عالیہ حیدر کے ساتھ انٹرویو 

نومبر ۲۰۲۴

چُنگی امرسِدھو کی گلیوں میں محنت کش عورتوں کے ساتھ تنظیم سازی سے حاصل ہونے والے اسباق۔

عالیہ حیدر ’’ایچ کے پی‘‘ کی نائب صدراور صحت اور خواتین کی سیکرٹری ہیں۔ ایچ کے پی پاکستان کی ایک ابھرتی ہوئی بائیں بازو کی سیاسی تنظیم ہے جس نے پہلی بار عام انتخابات ۲۰۲۴ میں حصہ لیا اور چونگی امر سدھو کے علاقے میں ںتنظیمی سرگرمیاں کا بھرپور کام کیا۔ اس مکالمے میں عالیہ حیدر اپنے سیاسی سفر کے ساتھ ساتھ ایچ کے پی کے تجربے کو بھی اجاگر کرتی ہیں اور پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کی بات کرتی ہیں۔


آپکے سیاسی سفر کا آغاز کیسے ہوا اور آپ کن شخصیات اور واقعات سے متاثر ہوئیں؟

میں ایک  پولیٹیکل بیک گڑاؤنڈ سے تعلق رکھتی ہوں۔ میرے والد پوری زندگی سوشلسٹ فیمینسٹ اور مارکسست رہے تو بچپن سے ہی سیاست ہماری زندگی کا حصہ بن گئی۔ اس میں کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں تھی لیکن کیونکہ میں نے ایک ایسے ماحول میں ہوش سمبھالی جہاں سیاسی و سماجی مسائل پر آپس میں بات چیت ہوتی تھی – کیوبا کا انقلاب، فیدیل کاسٹرو، لینن جیسی شخصیات اور موضوعات پر- تو خود بخود، آٹومیٹکلی، میرا بھی رجحان اس طرف ہو گیا۔ اُس وقت تو یہ لگتا تھا کہ پتا نہیں ہم کس گھر میں پیدا ہو گئے ہیں، ہمارے پر ظلم ہو رہا ہے [ ہنستی ہیں ]۔ لیکن اس کا اثر یہ ہوا کہ زندگی میں جہاں بھی کوئی ظلم نظر آیا، چاہے وہ تفریقات ہوں، جن کا باعث چاہے پدرشاہی ہو، یا سرمایاداری، یا سامراج۔۔۔ اُس کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔

سو سیاسی معاملات اور سماجی ناانصافیوں کے بارے میں میں رائے اور سٹرونگ اپینین ضرور رکھتی تھی، مگر اپنے ایم-بی-بی-ایس کے دوران میں سیاسی طور پر زیادہ ایکٹو نہیں تھی۔ پھر اسی دور میں ہزارا جینوسائڈ، ہزارا نسل کشی کا مسئلہ اٹھا، بہت سارے سٹوڈنٹ بھی ساتھ جُڑے، ان میں بھی ابھار آیا۔  اُسی دوران میرا باقاعدہ تعارُف عمار جان سے بھی ہوا، عصمت شاہ جہاں سے بھی۔ میں نے کچھ عرصہ ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ میں بھی کام کیا۔ ویسے تو میں اپنی بہن جلیلا حیدر کی وجہ سے بھی ان شخصیات اور تنظیموں سے واقف تھی، مگر اس دوران میرا تعلق گہرا ہو گیا اور عمار جان کے کہنے پر میں نے بحیثیت ڈاکٹر پروگیسو سیاست کے ساتھ جُڑنا شروع کر دیا۔ سو اس طرح کئی مختلف گروپوں کے ساتھ کام کر کے، رابطہ رکھتے ہوئے میرا سیاسی سفر شروع ہوا۔ مجھے لگتا ہے جیسے یہ جوڑ خود بخود، قدرتی طور پر جُڑتا گیا۔


آپکا  حقوق خلق پارٹی میں کیاعہدہ ہے اور یہ تعلق کب سے شروع ہوا؟  

میں ۲۰۱۸ سے حقوق خلق موومنٹ  کا حصہ ہوں۔ پِھر پارٹی بنانے کا فیصلہ سب نے مل کر ہی لیا۔ .ہم ایچ کے پی میں درجہ بندی یعنی ہائرارکی پر یقین نہیں رکھتے. کہنے کو تو عہدے ہیں، جیسے کے عمار جان جینرل سیکرٹری ہے، فاروق صاحب پریذیڈنٹ ہیں۔ مگر دراصل، پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں ہائرارکی نہیں ہے، لیڈر اور ورکر برابر ہیں۔ فی الحال، ایچ کے پی کی ایگزیکٹو کمیٹی میں سات ممبران ہیں، جن میں سے ایک ممبر میں  بھی ہوں۔ ایگزیکٹو کمیٹی میں سب برابر ہیں۔ اس کے علاوہ میں پارٹی کی ہیلتھ سیکرٹری بھی ہوں، ویمن سیکرٹری بھی، وائس پریذیڈنٹ بھی۔ سو سبھ رولز آپس میں ملے جلے ہیں۔ 


