دُر بی بی اُن مختلف حکمتِ عملیوں کو اجاگر کرتی ہیں جو بلوچ خواتین نے گزشتہ برسوں کے دوران ریاست سے جوابدہی کا مطالبہ کرنے کے لیے اختیار کی ہیں۔
بلوچ عورت کی مزاحمت ایک گہرا اور پیچیدہ عمل ہے جس میں ان کی ذاتی زندگیوں کے تجربات، ثقافتی ورثے اور سماجی مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ عورتیں نہ صرف اپنے حقوق کے لیے لڑتی ہیں بلکہ اپنے معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی تشخص کو بھی قائم رکھتی ہیں۔ بلوچ عورتوں کی مزاحمت کی تاریخ میں ان کی جرات مندی، عزم اور خودمختاری کی کہانیاں ہیں جو انہیں صرف مقامی سطح پر نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک طاقتور آواز بناتی ہیں۔ ان کی مزاحمت کا ایک اہم پہلو ان کی قربانیاں ہیں جو انہوں نے اپنے خاندانوں اور قوم کے لیے دی ہیں، چاہے وہ جنگ کے میدان میں ہوں یا گھر کی چار دیواری میں۔ بلوچ عورتوں کی یہ جدوجہد ہمیں بتاتی ہے کہ مزاحمت اور تبدیلی کی اصل طاقت ان کی ذہنی پختگی، روایات سے جڑے رہنے اور جدید مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت میں ہے۔
بلوچ عورتوں کی مزاحمت کی کہانیاں اور شاعری بلوچ معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی مزاحمت کا ایک اہم حصہ رہی ہیں۔ یہ عورتیں اپنی نظموں، گانوں اور کہانیوں کے ذریعے اپنے درد، جدوجہد اور عزم کو بیان کرتی ہیں۔ ان کی شاعری میں نہ صرف قومی آزادی کی آرزو دکھائی دیتی ہے بلکہ یہ بلوچ روایات، ثقافت اور اقدار کو بھی محفوظ کرتی ہے۔ بلوچ عورتوں کی شاعری میں وہ قوت اور عزم موجود ہے جو ان کے مزاحمت کے عمل کو جلا بخشتی ہے۔ ان کی نظمیں اور رزمیہ اشعار نہ صرف ان کی ذاتی جدوجہد کا بیان کرتی ہیں بلکہ یہ ان کے سماجی، ثقافتی اور سیاسی محاذ پر لڑنے کی داستانیں بھی ہیں۔ کئی مشہور بلوچ شاعرات نے اس مزاحمت میں اپنا حصہ ڈالا ہے، جن میں بی بی سیمک جیسی عورتیں شامل ہیں۔ سیمک بلوچ کی شاعری میں انقلاب کی آرزو اور ظلم کے خلاف بغاوت کا بیان ملتا ہے، جب کہ رضیہ بگٹی کی شاعری ثقافت اور عورتیں کی طاقت کو نمایاں کرتی ہیں۔ ان کی شاعری میں بلوچ معاشرتی حقوق اور خواتین کے مقام کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔بلوچ خواتین کی شاعری صرف ایک ادبی اظہار نہیں، بلکہ مزاحمت کا ایک اہم آلہ ہے، جو نہ صرف ان کے ذاتی دکھوں کو بیان کرتی ہے بلکہ ان کی قوم کی اجتماعی آزادی کی جدوجہد کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ بلوچ مزاحمت نے بلوچی دستکاری میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اور بلوچ عورتوں کے لباس میں جو دستکاری ہے یہ ماضی کی جنگوں کی داستانیں ہیں۔
بلوچ عورتوں کی مزاحمت: ایک مختصر تاریخ
