استحصالی گٹھ جوڑ : گلف ممالک میں پاکستان کے مزدوروں کی زبوں حالی

Pakistani workers in Dubai (Source: public domain)

مزدوروں کی تجارت پر کھڑی پاکستان اور گلف ممالک کی معیشتیں اور شہنشاہیت کی شان و شوکت کا دوسرا رُخ

تحریر: عصمت شاہ جہان

کیا واقعی غریب ممالک کے مزدور، امیر ممالک کے مزدوروں کا روزگار چھین رہے ہیں؟ کیا مالدار ممالک غریب ممالک کے مزدوروں کو کام دے کر اُن پر کوئی احسان کر رہے ہیں؟ یا مزدوروں کا دوسرے ممالک میں روزگار کی تلاش میں جانا عالمی سرمایہ داری نظام میں تیسری دنیا کے سامراج زدہ خطوں کے محنت کش عوام کا استحصال ہے؟ کیا پاکستان سے باہر ممالک میں جانے والے مزدور آسودہ زندگی گزار رہے ہیں؟ پیچھے رہ جانے والی بیویوں اور بچوں پر کیا گزرتی ہے؟ کیا پاکستان میں تمام قوموں کو ایک ہی جیسی بیروزگاری کا سامنا ہے اور مُلک سے باہر جانے پر مجبور ہیں، یا جنگ زدہ قوموں کی صورتحال زیادہ ابتر ہے؟ سامراجی ممالک کی ریاستیں، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور کفیل سستی اُجرت اور مزدور حقوق و قوانین کی خلاف ورزی کے ذریعے محنت کشوں کے خون پسینے سے بنے کھربوں ڈالرز کا منافع اور جُرمانے کی شکل میں وصول کی گئی بھاری رقوم کیسے ہڑپ کرتے ہیں؟ غُلامی کا یہ سلسلہ کب گلف ممالک میں کب شروع ہوا، اور برطانوی اور امریکی استعمار کا اس میں کیا کردار ہے؟ استحصال کے اس عمل میں پاکستان اور گلف کی ریاستوں کا کیا کردار ہے؟

یہ مضمون اِن سوالوں کو طبقاتی، قومی اور صنفی نکتۂ نظر سے زیرِ بحث لاتا ہے، اور گلف ممالک میں پاکستان سے گئے مزدوروں کی صورتحال کو بھی سامنے لانے کی ایک کوشش ہے۔

کیا واقعی غریب ممالک کے مزدور امیر ممالک کے مزدوروں کا روزگار چھین رہے ہیں؟

اِس نکتۂ نظر میں کوئی سچائی نہیں ہے کہ تیسری دُنیا سے تعلق رکھنے والے تاریکین وطن مزدور مالدار ممالک کا روزگار چھین رہے ہیں۔ تحقیق سے اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ تارکینِ وطن مزدوروں کو وہی کام ملتے ہیں جو مقامی لوگ چھوڑ چُکے ہوتے ہیں۔ اِن ممالک نے تیسری دُنیا کے مزدور کی بیروزگاری اور مجبوری سے خوب فائدہ اُٹھایا ہے۔ ان کی کُمزور قانونی اور سماجی حیثیت کی وجہ سے یہ ممالک اپنی دُنیا کے مزدور کی نسبت غیر مُلکی مزدور کو کم اُجرت دے کر کھربوں ڈالر کا منافع بٹورتے ہیں اور اِن کی مزدوری ہی سے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں، کاروباری اور رہائشی مراکز، فوجی اڈے، بحری اور ہوائی اڈے، شاپنگ پلازے، ٹریڈ ٹرمینل، تیل کے کنویں، سڑکوں کے جال، سیون اور فائیو سٹار ہوٹل، اور تفریحی محلات کھڑ ے کر چُکے ہیں۔ مثال کے طور پر ملیشیاء کی موجودہ اقتصادی پالیسی کے مطابق 2014ء میں ملیشیاء میں 21 لاکھ تارکینِ وطن مزدور تھے جو کہ ملشیاء کے کُل مزدوروں کا 15 فیصد ہیں۔ ورلڈ بینک کے خیال میں 2020ء تک ملیشیاء کی اقتصاد اور معیشت میں تارکینِ وطن مزدور اہم کردار کریں گے، اور ہر 10 تارکینِ وطن مزدور 5 ملیشین مزدوروں کے لئے نئی نوکریاں بنائیں گے، جن میں دو عورتیں ہوں گی۔ اور کم ہنر مند تارکینِ وطن مزدور ں کی تعداد میں 10 فیصد اضافہ ملیشین ملکی پیداوار میں کم از کم 1.1 فیصد سالانہ اضافہ کرے گا (ورلڈ بینک:2015ء)۔1

اِس کے علاوہ کچھ ممالک تو غیر ملکی مزدوروں پر لیوی اور جُرمانوں سے بہت سا ریونیو بناتے ہیں، جیسا کہ گلف ممالک، ملشیاء اور سنگا پور میں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی شہریوں کے لئے سعودی عرب میں کوئی ٹیکس نہیں مگر دوسروں کے لئے ہے۔ سال 2017ء سے ہر سپانسر کرنے والا غیر ملکی سپانسر کئے جانے والے ہر فرد (بشمولِ فیملی ممبران) کے لئے 1200 سعودی ریال کا سالانہ ٹیکس دے گا، جس سے سعودی عرب 2018ء میں 24 بلین ریال جمع کرے گا (العربیہ:2017-7-03) ۔2 اس کے علاوہ گلف ممالک اگلے سال ریمیٹینس پر 5 فیصد ٹیکس لگا رہے ہیں۔ ایک طرف مزدور کا استحصال ہے۔ حالاتِ کار خراب ہیں، دوسری طرف اُجرت پر بھی محدود ہے، اور اس کا بھی بڑا حصہ طرح طرح کے ٹیکس، کچھ لیوی اور جزیئے لگا کر چھین لیتے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ گلوبلائزیشن نے مزدور کو جنس بنا دیا ہے جس کی نا صرف باقاعدہ تجارت (ٹریڈنگ) ہوتی ہے بلکہ بڑے سرمایہ دار ممالک نے اپنی معاشی ضروریات کے تحت نپی تُلی لیبر مائگریشن پالیسیاں بنائی ہیں جس کے تحت یہ سامراج زدہ غریب ممالک، خاص کر ایشیاء سے سستے داموں بہترین اور مجبور ترین مزدور اور ماہرین لے جاتے ہیں، جیسے کہ برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے اعلیٰ ہنر مند (ہائی سکلڈ)ویزہ پروگراموں کے تحت بیشمار پروفیشنل ڈگری ہولڈرز کو اپنے ہاں لے جا رہے ہیں، اور گلف ممالک نیم ہنر مند (سیمی سکلڈ ) اور غیر ہنرمند (انسکلڈ) ورکرز لے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بہترین پیداوار جیسے کہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس، پھیل میوے، اور سپورٹس کا سامان بھی یہ ممالک لے جاتے ہیں۔ مزدوروں کی عالمی منڈی میں گلف ممالک کی مزدور منڈی ایشینائز ہو چُکی ہے، جہاں ساؤتھ ایشیاء سے تعلق رکھنے والے مزدور سب سے زیادہ ہیں (راجن اور اُوممن:2020ء)۔3

معیشت، غربت اور مزدوروں کی بھیجی ہوئی فارن کرنسی کا کردار

پاکستان تاریخی طور پر فوجی اخراجات بڑھاتا رہا، اور اسلحہ امپورٹ کرتا رہا، جس نے بجٹ خسارے اور مالیاتی بُحران کو جنم دیا۔ مالیاتی بُحران کو حل کرنے کے لئے فوجی اخراجات اور لگژری امپورٹس کو کاٹنے جیسے انقلابی اقدامات کے بجائے، یا تو عالمی سامراجی مالیاتی اداروں سے مزید غیر مُلکی قرضے لیتا رہا ہے، مزید لے کر قرضے اور سُود لوٹاتا رہا ہے، یا پھر اپنے ملک کی عوامی ملکیت کی زمین اور وسائل، ساحل اور پورٹس، مزدور اور فوج کو عالمی سامراجی منڈی میں کرائے/اجارے/پٹے پر دیتا رہا ہے۔ درحقیقت پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ”مزدور، سپاہی اور جہادی جنگجو“ ہیں، یعنی مین پاور/لیبر پاور۔