 کیا ایچ کے پی بایئیں بازوُ کی بین الاقوامی تنظیموں اور تحریکوں کے ساتھ کوئی تعلق رکھتی ہے؟

جی ہاں، ایچ کے پی پارٹی باقاعدہ فارمل طور پر پروگیسو انٹرنیشنل کا حصہ ہے۔ پروگیسو انٹرنیشنل سے کامریڈ پاویل ہماری بلدیاتی انتخابات کی کیمپین میں حصہ لینے اور اُس کے بارے میں لکھنے کے لئے پاکستان بھی آئے۔ اس کے علاوہ ایچ کے پی نے اور انقلابی جماعتوں اور ممالک سے بھی رشتہ جوڑا ہے جیسے کہ کیوبا۔ پاکستان میں موجود کیوبا کے امبیسڈر سے ہم نے تعلق بنایا، اور وہ ہماری بلدیاتی کمپین کے دوران چنگی میں بھی آئے۔ الیکشن اور ہماری تنظیم سازی میں بہت دلچسپی بھی لی۔ ایچ کے پی کا نیپال کی کچھ بایئیں بازوُ کی جماعتوں کے ساتھ بھی رابطہ ہے۔ تین سال پہلے جب میں خود نیپال گئی تو کے پی شرما اولی، جو اس وقت نپال کے وزیر عالٰی ہیں، اُن کی مارکسسٹ لینننسٹ جماعت کے لوگوں سے بھی مل کر آئی۔ میں ان کی جماعت کی ویمنز کانفرنس میں ایچ کے پی کی نمائندگی کے لئے گئی تھی جو ہر دس سال بعد ہوتی ہے۔ ہمارا بنگلادیش اور انڈیا کی کمیونسٹ جماعتوں کے ساتھ بھی تعلق ہے، خاص طور پر انڈیا کے کارناٹکا کے علاقے میں جو کام کر رہے ہیں۔


اور خاص طور پر آپ کی سیاسی تنظیم پر اس کا کیا اثر ہے؟ پدرشاہی کا خواتین کی سیاسی سرگرمیوں پر کتنا گہرا اثر ہے؟

میں سمجھتی ہوں کہ سپیس لینا خواتین کے لئے واقعی مشکل ہے۔ چاہے وہ دفتر ہے، سکول، یا کالج۔ ہمیشہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورتوں میں فیصلے کرنے کی صلاحیت کمزور ہے۔ پھر جب عورتیں ایک ایسے ماحول میں سیاست میں آگے آتی ہیں، ایکٹو ہوتی ہیں، تو اگر وہ آگے بڑھ کر اپنی بات نہ رکھیں تو یہ مسئلہ پیش آتا ہے۔ میں بھی ایک عورت ہوں اور میرے لئے بھی  مسئلے رہے ہیں، مگر شکر ہے میرے کامریڈز بہت اچھے ہیں، سوشلسٹ فیمنزم پر یقین رکھتے ہیں، اور اس لئے پارٹی میں سپیس نہ ملنے کا مسئلہ مجھے کبھی پیش نہیں آیا۔ ایچ کے پی میں جو جتنا کام کرتا ہے اُس کو اتنا ہی کریڈت ملتا ہے، اور اس میں کوئی جنسی تفریق نہیں کی جاتی۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی عورت ہے تو اس کی بات نہیں سنی جاےٴ گی: میری پارٹی میں میرا درجہ، میری سٹینڈنگ عمار جان سے کم نہیں۔ چنگی میں جب ہم بلدیاتی انتخابات کی کمپین چلا رہے تھے تو لوگوں کی نظروں میں میں اور عمار برابر تھے۔ ایسا ہوتا ہے جب آپ کے دوست اور ساتھی، آپ کے کامریڈ، آپ کا ساتھ دیں۔ سولیڈیرٹی کی سیاست اس معاملے میں بہت ضروری ہے۔


ایچ کے ایم کو ایچ کے پی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیوں لیا گیا اور انتخابات میں حصہ لینے کی کیا وجوہات تھیں؟