بلوچستان کو عام طور پر ایک قدامت پسند، قبائلی اور پدرشاہی علاقہ سمجھا جاتا ہے جہاں خواتین کی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں ہیں۔ مگر 2000ء کی دہائی کے آغاز میں جب بلوچ مردوں کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا، تو بلوچ عورتیں ہی تھیں جنہوں نے تحریک کی قیادت سنبھالی اور ریاست سے جواب طلبی کی۔ 2008ء میں کریمہ بلوچ نے ایک بہادرانہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گھر سے باہر نکل کر سیاست میں حصہ لیں گی۔ اس وقت بہت کم بلوچ عورتیں سیاست میں سرگرم تھیں۔ کریمہ بلوچ نے بلوچ عورتوں کی جدوجہد کی اس تاریخ کو زندہ رکھا جو صدیوں پرانی ہے۔
جدید بلوچ ثقافت پر پدرشاہی سوچ کا غلبہ ہے، لیکن بلوچ لوگ ادب میں دلیر خواتین کی داستانیں عام ہیں، جیسا کہ بی بی بانڑی شہک، جنہیں 1539 ء میں شیر شاہ سوری کے خلاف چوسہ کی جنگ میں بہادری پر یاد رکھا جاتا ہے۔ ان کی جرات نے میر چاکر رند کی فوج کے حوصلے بلند کیے، اور وہ بلوچی رزمیہ شاعری کا حصہ بن گئیں۔
ٹوٹ چکی ہیں بانڑی کی چوڑیاں”
وعدوں اور بھائیوں کے لیے
میری ماں ہر روز مجھ سے کہتی ہے
تو بلوچ ہے، پیاری پری
بانڑی کی طرح تلوار اٹھا
جنگ کے میدان میں نام پیدا کر، بھائیوں کا سہارا بن
تو کیوں یونہی بیٹھ کر سوچتی ہے؟
ذلت کی زنجیروں کو توڑ دے، علم میں نام پیدا کر
“میری ماں ہر روز مجھ سے کہتی ہے
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں عورتوں کی مزاحمت
سن 1973 ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے والے فوجی آپریشن کے دوران عورتوں نے صرف زخمی مزاحمت کاروں کی دیکھ بھال ہی نہیں کی بلکہ پاکستانی افواج کے راستے روک کر خود بھی مزاحمت کی۔تاریخ کے پنوں میں بی بی گہنوری مری جیسی عورتیں جو زخمی مزاحمت کار مری بلوچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور ان مردوں کو راشن فراہم کرتی تھیں جو پاکستانی فوج کی جارحیت سے اپنے گاؤں، خاندان اور مال مویشیوں کی حفاظت کے لیے پہاڑوں پر چلے گئے تھے۔
ریاستی جبر اور بلوچ عورت
سن 2005 ء میں بلوچستان میں ایک اہم واقعہ پیش آیا۔ خبررساں اداروں کے مطابق جب سوئی میں ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ زیادتی کی گئی تو نواب اکبر خان بگٹی انصاف کی خاطر پہاڑوں پر چلے گئے اور انصاف کا معمہ مشرف کی ضد اور انا کا مسئلہ بن گیا۔ اس واقعے میں ملوث افسر کو سزا نہیں دی گئی اور فوج نے واقعے کو چھپانے کی کوشش کی، جس کے ردعمل میں دفاعی سیکیورٹی گارڈز اور فرنٹیئر کانسٹیبلری پر حملے شروع ہوئے۔ پاکستانی ریاست نے اس وقت ان واقعات کو موقع پرست سرداروں کی سازش قرار دیا اور نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کیا گیا۔ نواب صاحب کی شہادت کے بعد بلوچ مسلح تنظیموں نے ایک نئی شکل اختیار کی اور ریاستی بربریت بھی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ 2008 ء سے ہزاروں افراد — سیاسی کارکنان، انسانی حقوق کے علمبردار، اساتذہ، ڈاکٹرز اور وکلاء — کو اغوا کیا گیا اور کئی کو قتل کیا گیا۔ ان قتلوں کو عام طور پر “مارو اور پھینکو” پالیسی کہا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے مطابق، زیادہ تر جبری گمشدگیوں میں پاکستانی خفیہ ایجنسیاں، فرنٹیئر کور اور مقامی پولیس ملوث ہیں
۔