غُربت اور سامراجی قرضوں میں براہ راست باہمی اور اُلٹ تعلق ہے۔ جتنے قرضے بڑھتے ہیں، اُتنا ہی عوام کے فلاح و بہبود پر خرچہ گھٹتا ہے، اور غربت بڑھتی ہے۔ اب تو یو.این.او جیسے نیو لبرل ادارے بھی کُھلم کھلا ہر عالمی فورم پر کہہ رہے کہ تیسری دُنیا میں عالمی قرضوں کی بلند سطح، ناکافی سماجی اخراجات، اور غربت کی شرح میں خطرناک حد تک اضافے کے درمیان باہمی تعلق ہے۔

پاکستان کی ریاست نے پچھلے 70 سالوں میں یہ تک معلوم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کہ کتنے پاکستانی مزدور دیارِغیر میں محنت کر رہے ہیں، اور کِس حال میں ہیں؟ حکمران ملٹری اور سویلین اشرافیہ طبقے کو صرف ریمیٹینس کی شکل میں فارن ایکسچینج چاہیئے تاکہ عالمی بینکوں سے لئے گئے ناجائز قرضے اور اُن کا سُود واپس کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ فارن ایکسچینج کی ترسیلات پاکستان کی تیل کی تقریباً 80 فیصد درآمدات کو پورا کرنے کے لیے زرمبادلہ فراہم کرتی ہیں (عباس:2017ء)۔4 اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مزدور جو فارن ایکسچینج کما کر پاکستان بھیجتے ہیں، وہ گلف ممالک سے تیل کی خریداری یا غیر مُلکی قرضوں میں واپس چلا جاتا ہے!۔

پاکستان نے مُلک بننے کے اُنسٹھ سال بعد پہلی بار تارکین وطن مزدوروں کی صورتحال پر ’’لیبر مائگریشن فرام پاکستان: 2015ء سٹیٹس رپورٹ‘‘ 2016ء میں چھاپی، اور وہ بھی صرف بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ (بی.ای.او.ای) کے پاس رجسٹرڈ مزدوروں کے اعداد و شمار مہیا کرتی ہے۔ جبکہ انفرادی طور جانے والے، گلف ممالک میں غیر قانونی طور پر جانے والے، اور گلف ممالک میں جانے والے ہائی سکلڈ ورکرز کے اعداد و شمار مہیا نہیں کرتی، کیونکہ یہ عمومی طور پر حکومتی اداروں کے پاس رجسٹریشن نہیں کرتے۔ جبکہ عالمی ادارہ محنت ( آئی.ایل.او) کے مطابق، اب تقریباََ 50 فیصد مزدور ڈائریکٹ چینل کے ذریعے جا رہے ہیں ( گورنمنٹ آف پاکستان: 2016ء)۔

سال 1970ء سے 2020ء تک پاکستان سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ (11.33 ملین) رجسٹرڈ مزدور دوسرے ممالک میں جا چکے ہیں، جو 99 فیصد مرد تھے, اور اکثریت کنسٹرکشن ورکرز اور گھریلو ملازمین پر مشتمل ہے (گورنمنٹ آف پاکستان :2020ء)۔5 اگر بغیر رجسٹریشن والوں کو بھی شامل کریں، تو حقیقی تعداد دُگنی ہے، یعنی دو کروڑ چھبیس لاکھ۔ یہ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے، جو اپنا گھر بار، کھیت، بیوی بچے، اور مُلک چھوڑنے پر مجبور ہوئی!۔

مردوں کے مُقابلے میں روزگار کی تلاش میں گلف جانے والی رجسٹرد خواتین ورکرز کی تعداد انتہائی کم ہے، مگر ان کی اکثریت سکلڈ ورکرز کی ہے۔ پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 1971-2019ء کے درمیان 40,807 رجسٹرڈ خواتین تارکین وطن، کام کے لیے بیرون ملک گئیں۔ ان میں سے 42.5 فیصد خواتین متحدہ عرب امارات گئیں، 35 فیصد سعودی عرب، عمان (5 فیصد)، برطانیہ (2 فیصد) قطر (2 فیصد) اور کینیڈا (1.4 فیصد)۔ ان خواتین کی سب سے بڑی کیٹیگری (14 فیصد) گھریلو ملازمین/ گھریلو ملازمہ کی ہے، جبکہ 15 فیصد سے زیادہ ڈاکٹر اور نرسیں تھیں (بالترتیب 8.4 اور 4.4 فیصد)؛ 15 فیصد مددگار اور عام کارکنوں کے طور پرا؛ 11 فیصد مینیجرز کے طور پر اور تقریباً نو فیصد کلریکل سٹاف کے طور پر۔ بقیہ پیشہ ورانہ زمروں بشمول اکاؤنٹنٹس، انجینئرز، آڈیٹرز، کمپیوٹر پروگرامر، مالیاتی تجزیہ کار، سپروائزر، سسٹم کے تجزیہ کار، فارماسسٹ اور تکنیکی ماہرین تھیں۔

۔’’حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی سب بڑی ایکسپورٹ لیبر ہے، ٹیکسٹائل نہیں‘‘۔

آئی.ایل.او کے مطابق دیارِ غیر میں کُل پاکستانی مزدوروں میں سے تقریباََ 96 فیصد افراد گلف ممالک میں ہیں، خاص طور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں، اور باقی مزدور زیادہ تر ملیشیاء، امریکہ، افغانستان، سپین، اور جرمنی میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے مالی سال 2019ء میں رسمی ذرائع سے 22$ بلین امریکی ڈالرز کی رقوم (ریمیٹینس) پاکستان بھیجیں، جس کا 65 فیصد رقوم گلف ممالک سے بھیجی گئی تھیں۔6 سال 2022ء میں 31.3$ بلین، اور 2023ء میں 27$ بلین ڈالر بھیجے گئے۔7 اگر غیر رسمی ذرائع جیسے ہُنڈی اور حوالہ سے بھیجی گئی رقوم بھی شامل کریں تو یہ رقوم کہیں زیادہ ہوں گی۔ جبکہ مالی سال 2022ء میں پاکستان کی کُل ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 19$ بلین ڈالر کی تھی (پاکستان بیورو آف سٹیٹسکس:2023ء)8 اور سال 2023ء میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 16.50$ بلین ڈالر کی تھی (ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان:2023)۔9

پاکستان میں بھیجی گئی یہ رقوم (ریمیٹینس)+ نا صرف ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کی زرِمبادلہ سے زیادہ ہے، بلکہ ڈائریکٹ فارن انوسٹمنٹ سے بھی زیادہ ہے۔ سال 2015ء میں پاکستانی مزدوروں نے 20$ ارب امریکی ڈالر کی ریمیٹینس پاکستان بھیجی جو کہ اِسی سال کی کُل فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ اور ترقیاتی قرضوں سے 95 فیصد زیادہ تھی (ورلڈ بینک: 2015)۔10 سٹیٹ بینک آف پاکسستان کے مطابق سال 202ء میں ڈائریکٹ فارن انوسٹمنٹ 2$ بلین امریکی ڈالر، 2022ء میں 1.5$ بلین ڈالر، اور 2023ء میں 1.5$ بلین ڈالر تھی، جو کہ ریمیٹینسز سے کئی گُنا کم ہے۔ ریمیٹینس کی رقوم 10 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق 2011ء میں 12$ ارب ڈالرز کی مالیت کی اضافی ریمیٹینس ہُنڈی اور دوسرے غیر رسمی ذرائع سے آئی۔11 یعنی کُل ریمیٹینس 34$ ارب ڈالر بنتی ہے۔ جبکہ سال 2015ء میں پاکستان کی کُل ایکسپورٹس تقریبا 22$ ارب ڈالر کی تھیں۔ پچاس فیصد سے زیادہ ریمیٹینس سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مزدور بھیجتے ہیں (یواین: 2015)۔ گویا تارکینِ وطن مزدوروں ہی کے دم سے ہی پاکستانی معیشت چل رہی ہے۔