ہمارا زیادہ تر کام ہربنسپرا کے علاقے میں تھا، ہربنسپرا کی اُن بستیوں میں جہاں بیشتر مزدور اور محنتکش رہتے ہیں۔ چنگی امر سدھو بھی لاہور کا ایک ایسا ہی علاقہ ہے، اور اس علاقے کے بہت سارے مسائل ہیں: پینے کے پانی سے لے کرنالے کا مسئلہ، بجلی کا، بجلی کی تاروں کا مسئلہ، گھروں میں عورتوں پر تشدد، مزدوروں کی اجرت کا مسئلہ۔۔۔ ہمیں لگا کہ ان سب مسائل کو حل کرنے کی کوشش تو ہم کر رہے تھے، مگر یہ تب تک حل نہیں ہو سکتے جب تک ہم اس علاقے کے سیاسی نظام کا حصہ نہیں بنتے۔ تو ایچ کے پی کے لئے یہ اہم تھا کہ سیاسی نظام کو بدلنے کے لئے ہمیں اُس سسٹم کا حصہ بننا ہو گا۔ اس کی سب سے اعلیٰ مثال ہیں علی وزیر اور محسن داوڑ۔ محسن نے فاٹا کے لوگوں کے بہت سارے مسائل کو پاکستان کی عوام کی نظرمیں لا کر حل کرنے کی کوشش کی۔ تو اسی طرح ہم نے یہ سوچا کہ ہم نے اس سیاسی سسٹم میں آنا ہی ہے، آنا ہمارے لئے اب بہت ضروری ہو چکا ہے، کیونکہ جب تک ہم فیصلے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہوں گے، ہمارے پاس اختیار نہیں ہو گا، تب تک ہم حالات میں وہ بدلاوٴ نہیں لا سکیں گے جس کی ہم خواہش رکھتے ہیں۔ اور فی الحال پاکستان میں تیزی سے انقلاب لانا تو ممکن بھی نہیں ہے، نہیں لا سکتے ہم۔۔۔ تو ایک چھوٹی سطح پر شروع کر کے ہی ہم پورے سسٹم کی مکمل تبدیلی کی طرف جا سکتے ہیں۔ تو اس لئے لوگوں کے روز مرہ کے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں ان کے ساتھ جُڑنا بہت ضروری تھا۔


 انتخابات کے لیئے ایچ کے پی نے کیا اقدامات لیےاور کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

چُنگی امر سدھو تو ہم پچھلے چھ سال سے جا رہے تھے، اور عمار جان تو دس سے بارہ سالوں سے۔ میں تقریباً ۲۰۱۸ سے چنگی میں کام کر رہی ہوں۔ دو سال میں مسلسل، روز، جاتی رہی ہوں، صبح ۸ بجے سے رات ۱۲ بجے تک وہیں رہتی تھی۔ مگر ہمارا سیاسی سٹرکچر یہی تھا کہ ہم نے وہیں کے لوگوں کو ایکٹو کرنا ہے۔ پارٹی نے مختلف کورڈینیٹر چُنے جن کو علاقے کے لوگوں کو جوڑنے کا کام سونپا گیا۔ ہم نے علاقے میں ہر چوک کے حساب سے دفتر بنائے، پورے چنگی میں مختلف دفتر بنائے۔ جیسے یو سی ۲۳۱ کے علاقے کی کورڈینیشن میں کر رہی تھی، میں اس پورے علاقے کو اچھی طرح سے جانتی ہوں۔ پھر ہم نے ویمن لیڈرز کا انتخاب کیا، اور یوتھ لیڈرز کا بھی۔ ہر علاقے کے حساب سے کونسل بنائی، جس کے تحت الیکشن والے دن شناختی کارڈ گننے کی ذمہ داری بانٹی گئی۔ تو یہ تھا پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ: سب سے پہلے کورڈینیٹر، پھر اس کے نیچے اس کی ٹیم۔ اس ڈھانچے کے پیچھے بہت گہری پلاننگ تھی، کیونکہ ہم ۲۰۲۲ سے ہی الیکشن کی تیاری شروع لر چکے تھے۔ وہ تو حکومت کی طرف سے بار بار انتخابات کی تاریخ آگے کر دی جاتی تھی، اور ایسے کرتے کرتے تقریباً ۳ سال الیکشن کی تیاری میں ہی گزر گئے۔ ہمیں بہت سارا وقت مل گیا۔ بلکہ مجھے آپ کو بتانے میں ہنسی بھی آ رہی ہے: دراصل میں نے الیکشن کے فوراً بعد شادی کرنی تھی، مگر کیونکہ میں الیکشن میں اتنی مصروف تھی کہ شادی کا فنکشن بھی آگے سے آگے ہوتا گیا! آخر کار پھر فروری ۲۰۲۴ کے الیکشن کے ایک ہفتے بعد ہی میری رخصتی ہوئی۔ جب میرا نکاہ ہونا تھا اس سے پہلے بھی میں سیلاب زدگان کے لئے میڈیکل کیمپ لگانے چارسدہ اور بلوچستان گئی ہوئی تھی، سب نے کہا یہ کیسی دلہن ہے! میں نے کہا کوئی بات نہیں۔ الیکشن میری زندگی ہی بن چکا تھا۔ میں پورا دن چنگی میں گھومتی تھی، اور میرے ساتھ نسیم باجی، عالیہ، ازرا آنٹی، اور ایک نرس رابیا، ساتھ ساتھ ہوتی تھیں۔ ہم خلق کلینک بھی چلا رہے تھے، اور علاقے میں پورے جوش کے ساتھ سیاسی کام میں مصروف تھے۔ خلق کلینک بھی ہم نے الیکشن کمپین کے دوران ہی شروع کیا۔


