتوں کے خلاف استعمال کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ یہ ادارے ضیائ دور کی پالیسیوں کو دوام دینے کے لئے بس اُنہی پالیسیوں کو سُرخی پاوڈر لگانے کا کام کرتے ھیں، اور کب سے اُنہیں تبدیلی کا لبادہ اُوڑھا کر پیش کرتے رہے ہیں۔ بلاسفیمی کے قانون کے ساتھ بھی تو یہی کیا، صرف رپورٹنگ کے نظام میں تبدیلی کی۔
پاکستان میں آئین و قانون کے ہوتے ہوئے جاگیردار، قبائلی سردار اور مُلا اکٹھے ہو کر غیر قانونی جرگوں اور پنچائیتوں میں عورتوں کی زندگی کے فیصلے کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ہندوستان میں جاگیرداری/سرداری نظام کو برطانوی سامراج سے آزادی کے فوراََ بعد ختم کیا گیا، جس سے جاگیردارانہ پدرسری نظام کی بنیادوں کو توڑنے میں مدد ملی اور عورت کو پنچائتوں سے نجات کی راہ ہموار ہوئی۔ مگر پاکستان کے ملٹری اور سول اشرافیہ طبقہ کے لئے لینڈ ریفارمز، جہاں جاگیروں کا خاتمہ کر کے زرعی زمینوں پر مرد اور عورت کا حقِ ملکیت یکساں ہو، کوئی معنی نہیں رکھتے۔
ضیاء الحق نے جاگیرداروں کے لئے فیڈرل شریعت کورٹ کے ذریعے لینڈ ریفارمز کو غیر شرعی قرار دیا۔ آج خود فوجی اشرافیہ بڑی بڑی اراضیوں کے مالکان ہیں۔ مشرف دور سے شہروں میں بھی لینڈ بوم شروع ہوا، اور اکثر سرکاری اور نجی زرعی زمینوں کو فوجیوں اور لینڈ مافیا نے کوڑیوں کے مول قبضے میں لے کر ڈی.ایچ.اے اور بحریہ ٹاؤن کا کھربوں کا مال بنایا۔ آج سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے نے آکٹوپس کی شکل اختیار کر رکھی ہے اور پاکستان میں %75 لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے، وہاں پر عورت کا ملکیت پر حق کا سوال کہیں موجود نہیں۔ اور نہ ہی ریاست نے عورت کی تعلیم اور روزگار پر کوئی توجہ دی ہے۔ آج محنت کش اور لوئر مڈل کلاس طبقے کی اکثر عورتیں معاشی طور پر مرد کی بالا دستی کا شکار ہیں۔ اور عورت کی معاشی خود انحصاری اور صنفی برابری کے بغیر ‘طلاق’ عورت اور اُس کے بچوں کے لئے اکثر مزید جبر اور بدحالی لے کر آتا ہے۔ طلاق کی صورت میں مجبوری کے عالم میں عورت کو واپس میکے جانا پڑتا ہے، اور اپنے ہی والدین اور بھائی اُسے ’معاشی بوجھ‘ سمجھ کر قبول نہیں کرتے، اگر کر بھی لیں تو ذلیل کرتے ہیں۔
تاریخی طور پر پاکستان میں، خاص طور پر ضیائی دور سے اب تک عوام کے سیاسی کنٹرول کے لئے سماجی زندگی سے متعلق قوانین مذہب پرستی کی زد میں رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں مروجہ تمام مذاہب کا استعمال کیا گیا، اور مزید برآں ہندو اور مسیحی آبادی خاص طور پر ضیائی اسلامائزیشن کی زد میں بھی آئے اور جبر کا شکار ہوئے۔ مثال کے طور پر ہندو میرج ایکٹ پاکستان بننے کے 70 سال بعد فروری 2017ءمیں بنایا گیا۔ یہ ایکٹ ایک ہندو عورت کی غیر ہندو مرد سے شادی کے بارے میں خاموش ہے، جو کہ پہلے ہندو کسٹمری لاء میں قابلِ قبول تھی۔ اسی طرح کرسچین ڈیورس ایکٹ کو ضیاء نے معطل کیا تھا، جس کو لاہور ہائی کورٹ نے جون 2017ء میں بحال کیا۔ اور اسی طرح کرسچین میرج ایکٹ 1872ء اور کرسچین ڈیورس ایکٹ 1869ء میں مجوزہ ترامیم پچھلے پانچ سالوں سے لٹکی ہوئی ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں سے سندھ میں جاگیرداروں، پیروں اور مذہبی تنظیموں کے تحفظ میں ہندو لڑکیوں اور کمسن بچیوں کا اغواء، جبری تبدیلیِ مذہب، اور مسلمان اغواء کاروں سے جبری شادیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ موومنٹ فار سولیڈریٹی اینڈ پیس کے مطابق پاکستان میں ہر سال 12 تا 25 سال کی عمروں کی 1,000 کے لگ بھگ ہندو اور مسیحی کمسن بچیوں اور خواتین کو اغواء، جبری تبدیلیِ مذہب اور جبری شادی کا شکار کیا جاتا ہے۔ ہالہ، ضلع مٹیاری میں 11سالہ ہندو بچی مونیکا کا کیس تازہ ترین مثال ہے۔
سندھ میں ہندو اور مسیحی لڑکیوں کا مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے ہاتھوں اغواء اور بڑے جاگیر دار/ پیر میاں مٹھو کے ڈیرے پر مسلمان اغوا کاروں سے جبری شادیاں ایک انتہائی قابل تشویش معاملہ ہے۔ پچھلے دو مہینوں میں 13 کمسن ہندو لڑکیوں کا اغواء ا ور اُن کی جبری شادیاں محض اتفاق نہیں، ایک منظم سازش ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کو ریاستی سطح پر فروغ اور پشت پناہی نے آج پاکستان کو اس نہج تک پہنچایا ہے کہ مذہبی اقلیتی خاندانوں کی بیٹیاں، جان و مال اور عبادت گاہیں محفوظ نہیں ہیں۔ ہم مطالبہ کرنا ہو گا کہ نفرتیں پھیلانے والی تمام مذہبی پارٹیوں اور گروہوں کو کالعدم قرار دیا جائے اور تمام مذہبی انتہا پسند انفراسٹرکچر کا خاتمہ کیا جائے۔ ہمیں مذہب کو سیاست و ریاست سے الگ رکھنے کی حمایت کرنی ہو گی ور اس نکتہ نظر کے حامی تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں نئے عمرانی معاہدے کے لیے جدو جہد کرنی ہو گی۔
ہندو اور مسیحی لڑکیاں مالِ غنیمت نہیں، اِس ملک کی برابر کی شہری ہیں۔ اُن کے جسموں کو مذہبی میدانِ جنگ نہ بنایا جائے۔ ہم نابالغ ( 18سال سے کم عمر) انسان کی تبدیلیِ مذہب یا شادی کو جبری تبدیلی مذہب اور جبری شادی سمجھتے ہیں۔ یہ سلسلہ فوری روکنا ہو گا!۔
ان مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، اپریل 2010ء کے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت فیملی لاء کے بارے میں قانون سازی کا اختیار صوبوں کو دیا گیا تھا، جو کہ بعد میں سندھ کے علاوہ باقی صوبوں نے و فاق کو واپس دے دیا۔ سندھ اسمبلی نے نہ صرف 2016ء میں سندھ ہندو میریج ایکٹ بنایا بلکہ اگست 2018ء میں اس میں ترمیم کر کے عورت کو طلاق اور دوبارہ شادی کے حق کو شامل کیا اور کمسنی کی شادی پر پابندی بھی شامل کر دی۔
اس تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ سبجیکٹ صوبوں کے پاس ہوں تو عورت کی ازدواجی حیثیت سے متعلق قانون سازی میں پیش رفت ہو سکتی ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل، جو کہ ایک فیڈرل ادارہ ہے، سے نجات بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ ہمیں مطالبہ کرنا ہو گا کہ فیملی لاء کا سبجیکٹ صوبوں کو دوبارہ واپس کر دیا جائے۔ اور اِسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ جیسے ادارے، جو کہ ریاست کے اندر خود سے ایک ریاست ہے، ان کا فی الفور خاتمہ کرنا چاہیئے، اور ایسے کاسمیٹک قوانین جس سے عورت مزید خوار ہو، اور انکے بنیادی حقوق کا سوال مزید کنفیوژن کا شکار ہو گا۔ نکاح کی شق پر جو کہ نکاح نامہ میں پہلے سے آئین و قانون کے رو سے موجود ہے، پر از سر نو اسمبلی میں بل لانا ماسوائے وقت کے ضیاع اور سیاسی دھوکے کے کچھ نہیں۔
سوشلسٹ فیمنسٹ انقلاب کی جدوجہد تو جاری رہے گے، مگر موجودہ جمہوری نظام نے جو جمہوری اور بنیادی حقوق ہم دینے کا وعدہ کیا ہے، اُس کے لیے بھی جدوجہد کرنی ضروری۔ صرف اٹھارہویں ترمیم یا عائلی قوانین میں ترامیم سے کام نہیں چلے گا!۔
ملک میں ایک ہی سیکولر دیوانی اور فیملی قانون ہو جس کے مطابق ہر نسل، قوم، و عقیدہ، اور جنس کے لوگ یکساں طور پر مستفید ہو سکیں۔ اور ہمیں پدر شاہی نظام کے بنیادی ستون ‘پدر شاہی خاندان اور پدر شاہی ریاست’ سے متعلق اپنی جدوجہد کو درج ذیل نکات کے گرد منظم کرنی ہوگی: ۔
ہمیں زرعی اصلاحات کی جدوجہد تیز کرنی ہوگی، تاکہ جاگیرداری اور قبائلی نظام کو گرایا جا سکے، جس کے دم پر طبقاتی تفریق اور پدرشاہی انتہائی ظالمانہ شکل میں موجود ہیں۔ جاگیرداری محنت کش عوام کے حقِ حکمرانی اور جمہوری حقوق بھی غصب کئے ہوئے ہے۔
ہمیں ہندو اور مسیحی لڑکیوں کے اغوا ء مسلمان اغوا کاروں سے جبری شادیوں کی مذمت کرتے رہنے ہو گی۔ کیونکہ ہم نابالغ (18سال سے کم عمر) انسان کی تبدیلی، مذہب یا شادی کو جبری تبدیلی مذہب اور جبری شادی سمجھتے ہیں۔ اور بالغ انسان کے اوپر جبر، تشدد اور دھمکیوں کے نتیجے میں تبدیلی مذہب کو بھی بنیادی جمہوری حقوق کے خلاف جُرم سمجھتے ہیں۔ ہم پروٹیکشن آف مائناریٹیز ایکٹ 2015ء (سندھ) کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم مذکورہ قانون سازی کو مسترد کرنا یا کمزور کرنے کی سازشیں کرنے والوں کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اُن کی بھر پور مزاحمت کرتے ہیں۔ ہم باقی تین صوبوں سے بھی اِسی قسم کی قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ہمیں بِلا تفریق مذہب و قوم کم عمری کی شادی، بالغ لڑکی کی جبری شادی، خون بہا میں شادی اور مرد کی بیک وقت کئی شادیوں کی مخالفت کرنی ہو گی۔ موجودہ قانون سازی اور ان پر عملدرآمد کے لیے ریاستی اقدامات کو ناکافی ہیں۔ ہمیں مطالبہ کرتے رہنا ہو گا کہ قوانین کو دوبارہ دیکھا جائے، اور ان پر عملدرآمد کے لیے ریاستی سطح پر سماجی اقدامات کیے جائیں اور تشہیری مہم چلائے جائیں۔ تعلیم مفت اور عام کی جائے، تاکہ عورت کی وہ سماجی حیثیت بن سکے کہ وہ قوانین کا فائدہ لے سکے۔
ہمیں ہر طرح کے متوازی عدالتی نظام کو رد کرنا ہو گا، خاص طور پر گھریلو معاملات اور عورت کی زندگی سے وابستہ انصاف کے نظام میں انقلابی تبدیلی کی جدوجہد کرنی ہو گی۔
ہمیں جمہوریت سے متصادم، جاگیرداری اور مرد کی بالادستی کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرنے والے اِسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت جیسے اداروں کے فوری خاتمے کی جدوجہد بھی کرنی ہو گی۔ یہ دونوں ادارے اٹھارہویں ترمیم، جمہوریت اور انسانی برابری کے لیے جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ رہے ہیں۔
ہمیں جنس اور مذہب کی بنیاد پر تمام امتیازی قوانین کے خاتمے کی جدوجہد جاری رکھنی ہو گی۔