تحریر: طوبیٰ سید
(ترجمہ: عصمت شاہجہان)
حالیہ 8 مارچ کے دن پاکستان بھر میں عورت آزادی مارچ/عورت مارچ کو ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک شاندار اور یادگار دن کے طور پر یاد کھا جائے گا، کیونکہ اس دن کراچی سے لے کر پشاور، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ، حیدرآباد، مردان، لاڑکانہ، مورو اور حتیٰ کہ گلگت بلتستان میں ہزاروں عورتوں نے اپنے حقوق اور پدرشاہی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سڑکوں کا رخ کیا اور احتجاج کا علم بلند کر کے محنت کش عورتوں کے عالمی دن پر عورتوں کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔ اِس اُمید کے ساتھ کہ اُن کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی، عورت مارچ اور دوسری مزاحمتی تحریکوں نے ثابت کر دیا ہے کہ عورت کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ وہ صدیوں پرانے تاریخی جبر اور معاشی ناہمواری کے خلاف ایک بھرپور، بامعنی اور زندہ جاوید جدوجہد کا آغاز کرے، اُس دن ہم نے متحد ہو کر احتجاج کے نعرے بلند کیئے۔۔۔مزاحمتی جھنڈے لہرائے۔۔۔آزادی کے نعرے لگائے اور پدر شاہی کے پورے نظام کو للکارا۔
اس سال جب 8 مارچ منایا گیا تو پاکستان بھر میں سیاستدانوں، بیورکریٹس (سابقہ)، اور ٹیلی وژن کے کرتوں دھرتوں کو جیسے مرچی لگی ہو، جس طرح اُنہوں نے سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر عورت مارچ کے خلاف زہر اگلنے اور نفرت و کدورت کے اظہار کی بھرمار کر دی، حتیٰ کہ سندھ صوبائی اسمبلی نے تو نفرت اور ناعاقبت اندیشی کی حد کر دی، عورت مارچ کے خلاف قراردادیں جمع کرائیں، دھمکیاں دیں اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی، اور عورت مارچ کی منتظم خواتین کو قرار واقعی سزائیں دلوانے کے اعلانات کیے۔ عورت مارچ سے لے کر آج دن تک بے شمار عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، بے حرمتی کی گئی اور افوسناک بات یہ کہ جن میں سے صرف چند واقعات کا پریس اور میڈیا میں ذکر آیا ہے۔
اس طرح کے نفرت انگیز ردِعمل کی آخر وجہ کیا ہے؟ پچھلے ماہ منایا گیا 8 مارچ پاکستان میں عورتوں کی تحریک کے لئے ایک تازہ دم آغاز ثابت ہوا ہے۔ جہاں یہ تحریک ماضی کی فیمنسٹ تحریکوں سے جڑی ہے وہیں اس میں نیا جذبہ اور اپنا منفرد انداز بھی ہے۔ یہ غالباً پہلی دفعہ ہے کہ پاکستان میں عورتوں نے ایک منظم تحریک کی صورت میں سماجی رشتوں اور ان میں پوشیدہ صنفی (خصوصاً نجی زندگی میں رواں) نابرابریوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔ اس منظم تحریک نے ملک میں قائم بالادستی کے شکنجے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ عورت مارچ کے خلاف ہونے والا واویلا اس بات کا ثبوت ہے کہ عورتوں کے مزاحمتی مظاہروں نے’سٹیٹس کو’ کو بھرپور انداز میں چیلنج کیا ہے۔
کئی دہائیوں تک فیمنسٹ تحریک کی عوامی انداز میں غیر فعالیت کے بعد، سماج کی مختلف پرتوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں پر مشتمل اس تحریک نے ریاست سے مطالبات کرنے کے ساتھ ساتھ سماج کی بناوٹ جو استحصالی صنفی رشتوں کو جنم دیتی ہے، اور ہماری زندگیوں کو اجیرن کر دیتی ہیں، پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ ہم نے نہ صرف ریاست سے اپنی مانگیں پوری کرنے کا مطالبہ کیا بلکہ اُس پورے نظام پر سوال اٹھایا ہے جس کے سبب ہم عورتوں کو ایک پر تشدد نابرابری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ہم نے نہ صرف ریاست سے انصاف اور قوانین میں بہتری کا تقاضا کیا بلکہ رائج سماجی، سیاسی، مذہبی اور معاشی نظاموں میں تبدیلی کا مطالبہ بھی کیا۔
عورت آزادی مارچ کے خلاف اس شدید ردِعمل کے پیچھے دائیں بازو کے تنگ نظر اور قدامت پرست مذہبی اور سیاسی گروہ ہیں جو کہ مذہب کو اپنے پُرتشدد مقاصد کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کر تے ہیں۔ عورت کو سماجی زندگی میں بھرپور حصہ داری سے محروم رکھنے اور چادر اور چاردیواری تک محدود کرنے کی کوششوں کے پیچھے کارفرما سوچ تاریخی طور پر غلط اور من گھڑت ہے۔ عورتوں کو گھر تک محدود کرنے اور صنفی نابرابری کے سٹیٹس کو سے مستفید ہونے والوں نے آزادی مارچ کی شرکاء خواتین کے اٹھائے پلے کارڈز کے خلاف چربہ سازی کی مہم شروع کی اور سنجیدہ نعروں کو مذاق میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئ۔
رجعتی حلقوں کی طرف سے اعتراض کا سب سے زیادہ نشانہ وہ پلے کارڈز بنے جن میں کہ ذاتی سماجی رشتوں کے اندر نابرابری پر سوال اٹھائے گئے تھے: جیسے کہ گھریلو کام کی غیر منصفانہ تقسیم اور عورت کی محنت کے استحصال کی دیگر اشکال سے متعلق درج نعرے۔ ان پیغامات نے فیمنسٹ تحریک میں بھی ہمارے سماجی نظام خصوصاً پدرشاہانہ سرمایہ داری میں عورتوں کے بلا معاوضہ فیملی کیئر اور سماجی پیداوار کے استحصال کے بارے میں تنقیدی سوچ بیدار کی ہے۔ ان پلے کارڈز کے ذریعے عورتوں نے نسلوں سے ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا، اپنے دکھ اور تکالیف بتلائیں، اور اس بات کا ثبوت دیا کہ ہم اپنی ذات سے بیگانہ بالکل نہیں ہیں اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ ہم عورتیں منظم عوامی تحریکیں بھی چلا سکتی ہیں۔
عورت مارچ مخالف شدید اُبھار اور واویلا کی وضاحت فیمینسٹ سکالر روبینہ سیگل کے انداز بیان سے بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کہتی ہے کہ جہاں ریاست کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت مردوں کے ذمہ لگا دی جاتی ہے وہاں عورتوں کا کام اُس ریاست کے ثقافتی حدود کو بچا کر رکھنا ہے۔ اپنے وجود کو بچے جننے والی مشین کے طور پر استعمال کر کے ملک کی حفاظت کے لئے نام نہاد ”بہادر جیالے“ اور ”نافرمانبردار دختریں“ فراہم کرنے کی ذمہ داری سے عورتوں کا برملا اور غیر التجایانہ انکار، نہ صرف پدرشاہی کے لیے ایک چیلنج ہے بلکہ پورے ریاستی ڈھانچے کے لیے ایک زبردست خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔ یہ بہادری اور جراتمندانہ کوشش، جس کا مقصد عورت کا اپنے وجود پر احتیار حاصل کر نا ہے، کو ثقافتی اصولوں اور قدروں سے بغاوت کا نام دیا جاتا ہے ۔لیکن اصل سوال یہ ہے کہ مذکورہ نام نہاد اُصول اور قدریں مرتب کس نے کی ہیں؟
عورت مارچوں کے خلاف قدامت پرستوں کی طرف سے شروع کی گئی پرتشدد مہم ملک بھر میں عورتوں کی ریلیوں اور جلوسوں کی کامیابی کا بین ثبوت ہے۔ اور جہاں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان کی عورتوں نے موجودہ جبریت پر مبنی پدر شاہانہ نظام کو کامیابی سے چیلنج کر دیا ہے۔ ان ریلیوں نے دائیں بازو کے نظریات والے مردوں اور سرکار کی پروردہ فیمنسٹ عورتوں کو بھی ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ دونوں مل کر اپنی گھناؤنی تنقید کے ذریعے نوجوان رضاکار عورتوں کو پدرشاہانہ جبر کے سماجی ڈھانچوں کے پردے چاک کرنے سے روکنے کے لئے کوشاں رہے، یہ مذکورہ ڈھانچے ہم عورتوں کو تسلط میں اور قابو میں کرنے کے ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ یہ تردید و تنقید ہمیں دقیانوسی پدرشاہانہ روایات میں قید کرنے کا آلہ ہے۔ عورت ذات کی یہ لعن تعن اُن اُوچھے ہتھکنڈوں کے مترادف ہے تاکہ ہمیں پھر سے اُن روایتی سماجی کرداروں تک محدود رکھا جاسکے۔ ان نڈر اور بیباک عورتوں کو خاموش کرنے کی ضرورت سماج کو اس مثالی ہدف، عاجز عورت (وہ کمزور عورت دھیرے سے بولتی ہے اور آ سانی سے مان بھی جاتی ہے) کو کھوج نکالنے کے مترادف ہے۔
خواتین مارچوں کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی ثابت کرنے کی ایک کوشش اور بھی کی گئی، اُنہیں اشرافیہ طبقے کی خواتین کی تحریک کا لیبل کیا گیا، جوکہ ناکام بھی ہوئی، کیونکہ ان مارچوں میں مختلف طبقات، قوموں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والی عورتوں نے شرکت کی، اور یہ گروہوں کی ایک کامیاب اور مختلف النوع اکٹھ ثابت ہوا، جس میں کچی آبادیوں میں رہائش پذیر عورتوں کے ساتھ ایک بڑی تعداد غیر رسمی محنت کش عورتوں، گھریلو ملازمین، وکلاء، نرسز، خواجہ سرا، اور دیگر انواع کے لوگوں اور طلباء کی کثیر تعداد نے حصہ لیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ بورژوا طبقے سے تعلق رکھنے والے آدمی کے سامنے جب عورت کا سوال آتا ہے تو اُس کا ایمان مترلزل ہونے لگتا ہے،ا یک مخصوص نوعیت کی علمی کاوش جو کہ کبھی بھی صاف اور دیانتدارانہ نہیں رہی ہے، سامنے آتی ہے۔ اُن کی تنقید خاص طور پر غیر مخلصانہ ہے کیونکہ وہ بجائے ملکی سیاسی منظرنامے میں ترقی پسند سیاست کو کمزور کرنے کی سازشوں پر گفتگو کے برعکس مڈل کلاس عورتوں پر ان مارچوں میں ورکنگ کلاس کی نمائندگی کا سارا بوجھ مارچ کی منتظمین پر ڈال دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دعویٰ کیا گیاکہ ان مارچوں میں اصل اور حقیقی مسائل کو سامنے نہیں لایا گیا۔ اُن کا یہ دعویٰ لغو اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ کیونکہ اس ضمن میں منتظمین کی طرف سے، عورتوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے قابل ستائش کام ہوا ہے، اور سماجی ڈھانچوں میں تبدیلی کے منشور سامنے لائے گئے جن میں موجودہ گٹھن زدہ سیاسی، معاشی، ماحولیاتی اور سماجی نظام میں تبدیلی کے سارے پہلو شامل کئے گئے تھے۔
ان خود ساختہ عوامی نمائندوں کی تنقید صرف عورتوں کو تحریک کی توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہے۔ ان مارچوں کے بعد ایک ہی ہفتے میں عورتوں نے مارچ کی شرکاء کو ملنے والی دھمکیوں اور ہراسگی کا سوشل میڈیا پر’# آئی ایم اے مارچر ‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ مقابلہ کیا، اور ہیش ٹیگ نے پاکستان میں ٹرینڈ کیا۔ اب یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ اپنی تمام کمیوں اور کوتاہیوں کے باوجود عورتوں کی یہ تحریک آنے والے وقتوں میں پھلتی پھولتی رہے گی۔
یہ مضمون انگریزی روزنامہ ڈان میں’ اے رائزنگ موومنٹ ‘کے عنوان سے 18 مارچ 2019 کو پہلے چھپا تھا۔
Also Read:
Rimmel Mohydin. Let me womansplain the Aurat March to you . Dawn. 12 March 2019
Herald. The Pakistani woman: Where does she stand and where is she going? herald.dawn.com 8 March 2019
Sadia Khatri. Daily Dawn. Should feminists claim Aurat March’s ‘vulgar’ posters? Yes, absolutely. 15 March, 2019.
Noor Rahman. Women on bikes have right of way in Pakistan. But only if they are white. dawn.com. 19 November 2018