۔’’عرب عورتوں کے لیے ہر رکاوٹ کو دور کرنے کا ایک ہی راستہ ہے: گفتگو کریں۔ بغیر رُکے، مسلسل بات کریں،کل اور آج کے بارے میں،آپس میں بات کریں، عورتوں کے ہر حلقے میں،روایتی اور گھریلو حلقوں میں بھی، آپس میں بات کریں اور دیکھیں، دیواروں اور زندانوں سے باہر جھانکیں!‘‘۔
اس شمارے کے ایک مضمون میں امل زمان نے الجزائر کی فیمنسٹ آسیہ جبار کی کتاب ’’ویمن آف الجیئرز‘‘کا حوالہ دیا ہے یہ واضح کرنے کے لئے کہ فیمنسٹ مزاحمت کس طرح وہ حدیں عبور کرتی ہے جو عورتوں کے لیے ’’مناسب‘‘ قرار دی گئی ہیں۔ ناریواد کا موجودہ شمارہ بھی اسی جذبے کو ُدہراتا ہے: پاکستان بھر میں سوشلسٹ فیمنسٹوں کے درمیان گفتگو کو فروغ دینا اور ایک آزاد مستقبل کے لیے ’’باہر دیکھنا‘‘۔ ہم ایسے وقت میں جی رہے ہیں جب سرمایہ داری، سامراج، اور پدرشاہی کی گرفت گہری ہوتی جا رہی ہے۔
یہ اداریہ ایک ایسے وقت میں لکھا جا رہا ہے جب پاکستانی ریاست بلوچ تحریک پر شدید کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔ یہ تحریک قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی چلی آ رہی ہے، اور حالیہ برسوں میں بلوچ عورتیں اس تحریک کا انقلابی ہراول دستہ بن کر اُبھری ہیں۔ کوئٹہ سے کراچی تک گرفتاریاں، پولیس کی بربریت، احتساب، اور جبری گمشدگیاں معمول بن چکی ہیں۔ جہاں بلوچ اپنی سرزمین پر خود مختاری کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں، وہیں سندھ میں گرین پاکستان انیشی ایٹو کے نام پر ماحولیاتی بگاڑ پیدا کرنے والے نہری منصوبے کے خلاف عوامی مزاحمت ابھرتی جا رہی ہے۔
کُرم میں ملکیت ِ اراضی کے تنارعات پراکسی سیاسی و جغرافیائی تصادم سے جڑ گئے ہیں جس نے شیعہ سنی تشدد کے لا متناہی سلسلے کوجنم دیا ہے اور پھرسامراجی طاقتوں کی گریٹ گی کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے ،ہرروز مزید افغانوں کو پاکستان بدر کرکے سرحد پار بھیجا جارہا ہے ۔ اس نازک دور میں آسیہ جبار کا مشورہ کہ آپس میں بات کریں اور باہر دیکھیں، سوشلسٹ فیمینسٹ تجزیے کے لئے اور بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
پاکستانی ریاست سرمایہ دارانہ ترقی، عسکریت، پدرشاہی اور مذہبی نظریات کی بنیاد پر علاقائی اور سیاسی اتحاد کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہم اس جابرانہ سوچ کو مُسترد کرے نہیں اور اپنے انقلابی یکجہتی کے نظریے پر اصرار کرتے ہیں ۔ یہ نظریہ ’’سانجھی جدوجہد اور سانجھی آزادی‘‘ پر مبنی ہے۔ ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کے منشور میں لکھا گیا ہے کہ ’’جب تک سیاسی تنظیمیں شعوری طور پر مظلوم گروہوں کے ساتھ باہمی یکجہتی قائم کرنے پر زور نہیں دیتیں۔۔۔ تب تک ہماری آزادی ممکن نہیں: یا تو ہم سب مل کر آزاد ہوں گے، یا کوئی آزاد نہیں ہوگا!‘‘ اسی جذبے کے تحت اور ان مادی حالات کے پیشِ نظر جو خطے بھر میں ترقی پسند قوتوں کی اتحادی سیاست کا تقاضہ کرتے ہیں، اس شمارے میں جدوجہد کے مختلف مراکز سے فیمنسٹ آوازوں کو یکجا کیا گیا ہے جو شہروں سے لے کر دیہات تک اور محنت کشوں کی بستیوں سے لے کر نوآبادیاتی خطوں تک کا احاطہ کرتی ہیں۔