روزی کی تلاش میں سالانہ باہر ممالک جانے والے مزدوروں کی تعداد ہر گزرتے سال میں بڑھ رہی ہے۔ 2005ء میں رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد 143,329 سے بڑھ کر2008ء میں 431,842 ہو گئی ہے، جو کہ 2014ء میں بڑھ کر سالانہ تقریبا آٹھ لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے (یعنی 16 لاکھ)۔ پاکستان سے باہر ممالک جانے والے مزدوروں کی تعداد میں 10 فیصد سالانہ شرح کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے (گورنمنٹ آف پاکستان: 2015ء)۔ سی.آئی.اے ورلڈ فیکٹ بُک کے مطابق پاکستان میں ہر ایک ہزار افراد پر ایک فرد باہر مُلک میں مُقیم ہے۔ روزنامہ نیشن کی رپورٹ کے مطابق پچھلے چھ سالوں میں تیس لاکھ لوگ مزدوری اور بہتر زندگی کی تلاش میں پاکستان سے دوسرے ممالک میں جا چکے ہیں۔12 پاکستان کی سرکار نے 2000ء تا 2016ء کے درمیان بیرونِ ملک ملازمتوں کے لئے 60 لاکھ مزدوروں کی درخواستیں وصول کیں (یو.این.او: 2015)۔13 پچھلے تین سالوں سے تو لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈرز بھی بیروزگاری، بدامنی، انتہا پسندی، سیاسی انتشار اور مُلک میں تبدیلی کی اُمید کھو جانے کی وجہ سے پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہیں، ہر شہری نوجوان لڑکی اور لڑکا ہاہر مُلک ملازمت اور تعلیمی سکالرشپ ڈھونڈ رہے ہیں۔

: قومی پہلو

پختونخوا اور بلوچستان سونا، آئل، گیس، یورینیم، آیل، آبی وسائل، ساحل، بندرگاہوں، جنگلات اور زرعی زمینوں سے مالا مال ہیں، مگر یہاں معاشی ترقی اور صنعت سازی نہیں ہو سکی، کیونکہ ان وسائل پر وفاق، فوج اور پنجاب کا آئینی قبضہ ہے۔ دوسری طرف رہی سہی معیشت بھی جنگ، دہشت گردی اور فوج کشیوں کی وجہ سے برباد ہے۔ جس کے نتیجے میں اکثر جوان روزگار کے لئے بیرون اور اندرون ملک مزدوری اور مسافری پر مجبور ہیں۔

اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آبادی میں حصے کے تناسب سے محکوم قوموں اور پسماندہ علاقوں سے زیادہ تعداد میں مزدور باہر ممالک گئے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے بیرونِ مُلک جانے والے رجسٹرڈ مزدوروں کی اکثریت صوبہ پختونخوا سے ہے جو کہ کُل تعداد کا 26 فیصد ہیں، اور یہ حصہ پاکستان کی کل آبادی میں پختونخوا کے حصے کی تناسب سے دوگنا ہے، جو کہ 13 فیصد ہے (گورنمنٹ آف پاکستان: 2015)۔ یعنی تقریباََ بیس لاکھ مزدور، دوسرے لفظوں میں پاکستان سے بیرون ملک جانے والے ہر چار مزدوروں میں سے ایک پختونخوا سے ہے۔ اور مزید ساڑھے چار لاکھ فاٹا سے گئے ہیں۔ یہ صرف وہ تعداد ہے جو رجسٹرڈ ہے، اصل تو اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ میرے اندازے سے پچاس لاکھ سے اُوپر۔ یاد رہے کہ سرکار اور آئی.ایل.او بھی یہ مانتے ہیں کہ یہ ٹائم لائن ’آپریشن ضرب عضب‘ سے جُڑا ہوئی ہے۔

سال 2015-2018ء کے درمیان جانے والے رجسٹرڈ مزدوروں کا صوبائی فیصدی حصہ بہ نسبت آبادی کا فیصدی حصہ

فاٹابلوچستانسندھپختونخواپنجابتفصیل
2.3%4.8%22.5%13.1%51.8%کُل مُلکی آبادی میں فیصدی حصہ
5.1%1.2%9.5%25.6%54.4%کُل مُلکی تاریکین وطن مزدوروں میں حصہ
Labour Migration from Pakistan: 2015 Status Report (ILO/Ministry of Labour)

: پیچھے رہ جانے والی عورتوں کی صورتحال

پاکستان ایک زرعی مُلک ہے، اور محنت کش خاندانوں کی اکثریت زراعت سے وابستہ ہے۔ تاہم زرعت سے منسلک خاندانوں کی اکثریت یا تو بے زمین ہے، یا پھر زمینیں گُزارا لائق نہیں ہیں۔ اوپر سے بیرونی قرضوں اور نیولبرل معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کی وجہ بڑھتی مہنگائی، اور ریاست کی طرف سے مفت تعلیم و علاج، اور رہائش و پبلک ویلفیئر کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے اکثر کسان خاندانوں کے نوجوان اور دہاڑی دار مُلک سے باہر روزی کمانے پر مجبور ہیں۔ بڑے پیمانے پر مردوں کی مائگریشن کی وجہ سے ایک طرف اب زراعت عورتوں کی ذمہ داری بن چُکی ہے، جسے اب ’فیمنائزیشن آف ایگریکلچر‘ کہا جا رہا ہے۔ دوسری طرف پیچھے رہ جانے والی لاکھوں خاندانوں کی عورتیں تنہائی میں بیواؤں کی طرح زندگی گزار رہی ہیں, اور بچے یتیموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ بیویاں شدید سما جی مشکلات، اکیلے پن اور تنہائی اور سُسرال کی طرف سے سخت جنسی نگرانی، آس پاس کے مردوں کی طرف سے جنسی ہراسانی، پدر شاہانہ جبر اور سماجی پابندیوں کا شکار ہیں۔ انکی جنسیت ضبط کی چُکی ہے۔ اور بچوں اور بزرگوں کی سوشل اور ہیلتھ کیئر کی ذمہ داریوں کا سارا بوجھ ماؤں پر آن پڑا ہے۔

مزدوروں کی اس عالمی تجارت کے لئے نئے مزدور پیدا کرنے کی ذمہ داری بھی عورت پر آن پڑی ہے، جس سے محنت کش خاندانوں میں نرینہ اولاد کی ڈیمانڈ میں بھی اضافہ ہوا ہے، کہ وہ گلف ممالک سے کچھ کما کر لائیں تو خاندان کو جدی پُشتی غُربت سے نجات ملے۔ گویا پورا کا پورا محنت کش خاندان سرمایہ داری کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ ایک مزدور قطر دُبئی سے کماتا ہے، اور خاندان کے دسیوں بے روزگاروں اور غریبوں کو پالتا ہے۔

باہر مُلک سے آنے والے رقوم پدر شاہی نظام کے تحت بیویوں کی بجائے خاندان کے بڑے بزرگ وصول کرتے ہیں، جس کے گرد مسلسل لڑائی جاری رہتی ہے، اور بیویوں کو سُسرالیوں کی طرف سے ذہنی اور جسمانی تشدد سہنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف آج بھی یہاں کی عورتوں کی اکثریت گیس اور پانی کی عدام دستیابی کی وجہ سے آگ جلانے کی لکڑی اور پانی کے لئے میلوں سفر کرتی ہیں۔

پشتو ٹپے (فوک شاعری) میں ’مسافری‘ نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ٹپے، جو اکثر عورتیں تخلیق کرتی ہیں، میں مسافری کے دُکھ کا بہت اظہار ہے۔ اگر آپ نیٹ پر ’مسافری ٹپے‘ لکھیں گے، تو آپ کو اِس موضوع پر ہر پشتون گلوکارہ/گلوکار کا ایک نہ ایک البم ضرور ملے گا۔

کالونیل پس منظر اور موجودہ صورتحال

گلف کوآپریشن کونسل (جی.سی.سی) میں چھ سلطنتیں شامل ہیں: بحرین، کویت، قطر، سعودی عرب، عمان، اور متحدہ عرب امارات (یو.اے.ای)۔ جی.سی.سی ایک معاشی اور سیاسی تعاون کا فورم ہے اور تارکینِ وطن مزدور اور اِن کے حقوق سے متعلقہ موضوعات کے بارے میں اہم فیصلے اِسی فورم پر کئے جاتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے کُل تارکینِ وطن مزدوروں کا 10فیصد گلف کے ان چھ ممالک میں ہے، جو کہ بہت بڑی تعداد ہے، اور ان کی اکثریت ساؤتھ ایشیاء سے ہے۔ یہ کنسٹرکشن اور گھریلو خدمات کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔

برِصغیر سے بڑے پیمانے پر گلف ممالک کو مزدوروں کی ہجرت کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے جو صرف 1970ء کی دہائی کے تیل کی دریافت سے جُڑا ہوا ہے۔ اس کی تاریخ کالونیل (نوآبادیاتی) استحصالی پالیسیوں، کالونیل دور کی تاریخی تجاری راہداریوں (ٹریڈ روٹس)، کالونیل تاریخی تجارتی روابط ، اور تیل کی تجارت میں تیزی (آئل بُوم) سے جُڑی ہے۔

سب سے پہلے کالونیل دور میں 1820ء میں تاجِ برطانیہ ایشیائی مزدوروں کو برٹش انڈیا سے گلف کاروباری روٹ پر قطر، بحرین اور یو.اے.ای میں لیکر آیا۔ اِس دوران برطانوی حکومت میں تا ج برطانیہ کے مفادات اور سمندری روٹ کو دوسری کالونیل طاقتوں سے بچانے کے لئے 1820ء میں ابوظہبی کو محافظ بنایا اور 1839ء میں عدن پر کنٹرول حاصل کیا۔ جس میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ تب سے ہی برطانیہ نے بحرین، دوبئی، عمان اور کویت پر اقتدار حاصل کیا، اور انڈیا اور گلف ممالک میں بڑے پیمانے پر تجارتی تعلقات بڑھائے، جس میں انڈین سول سروس نے اہم کردار ادا کیا۔14 اس دوران برطانوی تجارت کے پھیلاؤ کے لئے بڑے پیمانے پر دوسری بار انڈین مزدوروں کو گلف لے جایا گیا۔ تیسری بار بیسویں صدی کے اوائل میں تیل کی دریافت، اور 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں تاجِ برطانیہ سے آزادی کے بعد گلف ممالک میں تیل کی بڑھتی ہوئی پیداوار، پھیلتے ہوئے کاروباری مراکز کی کنسٹرکشن ورکس اور متعلقہ خدمات کی انڈسٹری، اور مقامی آبادی کم ہونے کی وجہ سے بہت بڑے پیمانے پر کئی ایشیائی ممالک میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے غریب مزدوروں کو لایا گیا۔ اِس کے علاوہ پیٹرولیم کے شعبے میں بیشمار بے روزگار ایشیائی انجنیئر، سروے ماہرین، اور جیالوجسٹوں کو بھی لایا گیا۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

سال 1933ء میں دنیا کی سب سے بڑی پٹرولیم فرم ’’عریبین امریکن أئل کمپنی (آرامکو)‘‘ بنائی گئی جس نے گلف میں تیل کی پیداوار اور عالمی مارکیٹ پر اجارہ داری قائم کی اور امریکہ نے گلف ممالک کے ساتھ اسلحہ بیچنے کے معاہدے بھی کئے۔ گلف میں 1928-1932ء کے دوران تیل کی انڈسٹری بنتے وقت مقامی عرب نو آزاد غلام، کسان، اور سمندر میں موتیاں ڈھونڈنے والے غریب غوطہ خوروں کو اس انڈسٹری میں ملازمتیں ملیں، جو کہ اب درمیانے طبقے کے کاروباری اور ٹھیکے دار بن چکے ہیں۔ اِ ن مزدوروں نے چالیس اور پچاس کی دہائی میں تیل کی کمپنیوں میں ہڑتالوں کی کوششیں کیں۔ مثال کے طور پر 1953-1956ء میں بحرین میں جنرل ٹریڈ یونین بنی، نیشنل یونین کمیٹی بنی، محدود پیمانے پر عسکریت پسند مزدور تحریک بنی اور کمیونسٹ تحریک بنانے کے لئے کئی زیرِ زمین چھوٹے سیلز بھی بنائے گئے۔ عمان میں 1962-1976ء میں کمیونسٹ تحریک سے متاثر ہو کر ’’پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف دی آکیوپائیڈ عریبین گلف‘‘ بنی جس نے بادشاہتوں کے خلاف بغاوتیں منظم کیں، مگر کامیاب نہ ہو سکے۔

نوآبادیاتی حکمرانوں نے ‘ہندوستانی رعایا’ کو نہ صرف ہندوستان میں بطور وسائل اور خزانہ استعمال کیا اور لُوٹا، بلکہ دُنیا بھر میں غلاموں کے طور پر لے گئے۔ 1930ء کی دہائی میں تیل کی بڑی مغربی کمپنیوں جیسے کہ کویت آئل کمپنی (کے او سی) اور آرامکو گلف آپریشنز کمپنی کمپنی لمیٹڈ ، اور پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ قطر (پی ڈی کیو) نے کافی تعداد میں ملازمتیں دیں۔ برصغیر کے مزدوروں کی بھرتی کے لئے ریاست گجرات کے شہر سورت میں ایک بھرتی دفتر قائم کیا گیا۔ (راجن: 2020ء)۔ اس طرح، 1950ء کی دہائی کے آخر تک گلف ممالک میں ہندوستانی اور پاکستانی تارکین وطن پر مشتمل سب سے بڑی افرادی قوت کی تشکیل ہوئی، خاص طور پر کویت اور بحرین۔ 1970ء کی دہائی میں تیل کی دریافت اور جی سی سی ممالک کے معاشی عروج نے ساؤتھ ایشین مزدوروں کو کھینچا، اور ایشیاء سے تارکین وطن کارکنوں کی ایک بڑی وہاں پہنچی۔

ستر کی دہائی کے بعد یورپی اور امریکی سرمایہ دراروں کی تیل کی انڈسٹری میں بے تحاشہ سرمایہ کاری کے بعد سے گلف میں باقاعدہ جدید پیداواری اور کاروباری نظام تو بن گئے مگر مزدوروں پر کمپنی مالکان اور ریاست کا جبر مزید بڑھنے لگا۔ اُوپر سے بڑے پیمانے پر غیر ملکی مزدوروں کے لانے سے مزدور تحریک کے اندر زبان، نسل اور مذہبی تفریق کی وجہ سے تقسیم اور دراڑ پڑتی گئی۔ غیر ملکی مزدور کی تقسیم واضح طبقاتی اور نسلی درجہ بندی پر ہونے لگی۔ ا ور اب اختیارات، اُجرت اور حقوق کی درجہ بندی میں یورپی اور امریکی مزدور وائٹ کالر ملازمتوں میں ہیں اور سب سے اوپر ہیں، مقامی مزدور درمیانے درجے اور ایشیائی مزدور حیثیت میں سب سے نچلے درجے پر أ تے ہیں۔ اب مقامی مزدور زیادہ تر وائٹ کالر محنت کار کی حیثیت میں کلیریکل اور دوسرے سرکاری خدمات کے شعبوں میں انتظامیہ میں جا چکے ہیں اور تارکینِ وطن مزدوروں کے خلاف ریاستی کارندے بن چُکے ہیں۔

یاد رہے کہ گلف کی سب ریاستیں ’بادشاہتیں‘ ہیں اور اِن کا ریاستی اِنٹلی جنس کا نظام اب امریکی فوجی اڈوں کی وجہ سے انتہائی جدید اور بہت سخت ہے، جس سے بچنا بہت مشکل ہے۔ خلیج کی ریاستیں اب مکمل طور پر امریکی گماشتہ ریاستیں (کلائینٹ سٹیٹ) بن چکی ہیں، اور اِن میں موجود سلطنتوں کو امریکی پشت پناہی حاصل ہے، بلکہ امریکہ خود ہی گلف میں فوجی اڈوں کی ایک سلطنت ہے۔ 1991ء کی پہلی خلیجی جنگ کے دوران پینٹاگون نے لاکھوں فوجیوں کو سعودی عرب اور پڑوسی ممالک میں تعینات کیا۔15 اس جنگ کے بعد، سوویت یونین کے انہدام کے باوجود امریکی فوج واپس نہیں گئی۔ امریکی فوج نے سعودی عرب اور کویت میں اپنے اڈوں کو وسیع بنیادوں پر تعمیر کیا، بحرین کو پانچویں بحری بیڑے (نیول فلِیٹ) کا مستقل ٹھکانہ بنایا۔ پینٹاگون نے قطر میں بڑی فضائی تنصیبات کی تعمیر کی اور متحدہ عرب امارات ور عمان میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دیں۔ افغانستان پر 2001ء کے حملے اور عراق پر 2003ء کے حملے کے بعد پینٹاگون نے اربوں ڈالرز سے اِن اڈوں کی مزید تعمیر اور توسیع کی اور چھوٹی بڑی ہزاروں تنصیبات بنائیں۔ اس سے متعلقہ ایک بہت بڑے کارپوریٹ سیکٹر کی ترقی اور کنسٹرکشن بھی جاری ہے۔ یہ ساری کنسٹرکشن بھی ایشیائی مزدوروں نے کی۔

درجِ بالا تفصیلات سے مُراد یہ ہے کہ کیسے یہ سامراجی ریاستیں ایشائی مزدوروں کی محنت پر پل رہی ہیں۔ گلف ممالک اور امریکہ نے مل کر ساؤتھ ایشین مزدوروں کو بالکل ’’ریزرو آرمی‘‘ کی طرح رکھا ہے، اپنی ضرورت کے مطابق کبھی منگوا تے اور کبھی واپس بھیجتے ہیں۔ پاکستان کی وزارتِ داخلہ کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں ساڑھے پانچ لاکھ پاکستانی مزدوروں کو ملک سے نکالنے والے 134 ممالک میں سے گلف ممالک سر فہرست ہیں، خاص طور سعودی عرب، جس نے 280,052 مزدور ڈی پورٹ کئے۔ 16 اور سال 2017ء میں سعودی عرب نے دہشت گردی کے خطرے کی آڑ میں چالیس ہزار پاکستانی مزدور جبری نکال کر واپس ڈی پورٹ کئے۔17

گلف میں تارکینِ وطن مزدور نا صرف مزدور قوانین کے دائرے سے باہر ہو جانے کی وجہ سے مظالم اور استحصال کا شکار کئے جاتے ہیں بلکہ دنیا میں سخت ترین امیگریشن پالیسی کا بھی شکار ہیں جو کہ سپانسرڈ ویزہ کی بنیاد پر مبنی ہے، یعنی کہ “کفالہ سسٹم”۔ اس سسٹم کے مطابق، مزدور کی حیثیت کا تعین ایمپلائر کرتا ہے: یعنی کہ ریکروٹمنٹ فیس، علاج معالجہ، ملک سے باہر جانے اور آنے، رہائش اور نقل و حرکت کا فیصلہ۔18 16 اکثر کفیل تارکین وطن مزدوروں سے پاسپورٹ اور شناختی لے لیتے ہیں اور وہ سالوں تک نہ ہی اپنا ایمپلائر بدل سکتے ہیں اور یہ ہی وطن واپس آ سکتے ہیں۔ گلف ممالک میں تارکینِ مزدوروں کو منظم ہونے کا حق، پنشن کا حق اور برابر کی اُجرت کا حق نہیں ہے۔ گلف ممالک میں اس وقت قانونی طور پر لائے گئے پونے دو کروڑ سے زیادہ (18ملین) غیر ملکی مزدور موجود ہیں جو کہ ویزہ ٹریڈنگ سسٹم کے ذریعے لائے گئے ہیں۔ پاکستانی سفارت خانے پاکستانی مزدوروں کی ٹریڈنگ میں دلال کے طور پر ملوث ہیں۔ انٹرنیشنل ٹریڈ یونین کنفیڈریشن کے مطابق 24 لاکھ گھریلو مزدور گلف میں ” غلام” کی حیثیت میں زندگی گزار رہے ہیں، جن کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہے۔17

یہ استحصال قانونی طریقوں سے ہو رہا ہے کیونکہ گلف ممالک کے مزدور قوانین غیر ملکی مزدوروں پر لاگو نہیں کئے جاتے۔ غیر ملکی مزدور کفالہ سسٹم کے ماتحت ہیں، اور کفیلوں کی زیادتیوں کو عدالت لے جانا مزدوروں کی نا حیثیت ہے اور نہ ہی اُنہیں موقع ملتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی اقدام کریں، اقامہ کینسل کر دیا جاتا ہے۔ تارکینِ وطن مزدوروں کا ہڑتال اور ٹریڈ یونین کا بنیادی حق نہیں مانا جاتا، اور نہ ہی کوئی ’’کور لیبر سٹینڈرڈز‘‘ مانے جاتے ہیں، خاص طور پر گلف ممالک میں، جہاں مزدوروں کوئی جمہوری حقوق میسر نہیں ہیں۔

حالات تو یہ ہیں کہ فیفا ورلڈ کپ 2022ء کے لئے جاری تعمیراتی پراجیکٹس پر کام کرنے والے کنسٹرکشن ورکرز میں سے بدترین حالاتِ کار کی وجہ سے روانہ ایک مزدور مرتا رہا۔ بھلے زندگی بھر کام کر کر کے وہاں ضعیف ہو جائے، پھر بھی نیشنلٹی نہیں ملتی، اور یہ اختیار ویسے بھی صرف سُلطان کے پاس ہوتا ہے کہ وہ کس کو نیشنلٹی دے!۔

اگرچہ تمام گلف ممالک آئی.ایل.او کے ممبر ہیں اور انہوں نے آئی.ایل.او کے کئی کنونشنز اور پروٹوکول بھی دستخط کئے ہو ئے ہیں مگر اِن ممالک کا ریاستی نظام جمہوری نہ ہونے کی وجہ سے یہاں مزدور بے انتہا استحصال، جبر اور مصائب کا شکار ہیں اور تنظیم سازی کا حق نہیں رکھتے۔ یاد رہے کہ گلف کا ’کفالہ سسٹم‘ جس کے تحت مزدوروں کو بھرتی کیا جاتا ہے، عالمی مزدور قوانین کے عین مخالف ہے۔ میں عالمی مزدور تحریک سے اتفاق کرتے ہوئے، کفالہ سسٹم کو جبر و تشدد اور غلامی پر مبنی نظام سمجھتی ہوں، اور اس کا خاتمہ ضروری سمجھتی ہوں۔

اگرچہ اِن ممالک کے بادشاہوں اور اشرافیہ نے اپنے اندھیرے صحراؤں کو ایشیائی مزدوروں کی محنت کے استحصال سے لش پش کاروباری و سیاحتی مراکز میں بدلا، اور برق رفتاری سے سرمایا اور پیٹرو ڈالرز بنائے جس سے دُنیا بھر میں معاشی اور سیاسی بالا دستی قائم کی، مگر اِنہی مزدوروں کا استحصال، اِن کے حقوق ، اور مزدور قوانین اِن بادشاہتوں کے ریاستی نظریات اور ڈھانچے میں موضوعات ممنوعہ ہیں۔

یاد رہے کہ گلف کی اِن سب ریاستوں میں مطلق العنان بادشاہتیں ہیں اور یہاں کے اپنے شہریوں کو بھی بنیادی جمہوری حقوق میسر نہیں، تارکین وطن کے حقوق کا سوال تو دور کی بات، وہ بھی جنوبی ایشیاء کے پِسے ہوئے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کے استحصال کا سوال۔ کئی ریاستوں میں طبقاتی جدوجہد اور جمہوری تحریکوں کو ٹینکوں اور فوجوں کے ذریعے پُرتشدد طریقوں سے کُچلا گیا۔

سال 2013 ء کے اعدادوشمار کے مطابق متحدہ عرب امارات کی کُل آبادی کا 80 فیصد تارکینِ وطن مزدوروں پر مشتمل تھی، یعنی کُل 92 لاکھ کی آبادی میں سے 73 لاکھ تارکینِ وطن ہیں, جن میں 16 لاکھ عورتیں تھیں۔ اِن 73 لاکھ تارکینِ وطن کا 90 فیصد مزدور تھے اور ملک میں موجود کُل مزدوروں کا 90 فیصد تارکینِ وطن مزدوروں پر مشتمل تھے۔صرف 10فیصد اماراتی مزدور ہیں۔ نجی شعبے میں کام کرنے والے مزوروں کا 90 فیصد بھی تارکینِ وطن ورکرز پر مشتمل تھا۔ متحدہ عرب امارات میں تقریبا 14 لاکھ پاکستانی مقیم تھے, جن میں سے کفالہ سسٹم کے تحت عارضی کانٹریکٹ پر مزدوری کرنے والے 10 لاکھ مزدور تھے۔ یہ مزدور کنسٹرکشن ، گھریلو خدمات ، سروسز سیکٹر، اور ٹرانسپورٹ سیکٹر میں کام کرتے تھے۔ انٹرنیشنل ٹریڈ یونین کنفیڈریشن کی طرف سے 2015ء میں جاری کردہ مزدوروں کے حقوق کا انڈیکس متحدہ عرب امارات کو مزوروں کے لئے بد ترین ملک قرار دیتا ہے۔

عمان میں کُل تارکینِ وطن مزدوروں کا 85 فیصد مزدور انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہے، اور کُل تارکینِ وطن مزدوروں کے 82 فیصد مزدور نجی شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ 2013ء میں عمان حکومت نے فیصلہ کیا کہ تارکین وطن مزدوروں کی آبادی مقامی آبادی کے 33 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھے گی، جس کے نتیجے میں 70,000 مزدوروں کو ملازمتوں سے نکال کر اپنے آبائی ممالک میں واپس بھجوایا گیا۔ عمان میں اس وقت 268,868 رجسٹرڈ پاکستانی رہائش پذیر ہیں، جن کی اکثریت بلوچ اور پشتون مزدوروں کی ہے۔21

گلف میں موجود تمام تارکین وطن مزدور بِلا تفریق ملک، خا ص طور پر غیر ہنر مند مزدور کے مسائل کی نوعیت ایک ہی ہے، اور یہ مسائل بنیادی طور پر گلف میں مطلق العنان طرزِ حکمرانی اور جمہوری حقوق کے مسٔلے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اِس لئے اس کے حل کے لئے ہمہ گیر ملکی، علاقائی (ریجنل) اور بین الا اقوامی سیاسی، قانونی اور سفارتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اکثریت غلامی اور مجبوری کے عالم میں رہ رہی ہے:۔

مسافر مزدوروں کے روزمرہ کے مسائل

جاب سیکیورٹی اور واجب الاادا تنخواہیں : بحرین بیسڈ بزنس اور امیگریشن کی لیگل فرم ’باڈرلیس کاؤنسل‘ کے مطابق زیادہ تر گلف ممالک میں تاریکین وطن مزدوروں کو ملازمت کے پہلے تین سالوں کے لیے آدھے مہینے کی تنخواہ ملتی ہے، اور ایک مہینہ چھوڑ کر اگلے مہینے کی تنخواہ ملتی ہے۔18 جاب سیکورٹی نہیں ہے، کفیل جب چاہے نکال دے۔ اکثر لاکھوں کی تعداد میں نوکریوں سے نکال کر ڈی پورٹ کر دئیے جاتے ہیں۔ اکثر مزدوروں کی تنخواہیں انتہائی کم ہیں، قرضوں کے جال میں پھنسے رہتے ہیں کہ ایمپلائرز مہینوں تک اُن کی تنخواہیں روکے رکھتے ہیں تا کہ یہ کہیں جا نہ سکیں۔ یہ مزدور اکثر اِسی وجہ سے سالوں تک واپس ملک نہیں آتے کہ کہیں یہ تنخواہیں نہ کھو دیں۔ مزدوروں کے اندازے کے مطابق پاکستانی مزدوروں کی واجب الادا تنخواہیں کئی بلین ڈالر کی مالیت کی ہوں گی۔ تمام تارکینِ وطن مزدور کفیل/ارباب کی مرضی کے بغیر اپنی ملازمت اور شہر نہیں بدل سکتے۔

جی.سی.سی کے چھ ممالک میں سے کسی ایک نے بھی آئی ایل او کے تارکین وطن ورکرز کے حقوق کے تحفظ کے اہم کنوشنز پر دستخط نہیں کیے ہیں، جیسے کہ مائگریشن فار ایمپلائمنٹ کنونشن، 1949 (نمبر 097)، مائگرنٹ ورکرز (ضمنی دفعات) کنونشن، 1975 (نمبر 143)، اور 1990ء انٹرنیشنل کنونشن آن دی پروٹیکشن آف آل مائگرنٹ ورکرز اینڈ ممبرز آف دیئر فیملیز۔19

توہین آمیز، غُلامانہ اور غیر انسانی حالات کار : گلف ممالک میں مزدوروں کو سخت مشقت کرنی پڑتی ہے، تپتے صحراؤں میں جلتے سورج میں کام کرنا پڑتا ہے۔ روکا سوکھا کھانا ملتا ہے۔ اور تقریباََ آٹھ سے دس مزدور ایک کمرے میں لیبر کیمپوں میں تباہ حا ل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان مزدوروں کو شدید استحصال کا سامنا ہے، کم سے کم اُجرت کا تعین نہیں ہے، اور نا ہی انہیں تنظیم سازی کا قانونی حق ہے۔ ان کی یہ صورتحال تصدیق شدہ اور اچھی طرح ڈاکمنٹڈ ہے۔ ایک نظر ڈالنے کے لئے پختونخوا کے ضلع صوابی کے مزدوروں کی کہانی ’مجھے سعودی عرب سے ننگے پاوں پاکستان بھیج دیا گیا‘20 ، اور بی.بی.سی کے ’بین اینڈرسن‘ کی ڈاکومنٹری ’دوبئی کے غلام‘ دیکھئے۔

https://www.youtube.com/watch?v=-MJS1ijshHA

دستاویزات کی ضبطگی : مزدوروں کی اکثریت کو غیر انسانی حالاتِ کار کا سامنا ہے۔ اکثر ایمپلائرز اِن کی سفری دستاویزات ضبط کر کے رکھتے ہیں اور مزدور جبری مزدوری کا شکار ہیں۔ اوقاتِ کار اور حالاتِ کار کی نگرانی اور ان کو بہتر بنانے کا کوئی سرکاری انتظام موجود نہیں ہے

پابندیاں اور جُرمانے : اکثر مزدوروں کو دوسرے شہروں میں بسنے والے رشتے داوروں اور دوستوں سے ملاقات کی قانونی اجازت نہیں ہے۔ رہائشی قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں اُن کو بھاری جُرمانے دینے پڑتے ہیں اور جیل بھی کاٹنی پڑتی ہے۔

خلیج میں ٹرانسپورٹ سیکٹر کے مزدور بھاری جُرمانوں سے بہت تنگ ہیں، خاص طور ر پر دوبئی میں ٹیکسی چلانے والوں کو قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں 10,000 سے 50,000 درہم تک کے جرمانے دینے پڑتے ہیں، جنکو بھرنا اُنکی مالی اِستطاعت سے بالکل باہر ہے اور یہ جُرمانے بھرتے بھرتے وہ قرضوں میں ڈوب چُکے ہیں۔21

شہریت کے قوانین سخت ہونے کی وجہ سے اکثر مزدور دہائیوں تک ورک پرمٹ (اقامہ) پر رہتے ہیں اور ویزہ یا اقامہ ختم ہونے کی صورت میں غیر قانونی طور پر انتہائی کم اُجرت پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں

ثقافتی پابندیاں اور بے معنی کمیونٹی سنٹرز: منسٹری آف اوورسیز پاکستانیز نے اس وقت کُل 24 کمیونٹی ویلفئر اتاشی تو پوسٹ کئے ہیں، جن میں 14 جی.سی.سی ممالک میں ہیں، مگر ان کو وسائل مہیا نہیں کئے تاکہ وہ مزدوروں کے مسائل حل کر سکیں اور نہ ہی سفارت خانوں میں شکایات کے اندراج اور تدارک کا کوئی باقاعدہ نظام موجود ہے۔ یہ اتاشی زیادہ تر مزید ریکروٹمنٹ مواقع ڈھونڈنے کا کام کرتے ہیں، تاکہ ریمیٹینس بڑھائی جا سکے۔ پاکستانی سفارت خانوں کے کمیونٹی سنٹر میں ثقافتی سرگرمیوں کی قانونی اجازت نہیں ہے(آئی.ایل.او:2016)۔ جس کی وجہ سے مزدور کی زندگی بالکل لیبر کیمپ اور کام کی جگہ تک محدود ہے۔ اُن کی زندگیاں مزدوری اور منافع دینے والی مشین بن چکی ہیں، اور ان سے اپنی ثقافت اور شناخت لے لی گئی ہے۔

پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی تجدید: دوبئی میں پاکستان کے قونصل خانے نے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی تجدید کے لئے آن لائن سروس تو کھول دی ہے مگر ناخواندگی اور پسماندگی کی وجہ سے اکثر مزدور اس سروس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے اور اُنہیں سفارتی عملے کو تحائف دے کر اپنے کاغذات بنوانے پڑتے ہیں۔

کم تنخواہ : ملیشیاء میں پاکستان میں سرکاری طور پر مانی گئی کم از کم ماہانہ اُجرت جو کہ 15,000 روپے ہے، سے بھی کم اُجرت دی جاتی ہے، یعنی صرف 10,000روپے اور اکثر غربت اور خوراک کی کمی کی وجہ سے پاکستانی مزدور لاغر رہتے ہیں۔ 22