بلوچ عورت کا منظم ہونا
سال2007 ء میں جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا تو کئی عورتیں اس وقت منظم ہوئیں اور ریاستی جبر کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔ بہت سے بلوچ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ بلوچ عورت تب آگے آئی جب ریاستی جبر بڑھا اور مرد یا تو پہاڑوں یا پھر زندانوں کی نظر ہوئے۔ 29جولائ 2007 ء کو کراچی پریس کلب میں ایک “بلوچ ویمنز پینل” منظم کیا گیا جس میں ہانی بلوچ اور شکر بی بی نے ایک پریس کانفرنس کی۔میرے خیال سے بلوچ عورتیں تب پہلی بار میڈیا کے سامنے آئیں اور اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ ریاستی ظلم نے بلوچ خواتین کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے 30 جولائی سے 14 اگست تک بھوک ہڑتال کا اعلان بھی کیا۔ 2009 ء میں”مارو اور پھینکو” پالیسی کے آغاز کے بعد عورتیں آگے آنے لگیں اور قیادت سنبھالنے لگیں۔ فرزانہ مجید ،ذاکر مجید کی بہن، اور سمی دین بلوچ جیسی نامور کارکنان سڑکوں پر آئیں اور پرامن احتجاج کی قیادت کی۔
کریمہ بلوچ: مزاحمت کی علامت
کریمہ بلوچ نے سماجی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے دور دراز علاقوں جیسے آوران، مشکے اور گریشہ میں سیاسی حلقے منظم کیے۔ 2005 ء میں تربت میں ایک احتجاج میں شرکت ان کی پہلی سیاسی سرگرمی تھی۔ 2006 ء میں وہ “بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) میں شامل ہوئیں اور کئی عہدوں پر فائز رہیں۔ 2013 ء میں حکومت نے بی-ایس-او (آزاد) پر پابندی لگا دی، مگر کریمہ بلوچ نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں، اور 2015 ء میں وہ بی-ایس-او (آزاد) کی پہلی خاتون چیئرپرسن بن گئیں۔ ریاست نے انہیں خطرناک قرار دیا، مگر بلوچستان میں وہ ایک ہیرو تھیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا:”جب ہم عورتوں نے سڑکوں پر آنا شروع کیا تو لوگوں کو عجیب لگا، لیکن اب ہر خاندان اپنی عورتوں پر فخر کرتا ہے، جو قومی تحریک کا حصہ ہیں۔” کریمہ نے عوام سے جڑنے اور عاجزی اختیار کرنے کی تلقین کی، اور بالآخر جلاوطنی کے دوران بھی بلوچ حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہیں، یہاں تک کہ 2020 ء میں ان کی پراسرار موت واقع ہوئی۔
عورتوں کی انسانی حقوق کی تنظیموں میں شمولیت
بلوچ عورتوں نے انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں بنائیں جنہوں نے جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان میں سے ایک بی بی گل بلوچ ہیں، جو بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی بانی رکن ہیں۔انہوں نے “وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز” کے ساتھ مل کر 2014 ء کے لانگ مارچ میں بھی حصہ لیا۔ بی بی گل کے گھر پر کئی بار چھاپے مارے گئے، اور ان کی بھابھی، ماھل بلوچ، کو 2021 ء میں بغیر کسی الزام کے حراست میں لیا گیا، جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی عالمی اداروں نے تشویش کا اظہار کیا۔ 2009 ء میں “وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز” (VBMP) قائم ہوئی، جو جبری گمشدگیوں کا حصاب رکھتی ہے، مظاہرے، بھوک ہڑتال کیمپ، اور قانونی امداد فراہم کرتی ہے۔ سمی دین بلوچ اس کی جنرل سیکرٹری رہی ہیں۔
پہلا بلوچ لانگ مارچ
سن 2014 ء میں بلوچ مزاحمتی تحریک نے “ماؤزے تنگ” کے لانگ مارچ سے متاثر ہو کر کوئٹہ سے کراچی، پھر کراچی سے اسلام آباد تک تقریباً 2,150 کلومیٹر کا لانگ مارچ کیا۔ یہ مارچ “وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز” کی قیادت میں ہوا، جس میں سمی دین اور فرزانہ مجید سمیت کئی عورتوں اور بچوں نے شرکت کی۔ ملک بھر نے ان کے زخمی قدم اور دکھ دیکھے مگر حکومت نے ان کی آواز سنی ان سنی کر دی۔ راستے میں بلوچ عوام اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنان نے ان کا پرتپاک استقبال کیا، خوراک اور سہولیات فراہم کیں۔ یہ مارچ نئی کارکنان کے لیے سیاسی تربیت کا ذریعہ بن گیا۔
احتجاجی کیمپ اور بلوچ عورتیں
سال 2014 ء میں بی-ایس-او (آزاد) کےچیئرمین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ قائم ہوا۔2016 ء میں بی-ایس-او (آزاد) کی قیادت نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کی کال دی ۔لطیف جوہر سنٹرل کمیٹی ممبر نے بھوک ہڑتال کی اور کریمہ بلوچ نے قیادت سنبھالی۔ ان کی والدہ اور نوجوان طالبات بھی ساتھ تھیں۔ یہ کیمپ سیاسی مکالمے کے مرکز بن گئے۔
سیما بلوچ ایک خاموش، سہمی ہوئی عورت تھیں، جن کے لئے کراچی دبئی سے کم نہ تھا۔ جب اکتوبر 2016 ء کو انہوں نے اپنے بھائی شبیر کی جبری گمشدگی کے بعد پہلی پریس کانفرنس کی تو ان کے لرزتے ہوئے ہاتھ وہ کاغذ کا پنا بھی سمبھال نہیں پا رہے تھے۔ سیما بلوچ اپنے بھائی شبیر کی گمشدگی کے بعد ایک نڈر رہنما بن گئیں۔ سال 2016 ء کے وقت سیما حاملہ تھیں۔ ان کے تمام بچوں کی تربیت احتجاجی کیمپوں میں ہوئی ہے۔ سیما کہتی ہیں: “میری سب سے چھوٹی بیٹی شاری نے جو پہلا جملہ سیکھا وہ تھا ‘بازیاب کرو’۔” یہ سن کر میرا دل ٹوٹ گیا ۔
بلوچ ویمنزفورم
سال 2022 ء میں “بلوچ ویمنز فورم” کے نام سے ایک تنظیم بنی۔ بلوچ ویمنز فورم میں زین گل — پنجگور کی ایک اسکول ٹیچر — نے اس کی سرگرمیوں کو وسعت دی۔ اس تنظیم میں تمام تر عورتیں ہیں، جس کی چئیرپرسن اب ڈاکٹر شلی ہیں جو تعلیم، طبی سہولیات، اور بلوچستان میں فوجی آپریشنز کی سخت مخالفت کرتی ہیں۔
آج کی تحریک میں بلوچ عورت کا کردار
بلوچستان جیسے خطے میں، جہاں عام طور پرعورت کی روز مزہ کی زندگی گھر تک محدود ہے، سیاست میں سرگرم ہونا ایک انقلابی قدم ہے۔ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کا تعلق بھی ایک قبائلی معاشرے سے ہے، مگر انہوں نے طالب علم سیاست سے آغاز کیا اور بعد میں “بلوچ یکجہتی کمیٹی” سے وابستہ ہو گئیں ۔2018 ء میں وہ “بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی” کی وائس چیئرپرسن بنیں، اور 2021 ء میں تنظیم کی چیئرپرسن منتخب ہوئیں، یوں کریمہ بلوچ کے بعد دوسری عورت ہیں جنہوں نے طلبہ تنظیم کی قیادت سنبھالی۔
سال 2019 ء میں انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کے واقعے پر ایک مضمون لکھا جس میں ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسی سال ان کے بھائی کو انجینئرنگ یونیورسٹی، خضدار سے اغوا کیا گیا، جس پر انہیں سیاست چھوڑنے کا دباؤ ڈالا گیا۔ مگر انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا: “اگر میں ہار مان لوں تو یہ ان نوجوان لڑکیوں کے لیے ایک خطرناک مثال بن جائے گی جو ناانصافی کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔” 2024 ء میں راجی مچی سے ایک ماہ قبل، کوئٹہ میں ایک احتجاج کے دوران انہیں پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور گرفتار کر لیا۔ بعد میں ان پر توہین مذہب کا الزام بھی لگایا گیا۔ ان کا نعرہ “لمہ ایڑ تا جہد پائک” (ہماری ماں اور بہنوں کی جدوجہد کو دیکھو) بلوچ تحریک کا نعرہ بن چکا ہے: “سوب نانائے، سوب نانائے ” (فتح ہماری ہوگی)۔
سمی دین بلوچ
سمی دین بلوچ کے والد، ڈاکٹر دین محمد بلوچ، 2009 ء میں لاپتہ ہوئے۔ سمی نے بچپن سے مظاہروں میں حصہ لیا، اور اب وہ ایک یونیورسٹی طالبہ ہیں۔ ان کے سوالات بدل چکے ہیں: “پہلے میرا سوال تھا کہ میرے والد کہاں ہیں؟ اب میرا سوال ہے: تمام لاپتہ افراد کہاں ہیں؟ ان کی قبریں کہاں ہیں؟” ریاست نے ان کے آبائی گھر کو جلا دیا، اور کراچی کا گھر کئی بار نشانہ بنایا گیا۔
سن2016 ء میں “فرنٹ لائن ڈیفنڈرز” کے مطابق سمی خود بھی اغوا ہوئیں۔ سات ون تک وہ نامعلوم مقام پر قید رہیں۔ انہیں جنسی تشدد کی دھمکیاں دی گئیں۔ مگر وہ نہ جھکیں اور اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ 2024 ء میں انہیں ایشیا پیسفک ہیومن رائٹس ایوارڈ دیا گیا۔ سمّی کو کراچی کی سڑکوں پر احتجاج کے دوران کراچی پولیس نے بارہا گھسیٹا اور سمی کو ڈرانے اور دھمکانے کے کئ پینترے اپنائے لیکن سمی نہ جھکی اور نہ ہی بلوچ عورتوں کو جھکنے دیا۔ سمی دیکھتے دیکھتے اب مزاحمت کا استعارہ بن چکی ہے۔
ہوران بلوچ اور بیبو بلوچ
ہوران بلوچ، “وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز” کی تحقیقاتی نگران ہیں۔ انہوں نے 2012 ء میں سیاست میں قدم رکھا اور کہا: “ہمارے بھائی روزانہ اغوا، قتل اور مسخ شدہ حالت میں پھینکے جاتے ہیں۔ یہ ظلم، بربریت اور جبر ہے جو میں برداشت نہ کر سکی، اور سیاست میں قدم رکھنا پڑا۔” ان کے گھر پر بھی بارہا چھاپے مارے گئے۔ بیبو بلوچ نے 2023 ء کے بلوچ لانگ مارچ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ریاستی اداروں نے ان کے والد کا نام چوتھے شیڈول میں ڈال کر انہیں دباؤ میں لانے کی کوشش کی، مگر وہ پیچھے نہ ہٹیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی-وائی-سی) کی تشکیل اور ملک ناز
سال 2020 ء میں تربت کے علاقے دَنّوک میں ایک ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ ایک گھر ڈکیتی کے ارادے سے داخل ہوا۔ وہاں موجود ملک ناز نامی عورت نے مزاحمت کی، جس پر اسے گولی مار دی گئی اور اس کی دو سالہ بیٹی زخمی ہو گئی۔ ملک ناز کی قربانی ایک کہانی بن گئی، جو پورے بلوچستان اور کراچی میں پھیل گئی۔ اس واقعے کے بعد “برمش یکجہتی کمیٹی” وجود میں آئی، جس نے کراچی، تربت، پنجگور، کوئٹہ اور کوہِ سلیمان تک مظاہرے منظم کیے۔ ہزاروں لوگ، جن میں بڑی تعداد عورتوں کی تھی، ان احتجاجات میں شریک ہوئے۔
اسی سال ایک اور واقعہ پیش آیا۔ کراچی یونیورسٹی کا طالبعلم حیات بلوچ اپنے گاؤں ابصار، تربت گیا ہوا تھا- وہاں فرنٹیئر کور کے ایک اہلکار نے اسے 13 اگست 2020 ء کو قتل کر دیا۔ ریاستی ادارے اسے “غلطی” قرار دینے لگے، مگر بلوچ عوام نے اسے تسلیم نہ کیا۔ برمش یکجہتی کمیٹی اب بلوچ یکجہتی کمیٹی میں تبدیل ہو چکی تھی، اور اس کی قیادت آمنہ بلوچ (کراچی) اور ماہرنگ بلوچ (بلوچستان) نے سنبھالی۔
کراچی اور بلوچستان میں بی-وائی-سی کی سرگرمیاں
آمنہ بلوچ نے نہ صرف احتجاج منظم کیے بلکہ سندھ اور بلوچستان میں سیلاب متاثرین، کینسر کے مریضوں، اور تعلیمی مسائل پر بھی کام کیا۔ انہیں مسلسل دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوئیں، مگر وہ خوف سے مغلوب نہ ہوئیں اور جدوجہد جاری رکھی۔
ماہ رنگ بلوچ نے 2009 ء سے کراچی اور کوئٹہ کی سڑکوں پر اپنے لاپتہ والد کے لیے آواز اٹھائی۔ 2017 ء میں ان کے بھائی کو بھی اغوا کیا گیا۔ بی-وائی-سی انہوں نے صبیحہ، سعدیہ، اور دیگرعورتوں کے ساتھ کو بلوچستان میں منظم کیا، اور انٹرنٹ کی بندش، آن لائن کلاسز کی عدم دستیابی، اور جبری گمشدگیوں پر مظاہرے بھی کئے۔ بی-وائی-سی میں عورتوں کو ہراساں کرنے کا کیس ہو یا جبری گمشدگیوں اور “مارو اور پھینکو” پالیسی کے خلاف احتجاج، ماہ رنگ نے بلوچ سیاسی رہنما کا کردار ادا کیا ہے۔
مارچ اگینسٹ بلوچ جینوسائیڈ
نومبر 2023 ء میں، تربت سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ بالاچ مولا بخش کو دورانِ حراست قتل کر دیا گیا۔ پہلے انہیں 29 اکتوبر 2023 ء کو اغوا کیا گیا، پھر 21 نومبر کو عدالت میں پیش کیا گیا، اور اگلی رات قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد عوام نے فیصلہ کیا کہ اگر اب آواز نہ اٹھائی گئی، تو باقی تمام لاپتہ افراد کو بھی ایک ایک کر کے مار دیا جائے گا۔ لہٰذا بی-وائی-سی نے تربت سے اسلام آباد تک مارچ کا اعلان کیا، جس کا نام “مارچ اگینسٹ بلوچ جینوسائیڈ” دیا گیا۔ یہ مارچ تقریباً 1000 میل طے کر کے 22 دسمبر 2023 ء کو اسلام آباد پہنچا۔
اسلام آباد میں پولیس نے عورتوں اور بچوں پر لاٹھیاں برسائیں، واٹر کینن کا استعمال کیا اور 290 افراد کو گرفتار کیا۔ نگران وزیرِاعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ “جو بھی ان مظاہرین کو اخلاقی یا مالی حمایت دے رہا ہے، وہ بلوچ شدت پسندوں کا ساتھ دے رہا ہے۔” اس وقت بلوچ عورتیں کھل کر سامنے آئیں اور انہوں نے بڑی بہادری سے ریاستی جبر کا سامنا کیا۔ ریاست نے ان عورتوں کو جیلوں میں ڈالا اور ہر ظلم ڈھایا لیکن بلوچ عورتیں اسلام آباد کی ٹھٹھرتی سردی میں مزاحمت کا رنگ بن گئیں۔ ماہ رنگ نے جاتے جاتے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا کہ ہم اس ظلم کو اپنی تاریخ کا حصہ بنائیں گے، ہم اسے نظموں میں کہانیوں میں محفوظ رکھیں گے تاکہ ہماری نسلوں کو بھی پتا چلے کہ اسلام آباد نے بلوچ عورتوں کے ساتھ کیا ظلم کیا ہے۔
اسلام آباد کے بعد: راجی مچی کا انعقاد
اسلام آباد مارچ کے بعد جب مظاہرین کوئٹہ واپس پہنچے، تو عوام نے ان کا فقید المثال استقبال کیا۔ ہزاروں افراد نے ماہ رنگ اور دیگر شرکاء کو خوش آمدید کہا۔ اس استقبال میں سب سے زیادہ حیران کن عمل یہ ہوا کہ ماہ رنگ کو بلوچ سرداری پاگ، جو بلوچ مرد سردار پہنتے ہیں وہ پہنایا گیا۔ ماہ رنگ کو بلوچوں کا سردار مقرر کیا گیا جو فیصلے لینے کا اختیار رکھتی ہے۔
گوادر میں بلوچ راجی مچی
سن 2024 ء میں بی-وائی-سی کی قیادت نے گوادر میں ایک جلسے کا اعلان کیا اور ریاست اس جلسے سے اس قدر خوفزدہ تھی کہ اس نے گوادر جانے والے تمام راستے بند کر دیے، راستوں پر شیلنگ، فائرنگ، لاٹھی چارج اور انٹرنیٹ بندش جیسے حربے استعمال کیے۔ لوگوں کی جانیں تک گئیں۔مگر بلوچ عوام باز نہ آئی۔ گوادر، جیوانی، سُر اور ارد گرد کے علاقوں کے لوگ پچھلے راستوں سے پہنچے۔ اور وعدہ پورا ہوا۔ 28جلائ کو راجی مچی کا کامیاب انعقاد ہوا۔
تحریک کی راہنما عورتیں
ماہ رنگ، صبیحہ، سیما، سائرہ سمی، اور دیگر ہزاروں عورتیں جب راجی مچی کے بعد مختلف علاقوں سے گزر رہی تھیں تو آواران کی عورتوں نے ریاستی دباؤ کے باوجود پانچ کلومیٹر پیدل چل کر فقط اپنی لیڈرشپ کو خراج تحسین دینے کے لئے یہ تمام فاصلہ طے کیا- یہی جذبہ ظاہر کرتا ہے کہ بلوچ تحریک نے خواتین کو کس قدر بیدار اور متحرک کیا ہے۔
راجی مچی کے بعد ریاستی جبر
راجی مچی کے بعد ریاست نے عورت کارکنان کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ بی-وائی-سی کی رکن سعدیہ بلوچ کو پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اس الزام پر معطل کر دیا گیا کہ وہ “ریاستی اداروں کے خلاف ذہن سازی” کر رہی ہیں۔ انہیں کوئ شو کاز نوٹس نہیں دیا گیا، اور ایک جعلی خط بھیجا گیا۔ ماہ رنگ بلوچ کو بیرونِ ملک سفر سے روک دیا گیا۔ انہیں خاموشی سے “خروج کنٹرول فہرست” میں شامل کر دیا گیا — جو دہشتگردوں یا مشتبہ افراد کے لیے مخصوص فہرست ہے۔سمی دین بلوچ کو 8 ستمبر 2024 ء کو عمان جاتے ہوئے روک دیا گیا، اور “ایگزٹ کنٹرول لسٹ” میں شامل کر دیا گیا۔ درجنوں دیگر انسانی حقوق کے کارکنان اور ان کے اہل خانہ کو چوتھے شیڈول میں شامل کیا گیا۔
جعفر ایکسپریس کے بعد بی وائی سی کی قیادت پر ریاستی جبر
جعفر ایکسپر کے حملے کے بعد، بلوچستان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت پر ریاستی جبر میں اضافہ ہوا، اسی جبر کے خلاف بی-وائی-سی کی قیادت نے کوئٹہ میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا اور مظاہروں کے دوران بی-وائی-سی کے مطابق پولیس فائرنگ سے تین لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ جسم کے رونگٹے تب کھڑے ہوئے جب یہ بہادر عورتیں ڈرنے کے بجائے انہیں لاشوں کو لے کر دھرنے میں بیٹھ گئیں۔
ماہ رنگ، بیبو اور لاشوں کو22 مارچ کو پولیس نے کوئٹہ دھرنے سے3 ایم- پی-او کے تحت گرفتار کیا۔ ان کے ساتھ متعدد بلوچ رہنماؤں اور کارکنوں کو ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شاہ جی اور بیبگر جو بی -وائی -سی کی مرکزی قیادت کا حصہ ہیں، ان کو بھی 3 ایم- پی -او کے تحت جیل میں ڈالا۔بی وائی سی کی گلزادی کو کوئٹہ سے پولیس اور سی ٹی ڈی نے پہلے اغوا کیا اور پھر جیل میں لے جایا گیا۔صبیحہ کے گرفتار کرنے کے لئے چونکہ ریاست نے ہر ممکن کوشش کی، جب صبیحہ ہاتھ نہ آئی تو ریاست نے صبیحہ کے ابا کو اغوا نما گرفتاری کا شکار بنایا اور صبیحہ کو پیغام بھجوایا کہ وہ خود کی گرفتاری کروائے ورنہ اسکے والد کو زندانوں کی نظر کردیں گے جو اجتماعی سزا کے زمرے میں آتا ہے۔
بلوچ عورتیں، جیل، اجتماعی سزا اور خطوط
بی-وائی-سی کی یہ عورتیں تاریخ میں اپنے کارنامے سنہرے الفاظ میں لکھوانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ ماہ رنگ نے جیل سے 3 خطوط بھجوائے، جن میں سب سے پہلے اپنے بھائی بہنوں کے نام ایک لاجواب خط بھیجا۔ جس نے بھی یہ خط پڑھا، آنکھیں اشک بار ہوئیں، جس میں مزاحمت اور جدوجہد کی تلقین کی ہے۔ ماہ رنگ اپنے بابا کے بعد اپنے خاندان کے لئے ایک باپ کا کردار ادا کررہی ہیں۔دوسرا عید کے وقت قوم کے نام، اس میں بھی مزاحمت اور پر امن جدوجہد کی باتیں کیں اور تیسرا بی وائی سی کے کارکنان کے نام جس میں اجتماعی سوچ، اجتماعی جدوجہد اور پر امن رہنے کی تلقین کی۔
جیسے کہ میں نے پہلے ذکر کیا گلزادی کوئٹہ کے ایک گھر سے پولیس اور سی-ٹی-ڈی کے ہاتھوں پہلے اغوا اور پھر حراست میں لائی گئی تھیں تو ایک خط جو “دی بلوچستان پوسٹ” نامی خبررساں ادارے کو موصول ہوا، اس میں گلزادی نے اپنے اوپر ہونے والے ریاستی تشدد کا زکر کیا اور عورتوں کے لئے پیغام بھجوایا کہ کسی صورت مزاحمت نہیں چھوڑنی۔
بلوچ عورتیں، مزاحمت کی اہم کڑی
بلوچ عورتیں— ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی، ڈاکٹر شالی، اور ڈاکٹر صبیحہ بلوچ — آج مزاحمتی تحریک کا چہرہ ہیں۔ یہ عورتیں نہ صرف ثقافتی ورثے کی محافظ ہیں بلکہ سیاسی رہنما بھی ہیں جو بلوچ عوام کے لیے ایک نئی راہ متعین کر رہی ہیں۔ بلوچ عورتوں نے پہلے شاید ہی سیاست اور مزاحمت کا راستہ مجبوری میں چنا ہو لیکن اب سیاست اور مزاحمت نے خود بلوچ عورت کا انتخاب کیا ہے اسی لئے آج بلوچستان کی پر امن مزاحمتی تحریک کے لیڈران سے لے کر کارکنان تک، عورتوں نے محاذ سنبھالا ہوا ہے۔ ریاست کو اپنا پدرشاہانہ رویہ چھوڑنا ہوگا اور تب جاکر امن کی بات کرنی ہوگی۔ اگر واقعی ریاست امن چاہتی ہے تو بلوچ عورتیں ان بلوچوں کی نمائندگان ہیں، انہی سے بات ہوگی، انہی کی سُنی جائے گی۔
دُر بی بی ایک بلوچ سیاسی کارکن ہیں جن کا تعلیمی پس منظرڈیفینس اینڈ سٹریٹجک اسٹڈیز میں ہے۔ وہ بلوچ حقوق کے لیے آواز بلند کرنے اوراپنے لوگوں کی جاری جدوجہد کو نمایاں کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