سمجھنے کی ضرورت ہے کے ’’سانجھی جدوجہد‘‘ اور ’’سانجھی آزادی‘‘ کا آج کے سوشلسٹ فیمینزم کے لیے کیا مطلب ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ ’’سانجھی جدوجہد‘‘ کوئی افسانوی تصوُر نہیں ہے۔یہ ایک مسلسل عمل ہے جو اس مفروضے کو نہیں مانتا کہ اجتماعی یکجہتی پہلے سے موجود ہے بلکہ اسے پیدا کرتا ہے۔ ’’سانجھی جدوجہد‘‘ ہم سے مدبرانہ اور ہمہ جہت سیاست کا تقاضہ کرتی ہے جو سرمایہداری کی ناہموار ترقی کو عیاں کر سکے اور ایک واضح سرمایہداری مخالف موقف پیش کرے۔
ناریواد کے ۲۰۲۵ کے شمارے میں شامل نو مضامین اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح عورتیں، خواجہ سرا، اور صنفی طور پر غیر روایتی لوگ چار دیواری کے اندر اور باہر پدرشاہی نظام کے تقاضوں، سامراجیت کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ اور کس طرح سرمایہ داری اور سامراجیت کی طاقتیں ان کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ مضامین آج کے دور کی فیمنزم سے جڑے اہم موضوعات پر روشنی ڈالتے ہیں ، جن میں شناخت کا سوال،مرکزی دھارے کے اندر حمایت حاصل کرنا اور متبادل اکٹھ قائم کرنا، لبرل فیمنزم نظریات کا متبادل پیش کرنا، اور مرکز سے دور فیمنسٹ تحریکوں کوسمجھنا۔ خاص بات یہ ہے کہ ہر ایک مضمون اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پدرشاہانہ نظام کے مسئلے کو سرمایہ داری اور سامراج سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح، ناریواد کا پانچواں شمارہ پاکستان میں فیمینزم کے بارے میں وسیع تر تفہیم کی فوری ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو انفرادی حقوق اور آزاد ی کے تصورات سے بالاتر ہو کر ایک ایسی فیمنزم کی طرف بڑھتا ہے جو گھر، ریاست اور سرمائے سے جُڑے پدرشاہانہ نظام پر تنقید کرتی ہے اور سب کے لیے ایک ترقی پسند مستقبل کی تعمیر پر اصرار کرتی ہے۔ اس شمارے کے ذریعے، ہم پاکستان میں سوشلسٹ فیمینزم کے لیے نئے معیارات کا تعین کر رہے ہیں۔
اس شمارے میں متعدد فیمنسٹ تحریکوں کو مکالمے میں شریک کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔ ہم نے ایسے مضامین کی تلاش کی جن میں فیمینزم کی مزاحمت کا واضح بیان، ان کے فوری سیاق و سباق سے ہٹ کر پدر شاہی کے نظریات، اور ترقی پسند مستقبل کی تعمیر کے لیے حکمت عملی شامل تھی۔ ان تحریکوں کے بیانات کو اکٹھا کرنے کے پیچھے ہمارا مقصد نہ صرف حالیہ پاکستان میں سوشلسٹ فیمینزم کی مختلف کاوشوں کا اعتراف اور چرچہ کرنا ہے بلکہ اتحاد سازی کے اہم کام کو آگے بڑھانا تھا۔ موجودہ دور کے پاکستان میں سیاسی، معاشی اور سماجی جبر کی روشنی میں، مختلف تحریکوں میں مخلصانہ اتحاد بنانا بہت ضروری ہے۔ عورتیں اور صنفی غیر روایتی لوگ، خاص طور پر وہ لوگ جو محنت کش طبقہ کا حصہ ہیں یا مظلوم قوموں اور مذاہب کی نمائندگی کرتے ہیں، تاریخی طور پر ریاستی جابرانہ پالیسیوں کا خمیازہ بُھگت رہے ہیں۔ پاکستان کی سامراجی معیشت ان کی مزدوری پر انحصار کرتی ہے۔ کم اجرت والی غیر رسمی مزدوری اور بلا معاوضہ دیکھ بھال کرنے والے بھی اس میں شامل ہیں۔ تاکہ تمام محاذوں پرفیمنسٹ مزاحمت کے سامنے یہ تصور واضح ہو کہ ترقی پسند مستقبل کی تعمیر کیسے ہو گی۔
اس شمارے میں دُر بی بی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ترقی پسند مستقبل بلوچ عورتوں کے بغیر تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ان مختلف حکمت عملیوں کا ذکر کرتی ہیں جو کئ برسوں سے اپنائ گئیں۔ ۲۰۱۴ میں جلاوطن بلوچ سٹوڈنٹ رہنما کریمہ بلوچ کے قتل کی وجہ سے بلوچ تحریک کے کردار میں تبدیلی آئی ، اور تحریک کے اگلے مورچے عورتوں نے سمبھال لےٴ اور اس کے نتیجے میں وہ سیاسی تشدد کا شکار ہوئیں۔ چاہے وہ ڈاکٹر ماہ رنگ ہوں، سمی دین ہوں یا بیبو بلوچ، تحریک میں سب سے آگے بلوچ خواتین کی موجودگی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہیں ریاستی حراست کی شکل میں اغوا کاری، قید یا انسانی حقوق سے محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ،طیبہ جیوانی کی نظم ’’بات کیا‘‘ ایک ایسی کہانی بیان کرتی ہے جو نوآبادیاتی اور مرکذ کے درمیان جاری نابرابری کے تعلق کو چیلنج کرتا ہے۔ نظم میں طنزیہ انداز میں بار بار دہرایا جانے والا مصرع ’’بات کیا؟‘‘ صرف ایک سادہ سوال نہیں، اور آخر میں، طیبہ جیوانی استعاروں کے ذریعے بلوچستان میں بالادستی کے بیانیے اور ناانصافی کے حقائق کے درمیان فرق کو بےنقاب کرتی ہیں۔
امل زمان ’’بغیر روکے‘‘ میں ہمیں فیمنسٹ مزاحمت کی داستانوں کی تلاش میں لے جاتی ہیں جس کا مقصد انگریزی زبان اور یورپ پر مرکوز ادبی روایات سے آگے بڑھ کر قارئین کو ان فیمنسٹ لکھاریوں سے متعارف کرانا ہے جن کی تحریریں دورِ غلامی کے مادی حالات، نوآبادیاتی نظام اور مزدور جدوجہد کے موضوعات پر ہیں۔ وہ قارئین کو ایسی فیمنسٹ مصنفات سے متعارف کرواتی ہیں جن کی سرمایہ داری پر تنقید غلامی، نوآبادیات، اور نسل کشی جیسے حقیقی حالات سے جنم لیتی ہے ۔ امل زمان ترجمہ کیے گئے ادب کے ذریعے سوشلسٹ فیمنسٹ سیاسی تعلیم کے لیے نئے مواقع پیش کرتی ہے جو افریقی، ایشیائی اور تیسری دنیا کے تعلقات کو نمایاں کرتا ہے۔ امل اس بات پر زور دیتی ہیں کہ کسی ادبی تحریر کے سوشلسٹ فیمنسٹ ہونے کے لےٴ ضروری ہے کہ وہ پدر شاہی اور سامراجیت کو ایک ہی سکے کے دو رخ مانے اورپاکستان میں علاقائی زبانوں اور ثقافتوں میں موجود ان فیمینسٹ نظریات کو تلاش کرے جو اشرافیہ کی بالادستی والے اردو انگریزی نظامِ تعلیم میں گم کردیے گئے ہیں۔ وہ الجزائر کی انقلابی آسیہ جبار اور گواڈیلوپین مصنف مریس کونڈے کے فیمنسٹ ناولوں پر تبصرہ کرتی ہیں، ایسی کتابیں جو سلطنت اور غلامی کے تحت صنفی زندگی کو بیان کرتی ہیں۔ آخر میں وہ فیمینسٹ تحریروں کی ایک فہرست تجویز کرتی ہیں جو گلوبل سائوتھ کے فیمینسٹ ادب پر سڈی سرکل کے لئے بہترین نصاب ہو سکتی ہیں ۔
اجتماعی اکٹھ کی تشکیل بھی فیمینسٹ مزاحمت کی ایک اہم شکل ہے، جو اس شمارے میں مختلف انداز سے نظر آتی ہے — چاہے وہ طبقاتی فرق کے باوجود عورتوں کے درمیان یکجہتی کو مضبوط بنانے کی صورت میں ہو، جیسا کہ عالیہ حیدر کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے، یا بلوچ خواتین کا چار دیواری سے نکل کر سیاسی جدوجہد میں شامل ہونا ہو۔ فہمیدہ ریاض کا رسالہ’’آواز‘‘، جو ضیاء الحق کی آمریت اور سرمایہ دارانہ طبقے کے ظلم کے خلاف طلبہ اور مزدوروں پر ہونے والے جبر کے خلاف اُٹھا ، نے فیمینسٹ مزاحمت کو سیاسی جبر کے خلاف ایک مضبوط دیوار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کراچی سے اسی کی دہائی میں آمریت مخالف میگزین ’’آواز‘‘ کے لیے فہمیدہ ریاض کے تحریر کردہ اداریے پاکستان میں سوشلسٹ فیمنسٹ کے لیے کام کرنے والوں کے لیے ایک تاریخی مثال قائم کرگئے۔کیونکہ ان کے ذریعے سرمایہ داری، پدرشاہی نظام اور سامراج کے ساتھ مل کر مزاحمت کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔
عورت مارچ لاہور کے مضمون میں بھی فیمینسٹ سوچ کو وسعت دینے کی بات ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مزاحمتی تحریکوں کو قوت ملتی ہے۔ ایک مشترکہ طور پر لکھی گئی تحریر میں، عورت مارچ لاہور یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اگر ہم سرمایہ دارانہ پیمانوں کو استعمال نہ کریں، تو ایک تحریک کی کامیابی کو کیسے ناپا جا سکتا ہے؟ یہ تحریر اس بات پر بھی سوال اٹھاتی ہے کہ کیا صرف پبلک کی نظروں میں آنا ہی سیاسی اثر ڈالنے کی علامت ہے؟ اس کے علاوہ اس تحریک میں ناکامی کو تحریک سازی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس تحریر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ سیاسی اکٹھ میں ہم آہنگی اور یکجہتی بہت ضروری حصے ہیں۔ بالآخرعورت مارچ لاہور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ایک ترقی پسند فیمنسٹ مستقبل کی بنیاد تبھی رکھی جا سکتی ہے جب ہم اپنے سانجھے فیمنسٹ ڈھانچوں کو مضبوط کریں۔
جریدہ ’’آواز‘‘ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہمارا یہ شمارہ بھی اُن فیمنسٹ کاوشوں کو مرکزی اہمیت دیتا ہے جو پدرشاہی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے سرمایہ داری اور سامراج کی مزاحمت بھی کرتی ہیں۔ عالیہ حیدر کا تجربہ، جنہوں نے چونگی امر سدھو کی سڑکوں پر کام کرنے والی عورتوں کے ساتھ صاف پانی، صحت کی سہولیات اور مناسب اجرت کے لیے جدوجہد کی، ہمارے لیے یہ سوچنے کا ایک گہرا موقع دیتا ہے کہ سوشلسٹ فیمنسٹ اور محنت کش طبقے کی انقلابی جدوجہد آج کے پاکستان میں کیسے جُڑتی ہیں۔ انتخابات میں ناکام ہونے کے باوجود، عالیہ مستقبل کے بارے میں پُرامید ہیں، کیونکہ انتخابی مہم کے دوران جو سیاسی سرگرمیاں ہوئیں، اُنہوں نے ایچ کے پی کے ہمدردوں میں انقلابی سوچ پیدا کی اور پارٹی کی مزدوروں اور طلبہ میں تنظیم سازی کے امکانات کو بڑھایا۔
ریاست کا ایک سوشلسٹ فیمینسٹ تجزیہ کرتے ہوئے سے ریاست کے استحصالی تعلق کی کئی مثالیں پیش کرتی ہیں۔ خیرپور سندھ میں بابرلوئی بائی پاس پر نہر کے احتجاج سے سوشلسٹ فیمنزم کی جدوجہد کے اپنے ذاتی تجربات کی عکاسی کرتے ہوئے، ڈیرو کا مضمون بتاتا ہے کہ کس طرح پنجاب میں ’’گرین پاکستان انیشی ایٹو‘‘ جیسے منصوبے کمزور طبقات کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ نوآبادیاتی ترقیاتی منصوبے ریاستی سرمایہ داری اور پدرشاہی نظام کے سنگم کی پیداوار ہیں،جو مقامی آبادیوں کو ان کے اپنے علاقے سے الگ کر رہے ہیں، ان کا معاشی طور پر استحصال کر رہے ہیں، اور ان کی زمین پر ان کی خودمختاری چھین رہے ہیں۔ عورتیں ان ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں، کیونکہ وہ زمین اور پانی سے ایک غیر سرمایہ دارانہ تعلق کو برقرار رکھنے پر زور دیتی ہیں۔ ان کی مزاحمت ایک مختلف سیاسی سوچ کو جنم دیتی ہے، جو زمین سے گہرے تعلق پر مبنی ہے۔
سوشلسٹ فیمنسٹ تحریکیں اُس عملی جدوجہد پر زور دیتی ہیں جو عورتوں اور صنفی غیر روایتی افراد کو موجودہ لمحے میں سیاسی شرکت کی اجازت دیتی ہے، تاکہ وہ ایک ترقی پسند مستقبل کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس شمارے میں شامل کئی تحریریں ان وسائل پر روشنی ڈالتی ہیں جو سوشلسٹ فیمنسٹ نظریے کے حامل افراد کو ترقی پسند مستقبل کی تعمیر کے لیے درکار ہوتے ہیں، جیسے اندرونی اجتماعی ڈھانچوں کو مضبوط کرنا اور ترقی پسند ادب تک رسائی حاصل کرنا۔ زارا کی غیر روایتی صنفی تجربات کے بارے میں تحریر ترقی پسند تحریکوں کے اندر سیاسی تعلیم کی کوششوں میں ایک اضافہ ہے ۔ یہ ایک ایسا تجزیہ ہے جوصنفی شناخت کے تجزیوں کو عورت، مرد اور خواجہ سرا کی درجہ بندیوں سے آگے لے جاتا ہے۔
سال ۲۰۱۸ میں تاریخی ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ حقوق) ایکٹ منظور کیا گیا ، جو پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کو قانونی حقوق فراہم کرتا ہے۔ اس ایکٹ پر منظم حملے کےٴ جا رہے ہیں۔ اس ایکٹ اور ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ اکثر ٹرانس جینڈر کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے، ’’خواجہ سرا‘‘ اور ’’انٹر سیکس‘‘ کو نسبتاً قابل قبول قرار دیتا ہے۔ کچھ قدامت پسند حلقے ’’انٹر سیکس‘‘ اور تاریخی و سماجی طور پر تسلیم شدہ خواجہ سرا گروہوں کو معمولی سطح پر تسلیم کرتے ہیں، مگر ٹرانس جینڈر کے تصور کو چیلنج کرتے ہیں، اور اسے مغربی طرز کے ’’ایل جی بی ٹی کیو‘‘ ڈھانچے کا حصہ سمجھتے ہیں، جس کا مقصد ان کے خیال میں پاکستان کے اخلاقی نظام کو بگاڑنا ہے۔ یہ شک وشبہ صنفی شناخت کے بارے میں ایک غلط فہمی پر مبنی ہیں، جس کے مطابق صنفی شناخت کے خانے پکے، واضح، اور آسانی سے پہچانے جا سکتے ہیں، اور اسی لیے انہیں قابو میں رکھنا ضروری ہے۔ اس کے برعکس، زارا کی تحریر اپنی ذاتی کہانی کو طبی اور سیاسی مباحث کے ساتھ جوڑتی ہے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ صنف کی پہچان، تجربہ، اور درجہ بندی کا معاملہ کتنا پیچیدہ اور نازک ہے۔
ان مختلف فیمنسٹ تحریکوں کی روشنی میں، ناریواد پاکستان کے تناظر میں سوشلسٹ فیمنزم کے تجزیہ کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔جب ہم بلوچستان، سندھ، اور پنجاب کی فیمنسٹ جدوجہد کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے مخصوص مادی اور سیاسی سیاق و سباق کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ اس وقت، سوشلسٹ فیمنسٹ یکجہتی محض نمائندگی کا عمل نہیں ہے — ہمیں سیاسی رشتوں کو قائم رکھنا چاہیئے اور سیاسی تعلیم کو مقامی حوالوں سے ہم آہنگ کرنا چاہئے۔ ہمیں پدر شاہی مخالف اور مزدور طبقے کی ان تحریکوں کی،جوبعد از نوآبادیاتی ریاست کے مرکز سے دور ابھر کر سامنے آئیں حمایت کرنی چاہئے اور قیادت کے حصول کی دوڑ کی بجائے ایک دوسرے سے سیکھنا چاہئے۔ یہی ہماری اجتماعی آزادی کا راستہ ہے جسے سرمایہ داری، ہمیں امید ہے کہ آگے چل کر ناریواد پاکستان میں سوشلسٹ فیمنزم کی اصطلاحات اور اندازِ فکر کی تشکیل میں مدد گار ہوگا۔
زینوبیا الیاس اس اداریے کی مترجم ہیں۔ وہ ایک پاکستانی لکھاری، مترجم اور فلم ساز ہیں۔ انہوں نے الیکٹرانک میڈیا میں پرائم ٹائم کرنٹ افیئرز شوز کی پروڈیوسر کے طور پر کام کیا ہے اور کئی دستاویزی فلمیں بھی بنائی ہیں۔