گھر سے سرحدات تک: آج کے پاکستان میں سوشلسٹ فیمنسٹ جدوجہد
پاکستان میں عورتوں، خواجہ سراؤں اور صنفِ آزاد کس طرح گھر کے اندر ان پر مسلط شدہ پدرشاہانہ توقعات، اور اُن کی روزمرہ زندگی کو تشکیل دینے والی باہمی طور پر پیوست سرمایہ دارانہ اورسامراجی (امپریالسٹ) قوتوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں؟ اس سوال کا ایک موزوں جواب 2023ء میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی مارچ اور کیمپ کے حالیہ مناظر میں دیکھنے میں آیا، جب بلوچ خواتین بڑی تعداد میں اپنے گھروں سے باہر نکلیں، اسلام آباد کی طرف ایک طویل مارچ میں شامل ہوئیں اور وہاں پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگایا۔ روز سخت سرد موسم اور ریاستی رکاوٹوں کو برداشت کرتے ہوئے دن رات کیمپ میں بیٹھی رہیں، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خاتمے کا مطالبہ کرتی رہیں، جس کا بلوچ قوم کے لاتعداد افراد نشانہ بن چُکے ہیں۔ بلوچ خواتین کے ساتھ ساتھ، اب سندھ اور پختونخوا سے لیکر کشمیر اور گلگت بلتستان تک کے قومی خطو ں میں بھی سیاسی کارکنان موسمیاتی ناانصافی، قومی جبر اور نسلی امتیاز، طبقاتی نابرابری، سامراجیت، جنگ، اور پدرشاہی کے خلاف جدوجہدوں کی باہمی جڑت اور سانجھی نوعیت کو زیادہ اُجاگر کرتے ہیں۔
اس شمارے کے لیے ہمارا موضوع، ’’گھر سے سرحدات تک‘‘، عصرِ حاضر کے پاکستان میں عورتوں، خواجہ سراؤں اورصنف آزاد عوام کی مزاحمت کو اُجاگر کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدے نے مُلک کو بین الاقوامی قرضوں کے شکنجے میں مزید جکڑ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے محنت کش طبقے کو شدید بے روزگاری، کھانے پینے کی اشیاء اور گیس اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات کی قیمتوں میں اضافے، اور جبری معاشی نقل مکانی کا سامنا ہے۔ دریں اثنا، ملک کے فوجی اور سویلین حکمران اشرافیہ علاقائی اور عالمی سامراجی قوتوں کے ساتھ مل کر اپنی ملکیت، اثاثے اور سرمائے کو بڑھا رہے ہیں۔ ریاست کے اپنے جیو سٹریٹیجک مقاصد اور امریکہ اور پڑوسی ایران اور افغانستان کے مسابقتی مفادات نے خطے کو نہ ختم ہونے والے جنگ میں پھنسا رکھا ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کے اطراف سے لے کر اس کے شہری مراکز تک کی تحریکیں سرزمینوں پر قبضے، وسائل پر قبضے، اغواء ، سیاسی جبر، اور جنگ کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔ ان حالات کی زد سب سے ذیادہ محنت کش طبقے اور محکوم قوموں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والی عورتیں، خواجہ سراء اور صنفی اقلیتیں آتی ہیں، جن کو شدید جنسی اور صنفی تشدد کا سامنا ہے۔ پاکستان کی سامراجی معیشت اور نو آبدایاتی ریاست انہی طبقات کی محنت کے استحصال پر انحصار کرتی ہے، چاہے وہ کم اُجرت والی یا غیر رسمی مزدوری ہو یا بغیر معاوضے کے کیا گیا گھر کا کام اورسوشل کئیر ہو۔ گھر، گلیاں، اور سرحدات لامحالہ ایک دوسرے کو زخمی کر رہی ہیں، اور ایک دوسرے کی عکاس ہیں لہٰذا، تمام محازوں پر جاری فیمنسٹ مزاحمتوں کو ترقی پسند مستقبل کی تعمیرکا سوال لازماً پیشِ نظررکھنا ہو گا۔
ناریواد کا یہ پانچواں شمارہ گھر، ریاست اور عالمی سرمائے سے جڑے پدرشاہانہ نظاموں کے خلاف مزاحمت پر روشنی ڈالے گا۔ یہ ترقی پسند تحریکوں کی تعمیر میں فیمنسٹ جدوجہد کے کردار کو اجاگر کرنے اور منانے کی ایک کوشش ہے، جو پدرشاہی نظام، قومی جبر، ذات پات، سرمایہ داری اور سامراج،ا ور جنگ سے پاک دنیا کا تصور رکھتی ہیں۔ ایک میگزین کے طور پاکستان اور اس سے باہر فیمسنٹ جدوجہدوں سے منسلک ہونے کے ناطے، ناریواد تمام کامریڈز، اتحادیوں، اور ایکٹیوسٹ اسکالرز کو مندرجہ ذیل موضوعات پر سوشلسٹ فیمنسٹ نقطہ نظر سے تحریروں اور آرٹ ورک کی اشاعت کی دعوت دیتا ہے:۔
۔ پاکستان میں فیمنسٹ تحریک کا زمین، مزدور، انسانی حقوق، قومی آزادی، اور ماحولیاتی انصاف اور جنگ و امن کے سوالوں کے گرد ترقی پسند تحریکوں کے ساتھ اشتراک اور اختلافات کا تجزیہ
۔ پاکستان میں صنفی اور جنسی جبر کی تاریخ، خاص طور پر جس طرح یہ نسلی، ذات پات، اقلیتی اور طبقاتی ساختوں کےاندر پیوست ہے
۔ پاکستان کے اندر اور باہر فیمنسٹ یکجہتی کے قیام کے لیے تجاویز
۔ ’’ترقی‘‘، آمریت، مذہبی اکثریت کا غلبہ، نیولبرل نظریہ اور سامراجیت کا تنقیدی جائزہ
۔ پاکستان میں عورتوں، خواجہ سراؤں اور صنفی شناختوں کی تنظیموں کی جانب سے جاری حالیہ جدوجہد پر رپورٹیں اور تبصرے
ہم ان مضوعات پر مضامین، رپورٹیں، آراء، تبصرے، انٹرویو، افسانے اور شاعری شائع کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
براہ کرم ہمیں 250 یا اس سے کم الفاظ میں اپنے مجوزہ تحریر کا خلاصہ بھیجیں، جس میں آپ کی تجویز کردہ تحریر کی متوقع لمبائی، ترتیب و صورت اور مرکزی خیال بیان کیے گئے ہوں۔ ہم انگریزی اور اردو میں آپ کی تحریروں کے خلاصوں کے منتظر ہیں۔
خلاصے بھیجنے کی آخری تاریخ: 25 جون 2024ء
تحریر جمع کرانے کی آخری تاریخ: 25جولائی 2024ء
اپنی مجوزہ تحریروں کے خلاصے ہمیں درج ذیل ای میل پر بھیجیں، اور معلومات کے لئے رابطہ بھی اسی نمبر پر کریں:۔
narivaad@gmail.com :ای میل
برائے مہربانی اپنی تحریر بھیجنے سے پہلے ہماری ہدایات برائے اشاعت کو دیکھ لیں۔ اور ہمارا نقطہ نظر اور مقاصد جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