جُرمانے ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے جیلیں : سال 2023ء میں 14,000 سے زیادہ پاکستانی شہری غیر مُلکی جیلوں میں تھے۔ جن کی اکثریت گلف ممالک میں تھی۔ اکثریت غربت کے باعث جرمانے ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے قید ہیں۔ کچھ پاکستانی شدید نوعیت کے جرائم میں بھی عمر قید کی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔(ڈان: 18دسمبر 2023ء)۔23 مزدوروں کو تنخواہ مانگنے کی پاداش میں بھی جیل میں ڈالا جاتا ہے۔

جنسیت کی ضبطگی : لیبر مائگریشن کی وجہ سے نہ صرف پیچھے رہ جانے والی عورتوں کی جنسیت ضبط کر لی جاتی ہے، بلکہ گلف ممالک جانے والے مزدوروں کی جنسیت بھی ضبط کی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں تو خاص طور پر عرب عورتوں کی پاکستانی اور بنگلہ دیشی مردوں، اور وہ بھی مزدوروں سے شادی پر کھبی رسمی اور کبھی غیر رسمی پابندی رہتی ہے۔

لیبر مائگریشن پالیسی: حکومتِ پاکستان نے کوئی جامع لیبر مائگریشن پالیسی نہیں بنائی ہے۔ دی امیگریشن رولز آرڈینینس 1979ء بنیادی قانونی فریم ورک ہے، مگر وہ بھی مزدور دوست نہیں ہے، اور ریمیٹینس کے گرد بُنا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مزدور بھیجنے کے معاہدوں کے لئے کوئی اُصول اور شرائط نہیں ہیں۔ اور نا ہی پاکستانی تارکین وطن مزدوروں کے مسائل کے حل کے لئے کوئی فریم ورک موجود ہے۔ کم ہنر مند مزدور کو تقریباََ ساڑھے پانچ لاکھ روپے تک کا ویزہ خریدنا پڑتا ہے، جبکہ اعلی ہنر مند مزدور کو ایمپلائرز ویزہ دیتے ہیں۔ دی امیگریشن رولز (15۔اے) اس بات کی اجازت دیتا ہے، جو کہ غریب مزدور پر بہت بڑا بوجھ ہے، اور اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ میڈیکل چیک اپ کے لئے ایجنٹوں کو رشوت دینی پڑتی ہے، جبکہ لاکھوں مزدوروں کو ایجنٹ ویزے کے چکر میں لوٹ چُکے ہیں۔ اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن (او.ای.سی) ریکروٹمنٹ، اور اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن (او.پی.ایف)ویلفیئر کے لئے ذمہ دار ہے۔ مگر پاکستان نے مزدوروں کو ویزہ ایجنٹوں کے آگے ڈال دیا ہے۔ سرکاری اداروں کی فعالیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ سال 1971-2015ء کے دروان صرف 2 فیصد مزدور او.ای.سی کے ذریعے گئے، 58 فیصد پرائیویٹ ایمپلائمنٹ پروموٹر (ویزہ ایجنٹوں) کے ذریعے، اور 40 فیصد خود گئے (ورلڈ بینک: 2018)۔24

سال 20-2015ء کے درمیان نو لاکھ سے زیادہ مزدور ویزہ ایجنٹوں اور  انسانی سمگلروں کے ہاتھوں کاغذ پورے نہ ہونے کی وجہ سے بے یار و مدد گار ہوئے اور اُنہیں واپس ڈی پورٹ کیا گیا، جن میں سے بڑی تعداد  جدہ  گئے تھے جو کہ ۔ 882,887  تھے اور 4,200 قطر گئے تھے (گورنمنٹ آف پاکستان رپورٹ:2016ء؛ ایکپریس ٹرائبیون 19 نومبر 2016ء) ۔25

سفری سہولیات: آج کل روزانہ کی بنیاد پر تقریباََ تین ہزار مزدور پاکستان سے باہر روزگار کے لئے جاتے ہیں اور تقریباََ 97 فیصد گلف ممالک، خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جاتے ہیں (آئی ایل او: 2016)۔ جبکہ پاکستان کے جہازوں کی فلائٹس، سول ایوی ایشن کا انتظام اور رویہ مزدور دوست نہیں ہیں۔

یونین سازی اور ہڑتال پر پابندی : لیبر رائٹس انڈیکس 2022ء کے مطابق گلف ممالک میں لیبر لاء کے تحت یونین سازی، اجتماعی سودے بازی اور ہڑتال پر پابندی ہے۔ آئی.ایل.او کی طرف سے گلف ممالک جانے والے پاکستانی مزدوروں کو ہدایات کے مطابق یونین بنانے کی کوشش کرنے والوں کو برخاست، قید یا ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے پرہیز کریں۔26

ریاستِ پاکستان کا کردار

اس پوری کہانی میں پاکستان کی ریاست کا کردار پٹے پر مزدور بیچنے والے ایک خرکار/ٹھیکہ دار کا ہے، جو اِس استحصال میں سہولت کاری کا کام کرتا ہے، اور گلف بادشاہتوں کے ساتھ مکمل گٹھ جوڑ میں ہے۔

ملک کے اندر روزگار دلانے والی صنعتی ترقی کی بجائے پاکستان نے زر مبادلہ کے لئے کئی ممالک سے مزدوروں کو بیچنے کے معاہدے کر رکھے ہیں مگر اُن کے حقوق کے لئے کوئی مذاکرات یا معاہدے نہیں کئے، اس لئے کہ پاکستان کو تو صرف ریمیٹینس سے سروکار ہے۔ مثال کے طور پر 2005ء کے معاہدے کے تحت 100,000 پاکستانی مزدور مینو فیکچرنگ، کنسٹرکشن اور شجر کاری سیکٹر میں کام کے لئے ملیشیاء لے جائے گئے اور ایمپلائمنٹ ایجنسیوں کے ہتھے چڑھنے والے پاکستانی مزدوروں کو ملیشیاء میں طے شدہ تنخواہ سے چار گُنا کم تنخواہ دی جاتی ہے۔27

سال 2015ء میں مزدوروں کے ساتھ مظالم کے حوالے سے بدنامِ زمانہ فیفا ورلڈ کپ کے لئے سٹیڈیم، سٹی ریل، ہوٹلز، ایئر پورٹ اور اور دوسرے پراجیکٹس کی تعمیر کے لئے پاکستان نے دو لاکھ پاکستانی مزدور قظر بھیجنے کا معاہدے کیا۔ اب سنٹرل ایشیاء کے ممالک میں بھی معاہدے شروع کر دیئے ہیں، اور پہلا معاہدہ آزر بائیجان سے کر چکا ہے۔ پاکستان ’سی پیک‘ میں بھی پاکستانی مزدوروں کے لئے ملازمتیں نہ لے سکا۔ 1990ء میں خلیج جنگ کے نتیجے میں 60,000 پاکستانیوں کو واپس آنا پڑا۔ جنگ کے سارے متاثرین کو پاکستان نے یو.این.او سے منظور شدہ معاوضہ ابھی تک نہیں دیا۔ جبکہ ریمیٹینس گر جانے کی صورت میں سٹیٹ بنک آف پاکستان ہر مہینے مزید مزدور باہر ملک بھیجنے کے لئے واویلہ شروع کر دیتا ہے کیونکہ ریمیٹینس پاکستان کے فارن ایکسچینج ریزرو کا حصہ بناتی ہے، اور وہی تو تیل، گیس اور اسلحہ امپورٹ کرنے پر خرچ ہوتا ہے، یعنی کہ مزدور کے کمائے ہوئے ریال، یورو، اور ڈالر دوبارہ گھوم کر واپس گلف اور امریکہ چلے جاتے ہیں۔

اس کے باوجود کہ لیبر پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ہے، پاکستان نے نہ ہی آج تک کوئی مزدور دوست لیبر مائگریشن پالیسی بنائی اور نہ ہی سمندر پار پاکستانی مزدوروں کے حقوق، تحفظ اور آزادی کے لئے کوئی خاطر خواہ سفارتی کوششیں نہیں کیں۔ دوسرے ایشائی ممالک سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کے اوقاتِ کار اور حالاتِ کار بھی گلف میں کچھ بہتر نہیں ہیں۔ گلف میں مزدوروں کی اکثریت جنوبی ایشیاء سے ہے، مگر جنوبی ایشیائی ریاستوں نے عمومی طور پر اپنے بیروزگار محنت کشوں اور محنت کاروں کو اِن ممالک کو اونے پونے بیچ دیا اور خُوب زرِمبادلہ کمایا مگر نہ ہی اِن کے حقوق مانگے، نہ ہی اِن کے حقوق کے لئے عالمی اور علاقائی طور پر کوئی خاطر خواہ سفارتی آواز اُٹھائی، اور نہ ہی اِن کے مسائل پر کوئی سفارتی اتحاد بنایا، بلکہ اُلٹا ایک دوسرے کے خلاف عالمی طور پر سفارتی دُشمنی میں مصروف رہے، اور مصائب زدہ تارکینِ وطن مزدور رُلتے رہے۔ حتی کہ پاکستان کو سارک تک سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

کیا، کیا جائے؟

میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان کی ریاست کا خلیج کی ریاستوں سے تعلق ایک سامراجی گماشتہ ریاست کا ہے۔ پاکستان نے اپنے لاکھوں جوانوں کو نہ صرف مزدوروں کو، بلکہ فوجی سپاہیوں اور طالبان جنگجوؤں کی شکل میں بھی گلف ممالک کو خُوب خُوب بیچا ہے۔ پاکستان کی افواج نے گلف ممالک کے لئے ٹھیکے پر د نیا کے کئی ممالک کے ساتھ سامراجی جنگیں بھی لڑی ہیں۔ دی ایمپلائمنٹ رولز 1979ء کے تحت ریاست نے مزدوروں کو اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز (مزدور ٹھیکہ داروں/خرکاروں) اور اپنے قونصل خانوں میں لیبر اتاشیوں کے حوالے کر دیا ہے جو کہ دونوں اِس سامراج اور جنگ زدہ خطے کے محنت کشوں کو اونے پونے داموں بیچ رہے ہیں۔ پاکستان کے سفارت خانے سمندر پار پاکستانی مزدوروں کو کوئی خاص قانونی امداد اور سہولیات فراہم نہیں کرتے۔

میں سمجھتی ہوں کہ ایمپلائمنٹ پروموٹر کمپنیاں یعنی ٹھیکیداری نظام ، سرمایہ داری نظام کا حصہ ہیں، اور سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے بغیر اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ مزید یہ کہ گلف ممالک سے پاکستان کے سامراجی اور طفیلی رشتے میں پاکستان کی ریاست کی طرف سے اپنے مزدوروں کے استحصال کا سوال اُٹھانے کی توقع رکھنا بے سود ہے۔ خاص طور پر جب پاکستان گلف ممالک کے لئے ایک چھاؤنی کی حیثیت رکھتا ہو، اور مالی بُحران میں پاکستان ریاستی سطح پر انہیں گلف ممالک سے خیرات مانگتا پھرتا ہو۔

پاکستان کے معاشی اور مالیاتی نظام کے ڈھانچے میں درج ذیل بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں: جنگ اور دہشت گردی کا خاتمہ اور امن کا قیام، معیشت اور ریاست پر فوج کی بالا دستی کا خاتمہ اور ریاستی اور معاشی جمہوریت سازی، کنزیومر اکانومی اور غیر مُلکی قرضوں پر چلنے والی معیشت اور مالیاتی نظام کے بجائے مُلک میں سویلین صنعت سازی اور خود کفالت، شہری اور زرعی لینڈ ریفارمز اور زمینوں کو بے زمین کسانوں اور مزدوروں میں تقسیم اور مالکانہ حقوق، مفت تعلیم اور علاج، فوجی اخراجات میں کٹوتی اور اپنے ہی مُلک کے اندر فوجی آپریشنز کا خاتمہ، قوموں کو پیداواری اور قدری وسائل کی واپسی اور رضاکارانہ وفاق کی تشکیل، لگژری اشیاء اور اسلحے کی درآمدات پر پابندی، ملٹری اور سویلین حکمران اشرافیہ طبقے کو سالانہ دئے جانے والے 17$ بلین ڈالر کی مراعات/ سبسڈی/ ٹیکس بریکس کا خاتمہ، اور پروگریسیو ٹیکسیشن ۔ یہ وہ اقدامات ہیں، جو پاکستان کے محنت کش خاندانوں کے نوجوانوں کو مُلک کے اندر روزگار، اور باوقار انسانی زندگی فراہم کر سکتے ہیں۔


References:

  1. World Bank. Malaysia Economic Monitor, December 2015 – Immigrant Labor. worldbank.org ↩︎
  2. Al Arabia English. (03-07-2017) Saudi Arabia introduces new tax for expatriates . english.alarbiya.net ↩︎
  3. Rajan S. Irudaya and  Oommen,  Ginu Zacharia, (2020). ‘Asianization in the Gulf: A Fresh Outlook‘, In Asianization of Migrant Workers in the Gulf Countries. Springer Nature Singapore Pte Ltd. Pdf downloaded from springer.com ↩︎
  4. Abbas Faisal, Masood Amjad and Arifa Sakhawat. What determine remittances to Pakistan? The role of macroeconomic, political and financial factors. sciencedirect.com ↩︎
  5. Government of Pakistan, Bureau of Migration and Oversees Employment. (2020). Labour Migration Report 2020. pdf. beoe.gov.pk . p.5 ↩︎
  6. ILO. (December 2019). Labour Migration in Pakistan. ilo.org ↩︎
  7. Aljazeera (10 July 2023). Pakistan’s flailing economy hit by drop in worker remittances. aljazeera.com ↩︎
  8. Pakistan Bureau of Statistics. (2023). Annual Analytic Report on External Trade Statistics of Pakistan FY 2021-222. pbs.gov.pk . pdf ↩︎
  9. Associated Press of Pakistan. Pakistan exports-$16.5 bln textile products in FY23. 18 July 2023. app.com.pk ↩︎
  10. World Bank. (2015). Global Bilateral Migration database. worldbank.org ↩︎
  11. Amjad, Rashid and G.M Arif, M.arfar. (2012).  Preliminary Study: Explaining the Ten-fold Increase in Remittances to Pakistan 2001-2012. PIDE working paper. pide.org.pk. pdf ↩︎
  12. The Nation (03.May.2017) Pakistan’s geographical labor mobility and the bitter realities of illegal migration to Europe. ↩︎
  13. United Nation. (2015). Population Facts: Trends in international migration, 2015. unpopulation.org ↩︎
  14. Raja, S. Irudaya and and Oommen,  Ginu Zacharia. (2020). Asianization in the Gulf: A Fresh Outlook. Springer Nature Singapore Pte Ltd. Pdf copy. downloaded from books.google.com.pk ↩︎
  15. Los Angeles Times (08-11-1990). More U.S. Troops Ordered to Gulf : Mideast: Pentagon sources say new reinforcements could number more than 100,000. latimes.com ↩︎
  16. Human Rights Watch. (2006) Building Towers, Cheating Workers. hrw.org ↩︎
  17. International Trade Union Confederation. (2017) Facilitating Exploitation: A review of Labour Laws for Migrant Domestic Workers in Gulf Cooperation Council Countries. .ituc-csi.org. pdf ↩︎
  18. Borderless Council.  Labour Laws for GCC Expats. borderlesscounsel.com ↩︎
  19. Vainio, Harri, (2017) , Changing Work and Workers’ health in the 21st Century – A View from Kuwait. ilo.org. pdf ↩︎
  20. Khalid Anila. ‘مجھے سعودی عرب سے ننگے پاؤں پاکستان بھیج دیا گیا’. Independent Urdu. 15 February 2019. independenturdu.com ↩︎
  21. Ruiz, Romana. (24 May, 2016). Illegal taxi drivers to face stiffer penalties. thenationalnews.com ↩︎
  22. Pakistanis in Malaysia. wikipedia.org ↩︎
  23. Over 14,000 Pakistani nationals languishing in foreign jails. Zaki Abbas.18-December-2023. dawn.com ↩︎
  24. World Bank Group (2018). A Migrant’s Journey for Better Opportunities: The Case of Pakistan. documents1.worldbank.org. pdf. P.14 ↩︎
  25. Government of Pakistan. (2016) Labour migration from Pakistan: 2015 status report. Ministry of Overseas Pakistanis and Human Resource Development, Islamabad. Ilo.org ↩︎
  26. ILO. (2015)Travel Smart – Work Smart: A guide for Pakistani migrant workers in the United Arab Emirates. beoe.gov.pk ↩︎
  27. Pakistan Times. (14 June 2011) Malaysia to employ 100,000 Pakistanis to overcome labour shortage ↩︎

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .