سماجی، معاشی، سیاسی، اور ثقافتی محرکات کا جائزہ
تحریر: عصمت شاہجہان
تعارف
پاکستان اِس وقت ایک سنگین صنفی اور جنسی بحران سے گزر رہا ہے۔ پدرشاہانہ جنونیت اور جنسی بربریت ایک سماجی وباء کی شکل اختیار کر چُکے ہے، جس نے پورے سماج کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اِس وباء نے سب سے زیادہ خاندان کے اِدارے، تعلیمی اداروں اور مذہبی مدرسوں کو متاثر کیا ہے، جو اِس وقت بہت پُرتشدد ہو چکے ہیں۔ تین گروہوں کو اس بربریت کا سامنا ہے: عورتیں اور بچیاں، خواجہ سراء اور نابالغ لڑکے۔ اِن گروہوں کی مار پیٹ، صنف کی بنیاد پر قتل (فیمیسائڈ)، طفل کشی (انفنٹیسائید)، ریپ چھپانے کے لئے قتل (ریپ اینڈ کل)، ریپ، جنسی ہراسانی اور حملے، اور خاموش اموات (سائیلنٹ ڈیتھ) پاکستان میں روزمرہ کا معمول بن چُکا ہے۔ یہ مضمون اِس بُحران کے سماجی، معاشی، سیاسی، اور ثقافتی محرکات پر بحث کرتا ہے۔
میری نظر میں پاکستان میں حالیہ صنفی اور جنسی بُحران اور بربریت کی اِس نئی لہر کے پیچھے محرکات میں تاریخی طور پر چلتے آئے پدرشاہی بنیادوں پر صنفی تضاد تو ہے ہی ہے، مگر صدیوں سے چلتے آئے قبائلی اور جاگیردارا طرزِ پیداوار (مارکس)1 اور اس سے جُڑے صنفی آرڈر میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں نے بھی سماج میں ایک پدرشانہ تھر تھلی مچائی ہے۔ جاگیرداری نظام عورت کی جنسیت اور لیبر کو مکمل ضبط کرتا ہے، اور عورت سے مکمل غُلامی کا طلبگار ہوتا ہے۔ جاگیردارانہ غُلامی میں مزدور کے حقوق اور آزادی چھین لئے جاتے ہیں، اور وہ مکمل طور پر آقا کی ملکیت میں ہوتا ہے، جو اس پر جس طرح چاہے اپنی مرضی مسلط کر سکتا ہے۔ جاگیرداری کے برعکس، سرمایہ داری کی اپنی طرح کی جکڑبندیاِں صحیح مگر سرمایہ داری مزدوروں کو بظاہر یہ موقع تو فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی محنت کو بازار میں بیچیں۔
پیداراوی نظام اور سماج اس وقت ٹرانزیشن میں ہے۔ قبائلی اور جاگیردارانہ ڈھانچے سرمایہ داری میں ضم ہو رہے ہیں، اور سماجی اور صنفی آرڈر بدل رہے ہیں۔ یہ بُحران سماجی و صنفی تعلقات میں تبدیلی کے خلاف پدرشاہی کا ردِعمل ہے۔
یہ مضمون نئے استحصالی پیداواری رشتوں سے اُبھرنے والے پدرشاہانہ تشدد، طبقاتی اور قومی تضاد کی نئی شکلوں سے اُبھرے والے تشدد، ریاستی جبر سے اُبھرنے والے سیاسی حالات اور تشدد، اور سب سے اہم ریاستی سطح پر جنگی اقتصاد کے لئے جنونی اور متشدد پدرشاہی کی تشکیل جیسے محرکات پر بحث کھولتا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں محرکات پر بات رکھوں، تشدد کے پہلوؤں کی درجہ بندی اور شکلوں کا مختصر خُلاصہ پیش کرنا چاہوں گی۔ تشدد کی کئی شکلوں کو چار زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:۔
سماجی اور معاشی نوعیت کے حملے : ان میں آئے روز عورتوں، خواجہ سراؤں اور بچوں کے بہیمانہ قتل عام ، مارپیٹ، جنسی حملے، اور نفسیاتی/جنسی/تولیدی دباؤ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مروجہ پدرشاہی ضابطوں سے بغاوت کرنے والے مرد بھی اس کا شکار ہیں۔ ان واقعات میں خاندان ہی کے مرد ملوث ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں تعلیمی اداروں، مدرسوں، دفاتر اور ورکشاپوں میں بڑے پیمانے پر انتظامیہ کی سرپرستی میں منظم جنسی حملے اور ہراسانی شامل ہیں۔ ان واقعات میں اُستاد، قاری، اور دفتر کے باس ملوث ہوتے ہیں۔ اور راضی ناموں کے بعد مراعات لے کر (دیت وغیرہ)مجرم معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس حراست اور تھانوں میں عورتوں کی ہراسانی، اور سیکس ورکرز کے پولیس کو جنسی بھتے شامل ہیں ۔
سیاسی نوعیت کے حملے : یہ منظم ریاستی تشدد کی شکل میں ہوتے ہیں۔ اس میں ریاستی ڈیتھ سکواڈز/ مذہبی انتہاپسند گروپوں کے ذریعے عورتوں پر قاتلانہ حملے اور ایجنسیوں کی طرف سے اجتماعی قومی سزا کے طور پر اغواء کاریاں، اور فوجی اور لیوی اہلکاروں کی طرف سے عورتوں پر جنسی حملوں، سائبر سپیش میں سیاسی مزاحمت کرنے والی عورتوں کو ریاست کی طرف سے منظم ہراسانی جیسے واقعات شامل ہیں۔ عورتوں اور بچوں کے تعلیمی اداروں پر بموں سے حملے۔
وضاحت: اس سے میرا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ تشدد کی باقی شکلوں کی نوعیت سیاسی نہیں ہے۔ یہ درجہ بندی صرف تشدد میں ریاست کے براہ راست ملوث ہونے کے وضاحت کے لئے ہے۔
مذہبی نوعیت کے حملے : ان میں ہندو بچیوں کا اغواء اور درگاہوں میں بندوقوں کے سائے میں مسلمان اغواء کاروں سے جبری شادیاں شامل ہے۔ ان حملوں میں مذہبی انتہا پسند تنظیمیں اور ریاستی سپورٹ رکھنے والے پیر شامل ہیں۔ اس کا دوسرا نیا پہلو مسیحی لڑکیوں کا غیرملکیوں کو شادی میں فروخت اور بھاگنے کی کوشش پر تشدد جیسے واقعات شامل ہیں۔ اس ٹریفکنگ کے واقعات میں جنسی کاروبار کرنے والے گروہ ملوث ہیں، اور تشدد میں شوہر اور ایجنٹ ملوث ہیں۔ کمسنی میں شرعی/جبری نکاح بھی اس میں شامل کئے جا سکتے ہیں۔ پیروں اور عامِلوں کی طرف سے جن نکالنے کے دھندے میں نفسیاتی مسائل کا شکار بے بس عورتوں پر تشدد۔
خاموش اموات اور منظم ریپ کی وباء: یہ منظرِ عام پر نہیں آتے۔ کام کی زیادتی، مار پیٹ، خوراک کی، کمسنی کی شادی، صحت جیسی بنیادی سہولت کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان میں سالانہ ہر ایک لاکھ حاملہ عورتوں میں سے 178 عورتیں دوران حمل اور زچگی میں مر جاتی ہیں۔ یونیسیف کے مطابق دیہاتوں میں صرف 26 فیصد حاملہ عورتوں کو صحت کے مراکز یا ٹرینڈ دائی تک رسائی ہے۔ بلوچستان میں یہ شرح صرف 18 فیصد ہے۔ 23 فیصد بچوں کو کمسنی میں ہی بیاہ دیا جاتا ہے جن کی اکثریت لڑکیوں کی ہے، اور جو کہ منظم ریپ (سٹیچوٹری ریپ) کے زمرے میں آتا ہے۔ جبری اور غیرمحفوظ اسقاطِ حمل میں عورتوں کی اموات، مادہ بچی کا حمل گرانا، طفل کشی(انفنٹیسائیڈ) یعنی نوزائیدہ بچیوں کو مار کر کچروں کے ڈھیر پر پھینکنا، سب خاموش اموات ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے پاکستان میں عورتوں کی آبادی مردوں سے 2 فیصد کم ہے۔ اس وقت پیدائش پر آبادی کی سیکس ریشو 1.05 ہے (یعنی 100 عورتوں پر 105.07 مرد ہیں (، جبکہ 15 تا 64 سال کی عمروں کی آبادی میں یہ شرح بڑھ کر 1.09 ہو جاتی ہے ۔
اِستحصالی پیداواری نظام سے اُبھرنے والا بُحران اور تشدد
: قبائلی اور جاگیردارانہ پیداواری نظام سے اُبھرنے والا بُحران
ایک طرف پرانے جاگیردارانہ ڈھانچوں (خاص طور پر سندھ اور پنجاب میں) اور قبائلی ڈھانچوں (خاص طور پختونخوا اور بلوچستان میں) کے انتہائی سخت گیر طبقاتی اور جدی پُشتی پدرشاہانہ ڈھانچے اب بھی موجود ہیں، جو جرگوں اور پنجاییٔتوں اور خاندانی نظام کے ذریعے پدرشاہی ضابطوں سے انحراف پر عورتوں کی زندگیوں کا فیصلہ کر کے قتل کرتے ہیں۔ قبائلی اور جاگیردارانہ طرز پیداوار رکھنے والے علاقوں میں عمومی طور پر اِن ضابطوں کی عملداری بہت سخت شکل میں موجود ہے۔ خاص طور پر جنسی اور تولیدی ضابطوں میں۔ ان سماجوں میں طلاق کا تصور نہیں ہوتا، اور طلاق دینے والے کو گالی کے طور پر “زن طلاق ” کہا جاتا ہے، اور طلاق شدہ عورت پر ہمیشہ کے لئے کلنک لگا دیا جاتا ہے، یا بچوں پر لڑائی میں اُسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان ڈھانچوں میں عورت جاگیر کا حصہ ہے، اور قبیلے اور خاندان کی ملکیت ہے۔
اِن پسماندہ نظاموں کی طرزِ پیداوار چونکہ بنیادی طور پر زمین اور افرادی قوت پر مبنی ہوتی ہے، جسے پورا کرنے کے لئے بڑے خاندان کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کے جنسی اور تولیدی، اور صنفی تقسیمِ محنت کے ضابطے بہت سخت ہوتے ہیں، اور پدرشاہی کی بنیاد پر نجی اور عوامی زندگی (پبلک اینڈ پرائیویٹ) کی تقسیم بھی بہت دو ٹوک، اور تشدد کی شکلیں شدید تر ہوتی ہیں۔ سماج کے قبائلی اور جاگیردارانہ حصوں میں پدرشاہانہ خاندان کے یہ ضابطے ہمیں کئی شکلوں میں نظر آتے ہیں: مثال کے طور پر: خاندان کی لیبر اور مین پاور کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مسلسل اولاد اور زیادہ سے زیادہ نارینہ اولاد پیدا کرنے کا مسلسل دباؤ۔ بانجھ ہونے پر مسلسل طعنے اور سوکن کا سامنا اور لڑائیوں کی صورت میں مزید تشدد۔ مالدار طبقے میں شوہر کی متعدد شادیوں کا مسٔلہ۔ کمسنی میں شادی اور بیاہتے ہی بچے پیدا کرنے کا دباؤ، تعنی چبی کی گود مین بچہ۔ بارٹر سسٹم کی طرح، خاندان اور برادری میں دُلہن کے بدلے دلُہن (وٹہ سٹہ) کا سودا، اور پھر بدلے کا تشدد۔ بیاہ میں پیسے لے کر بیچنا (ولور)، قبائلی دشمنی میں خون بہا میں دینا (ونی، سورہ)۔ کمسنی میں بیاہنا۔ کزن سے شادی کرانا۔ قرآن سے شادی کرانا۔ خاندان کے اندر جبری شادی۔ برادری اور قبائلی دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے جرگوں اور پنچائتوں کے حکم پر عورتوں کو گینگ ریپ کرنا اور ننگا کر کے گلیوں میں گھمانے کے حالیہ واقعات انسانیت سوز تشدد۔ سندھ جام شورو میں وزیراں چاچڑ، دادو میں گل سما، گھوٹکی کی ڈاکٹر نمرتا کماری، پختونخوا بونیر میں یاسمین، اور بلوچستان قلعہ سیف اللہ کی بی بی عارفہ اس ضمن میں میڈیا کے ذریعے منظر عام آنے والے وحشیانہ تشدد کے حالیہ چند مثالیں ہیں۔
اس پس منظر میں جہاں جدید سرمایہ داری نظام کی آمد سے عورتوں کی تعلیم اور روزگار، اور فیمنسٹ شعور نے جہاں سماجی رشتوں میں صنفی تضاد مزید گہرا کیا ہے، وہاں سماج میں ایک صنفی بغاوت کو جنم دیا ہے۔ پدرشاہانہ صنفی اور جنسی آرڈر سے انحراف پر، خاص طور پر عورتوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، یہاں تک کہ قتل کیا جاتا ہے۔ جسے آج کل ’غیرت کے نام پر قتل‘ کہتے ہیں۔ یہ قتل غیرت کے نام پر نہیں، سیدھا سیدھا پدرشاہاہی سے بغاوت پر مردوں کی طرف سے عورتوں کا قتل ہے۔
قبائلی اور جاگیردارانہ پدرشاہی کے خلاف عورتوں کی بغاوتیں اور اس کے گرد خاندان کے مردوں کی طرف سے تشدد عام ہوتا جا رہا ہے: پدر شاہی کے خلاف صنفی بغاوت کی کئی شکلیں سامنے آئی ہیں جیسے کہ: پسند کی شادی کی کوشش۔ خاندان سے باہر شادی کی کوشش۔ ماؤں کا بچیوں کی جبری یا کمسنی کی شادی سے انکار۔ پُر تشدد شادی میں رہنے سے انکار۔ جائیداد اور وراثت میں حصہ مانگنا یا نا ملنے پر تشدد۔ بچوں کی طرف سے پدرشاہانہ روایات اور اخلاقیات سے انحراف کے نتیجے میں ماؤں پر تشدد اور روزمرہ کی مارپیٹ۔ تشدد کے دوران حادثاتی موت یا مفلوجگی۔ کاری کرنا/غیرت کے نام پر قتل کرنا۔ زندہ دفن کرنا۔ سنگسار کرنا۔ دریا میں پھینک کر خودکشی کا رنگ دینا۔ ‘جن نکالنے’ کے بہانے خاندان والوں اور پیروں اور عاملوں کے ہاتھوں تشدد۔
اُوپر سے سماج کی ملٹرائزیشن، مذہبی انتہا پسندی، اور اور اسلحہ کی بھر مار نے پدر شاہانہ ضابطوں کو مزید مضبوط کیا ہے۔ کام کی زیادتی، دور دور سے پانی اور ایندھن کی لکڑیاں لانے، اور خوراک کی کمی، اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے زچگی کے دوران عورتوں کی اموات بھی دیہاتوں میں زیادہ ہیں۔
: جدید سرمایہ دارانہ پیداواری نظام سے اُبھرنے والا بُحران
دوسری طرف پرانے جاگیردارانہ اور قبائلی طرز کے پدر شاہی ڈھانچے اور ثقافت اب جدید سرمایہ داری (ملٹی نیشنل سرمایہ، مالیاتی سرمایہ، اور نیو لبرل گلوبلائزیشن) کی آمد کی وجہ سے بدلتے پیداواری رشتے، صنفی تعلقات اور ثقافت جاگیرداری اور قبائلیت سے تصادم میں چلے گئے ہیں۔ جدید سرمایہ داری نظام سے پیدا ہونے والے معاشی بحران اور خطے میں جنگ کے نتیجے میں غربت کی وجہ سے دیہی آبادی نے تیزی سے شہروں اور دوسرے ممالک کا رخ کیا۔ باہر ممالک جانے والے جوانوں کی بیویاں گاؤں میں پیچھے رہ گئیں، اور زراعت سنبھال لی۔ شوہروں کے جانے سے خاندان کے دوسرے مردوں کی طرف سے ان پر پدرشاہانہ اور جنسی نگرانی مزید بڑھ گئی، جس نے عمومی طور پر سماج میں پدرشاہی کو مزید مضبوط کیا۔ شہر منتقل ہونے والے محنت کش خاندانوں کی عورتوں نے اپنے لئے روزگار، معاش، اور زندگی کے نئے رستے ڈھونڈے، اور مُلازمتیں کر لیں۔ اکثریت نے کچی آبادیاں اور شہر کے اطراف میں بستیاں اور کالونیاں بسائیں، اور فیکٹری ورکرز، ڈومیسٹک ورکرز اور ہوم بیسڈ ورکرز، سیلز گرلز، بیوٹی پارلر ورکرز، اور آفس اسسٹنٹ کے طور پر کا م کرنے لگیں۔ عورتوں کی بڑی تعداد اب تعلیمی اداروں اور لیبر مرکیٹ میں داخل ہو چُکی ہے۔ عورتوں کو کچھ معاشی آزادی مِلی مگر اُن پر گھر کے کام کے بوجھ کے علاوہ، باہر کے کام کا بوجھ بھی آ گیا۔ جس سے صنفی رشتوں میں تبدیلی آئی، اور پُرانے طرز کی قبائلی اور جاگیردارانہ پدر شاہی کمزور ہونے لگی ہے، اور نئے ظرز کی جنم لے رہی ہے۔
ایک طرف عورتوں نے پدرشاہی کی پرانی شکلوں کے خلاف مزاحمت کی، تو دوسری طرف پدرشاہی نے بھی جبر اور اپنی بقاء کے لئے تشدد کے نئے طریقے ڈھونڈے۔ تشدد میں کیمکلز اور اسلحے کا استعمال شروع کیا گیا، جیسے کہ شادی سے انکار پر چہرے پر تیزاب پھینک کر مسخ کرنا۔ زہر یا تیزاب پلا کر خود کشی کا رنگ دینا۔ خواتین فنکاراؤں اور خواجہ سراؤں کا آتشیں اسلحے سے قتل عام، اور ریپ کرنا۔ پولیس کی حراست میں جنسی تشدد اور ریپ۔ دُلہنوں کو جہیز کم لانے یا کنواری نہ ہونے پر مٹی کا تیل ڈال کر جلانا اور اسے چولھا پھٹنے کا رنگ دینا۔ اپنی ہی نوجوان بیٹیوں کو پھانسی پر لٹکانا اور دریا میں پھینک کر اُسے خودکشی کا نام دینا۔ عوامی مقامات پر اور زیرِحراست عورتوں پر پولیس اہلکاروں کی طرف سے جنسی حملے اور ہراسانی۔ گھر سے بغیر اجازت کے باہر جانے پر مار پیٹ۔ سابقہ یا موجودہ شوہر /محبوب سے ناچاقی پر قتلِ عام۔ اب تو اکثر لڑکیوں کو پسند کی شادی یا تعلق رکھنے کے جُرم میں شہروں سے گاؤں میں لا کر قتل کیا جاتا ہے۔ کراچی میں بیشمار پشتون لڑکیوں کے ساتھ ایسے واقعات ہو چکے ہیں۔ یا شہروں میں ہی خاندان کے مرد مل کر ان پر شدید تشدد کرتے ہیں۔ اور باہر ممالک سے بھی لڑکیوں کو پاکستان لا کر قتل کیا جاتا ہے، خاص طور پر پنجاب میں۔ اس کے علاوہ دیہاتوں سے عورتوں نے تعلیم اور روزگار کے لئے شہروں کا رُخ کیا، جہاں بیلچر لڑکیوں اور طالبات کو ہوسٹلز نہ ہونے کی وجہ سے رہائش کے شدید مسائل ہو رہے ہیں، اور مالکان، ہمسایوں، اور پولیس کی ہراسانی کا سامنا ہے۔ ڈومیسٹک ورکرز کو بھی شدید جنسی ہراسانی کا سامنا ہے۔
چھوٹا مکان، بڑا خاندان: پھیلتی شہری آبادی کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ بُوم آئی جس میں ایک طرف فوجی رہائشی کالونیوں نے شہری اطراف کی زرعی زمینوں اور جدی پُشتی گاؤں پر قبضے شروع کئے اور لوگوں کو اپنی آبائی علاقوں اور زراعت سے بے دخل کیا۔ دوسری طرف، پُرانے جاگیر داروں نے شہروں میں رئیل اسٹیٹ پر غلبہ حاصل کیا، اور اپنے ساتھ شہروں میں جاگیردرانہ پدر شاہی باقیات بھی لائے۔ کالادھن رکھنے والوں نے رئیل اسٹیٹ کے ذریعے اپنا پیسہ قانونی بنایا۔ ان تینوں کے گٹھ جوڑ اور غلبے سے شہری زمین پر جھگڑے، بڑھتی قیمتوں، اور کرایوں نے غریب طبقے کو بہت متاثر کیا، اور رہائش ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر ابھرا۔ کئی کئی خاندان ایک ہی چھوٹے مکان میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے ،خاندان کے اندر شدید لڑائیاں ہوتی ہیں، جن میں اکثر عورتوں پر ہی تشدد ہوتا ہے۔ پروین رحمان کا قتل بھی کچی بستوں اور لینڈ مافیا کے درمیان لڑائی کا حصہ ہے۔ کچی آبادیوں کو گرانے، متشدد طریقوں سے زمینوں پر قبضوں، اور بے دخلیوں سے عمومی طور پر غریب خاندانوں، اور انکے اندر عورتوں کی حیثیت مزید کمزور ہوئی ہے۔
جدید نیو لبرل مالیاتی نظام شہری اور دیہی محنت کش طبقے کے لئے تباہی لایا۔ پچھلی چار دہائیوں میں غیر ملکی قرضے بھرنے کے لئے مہنگائی، نجکاریوں، کٹوتیوں اور صحت و تعلیم کی پرائیویٹائزیشن نے محنت کش طبقے پر معاشی دباؤ مزید بڑھا۔ اب صرف ایک تنخواہ میں چھ افراد کا خاندان مہینہ نہیں گزار نہیں سکتا، اب ہر خاندان کو گزارا کرنے کے لئے کم از کم دو تنخواہیں چاہئیں، اور میاں بیوی دونوں کا م کرتے ہیں۔ ایک طرف معاشی دباؤ بڑھا، تو دوسری طرف طبقاتی نمائش عام ہوئی، شادی میں جہیز کی مانگیں بھی بڑھنے لگیں۔ ان عوامل کے گرد پدر شاہانہ تشدد شروع ہوا۔ گھر سے باہر کام کر نے والی ملازمت پیشہ عورت کے کردار پر شک بھی تشدد کی ایک بڑی وجہ بن کر اُبھری۔
عورت کا پدر شاہی ضابطوں سے انحراف مرد مزدور کے لئے بالکل ایسے ہے، جیسے کہ ایک غلام، جس کی کل ملکیت ایک اور غلام (عورت) ہو، وہ حکم عدولی کرے۔ اس طرح یہ معاشی بحران خاندان کے اندر پدرشاہانہ تشدد کا باعث ہے۔
بیروزگاری کی وجہ سے اب عورتوں میں بھی جز وقتی مزدوری یا سیلف ایمپلائمنٹ شہروں اور گاوں میں عام ہو گئی ہے۔ اب کروڑوں عورتیں زرعی اور غیر زرعی، اور رسمی و غیر رسمی شعبوں میں با معاوضہ کام کرتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلی تین دہائیوں میں عورتوں کی لیبر فورس پارٹیسپیشن ریٹ دُگنا ہوچکا ہے۔ مگر انکو کام کی جگہ امتیازی اُجرت ملتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق %76 عورتیں اپنے شوہروں سے کم کماتی ہیں، او، کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی اور ایمپلائرز کی طرف سے مسلسل جنسی بھتوں کے تقاضوں کا بھی شکار ہیں۔
پُرانا پبلک اور پرائیویٹ بنیادوں پر پدرشاہانہ صنفی تقسیم کا تصور کہ ’’عورت کی جگہ گھر۔ یا۔ قبر ہے‘‘ ٹوٹ رہا ہے، عورتیں عوامی زندگی کا حصہ بن رہی ہیں۔ مگر ملازمت پیشہ عورت کو احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ اکثر مرد، عورتوں کو عوامی مقامات پر تنگ اور ہراساں کرتے ہیں، کہ انکی نظر میں گھر سے باہر آنے والی ہر عورت بدکردار ہے، اور انہیں دستیاب ہے!۔
غُربت اور بےروزگاری سے تنگ آ کر کروڑوں خاندانوں نے اپنے بچوں کو تعلیم کے بجائے کام پر لگا دیا، بلکہ اکثر نے بانڈڈ لیبر کے طور پر بیچ دئے، یا بیٹیوں کو شادیوں یا قحبہ خانوں میں بیچنا شروع کیا۔ یونیسف کے مطابق، اس وقت پاکستان میں 5 تا 16 سال کی عمر کے23 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں (یعنی %44 بچے، جو دنیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہیں)، اور اکثریت لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ آئی.ایل.او کے مطابق 12 ملین بچے چائلڈلیبر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انکی اکثریت ایمپلائرز کی طرف سے عمومی تشدد اور جنسی حملوں کا شکار ہیں۔ اکثر شہری مڈل کلاس کے لوگ اپنے بچوں کو کھلانے کے لئے چھوٹی لڑکیاں رکھتے ہیں، جن کو غریب والدین سالانہ رقم کے عوض ’’رکھواتے‘‘ ہیں۔ ان چائلد لیبر بچیوں کو اکثر شدید تشدد کا سامنا ہے۔ یہ بچیاں ایجنٹوں کے ذریعے سالانہ رقم کے عوض خریدی جاتی ہیں۔ تشدد سے موت کے حالیہ واقعات میں دس سالہ طیبہ، گیارہ سالہ کنزا بشیر، اور سولہ سالہ عظمی کے کیس میڈیا کے ذریعے منظرِ عام پرآئے ہیں۔ بچوں کو جبری محنت میں بیچنے کے علاوہ، غریب والدین نے مذہبی انتہا پسند حلقوں کے بڑے پیمانے پر جہاد پروپیگنڈہ میں آکر اپنے بچے مدرسوں کے حوالے کر دئے (وہ مفت رہائش، کھانا، لباس اور مذہبی دیتے ہیں)، جہاں ان پر جنسی حملے اور تشدد کے واقعات آئے روز پریس کے ذریعے منظر ِ عام پر آتے ہیں۔یاد رہے کہ جو والدین خرچہ برداشت کر سکتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کراتے ہیں، مدرسوں میں نہیں۔ کچھ سڈیز کے مطابق، مدرسوں میں داخل 15 فیصد بچے یتیموں پر مشتمل ہیں۔ 6 تا 10 سال کے تقریباََ 1.8ملین بچے مدرسوں میں داخل ہیں ۔2 اسی طرح غریب خاندانوں میں لڑکیوں کو معاشی بوجھ سمجھتے ہوئے، کمسنی میں بیاہ دی جاتی ہیں۔ اس سے بھی خوفناک بات طفل کشی یعنی نو مولود لڑکیوں کو مار کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنا ہے (ایدھی ہر سال کراچی میں ہزاروں نومولود لڑکیوں کی لاشیں اُٹھاتا ہے)۔3 4
نیو لبرل گلوبلائزیشن کے نتیجے میں شہری مڈل کلاس پھیلی ہے، مگر اکثر خاندان اب بھی اپنے آبائی گھر اور زرعی جائدادوں کی وجہ سے جاگیردارانہ اور قبائلی نظام اور ثقافت سے ایک رشتہ رکھے ہوئے ہیں۔ انکا رواج اور اخلاقیات شہری ورکنگ کلاس کو بھی متاثر کر تے ہیں۔ یہ پڑھی لکھی مڈل کلاس زیادہ تر نیولبرل کارپوریٹ شعبوں میں کام کرتی ہے، سرمایہ داری کی حامی ہے۔ اس کلاس کا بحران یہ ہے کہ یہ ذاتی زندگی میں لبرل سہی، مگر سیاسی و تاریخی طور پر آمرانہ ریاستی ڈھانچے کا حمایتی کَل پُرزہ ہے۔ یہ اپنے طبقاتی کرادر سازی، اپنے دیہی خاندانی رشتوں، اور ریاستی ذہن سازی کی وجہ سے پر قدامت پرست بھی ہے، اور صنفی تعلقات میں پدر شاہی کنٹرول کی بھی حامی ہے۔ یہ اچھی خاصی پڑھی لکھی اور ملازمت پیشہ بیویوں اور بیٹیوں پر تشدد کرتے ہیں، اور نہ ہی انہیں وراثت میں حصہ دیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ رواج کے اندر رہتے ہوئے تعلیم اور روزگار کی اجازت دیتے ہیں، وہ بھی اچھا رشتہ ملنے کے نکتہ نظر سے۔ البتہ اس میں شہری اپر مڈل کلاس کا کچھ حصہ اب پسند کی شادی کو قبول کرنے لگا ہے۔ یہی حال بچوں کی تعلیم اور بہتر سہولیات کے لئے خاندان کو شہر منتقل کرنے والے جاگیرداروں کا ہے۔ البتہ سرمایہ دار ایلیٹ میں پدر شاہی ضابطوں کا زور کم ہے، یہاں خواتین طبقے کے زور پر آزادیاں لے لیتی ہیں، اور اکثر باہر ممالک یا ملک کے اندر بڑے پرائیویٹ اداروں میں لبرل سماجی ماحول میں پڑھتی ہیں اور ممکنہ حد تک اپنی مرضی کی زندگی گزارتی ہیں۔سول اور ملٹری بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی عورتیں بھی طبقے کے زور پر آزادیاں لے لیتی ہیں، اگر باپ اور شوہر مذہبی انتہا پسند اور ثقافتی قدامت پرست نہ ہوں۔
ڈائریکٹ فارن انوسٹمنٹ جیسے کہ عربوں کی موبائل فون اور بینکنگ سیکٹر میں انوسٹمنٹ، اور چین کا سی پیک اور دوسرے زرعی منصوبوں میں انوسٹمنٹ عورتوں کے لئے ایک جنسی عذاب لے کر آیا۔ ہزاروں غریب مسلمان خاندانوں نے اپنی بیٹیوں کو عربوں کو۔ 2019ء میں رابعہ کے دُبئی میں ٹریفکنگ کیس نے ٹریفکنگ مافیا کو بے نقاب کیا ہے۔ مسیحی خاندانوں نے اپنی بیٹیوں کو چینیوں کو بیچا۔ ان عورتوں کو جنسی غلامی کے علاوہ بھاگنے کی کوشش کے نتیجے میں تشدد کا بھی سامنا ہے۔
ان پیداواری تبدیلیوں کے نتیجے میں صنفی تعلقات، تقسیمَ محنت، ثقافت، اور خاندان نہ صرف نظام بدل رہے ہیں، بلکہ خاندان اور سماج عورت کی طرف پُر تشدد ہو رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کے ردِ عمل میں پدر شاہی کی پرانی شکلوں (جاگیردارنہ اور قبائلی طرزِ پدر شاہی) کو برقرار رکھنے کے لئے ریاست، سماج اور خاندان کی طرف سے کوششیں جاری ہیں۔ عورتوں پر پرانے طرز کی بالا دستی قائم رکھنے اور یا نئے طرز کی سرمایہ دارانہ بالا دستی کی تشکیل کے لئے معاشی استحصال، تشدد اور ہراسانی کا استعمال عام ہے۔ عورتوں پر تشدد ،اور بیروزگاری اور غربت سے اُبھرنے والے اختلافات کے گرد شہروں میں عورتوں کی طرف سے خلع لینے کی شرع بڑھ رہی ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب میں سال 2014ء میں 16,924 خلع کے کیس درج کئے گئے۔ کراچی میں 2019ء میں 11,143 کیس فائل کئے گئے، جبکہ 2020 کے صرف پہلے تین مہینوں میں 3,800 کیس فائل کئے گئے۔5
سرمایہ دار، ریاست، اور پدر شاہی سماج یہ چاہتے ہیں کہ عورت صرف خاموش مزدور، اور صارف بن جائے اور اس کے پاس کوئی صنفی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی حقوق اور آزادیاں نہ ہوں۔ پدر شاہانہ خاندان چاہتا ہے کہ گھر کے اندر کی تقسیمِ محنت نہ بدلے، یعنی کہ عورت تولیدی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ، باہر، گھر اور فیملی کئیر ور ک بھی جاری رکھے۔ ملازمت کرنے والی عورت کے کردار پر شک کرنا، عورت کو اپنی کمائی پر اختیار نہ دینا، گھر کے کام اور پورے خاندن کی خدمت میں کوتاہی، مردوں کے ساتھ کام کی وجہ سے عورت کے جنسی کردار پر شک کرنا، دیر سے گھر آنا، گھر سے بِلا اجازت باہر جانا، یا دیر سے آنا۔ اور دو تنخواہوں سے بھی گھر کا خرچ پورا نہ ہونے پر اکثر شوہر اور بیوی کے درمیان لڑائیاں ہوتی ہیں۔ اس کشمکش میں عورتوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عورتیں اس کے خلا ف انفرادی اور اجتماعی مزاحمت کر رہی ہیں، اور ان ایشوز کا اظہار ہمیں عورت آزادی مارچ اور عورت مارچ میں وضاحت سے ملتا ہے۔
ٹیکنالوجکل اور انفارمیشن ریولیوشن کے صنفی آرڈر پر اثرات : جدید سرمایہ داری نظام اپنے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی، سڑک اور ٹرانسپورٹ، اور میڈیا لایا، جو صنفی تعلقات اور تصورات اور آرڈر کو بدل رہے ہیں، خاص طور پر موبائل فون، انٹرنیٹ، ٹی وی اور ٹراسپورٹ کی سہولت نے ایک نئے طرز کے صنفی اور جنسی تناؤ کو جنم دیا ہے۔ ان سہولیات سے ایک طرف عورت کی زندگی آسان ہوئی ہے، جیسے کہ ایک شہر سے دوسرے شہر تعلیم اور روزگار کے لئے اکیلے سفر کرنا، کام اور عوامی مقامات پر آسانی سے آنا جانا، دنیا اور اپنے حقو ق سے باخبر رہنا، اور آسان رابطوں کے کرنا۔ مگر دوسری طرف یہ عورتوں کے لئے استحصال اور کنٹرول کے نئے خطرات اور بحران لے کر آئے ہیں۔ الٹرا ساؤنڈ ٹیکنالوجی نے جہاں صحت کے کئی مسائل کئے ہیں، وہاں سخت پدر شاہانہ سماجوں میں سیکس سیلیکشن کی وجہ سے مادہ حمل گرانا عام ہو گیا ہے۔ اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی بھی اپنے ساتھ پدرشاہانہ خطرات لائی۔ جیسے کہ ٹی وی کے ذریعے قدامت پرست ذہن سازی اور سرمایہ دارانہ اور پدرشاہانہ نظریات کا پھیلاؤ، عورت کی منظم کردار کشی (اب تو کرپشن اور ہر جرم کی وجہ بھی عورت کو دکھایا جاتا ہے)، فیمنزم اور عورت آزادی مارچ کے خلاف پدرشاہانہ قوتوں کی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر منفی مہم، عوامی مقامات پر جنسی ہراسانی، آن لائن ہراسانی اور بلیک میلنگ، موبائل فون کے ذریعے نگرانی، پورن وڈیوز کے کاروبار کے لئے بچوں اور عورتوں کا اغوا، اور سوشل میڈیا کا غیر ذمہ درانہ استعمال، سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے بلیک میلنگ، فون کے زریعے تعلیمی اداروں اور کام کی جگہ پر منظم جنسی ہراسانی اور بلیک میلنگ، ذاتی وڈیو اور تصویروں کو بلیک میلنگ اور مروانے کے لئے نیٹ پر چڑھانا، پیشاب پلا کر وڈیو بنانا اور بے عزتی کے لئے نیٹ پر چڑھانا، وغیرہ پدر شاہانہ تشدد کی نئی شکلیں ہیں، جو کئی متاثرہ عورتیں خود سوشل میڈیا پر منظرِ عام پر لا رہی ہیں۔
اس طرح کے واقعات میں بے شمار عورتوں اور بچوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور قتل بھی کیا جا چکا ہے۔ میڈیا پر منظر عام پر آنے والے مشہور حالیہ واقعات میں قندیل بلوچ کا مولوی قوی کی وڈیو لیک کرنے پر قتل ہے۔ کوہستان میں 2011 میں جرگے کے حکم پر پانچ عورتوں کی وڈیو لیک ہونے پر قتل کیا گیا، جو قبائلی دُشمنی میں بدلا، اور اس کیس کے پریس رپوٹر افضل کوہستانی کے علاوہ اب تک کئی دوسرے مرد قتل کئے جا چکے ہیں، جبکہ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ جیسے کی اسی سال دو مہینے پہلے وزیرستان میں طالبان کے حامی ایک قبائلی ملک کے حکم پر وڈیو لیک ہونے پر دو عورتوں کو قتل کیا گیا۔ جیسے کہ پچھلے ہفتے اسلام آباد میں صدف زہرہ کو ان کے شوہر نے اس وجہ سے قتل کیاکہ انہیں اپنے شوہر کی طرف سے سینکڑوں لڑکیوں کو انٹرنیٹ پر بلیک میل کرنے پر اعتراض تھا۔ ان عورتوں کو اکثر آتشیں اسلحے سے قتل کیا گیا۔ قصور وڈیو سکینڈل میں 280 بچوں کی ریپ وڈیوز بنا کر عالمی سیکس منڈی میں بیچی گئیں تھیں،6 اور بعد میں اسی طرح کے بیشمار دوسرے واقعات اور فِلمنگ گینگ سامنے آئے، جیسے کہ پنڈی میں 8 سے 16 سال کی 45 بچیوں کا ریپ وڈیو گینگ کیس۔7 پاکستان گوگل پر ریپ سیکس وڈیو سرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ ایک طرف سیکس وڈیوز اور رومانوی فلموں اور ڈراموں کا سیلاب، اور دوسری طرف اخلاقیات کی بنیاد پر عورتوں کی کردار کشی، اور تیسری طرف سماج میں جنسی کنٹرول نے شدید صنفی و جنسی تناؤ اور ہیجان پیدا کیا ہواہے۔ سوشل میڈیا تک رسائی رکھنے والی عورتوں کی طرف سے ان پدر شاہانہ خطرات اور تشدد کی کئی شکلوں کے خلاف آن لائن مزاحمت تیزی سے اُبھر رہی ہے، اور عورتیں اپنے اوپر گزرنے والے مظالم پر خاموشی کو توڑ رہی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں ’’می ٹو‘‘ تحریک نے خاموشی کو توڑا۔
:جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ پدرشاہی کا تضاد، مگر گٹھ جوڑ
صنفی اور جنسی بحران کی ایک بڑی وجہ مختلف پیداواری نظاموں سے جڑی طرزِ پدر شاہی کے درمیان تضاد اس لئے ہے، کہ وہ مادی بنیادیں جس کے اوپر پدر شاہی نظام کھڑ ا ہے، دراصل عورت کی قوت محنت، تولیدی طاقت، جنسیت اور نفسیات پر مرد کی بالا دستی ہے، اور اِن کے استعمال پر پدر شاہی، جاگیرداری، اور سرمایہ داری کے مابین کسی حد تک متضاد مفادات ہیں۔ مگر اس تضاد کے باوجود آخری تجزیے میں ان تینوں کا عورت کے خلاف آپسی گٹھ جوڑ بہت مضبوط ہے- قبائلی طرز پیداوار اور سماج، اور جاگیرداری طرز پیداوار اور سماج اب جدید سرمایہ داری میں تیزی سے ضم ہو رہے ہیں۔ اور مذہبی اور عسکری قوتیں بھی اِن کے ساتھ یکجہتی میں ہیں، کیونکہ پاکستان میں ان دونوں قوتوں کا تعلق جدید جنگی معیشت سے ہے، جو پدر شاہی کی ملٹرائزیشن پر چلتی ہے۔ یہ پیداواری نظام استحصالی ہیں، اور عورتوں کا استحصال اور غلامی کو قائم دائم رکھنے کے لئے پدر شاہانہ تشدد کو آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
قبائلی اور جاگیرداری نظام میں پدر شاہی عورت کی ذات کو جاگیر کا حصہ بناتا ہے، اُسے ملکیت اور وراثت سے محروم کرتا ہے، گھریلو معیشت میں مشقت لیتا ہے، اور لیبر پاور پیدا کرنے کی مشین بناتا ہے۔ اس میں غریب طبقات کی بہت بڑی اکثریت کے پاس “حصہ ” نہیں ہوتا اور جس کے پاس ہوتا ہے وہ عورت کو اُس سے محروم کر دینا چاہتا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس کی لازمی شرط یہ ہے کہ عورت اپنے “حصے “سے دستبردار ہو جائے، اور اس میں ہر مرد ہر عورت کے حصے پر گھات لگائے بیٹھا ہے۔ پاکستان کے سرکار اعداد و شمار (پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2028-ء2017ء) کے مطابق 15 تا 49 سال کے عمروں کی عورتوں کی کل آبادی کے صرف %1 کو گھر کی ملکیت، %1 کو زرعی زمین کی ملکیت وراثت میں ملی، اور ایک سے بھی فیصد کم کو رہائشی پلاٹ ملا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں %72 مردوں کو گھر ملے، اور %27 کو زمین۔8 یہ نظام عورت کو مالی و پیداواری وسائل سے محروم کر کے زندگی بھر کے لیے معاشی انحصاری اور غلامی میں دھکیلتا ہے، جہاں اس کے پاس خاموشی سے استحصال اور تشدد سہنے کے علاوہ کو رستہ نہیں ہوتا۔
جبکہ سرمایہ داری نظام اُس کی محنت کے استحصال اور لیبر پاور پیدا کرنے کی مشین بنانے کے ساتھ ساتھ اُسے اجناس (کموڈیٹیز) کا حصہ بھی بناتا ہے۔ سرمایہ دارنہ معیشت کا ایک حصہ عورت کے جنسی استحصال پر بھی مبنی ہے۔ جب منافع خوری کی ضرورت ہو تو جاگیردارانہ پدر شاہی ضابطوں سے گٹھ جوڑ کر کے پردہ کے نظام سے موافق ہو کر عورت سے ہوم بیسڈ کام لیا جاتا ہے۔ دوسری طرف منافع خوری کے لئے پردے کے نظام کے قواعد کے برخلاف عورت کے جسم کو آلہ کار بنا کر جنسی اور کاروباری مفاد حاصل کیا جاتا ہے۔ اور جب ضرورت ہو، تو یورپین منڈی میں ایکسپورٹرز کے لئے ٹریڈ کی شرائط کو پورا کرنے اور جی ایس پی پلس سٹیٹس، اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی سب سے پسندیدہ قوم (موسٹ فیورڈ نیشن ) سٹیٹس حاصل کرنے کے لئے کاغذوں پر عورتوں پر تشدد کے خلاف قوانین بھی بنا دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان قوانین کے خلاف مذہبی پارٹیوں، خاص طور پر مولانا فضل الرحمان، اور مذہبی دائیں بازوں کی دوسری قوتوں نے بہت مخالفت کی تھی، اور اسے آج تک پختونخوا میں پاس نہیں ہونے دیا۔ یہ مخالفت اُس صنفی اور جنسی تضاد کی وضاحت کرتا ہے، جو پیداواری نظاموں کے درمیان تضاد سے پیدا ہو رہا ہے۔
قومی اور ریاستی جبر سے اُبھرنے والا صنفی بحران اور تشدد
: قوموں کی ناہموار ترقی اور جاری پسماندگی
وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور پنجاب کے اشرافیہ کی بالادستی، اور قومی تحریکوں پر ریاستی جبر اور فوجی آپریشنزکی پالیسی نے ایک نئے صنفی تضاد کو جنم دیا ہے، جو قومی جبر سے جُڑا ہوا ہے۔ ناہموار ترقی کی وجہ سے اطراف میں، خاص طور پر پیچھے رہ جانے والے علاقوں، شورش زدہ علاقوں، اور سرحد ی علاقوں میں معاشی اور سماجی ارتقاء، تبدیلی اور ترقی کے رفتار انتہائی سُست رہی، اور ابھی بھی سرداری اور ملکی کا قبائلی نظام چل رہا ہے۔ جبر اور ظلم میں گھری عورتیں، مزاروں اور پیروں کی درگاہوں پر منتیں چڑھاتی ہیں، اور پدر شاہی کے شدید نفسیاتی اور ثقافتی قبضے میں ہیں۔ مردوں کو جنگ اور غربت کی وجہ سے بیرون ملک مزدوری کے لئے جانا پڑا، اور لاکھوں عورتیں بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ نسلیں تعلیم سے محروم رہیں، اور بچیوں کی کمسنی میں شادی عام ہے۔ اُوپر سے پنجاب اور فیڈرل گورنمنٹ کی با لا دستی، سرزمینوں پر قبضہ، اور محکوم قوموں کے وسائل (زمینیں، سونا، بجلی، پانی، گیس، تیل، بندرگاہوں، جنگلات، معدنیات وغیرہ) پر مقامی حکمران اشرافیہ کی مدد سے سول اور فوجی حکمران طبقے کے قبضے جاری ہیں۔ ان عوامل کے نتیجے میں محکوم قوموں، خاص طور پر اطراف میں عمومی پسماندگی برقرار رہی، اور سخت گیر قبائلی پدرشاہانہ نظام برقرار رہا۔ آج بھی ان علاقوں میں صدیوں پرانے رواج چل رہے ہیں۔ نہ سکول ہیں، نہ سڑکیں، نہ ہسپتال اور نہ پا پینے کا صاف پانی۔ اور روزمرہ کی بنیاد پر لاکھوں عورتیں بہیمانہ تشدد سہتی ہیں۔ حال یہ ہے کہ پسند کی شادی کے کیس میں بابا کوٹ جعفر آباد، بلوچستان میں پسند کی شادی کی خواہش کرنے والی ایک لڑکی اور اُس کا ساتھ دینے والی دو عورتوں کو 2014ء میں زندہ دفن کیا گیا تھا۔ اور پچھلے مہینے بلوچستان میں ایک عورت کو لڑکیاں پیدا ہونے کی وجہ سے شوہر نے کیلیں گاڑھ کر بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ پختونخوا میں معمولی خاندانی جھگڑوں میں اب عورتوں کو آتشیں اسلحے سے قتل کیا جا رہا ہے، اور سندھ میں پچھلے مہینے ہی عورتوں کے سنگسار اور گلہ کاٹنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ اوپر سے علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دور دراز کے نظر انداز کئے گئے دیہاتوں کی عورتیں زچگی کے دوران مر جاتی ہیں۔
: ملٹری آپریشنز اور جبری گمشدگیاں
پختونخوا اور بلوچستان میں ملٹری آپریشنز کے نتیجے میں ماس مائگریشن کرنے والے خاندانوں، اور ملک بھرمیں (خاص طور پر بلوچستان اور سندھ میں) جبری گمشدہ افراد کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں اور بچیوں کو بیشمار مسائل کا سامنا ہے۔ اجتماعی سزا میں کئی عورتوں کو بھی گمشدہ کیا گیا، خاص طور پر بلوچستان میں۔ ملک بھر میں ماورائے عدالت قتل ہونے والے سیاسی کارکنان کی بیویاں بیوگی اور بچے یتیمی سے دوچار ہیں۔ ملٹری آپریشنز کی وجہ سے نہ صرف ایک پوری جنریشن کو تعلیم، علاج اور روزگار سے محروم کیا گیا بلکہ آنے والی نسلوں کی بچیاں بھی تشدد کا آسان ہدف ہوں گی، کیونکہ متاثرہ خاندانوں کی عورتوں کی معاشی و سماجی حیثیت مزید کمزور ہوئی ہے۔ ان حالات کی وجہ سے عورتوں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر ہزاروں مسنگ پرسن اور ماورائے عدالت قتل کے جانے والوں کی نوجوان بیویوں کو خاندانوں کی طرف سے سخت جنسی نگرانی اور اس سے متعلق تشدد کا سامنا ہے۔ اُن کی جنسیت بھی ضبط کر لی گئی ہے، دس دس سال سے شوہر لاپتہ ہونے کے باوجود، انکو دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے۔ یاد رہے کی انکی اکثریت نوجوان نوبیاہتا لڑکیوں کی ہے، کیونکہ اُٹھائے جانے والوں کی اکثریت یوتھ ہے۔ گمشدہ شوہروں کی وراثت پر خاندان کے دوسرے مردوں کی طرف سے قبضوں کی وجہ سے بھی، انکو تشدد کا سامنا ہے۔ اور کچھ اپنے بچوں کو لیکر دربدر ہیں۔
: منظم حملے
مذہبی انتہا پسندی اور مسلح ڈیتھ سکواڈز کو قومی تحریکوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے، خاص طور پر بلوچ اور پشتون قومی تحریکوں کے خلاف۔ ان ڈیتھ سکواڈز اور فورسز کی طرف سے خود عورتوں پر جنسی اور جانی حملے جاری ہیں۔ پہلے مسلح فوجی، نیم فوجی اور الشمس اور البدر جسے ڈیتھ سکواڈز نے ریپ کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لاکھوں بنگالی عورتوں کو ریپ کیا، اور بیشمار کو ریپ کرنے کے بعد قتل بھی کیا۔ اور اب یہ سلسلہ باقی محکوم قوموں کے ساتھ کئی دوسری شکلوں میں دہرایا جا رہا ہے۔ منظم دہشت گرد گروہوں کی طرف سے بلوچ خواتین پر تیزاب پھینکا گیا۔ سکولوں اور یونیورسٹیوں پر خودکش حملے کئے گئے، جس میں بے شمار طلباء اور طالبات مریں۔ پورے بلوچستان میں واحد ویمن یونیورسٹی’ سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی پر 2013ء میں لشکر ِجھنگوی کی طرف سے بس پر خودکش حملے میں 14 طالبات ماری گئیں، اور پھر اسی دھماکے میں زخمیوں پر ہسپتال میں حملہ کر کے مزید 11 کو مارا گیا۔ پھر یونیورسٹی کئی عرصہ بند رہی۔ اس کے علاوہ ہزارہ قوم کی کئی عورتوں کو ٹارگٹ کر کے آتشیں اسلحے سے مارا گیا۔ ہزارہ قوم کی ہزاروں بیوائیں اب بھی انصاف کی منتظر ہیں، جن کے شوہروں کو ڈیتھ سکواڈز نے بم دھماکوں میں قتل کیا۔ ڈیرہ بُگتی کی سکول ٹیچر زرینہ بلوچ کی جبری گمشدگی، اور بلوچستان یونیورسٹی میں انتظامیہ کی طرف سے بڑے پیمانے پر منظم جنسی ہراسانی بھی بچیوں کی تعلیم، بڑھتے سیاسی شعور اور مزاحمتی سیاست میں شرکت کو روکنے کی سازش قرار دیا جا رہا ہے۔
بلوچ مسنگ پرسنز کی تحریک کو سپورٹ کرنے پر کراچی میں سبین محمود کو قتل کیا گیا۔ بلوچستان میں شازیہ مری ریپ کیس، وزیرستان کے علاقے خیسور میں سکہ دارہ بی بی کے خاندان اور دوسری عورتوں پر جنسی حملہ، پختونخوا میں قبائلی ضلع مومند میں زیبا (کازبان بی بی) کے بہو اور بیٹی پر ایف.سی اہلکار کی طرف جنسی حملے کی کو شش اور زیبا کی جوابی کاروائی بھی اسی کا حصہ ہیں۔ بلوچ طالبات کو منظم ریاستی ہراسانی کا سامنا ہے۔ ماما قدیر اور فرزانہ مجید کی سربراہی میں بلوچ مسنگ پرسن لانگ مارچ کرنے والی خواتین، اور پی ٹی ایم کی کئی خواتین کو ریاستی ہراسانی اور سوشل میڈیا حملوں کا بھی سامنا ہے، کئی خواتین کو اپنے گھر بار چھوڑ کر باہر ملکوں میں پناہ لینی پڑی۔ محض دو مہینے پہلے بلوچستان میں ڈیتھ سکواڈ ز نے ملکناز بلوچ کا قتل اور برمش بلوچ پر فائرنگ، کلثوم، نا ز بی بی اور اس کے دو بچوں اور کئی دوسری خواتین کی سیاسی بنیادوں پر قتل اور اغواء اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ احتجاج کرنے والی بلوچ، سندھی، اور پشتون قومی تحریکوں کی عورتوں کو بھی آئے روز ریاستی جبر، ایجنسیوں کی طرف سے ہراسانی، اور پولیس تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
سامراجیت اور جنگی اقتصاد سے اُبھرنے والا بُحران اور تشدد
پدر شاہی کی ازحد بڑھوتری اور اس کی ملٹرائزیشن
پچھلی چار دہائیوں میں پاکستان کی ریاست نے ایک طرف اپنی جنگی اقتصاد کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اور دوسری طرف سامراجی ملکوں کی توسیع پسندانہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے ریاستی سر پرستی میں جنگجو مردانگی، منظم مذہبی انہتا پسندی، قدامت پرست ثقافت کی تشکیل دی۔ جس کے نتیجے میں پہلے سے موجود پدر شاہی کی صرف از حد بڑھوتڑی ہوئی، بلکہ اس میں جنونیت کے عنصر آئے۔ پہلے سے ازحد بڑھی ہوئی کولونیل سٹیٹ کی مزید ملٹرائزیشن سے ریاست اور معیشت پر عسکری قوتوں اور دائیں بازوں کی مذہبی قوتوں کی گرفت مزید مضبوط ہوئی۔ اب ریاست مکمل طور پر سیکیورٹی سٹیٹ بن چکی ہے، جہاں پارلیمان سے لیکر معیشت، عدالت، اور میڈیا پر عسکری قوتوں اور دائیں بازوں کا غلبہ ہے۔ اب ازحد بڑھی ہوئی پدر شاہی، ریاست کے لئے ایک سٹریٹیجک اثاثہ بن چکی ہے۔
سامراجیت، مذہبی انتہا پسندی اور ملٹری آپریشنز
افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کے خلاف ‘پراجیکٹ جہاد’ کے لئے جنرل ضیاء نے امریکی اور سعودی سامراجی سپورٹ سے ریاست اور سماج کی اسلامائزیشن کے تحت عورت کے قانونی اور سماجی رُتبے کو ریاستی اور سماجی سطح پر منظم طور پر بہت گھٹایا گیا۔ پدر شاہی ضابطوں کی باقاعدہ ریاستی قوانین کے تحت شریعت سازی کی گئی۔ ریاست کے اندر شرعی اداروں کا قیام کیا گیا، جن کا فوکس آج تک عورت پر ہی رہتا ہے، جیسے کہ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے آج تک عورت کے حق میں پالیسی سازی اور قانون سازی کو انکے ذریعے بلاک کروایا جاتا ہے۔ ریڈیکلائزیشن کے لئے مدرسوں اور جہادی مراکز کے جال پھیلائے گئے، اور لڑکیوں کے لئے ہر گاؤں اور شہر میں الہدیٰ اور مدرستہ البنات جیسے ادارے کھولے گئے۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے ایک طرف پورے سماج کی ریڈکلائزیشن کی گئی، تو دوسری طرف مسلح مذہبی تنظیموں کی آبیاری کی گئی۔ نیوبراسکا یونیورسٹی میں جنگ اور جہاد پر مبنی نئے نصاب تیار کئے گئے، اور بڑے پیمانے پر مذہبی انتہا پسند اور جنگ پرست نظریات میں عوام کی ذہن سازی اور رائے سازی کی گئی۔ تعلیمی نظام, مدرسوں، اور تبلیغی مراکز کے جال بنا کر ان کے ذریعے مذہبی انتہا پسندی میں منظم ذہن سازی کی گئی۔ مذہبی دہشت گردی کو فارن پالیسی کو طور پر استعمال کیا گیا۔ نصاب کے ذریعے قدامت پرست نظریات کی ترویج اب تک جاری ہے۔ مذہبی انتہا پسندی، فاشزم اور آتشیں اسلحے کے کلچر کو پروان چڑھایا گیا۔’ پراجیکٹ جہاد’ کی آڑ میں بے شمار دہشت گرد گروپس تشکیل دئے گئے، اور تشدد نے ایک جنس (کموڈٹی)، روزگار اور کاروبار کی شکل اختیار کر لی۔ ان گروپس کو افغانستان میں ثور انقلاب کے خلاف، اور پاکستان میں خاص طور پر پشتون اور بلوچوں قومی تحریکوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ ان گروپس کی آپسی لڑائیوں سے بھی سماج اور معاش معطل رہے۔ پدر شاہی اور مردانگی کی ملٹرائزیشن اور گھروں کے اندر سویلین ہتھیاروں کی بھر مار کی وجہ سے اب اکثر عورتوں کو آتشیں اسلحے سے مارا جاتا ہے، اور سب عورتیں مارے جانے کے خوف میں مبتلا رہتی ہیں۔ اور سب سے اہم، سماج کی روشن خیال بنیاد وں پر ارتقاء کو روکا گیا، جس کا سب سے زیادہ نقصان عورتوں کا ہوا۔
پاکستان کی افواج نے اس پراکسی جنگ کے لئے امریکہ سے تینتیس بلین ڈالرز لئے: پہلے جہاد کے لئے اور پھر نام نہاد وار آن ٹیررازم کے لئے۔ طالبان کے خلاف فوجی آپریشنز (اکثر مزید ڈالرز کے لئے جھوٹے آپریشنز)میں لاکھوں خاندان بے گھر ہوئے، اور آئی.ڈی.پی کیمپوں میں عورتوں کو شدید نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دہشت گرد تنظیموں نے مذہبی اقلیتوں کو تشدد کا نشانہ بنا یا، خاص طور پر مسیحی اور شیعہ گروہوں کو۔ پیروں، مخدوموں، اور ملاوں کو ریاستی طاقت اور پشت پناہی دی گئی، اور میاں مٹھو جیسے پیروں نے ہندو لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور اغوا ء کاروں سے جبر شادیوں کے ذریعے مسلمان کاری عام کر دی۔ لڑکیوں کے سکولوں، اور یونیورسٹیوں کو بموں سے اُڑایا گیا۔ تحریکِ طالبان کی طرف سے پختونخوا میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے مہم نے والی ملالہ یوسفزئی پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔ ٹیچرز اور پولیو ورکرز کو اب تک قتل کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف عورت کی جنسیت (سیکشوالٹی) اور استحقاق کو ضبط کیا، عورتوں کے لئے جابرانہ صنفی، جنسی اور تولیدی رموز و قواعد لایا۔ تو دوسری طرف ثقافت کی منظم عربائزیشن کی گئی۔ تعلیمی اداروں میں صنفی اور ثقافتی پابندیاں لاگو کی گئیں اور اِسی منظم ذہن سازی اور جنسی بیگانگی کی وجہ سے اب خاندان، پنچائت، جرگے، مسجدیں اور دوسرے سماجی ادارے مزید جابر اور پُرتشدد ہو گئے ہیں اور عوام صنفی اور جنسی ماس ہسٹیریا کا شکار ہیں، جہاں کہ چھوٹے بچوں پربھی جنسی جنونیت کے تحت حملے کئے جاتے ہیں، اور ایک شدید ریپ اینڈ کِل کی لہر ہمارے سامنے ہے۔
ان ریاستی پالیسیوں کے خلاف سیاسی مزاحمت کرنے والی عورتوں اور فیمنسٹ تحریک پر سائبر اور میڈیا سپیس میں ایجنسیوں اور مذہبی انتہا پسند قوتوں کی طرف سے منظم ہراسانی اور کردار کشی تو جاری ہے، اور اسلام آباد اور سکھر کی عورت آزادی مارچ کے آرگنائزر پر بھی منظم پُر تشدد حملہ، منظم ہراسانی کے حملے کئے گئے۔
ثقافتی جبر اور منظم ذہن سازی او رائے سازی
ریاست کی طرف سے عوام کی منظم اور مسلسل ذہن سازی کی وجہ سے اس وقت سماج میں شدید ثقافتی اور جنسی حبس، اور گھٹن ہے۔ اس کے بیج مذہب کے نام پر تقسیم ہند کے لئے پہلے کالونیل راج، اور پھر نیو کالونیل راج نے جنرل ضیاءالحق کے ذریعے ریاستی طور پر منظم ثقافتی اور جنسی جبر کی صورت میں بوئے۔ شدید جنسی حبس اور سماجی گھٹن کے نتیجے میں مردوں کی طرف سے نابالغ بچوں اور جنسی اقلیتوں پر بھی پُرتشدد جنسی حملے عام ہیں۔ پاکستان اس وقت نہ صرف ایک مذہبی بنیاد پرست ریاست بن چکا ہے بلکہ سامراجی جنگوں، خاص طور پر سامراجی عرب ممالک کا مضبوط ترین قلعہ بھی ہے۔ ریاستی اقتدار پر قابض سامراج دوست طبقات/قوتیں اور اُن کی نمائندہ ریاست رجعتی اور مذہبی تاویلات کی بدولت طبقاتی نظام اور پدرسری نظام کا فطری اصولوں کے مطابق چلنے کا دعویٰ کرتی رہی ہیں، اور نابرابری کی ہر شکل کو ابد تک امرِ الٰہی بنا کر پیش کرتی ہیں۔ ان نظریات کے تحت مسلسل رائے سازی اور ثقافتی بالادستی (ہیجمنی) کی وجہ سے پہلے سے موجود جدی پُشتی چلتے آئے پدر شاہانہ تصورات کو نہ صرف تقویت ملی بلکہ پہلے سے موجود پدرشاہی نظام کی ازحد بڑھوتری ہوئی، اور اس میں جنونیت اور جنسی بربریت کے عناصر آئے جو عوام کی کامن سینس کا حصہ بنے، اور پدرشاہانہ تشدد اور جنسی بربریت کی ایک نئی لہر نے وباء کی صورت میں پورے سماج اور ریاست کو لپیٹ میں لیا۔ اس موضوع پر تفصیل ناریواد کے لئے میرے دوسرے مضمون ’جنونی پدر شاہی: پاکستان کا سٹریٹیجک اثاثہ‘ میں دی گئی ہے۔9
اِختتام
اس تجزیے سے یہ نتیجہ تو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ (1) اس بُحران کی نوعیت ’صنفی اور جنسی‘ ضرور ہے، مگر اِس کے مُحرکات صرف پدرشاہی تک محدود نہیں ہیں، بلکہ ’کثیر پہلو‘ ہیں, اس کی نوعیت وبائی اور اجتماعی ہے،۔ تاہم اس موضوع پر مزید منظم تحقیق اور تجزیے کی ضرورت ہے، جو ترقی پسند مصنفین اور ریسرچرز کو کرنی چاہیئے۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ بُحران تب تک چلے گا، جب تک یہ مُحرکات موجود ہیں۔
سیاسی نکتۂ نظر سے، مُحرکات کی ’کثیر پہلو نوعیت‘ ہمیں اس نتیجے پر لے جاتی ہے، کہ مزاحمت بھی کثیر پہلو ہونی چاہیٔے۔ جہاں تک مزاحمت تشکیل دینے کی بات ہے، تو میری نظر میں صرف منظم سیاسی جدوجہد ہی ہمارے لئے نجات کے رستے کھول سکتی ہے۔ درجِ بالا مُحرکات کے خلاف لڑائی ایک لمبی لڑائی ہے، اور اس کے لئے صرف ترقی پسند قوتیں ہی لڑ سکتیں ہیں، جو اس وقت خاص گنتی میں نہیں ہیں۔ تاہم، سوشلسٹ اور نیشلسٹ قوتوں کو معاشی جبریت (اکنامک ڈِٹرمنزم) سے نکلنا ہو گا۔ عورت، خواجہ سرا اور بچوں کا سوال اپنی سیاست کا حصہ بنانا ہو گا۔ فیمنسٹ تحریک کو بھی الگ تھلگ سیاست، اور لیگل ایکٹیوزم کی سیاست سے آگے جانا ہو گا۔ اور فیمنزم کا نظریاتی اُفق اور سیاسی دائرہ وسیع کرنا ہو گا جس میں پدرشاہی سے آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ قومی جبر و استحصال سے آزادی، طبقاتی استحصال اور نظام کا خاتمہ، سامراجیت کا خاتمہ اور معیشت کی جمہوریت سازی، عوامی جمہوری بنیادوں پر ریاست سازی، ماحولیاتی اور انسانی بقاء، جنگ اور ملٹری آپریشنز کا خاتمہ و قیامِ امن، اور آبادی میں توازن اور تولیدی انصاف کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنانا ہو گا۔
- Marx Karl. (1999) Capital: A Critique of Political Economy – Volume I. online version. marxist.org ↩︎
- Abbas Kashif. New report reveals one-tenth of all children enrolled in madressahs. 22 April, 2015. Dawn. dawn.com ↩︎
- Pakistan: With Peaking Female Infanticide, 345 Newborn Bodies Recovered From Garbage Piles. 1 May 2018. telesurenglish.net ↩︎
- Female infanticide a growing threat in Karachi. 26 April 2018. www.geo.tv ↩︎
- Divorce, Family dispute cases Surge in Karachi. bolnrews.com ↩︎
- Pakistan stumbles upon its ‘biggest’ child abuse case. 11 August 2015. aljazeera.com ↩︎
- Couple arrested for ‘sexually abusing, filming’ 45 girls in Rawalpindi.16 August 2019. tribune.com.pk ↩︎
- Pakistan Demographic Survey 2017-2018. National Institute of Population Studies, Islamabad. dhsprogram.com ↩︎
- Shahjahan Ismat. (2019). جنونی پدرشاہی پاکستان کا سٹریٹیجک اثاثہ .Narivaad ↩︎