 انتخابات کے نتایج جان کر ایچ کے پی کا کیا ردعمل تھا؟  

ہمارے دل ٹُوٹ گئے۔ پر ہم اس کے لئے زہنی طور پر تیار تھے کیونکہ جس طرح اُس وقت مُلکی سطح پر سیاست چل رہی تھی، پی ٹی آئی کی وجہ سے، انہوں نے نُون لیگ کو ہی جتوانا تھا۔ ہمارے حساب سے ہماری پولنگ اسٹیشنوں میں ۱۵۰۰۰ سے زیادہ پرچیاں کٹی تھیں۔ جیسے آپ بتا رہی ہیں، ۲۵۰ تو آپ نے خود بھی کاٹیں۔ اُس دن تو ہمیں ۱۰۰ فیصد یہ لگ رہا تھا کہ ہم انتخاب جیت جائیں گے۔ اُس وقت چنگی میں کوئی گھر، کوئی ایسی گلی نہیں تھی جہاں ہم نہ گئے ہوں۔ ہماری ڈور ٹُو ڈور کمپین میں یہ ہوتا تھا کہ ایک چنگچی میں ہمارے سپیکر ہوتے تھے، اُس علاقے کے لوگوں کی ریلی نکلتی تھی، عمار پیدل گھنٹوں گھنٹوں چلتے تھے، میں چنگچی کے اُوپر کھڑے ہو کر نعرے لگا رہی ہوتی تھی، گلیوں میں پارٹی کا منشور پڑھتی تھی، پمفلٹ بانٹے جاتے تھے، عمار لوگوں سے ملتے تھے۔ ایک گھر نہیں تھا، ایک گلی نہیں تھی جہاں کوئی کُوچہ نہیں تھا جہاں ہم پہنچے نہ ہوں۔ اور جہاں جاتے تھے لوگ ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ لیکن آپ کو پتا ہے کہ کیسے بڑے بڑے لیڈروں کے ساتھ زیادتی ہوئی۔۔۔اونچی سطح پر یہ باتیں طے ہوتی ہیں۔۔۔ جہاں پی ٹی آئی تک کے ووٹ دبائے گئے تو وہاں ہم تو ابھی ایک چھوٹی سی نئی پارٹی ہیں۔ لوگوں کو بڑا ڈر تھا ہم سے۔ جب بھی ہم علاقے میں بات کرتے تھے لگتا تھا صرف حقوق خلق پارٹی اور نُون لیگ کا الیکشن میں مقابلہ چل رہا ہے، بس۔ چنگی میں ہر طرف صرف لال جھنڈے ہی دکھائی دیتے تھے۔ انتخابات کا نتیجہ بہت حوصلہ شکن تھا، مگر ہم زہنی طور پر تیا تھے کہ نتیجہ کچھ بھی آ سکتا ہے۔ 

ہم نے امید نہ چھوڑی پر اپنی سٹریٹجی ضرور بدلی۔ اب ہم مزدوروں میں زیادہ فوکس کر کے کام کر رہے ہیں۔ ہم علاقوں میں بھی لوگوں کو اُسی طرح موبلائز کر رہے ہیں جس طرح پہلے کر رہے تھے۔ دفترچلانے کا کام کم کر کے ہم نے پولیٹیکل ایجوکیشن اور سٹڈی سرکل پر زیادہ توجہ دینی شروع کر دی ہے، تاکہ نظریاتی طور پر لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ سکیں۔


کیا ایچ کے پی کو اِس انتخابی عمل نے تبدیل کیا ہے؟

مجھے لگتا ہے کہ اس الیکشن نے ایچ کے پی کو طاقت دی ہے۔ اس الیکشن نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہم نے اپنی کپیسٹی سے کہیں بڑی تحریک چلائی ہے، اور ہم اس سے بھی زیادہ کچھ کر سکتے ہیں۔ ہمارا لیبر میں، مزدوروں میں، اس وقت بہت زبردست کام چل رہا ہے۔ ہم قائداعظم انڈسٹریل اسٹیت میں لیبر یونین کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چاولا انڈسٹریز کے مالکان ہمارے مزدوروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے۔ ہم نے بہت سارے مزدوروں کو ای او بی آئی سوشل سکیورٹی سے مُنسلک فنڈ جو اُن کے حصے کا بنتا تھا وہ سارا دلوا کر دیا۔ تو مجھے لگتا ہے کہ ہم مایوس نہیں ہوئے ہیں۔

خلق یوتھ فرنٹ بھی بہت اچھا کام کر رہا ہے۔ خلق یوتھ فرنٹ کا کام پروگریسو سٹوڈنٹ کلیکٹو کے تجربے سے بہت مختلف ثابت ہوا ہے، کیونکہ پہلے علاقے میں بسنے والے نوجوانوں کا یونیورسٹی کالج سے کوئی جوڑ نہیں تھا۔ خلق یوتھ فرنٹ نے یہ جوڑ بنایا ہے۔ چنگی کے نوجوان یونیورسٹی کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر احتجاج کرتے ہیں، کام کرتے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں ایک باکمال چیز ہے۔ ان دوریوں کو نزدیکیوں میں بدل کر سولیڈیرٹی کی سیاست کو آگے لے کر آنا ہے۔ یہی ہم چاہتے تھے اور یہی ہم نے کیا ہے۔ چنگی کی لڑکیوں کو لمز کے طالب علموں کے ساتھ جوڑا ہے، لمز جیسے ایلیٹ انسٹیٹیوٹ کے بچوں کومحنتکش طبقے کی، اُن کی عورتوں کی سیاست کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ میرے خیال سے یہ اپنے آپ میں ایک خوبصورت چیز ہے۔ ہار جیت تو سیاست کا حصہ ہے۔ حکومت کے اگلے بلدیاتی انتخابات میں ہم حصہ لینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔  


آپ ایچ کے پی کا مستقبل کیسا دیکھتی ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایچ کے پی انقلاب لاسکتی ہے؟ 

 دیکھیں کسی بھی سیاسی پارٹی کو بڑا بنانے میں وقت لگتا ہے۔ اُس کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز ہے تسلسل اور پائیداری۔ ہمارے ہاں بایئیں بازو کی سیاست کا مسئلہ ہی تسلسل کو قائم رکھنے کا رہا ہے۔ الیکشن ہوتے ہیں، پارٹی دفتر بنتے ہیں، لوگ جاتے ہیں، پھر اس کے بعد سب ختم۔ کام جاری نہیں رہتا۔ دوبارہ سے سرے سے لوگوں کو جوڑنا پڑتا ہے۔ مجھے لگتا ہے ایچ کے پی کی یہی کامیابی ہے: لوگ ابھی بھی ہمارے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں، کام جاری ہے، ابھی بھی الیکشن کے بعد ہم ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اگر ہم چلتے رہے، اور لوگ جڑتے رہے، تو پارٹی کو بھی بڑا کر سکیں گے، اور انشاء اللہ انقلاب بھی آ جاےٴ گا۔ یہ شائد ستم ظریفی کی بات ہے کہ میں “انشاء اللہ” انقلاب کہ رہی ہوں [ہنستی ہیں]۔ یہ تبدیلی بھی چنگی جانے کی وجہ سے آئی ہے۔ ساری تنقید ایک طرف، ایچ کے پی کی الیکشن کمپین پاکستان کے موجودہ بایئیں بازو کی سیاست میں ایک انوکھی مثال بنی۔ ہمارے لیئے یہ بہت بڑی بات ہے۔ بہت سے لوگ ہمارے ساتھ جُڑنا چاہ رہے ہیں، ہمارے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ اور مل کر، جُڑ کر، کام کرنا ہی سب سے بڑی بات ہے۔ انقلاب ابھی دور ہے، پر ایسے ہی ہم اس کا راستہ بنا سکتے ہیں۔ 

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .