آرٹ:  طاقتور کا ہتھیار

تحریر: آمنہ مواز اورعصمت شاہجہان

ثقافت وہ تصاویر نہیں، جو دیواروں کی زینت بنائی جاتیں ہیں، بلکہ ان قدروں کا مجموعہ ہے جنہیں روزمرہ زندگی میں اپنایا جاتا ہے۔ یہ ایک بہتر معاشرے کی تعمیر کا حصہ ہے۔1

ہوزے پے پےموہیکا کورڈانو

تعارف

یہ مضمون لکھنے کے کئی مقاصد ہیں: جیسے آرٹ کو متعارف کرانا، اس کی مختلف صورتوں اور پیرائے کی نشاندہی کرنا، یہ دیکھنا کہ آرٹ کے ذریعے سماجی، معاشی، اور سیاسی غلبہ کیسے برقرار رہتا ہے۔ یہ دیکھنا کہ خود آرٹ کی طاقت کیا ہے، جس کی مدد سے یہ انسانی شعور کے ساتھ ساتھ دنیا کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور پاکستان میں آرٹ کی سیاست کے غالب پہلو کون سے ہیں۔ یہ مضمون صرف ’’طاقتور کے ہتھیار‘‘ کے طور پر آرٹ کے استعمال  کے موضوع کا احاطہ کرتا ہے، مزاحمتی آرٹ کے پہلو کا احاطہ نہیں کرتا، کیونکہ وہ خود سے ایک وسیع موضوع ہے، جس پر الگ سے لکھیں گے۔

آرٹ کی تعریف میں نظریاتی پیچیدگی

  آرٹ کی تعریف کرنا ایک آسان عمل نہیں ہے اور اس میں اختلاف رائے دیکھنے کو ملا ہے۔ لیکن اس معاملے کو سلجھانے اور کسی ایک تعریف پہ متفق ہونے کی غرض سے آکسفورڈ آرٹ لغت نے ایک تعریف پیش کی ہے: ’’وہ تمام کام آرٹ ہیں، جو انسانی تخلیقی صلاحیت اور تخیل کو بروئےکار لا کر انجام دئیے جائیں۔‘‘ مگر یہ ایک غیر جانبدارانہ نقطۂ نظر ہے، کہ آرٹ میں کیا کیا شامل ہے، اور آرٹ اور تخلیق اور کرافٹ و ہنر میں کیا فرق ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا آرٹ غیر جانبدار ہوتا ہے؟ آرٹ تھیوری اور تاریخ پر بہت ساری بحثیں اور تحریکیں رہی ہیں، مگر بنیادی طور پر دو بحثیں ہیں: ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ یعنی آرٹ بغیر مقصدیت کے، اور ’’آرٹ برائے زندگی‘‘، یعنی آرٹ مقصدیت کے ساتھ۔ یہ بحث بنیادی طور پر آرٹ کے سیاسی ہونے یا نہ ہونے پر مبنی ہے۔

آرٹ شعوری طور پہ طبقاتی، قومی، اور صنفی تقسیم  کے غلبے کو برقرار رکھنے، مزاحمت، پروپگینڈہ، رائے سازی اور جہالت کی ترویج کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کے علاوہ،  ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ کی خاطر بھی ہوتا ہے، اور یہ رُجحان اب عام ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں اکثر فنکار اپنے آپ کو سیاست اور معاشرے کے عمومی معاملات سے برتر اور بالا تر سمجھتے ہیں۔ یہ رجحان سوویت یونین اور دوسری سوشلسٹ انقلابات کے انہدام کے بعد اور خصوصاََ سرمایہ دارانہ استعمار کے قدم مضبوط ہونے کے بعد سے مزید مستحکم ہوا ہے، خاص طور پر سرمایہ دارانہ انفارمیشن ریولیوشن کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے ناقابلِ مزاحمت ثقافتی یلغار، اور سینما اور ڈرامہ کی کارپوریٹ صنعت سازی کے بعد۔

ہماری نظر میں انسانی زندگی اور سماجی رشتوں کا ہر پہلو ، بشمول آرٹ اپنی تمام شکلوں سمیت (ادب، مصوری، خطاطی، موسیقی، رقص، تھیٹر، سینما، ڈرامہ نگاری، اور گرافکس) نہ تو غیرجانبدار، اور نہ ہی غیرسیاسی ہوتا ہے۔ اگر ہم ترقی پسند نقطہ نظر سے تعریف کریں، تو آرٹ جو کہ ثقافت کی ایک مادی شکل ہے، یہ اپنے سماج کے بالائی ڈھانچے(سُپر سٹرکچر) کا عکاس ہوتا ہے۔ اٹالین مارکسی مفکر انتونیو گرامچی کے  نظریے ’ثقافتی غلبہ‘  (کلچرل ہیجیمنی)  کے مطابق ریاست اور حکمران طبقہ ثقافت کو ذہن سازی کے لئے ایسے استعمال کرتے ہیں، کہ جبر و استحصال کے ضابطے اور ثقافت عوام کے کامن سینس کا حصہ بن جاتے ہیں؛ اور سرمایہ دارانہ سماجی نظام کا سٹیٹس کو برقرار رہتا ہے (گرامچی:1971ء)؛ 2 اور غالب کلچر سے طبقاتی غلبے کی بار بار بحالی کی جاتی ہے۔  گرامچی کے مطابق “بالادستی کا ہر رشتہ لازمی طور پر ایک تعلیمی رشتہ ہے، اور یہ رشتہ نہ ٖصرف ایک قوم کے اندر واقع ہوتا ہے، بلکہ کئی قوتوں کے درمیان بھی ہوتا ہے، جن سے قوم بنی ہوتی ہے؛  لیکن بین القوامی اور عالمی سطح پر یہ رشتہ قوموں اور خطوں کی تہذیبوں کی پیچیدگیوں کے درمیان  ہوتا ہے‘‘ (1971ء :صفحہ 666- 350) ۔ پاکستان کے مارکسی دانشور اور بابائے ٹی وی اسلم اظہر اس نقطہ نظر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں  کہ ’’بورژوا معاشرے میں حاکم طبقے کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے طبقے کی ثقافت کو عوام پر مسلط کرے اور یوں اپنا اقتدار قائم رکھے‘‘( اظہر: 1986ء صفحہ24)3۔

  ہم آرٹ کے جدلیاتی تصور سے متفق ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ آرٹ سماج کی نامیاتی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ایک طرف زیادہ تر آرٹ، ثقافت اور تخیلات کی بنیاد پدرشاہی، نوآبادیاتی نظام، جاگیردارانہ روایات و تصورات، سامراجیت اور جنگ پرستی، اور مذہبی انتہا پسندی پر مبنی ہیں، اور دوسری طرف یہی ثقافت اور آرٹ ان قوتوں کا غلبہ برقرار رکھنے میں مدد گار ہیں۔ ریاست پر انہی طبقات کی عملداری کی وجہ سے ریاستی سرپرستی میں انہی کی ضرورت کی ثقافت اور آرٹ کی بالیدگی اور بحالی کی جاتی ہے۔

آرٹ اور طاقت کی تاریخ

آرٹ کی تخلیقات کئی شکلوں میں ہو سکتی ہیں: جیسے کہ بصارت، سماعت  یا عملی مظاہرے کی شکل میں۔ تاریخی طور پر برصغیر میں آرٹ کو  فلسفے کے ساتھ جوڑا گیا ہے، اگر ’’سوندریا شاسترا‘‘ کے قدیم تصور پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ دوسری صدی قبل مسیح میں بھارتا مُنی کے فنون پر لکھے جانے والے، ’’ناٹیا شاسترا‘‘  کے متن کے پیچھے یہی رہنما اصول نظر آتا ہے (ریجیمون: 2017ء)۔4 آرٹ معاشرے کو جوڑے رکھنے کی طاقت بھی رکھتا ہے، خاص طور پر لوک آرٹ کی شکل میں؛ غاروں کی قدیم مصوری سے لے کر تعمیرات، ملبوسات، انسانی اجسام، موسیقی، رقص میں لوک نقش و نگار کی چھاپ۔ آرٹ کی یہ اشکال روحانیت سے جڑتی ہیں، اور انہوں نے جدیدیت سے پہلے کے سماجوں میں اپنا مقام بنائے رکھا۔ بادشاہتوں اور اُمراء حکومتوں کی آمد کے ساتھ ہی، آرٹ شاہی دربار سے منسلک ہو گیا، کیوں کہ یہ اشرافیہ کے زیر سایہ پنپتا تھا۔ اس کے بعد آرٹ کا تہذیب و ثقافت سے ملاپ ہوا اور ذات  پات اور طبقے کی تفریق کو مستحکم کیا، جس کی ایک مثال مغل دور میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دورِجدید میں پروپگینڈہ کے لئے سب سے زیادہ مشہور نازی جوزف گوئبلز ہے، اس نے مہارت سے آرٹ کو ایک فسطائی ریاست قائم کرنے میں بطور آلہ استعمال کر کے دکھایا۔ ہم کورٹرائیٹ (2003ء) کے نقطۂ نظر سے متفق ہیں کہ ’’عوام پر نوآبادیاتی راج  کو جواز دینے کے لئے وہ عکس، تصاویر اور تصورات تیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ محکومیت کو معنی دیں، جو محکوم عوام کی شناخت بنیں‘‘ 5۔

آج بھی ریاستیں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے آرٹ کا استعمال کرتی ہیں، عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ریاستی بیانیہ سچائی پہ مبنی ہے۔ آرٹ اور ثقافت کے بغیر شاید لوگوں کی سوچ کو اتنی آسانی سے متاثر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی، شہر سازی اور سرمایہ داری کے دور میں، لوک فن کی بہت سی تبدیل شدہ شکلیں نظر آتی ہیں، جس سے پاپ کلچر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مالی معاونت سے پرانے لوک گیتوں کی دوبارہ نموداری ہو سکتی ہے۔ لیلا ابو لُغد نے اپنی تصنیف ’’ڈراماز آف نیشن ہووڈ‘‘ میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کس طرح مصر میں ڈرامے ریاست اور قومی شناخت کے نظریات کو تقویت دیتے ہیں، اور ڈرامے شہری آبادی میں پروپگینڈہ کے کامیاب آلات  ہیں (ابو لُغد: 2005)۔6 پاکستان میں بھی ہمیں اسی طرح کی ایک واضح مماثلت نظر آتی ہے، جہاں شہری متوسط طبقے میں بے حد مقبول ڈراموں کے مواد میں کئی سماجی، ثقافتی اور سیاسی پیغامات پنہاں ہوتے ہیں۔

آرٹ اور ریاست کا رشتہ

قطع نظر سیاسی نظام کے، ریاست آرٹ میں بُری طرح ملوث رہتا ہے، خاص طور پر دنیا میں ٹیکنالوجیکل انقلاب اور انفارمیشن انقلاب کے بعد ریاستیں بصری آرٹ (وژول آرٹ)  کو ہتھیار کے طور پر بہت استعمال کر رہی ہیں، یعنی دیکھا جانے والا تخلیقی آرٹ، جیسے کہ پینٹنگ، مجسمہ سازی، اور ڈرامہ اور فلم، اشتہار بازی، فوٹو گرافی، اور گرافک ڈیزائننگ میں زیادہ ملوث ہے (بہ نسبت دوسری شکلوں کے، یعنی پڑھنے اور سننے والا آرٹ جیسے کہ لٹریچر اور موسیقی)۔ ریاست کی آرٹ پالیسیاں آرٹ کے سماج میں کردار، اور سامعین/ناظرین/قارئین کی رائے سازی پر اثر کا فیصلہ کرتی ہیں، آرٹ کی سپورٹ یا مخالفت کرتی ہیں، حتیٰ کہ فنکارانہ پروڈکشن کی نوعیت کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ جبکہ سنسرشپ کے تحت تنقیدی آرٹ کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں عمومی طور پر مذہب کے گرد بُنے ہوئے ’’دو قومی نظریے‘‘ کے ریاستی پس منظر کی وجہ سے آرٹ کو غیر اخلاقی مانا جاتا ہے، اور اکثر زیرِ عتاب رہا ہے، خاص طور پر پرفورمنگ آرٹ۔ سائنس، سیکولرازم اور جمہوریت دشمن ریاستی پالیسیاں بھی آرٹ کی آزادانہ ترویج و تعلیم کی راہ میں رکاوٹ رہی ہیں۔

  پاکستان میں آرٹ کی ارتقاء اور تخلیقی تنقیدی شعور کے ارتقاء کی تشکیل، تاریخی طور پر ملکی و عالمی طاقتوں کی صف بندی کے ضروریات کے نتیجے میں ہوئی ہے، بشمول کالونیل ازم، حُب الوطنی اور قومی سلامتی، ڈکٹیٹرشپ اور وار آن ٹیرازم (دہشت گردی کے خلاف جنگ)۔ اس کے علاوہ، وقت کے ساتھ ساتھ سماجی اور پیداواری نظام میں تبدیلی، سرمایہ داری کی تشکیل اور اس سے جُڑی ریاست کی ہئیت میں تبدیلی اور اپنی تاریخی ضروریات کے گرد آرٹ پالیسیوں میں تبدیلی سے ریاست اور آرٹ کے رشتے میں بھی اہم تبدیلیاں رونما ہو ئی ہیں۔ یہ رشتہ زیادہ تر مخاصمانہ، گٹھ جوڑ اور ساز باز پر ہی مبنی رہا، صرف ستر کی دہائی میں نسبتاََ بہتر رہا۔

: مخاصمانہ اور بیگانگی کا رشتہ

ریاست کا آرٹ کی طرف رویہ برطانوی سامراجی دور کے رویے کا تسلسل ہے، یعنی کہ سودیسی/قومی آرٹ کی طرف دشمنانہ اور خود تردیدی( پیرا ڈاکسیکل) رویہ رہا۔ تقسیم ہند کو جائز ثابت کرنے کے لئے، ایک طرف ہندوستان سے ثقافتی تاریخ جڑیں رکھنے کی نفی کے لئے اپنی ثقافتی تاریخ سے انکار کیا اور اسے مسخ کیا، اور دوسری طرف پاکستان کے اندر رہنے والی قوموں کی تہذیبوں اور ثقافتوں کے وجود سے ہی انکار کیا۔ جس کے نتیجے میں نئی ریاست کی طرف سے یہ رشتہ ’’مخاصمانہ‘‘ رہا۔ نا صرف فن اور فنکار بے بسی میں سسکتے رہے، بلکہ ہندوستان سے ورثے میں ملا آرٹ بھی مشکل میں رہا،  اور قومی ثقافتوں کی ترویج کو جبر سے روکا گیا۔ جس نے مقصدیت کے خلاء کو جنم۔ پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ کا اجراء پاکستان بننے کے دس سال بعد 1957ء میں کیا گیا، اور پہلا ایوارڈ 1958ء میں دیا گیا، اور ایوارڈ پانے والوں میں اکثریت اُن کی ہے جو سیاست اور ثقافت پر ریاستی بیانیے سے متفق  تھے۔ تاہم 1960ء کی دہائی میں ایئرمارشل نور خان نے اشرافیہ اور کارپوریٹ سیکٹر کی ضروریات پورا کرنے کے لئے “پی.آیٔ.اے اکیڈمی” بنائی جو آگے جا کر “نیشنل پرفارمنگ آرٹس گروپ” بنی۔ 1967ء میں پشاور میں اباسین آرٹس کونسل بنی۔

  تاریخی طور پر ساٹھ اور ستر کی دہائی ایک طرح سے فن اور فنکار کے لئے نسبتاََ بہتر دور تھا۔ مگر جلد ہی افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب ’’ثور انقلاب‘‘ کو گرانے کے لئے جنرل ضیاء کی قیادت میں لائی گئی ڈکٹیٹر شپ، اور امریکی سامراج کی سرپرستی میں افغان جہاد کے پس منظر میں اسلامائزیشن کے بعد آرٹ اور ریاست کا رشتہ باقاعدہ آرٹ دُشمنی میں بدلا۔ فن اور فنکاروں پر ملک تنگ کر دیا گیا، پشتون ثقافت پر حملہ کیا، فنکار مارے، سینما جلائے، فلموں کی سی ڈیز جلائے، اور ریاستی تحفظ میں گھروں کے اندر شادیوں میں قومی موسیقی اور رقص پر پابندی لگائی گئی۔  ثقافتی حبس کی وجہ سے عوام کا ستیاناس ہو گیا۔ ٹی وی پر فلموں اور ڈراموں کے بجائے کرکٹ اور مذہبی پروگراموں نے لے لی۔ نیٹ کیفے کی راتوں رات ترقی ہوئی، اور نوجوانوں نے ان کیفے کا رُخ کیا۔ مُلک میں سماجی و ثقافتی حبس کی وجہ سے آج پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ  پورن مواد سرچ کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف کولڈ وار کے لئے لائے گئے مارشل لاء، مذہبی انتہا پسندی اور انتہا پسند پدرشاہی، اور افغان جہاد دور سے اب تک جاری فن اور فنکار دشمنی نے ہمارے قومی فنی ورثوں کی بڑے پیمانے پر تباہی کی، جس کی تفصیلات اگلے سیکشن میں دی گئی ہیں، خاص طور پر آخری سیکشن میں۔

: تعاون کا رشتہ

 تعاون کا رشتہ:  تاریخ سے بیگانہ، ایک نئی جعلی شناخت کی تشکیل کے مسئلے سے دوچار، نئی ریاستِ پاکستان نے 60ء کی دہائی میں جبری ریاست سازی کے لئے آرٹ کا سہارا لینا شروع کیا۔  1964ء تا 1974ء کے دوران ٹی وی کے آنے سے آرٹ کی صنعت سازی اور کمرشلائزیشن کو تقویت ملی، اور یہ رشتہ ’’تعاون‘‘ میں بدلا۔ ریاستی سطح پر آرٹ سے متعلق ٹیکنالوجیکل ترقی پر توجہ دی گئی۔ 70ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں آرٹ کے فروغ اور ترویج کا کچھ فروغ ہوا۔ ٹی وی اور ریڈیو پر موسیقی اور رقص کی تعلیم، 1972ء میں نیشنل فلم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن (نیفڈیک)، 1973ء میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس  ( پی.این.سی .اے)، اور 1974ء میں لوک ورثہ جیسے ادارے بنائے گئے۔

: گٹھ جوڑ کا رشتہ: کارپوریٹ اور پروپیگنڈہ آرٹ

بیسویں صدی کے اواخر میں انفارمیشن ریولیوشن کے بعد ’بیانیے کی جنگ‘ کے پس منظر میں آرٹ کی بڑے پیمانے پر ملٹرائزیشن، پاکستان میں نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ کی جنگی اور کاروباری ضروریات پوری کرنے کے لئے فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے دور سے ہوئی۔ 2000ء کی دہائی میں جنرل مشرف نے ریاستی میڈیا کو ڈیموکریٹک اور سیکولر خطوط پر اُستوار کرنے کے بجائے، سرمایہ داروں کے ساتھ گٹھ جوڑ میں بڑے پیمانے نجی میڈیا کارپویشنز کے ذریعے نجی چینلز، اور کیبل نیٹ ورکس بنانے کی اجازت دی۔ افواج پاکستان کے نشریاتی ادارے ’ انٹر سروسز  پبلک ریلیشنز‘ (آئی.ایس.پی.آر) نے خود پروڈکشنز کیں۔ کارپوریٹ میڈیا کو بھی رائے سازی کے لئے اشتہاری مہم کے بڑے بڑے ٹھیکے دئیے۔ اور آرٹ ایک بہت بڑا بیوپار بنا، اور آرٹ اور ریاست کا رشتہ ’’گٹھ جوڑ‘‘ میں بدلا۔  بڑے شہروں میں فوجی رہائشی منصوبوں جیسے کہ ڈی.ایچ.اے اور بحریہ کے اندر اشرافیہ کے لئے سینی پلیکس سینما بنائے۔ اشرافیہ اور کارپوریٹ سیکٹر کی ضروریات پورا کرنے کے لئے کراچی میں ایک ٹریننگ اکیڈمی’’نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس‘‘ بنائی گئی۔

اور اب آخر میں، کارپوریٹ میڈیا ہاؤسز اور میوزک انڈسٹری کی سرمایہ دارانہ اور عسکریت پر مبنی ترقی نے کئی عوامل کو جنم دیا، جس نے عہدِ حاضر کے آرٹ اور انٹرینمنٹ انڈسٹری کو شکل دی۔ ریاست کی طرف سے عوامی خزانے سے بڑی بڑی اشتہاری رقوم دی گئیں، اور نیٹو کی پالیسیوں کو سپورٹ کرانے کے لئے غیرمُلکی فنڈنگ  بھی ملی۔ ان میڈیا ہاؤسز پر پاکستانی عسکری قوتوں کے ادارے آئی.ایس.پی.آر کا غلبہ ہے۔ جاگیردارانہ ثقافتی اقدار پر مبنی ڈرامہ اور فلم پروڈکشنز ہوتی ہیں، اور سرمایہ دارانہ پیداواری بنیادوں پر مبنی آرٹ کی اکثر شکلیں بھی ملٹرائز ہو چکی ہیں: جیسے کہ فلم، ڈرامہ، موسیقی، مصوری، مجسمہ سازی، فنِ تعمیر، گرافک آرٹ، اور اشتہار سازی وغیرہ۔

 سینما اور ڈرامہ بہت مؤثر میڈیم ہے، اور اسی لئے اسے سرمایہ داروں اور آئی.ایس.پی.آر نے بلا شرکت غیرے اپنے ہاتھوں میں رکھا ہوا ہے۔ یہ گٹھ جوڑ اور سازباز بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز اور آئی.ایس.پی.آر کے ساتھ مشترکہ پروڈکشنز، سرکاری اشتہاری  فنڈز، اور جنگی پروڈکشنز، اور آرٹ کی ملٹرائزیشن کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ موسیقی کے کنسرٹ، عوامی مقامات پر مجسمے، ڈرامہ، موسیقی، اشتہاری آرٹ سب ہی پر آئی.ایس.پی.آر کا غلبہ ہے۔ سنسر بورڈ میں مذہبی انتہا پسندوں اور آئی ایس پی آر کا عمل دخل بھی بڑھ گیا ہے، اس کی تازہ مثالیں سرمد کھوسٹ کی فلم ” زندگی تماشہ” پر پابندی، اور کیبل پر ہندوستانی فلمیں چلانے پر پابندی ہے۔۔اکثر فلموں، ڈراموں، اور مصوری سے انقلابی کردار، اور مزاحمتی سیاست غائب  ہیں۔  اکثر لوگ نیٹ فلیکس، اور دوسرے ویب ٹی وی پر چلے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مزاحمتی سیاست کے خلاف پروپگینڈہ، اور نیولبرل مارکیٹ کی اشتہاری ضرورتوں کے لئے گرافک آرٹس بھی بہت کمرشل ہو چکا ہے۔ ڈی.ایچ.اے اور بحریہ کے آتے ہی کنسٹرکشن انڈسٹری کی بُوم کے ساتھ ہر یونیورسٹی نے فنونِ تعمیر کے مضامین پڑھانے شروع کئے۔

جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے دور میں بڑے بڑے سرمایہ داروں اور پرنٹ میڈیا مالکان کو نجی چینل بنانے کے لائیسنس دئیے گئے۔ میڈیا کو انڈسٹری کا درجہ اور نیولبرل ساخت دی گئی، اور انہیں ’بیانیے کی جنگ‘ میں بھی شامل کیا گیا، بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ: بیانیے کی جنگ میں جنگ کا بیانیہ باقاعدہ شامل کیا گیا۔

انڈسٹری کو چلانے کے لئے لبرل سینما کی شروعات ہوئیں۔ ڈرامہ اور فلم انڈسٹری کی ضروریات پوی کرنے کے لئے کئی بڑی بڑی پرائیویٹ پروڈکشن اور انٹرٹینمنٹ کمپنیاں بھی بن گئیں، جسیے کہ ’سیونتھ سکائی انٹرٹینمنٹ‘۔ مین سٹریم فلمیں اور ڈرامے اب درمیانے طبقے کے لبرل ناظرین کے لئے بننی شروع ہوئیں۔ ان کے عنوان یکسانیت کے فلسفے کو ترجیح دیتے ہیں: بڑے شہروں میں رہتے ہوئے اشرافیہ یا درمیانے طبقے کے مسائل، اور ان کے خواب اور مقاصد بھی ایسے ہی پیش ہوتے ہیں۔ کسی فلم کی کہانی میں سیاسی سوال آتے بھی ہیں، تو وہ ایک لبرل انداز میں پیش کئے جاتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال 2023ء میں ریلیز کی گئی فلم “چکڑ“ ہے۔ اس فلم  کا موضوع  ہجوم کے ہاتھوں قتل و تشدد ہے۔ اس میں کافی کردار ایسے ہیں جو لبرل سماجی کارکن ہیں، مگر دوسری طرف اس کے مکالمے میں ہمارے معاشرے میں بھری ہوئی منافقت پر بس اشارتاََ تبصرہ ہے۔ فلم میں ہجوم کے خونخوار ہونے کی وجوہات پر کم بات ہوئی، جس کی جڑیں ریاستی سرپرستی میں نمو پانے والے منظم مذہبی جنونیت میں ہیں ،جو کہ ایک خاص قسم کے پدرشاہانہ جبر کو قائم کرتا ہے۔ شاید فلم چکڑ نے اس موضوع کو اتنی سچائی سے اس لئے پیش نہیں کیا کہ پھر پاکستان کا فلم سنسر بورڈ اس کو فلم ’’زندگی تماشا‘‘ (2019ء)  کی طرح سینما میں لگنے  ہی نہیں دیتا۔ فلم زندگی تماشہ کا موضوع ایک نعت خواں شخص کے ناچنے کی وِڈیو باہر نکلنے کا انجام ہے۔ فلم کی ریلیز پر پابندی لگا دی گئی، اور آخر کار اسے مجبوری میں’’یو ٹیوب“ پر ریلیز کیا گیا۔

فن اور فنکار: طبقہِ ممنوعہ  

ہاں ہم آرٹ کی تخلیق کے دوہرے کردار کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ جب یہ ریاست کے مفاد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، تو شخصیت پسندی کو تقویت دیتا ہے، اور طاقت کے ایوانوں کو قوت بخشتا ہے۔ تاہم، جب یہی آرٹ مزاحمت کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، تو یہ طاقتور اور جبر کے نظام پر سوال اٹھاتا ہے، تو فنکار کو تنقیدی تخلیق کی اجازت نہیں ملتی۔

 حب الوطنی اور ریاست سے وفاداری کے جذبات کو بڑھاوا دینے کے نام پر بہت سارے موسیقاروں کو بھی، ’گزارش‘ کی جاتی رہتی ہے کہ وہ فوج اور ریاست پہ جاں نثاری کی دھنیں گائیں اور پروگرام کریں، چاہے وہ میڈم نورجہاں ہوں، یا حالیہ دور کے فنکار اور گلوکار ہوں۔ ہم نے ایک گلوکارہ رابی پیرزادہ کی عوامی رُسوائی کا مشاہدہ بھی کیا، جب انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں آئی.ایس.پی.آر  کے ڈائریکٹر جنرل اور آئی .یس.پی.آر کی اِنوسٹمنٹ سے چلنے والی فلم  ’’کاف کنگنا‘‘  کے ’محب وطن  آئٹم سانگ‘ پر سوالات  اٹھائے۔ انڈین سینما میں آئٹم سانگ فلم کو مارکیٹ کرنے لئے اُس ڈانس اور گانے کو کہتے ہیں، جس میں دِل کش، پُرجوش، اور اکثر جنسی طور پر اشتعال انگیز عورت کے ڈانس کی ترتیب ہو۔

 ہمارے سماج میں کاریگر اور فنکار کو تاریخی طور پر’’کمی‘‘  اور ’’میراثی‘‘ کا طبقاتی لقب ملا ہے- اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ مین سٹریم میڈیا میں صرف کچھ مخصوص قسم کے فنون کو اجازت ہوتی ہے، اور جو لوگ اس کی حدود سے باہر فنی تخلیق میں مصروف ہیں، ان کو بہت زیادہ مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہی مخصوص حالات کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کے فنکار باقی دنیا کے فنکاروں کی طرح اپنی مرضی سے آرٹسٹ مشکل سے بن سکتے ہیں۔ یہاں ذات پات کے ظالمانہ نظام کی وجہ سے فنکار کے گھر میں فنکار ہی پیدا ہوتے ہیں، کیونکہ فنکاری ’نیچ ذاتوں‘  کا پیشہ تصور کیا جاتا ہے اور فنکار ’کمی‘، میراثی کہلاتے ہیں۔ اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والے شوقیہ فنکار اپنے طبقے کے زور پر سماجی رُتبہ بناتے ہیں، مگر محنت کش طبقے کے فنکار نہیں۔

خواتین اور خواجہ سرا فنکاروں کا معاملہ اس سے بھی زیادہ خراب ہے، مثال کے طور پر پنجاب کے شہروں اور قصبوں میں ان کے پاس ’سٹیج ڈانس‘  آمدنی اور شہرت کا واحد ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ نازک اناء اور پُرتشدد رجحانات رکھنے والے مردوں کے ہاتھوں مارے جانے والی خواتین اور خواجہ سرا گائیک اور رقاصاؤں کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر پختونخوا میں۔ خواتین فنکاروں کا کردار تک مشکوک سمجھا جاتا ہے، کہ عورت کا فنکار ہونا ہی پدر شاہی ضابطوں کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔  پدر شاہی کی سخت اور جابرانہ شکلوں کی وجہ سے اکثر علاقوں میں عورت سے مماثلت رکھنے والے نوجوان لڑکوں، یا خواجہ سرا کو عورت کے کردار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ فنکار عورتوں کو فیملی بنانے میں شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اکثر فنکاروں کو شادی کے بعد آرٹ ترک کرنا پڑتا ہے، یا اُنہیں فن کے میدان سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ پدر شاہانہ خاندان اور آرٹ، خاص طور پر پرفورمنگ آرٹ اکٹھے نہیں چل سکتے، اسی وجہ سے فنکاروں کی شادیاں بھی بار بار ٹوٹ جاتیں ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کی سرپرستی میں معاشرے میں پرورش پانے والی مذہبی انتہا پسندی، ثقافتی قدامت پرستی اور پُرتشدد پدر شاہی کی وجہ سے فن اور فنکار دونوں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ثور انقلاب پر سامراجی حملے اور پراجیکٹ جہاد کے وقت افغانستان اور پختونخوا میں سینما گھر جلائے گئے، ٹی وی سیٹ سڑکوں پر جلائے گئے۔کابل ٹی وی کی آرکائیوز کو تباہ کیا گیا۔ بامیان اور سوات میں بُدھ کے مجسموں اور سٹوپہ تباہ کیے گئے۔پاکستان بھر میں ہندو مندروں میں مورتیوں کو توڑا گیا۔ سینماؤں اور موسیقی کی ’سی ڈیز‘ کی  دُکانوں پر بموں سے حملے کئے گئے، اور آگ لگا کر خاکستر کیا گیا۔ پشاور اور کراچی میں ستمبر 2012ء میں چھ بڑے سینما گھر جلائے گئے۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ فروری 2014ء میں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران پشاور میں شمع سینما اور پکچر ہاؤس سینما پر بم دھماکوں میں 20 فلم بین مارے گئے، اور 54 سے زیادہ  شدید زخمی  ہوئے۔ پچھلے 15 سالوں میں پشاور میں 6  تاریخی سینما گرائے گئے۔ نیفڈیک اور اس کے سارے سینما بند کر دے گئے۔ پشاور میں اباسین آرٹس کونسل کئی عرصہ بند رہی۔ بہت سارے فنکاروں کو افغانستان اور پاکستان سے بھاگ کر غیر ممالک میں پناہ لینی پڑی۔ فوک آرٹ بھی اس کے زد میں آیا۔ عورتوں اور مردوں کی میدانی مجلس (لوک محفل موسیقی اور رقص) ختم کر دی گئی، شادیوں اور دوسرے تقریبات میں ڈھول بجانے پر پابندی لگائی گئی اور ’’سادگی سے شادی‘‘ یعنی قومی آرٹ کے بغیر سماجی زندگی کا تصور لایا گیا۔ وہ گاؤں، جہاں عورتیں عید پر میدانی میلے کرتی تھیں، ڈھول بجاتی تھیں، اور اپنے قومی رقص کرتی تھیں، وہ سب تبلیغی مراکز اور طالبان کے گروپس نے بند کرا دیئے۔ اور آج تک پختونخوا میں خواتین اور خواجہ سرا فنکاروں کا قتل عام جاری ہے۔ کوہستان کی خواتین کی کہانی سب کو یاد ہے، جنہیں صرف تالیاں بجانے، گانے اور مبینہ طور پر ناچنے کی وڈیو پبلک ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا اور جرنلسٹ  افضل کوہستانی بھی کو مار دیا گیا جو ان عورتوں کے قتل کو منظرِ عام پر لایا تھا۔

قدامت پسندی ’ہماری ثقافت‘ ہے، کا جھوٹا تصور سماج میں پھیلا یا گیا ہے۔ یہ رائج بیانیہ صرف میڈیا  ہی کے ذریعے فروغ نہیں پایا بلکہ ریاست کے منظور کردہ نصابِ تعلیم کے ذریعے بھی پھیلایا، جس میں سکھایا گیا کہ ریاست کی بتائی ہوئی تعریف سے باہر کوئی شناخت، ثقافت، اور آرٹ نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی  کے بعد ریاست اور فوج کے لئے ’محبِ وطن‘ شہری پیدا کرنے کے کام نے بھی تیزی پکڑی۔ امریکہ کے افغانستان پر حملے اور 2014-2002ء کے درمیان افغانستان میں لڑی جانے والی والی جنگوں کے دوران بڑے پیمانے پر کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے حُب الوطنی اور قدامت پرستی کے نظریات کو مزید تقویت ملی

آرٹ کی ملٹرائزیشن اور وقار کے نشان

  ملک پاکستان کی چھاؤنیوں میں اور شہر کے چوراہوں پر آرٹ کے جو نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں انہیں دیکھ کر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا جمالیاتی اور سیاسی طور پر آرٹ کی اس سے بھی بدتر شکل ہو سکتی ہے؟ اور اوپر سے شہروں کے بیچوں بیچ عوامی مقامات  پر مزائیلوں کے یادگار مجسمے اور جنگی جہازوں کی تنصیبات لگی ہوئیں ہیں۔

جنگ آزادی 1857ء کے بعد برطانوی راج نے ہندوستان میں علامت نگاری اور طاقت کی نمائش میں نمایاں طور پر اضافہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغلیہ طرز کے دربار بھی  سجائے گئے (نیر: 2012)۔7 برطانوی راج کے بعد، اس نوآبادیاتی علامت نگاری کا بیشتر حصہ پاکستانی ریاست کو وراثت میں ملا، چاہے وہ وردی پر بیلے ہوں، رجمنٹس کی دیواریں پر، توپ خانے یا اسلحے کے کارخانوں پر مخصوص فوجی نشان ہوں، کہ میزائلوں، ٹینکوں، جیٹ طیاروں، جنگی حالات کی عکاسی کرتے سپاہیوں کے لشکروں کے مجسمے ہوں، کو آرٹ کے شاہکار نمونوں کے طور پر دکھایا جانا مقصود ہے۔ آج بھی جاگیردارنہ اور سرمایہ دارانہ دونوں ثقافتوں میں ڈرائنگ رومز اور ڈیروں کی دیواروں پر تلواریں، پستولیں، ڈبوں میں بند فینسی چھرے، بندوقیں اور شکار کئے گئے جنگلی جانوروں کے حنوط شدہ سر نصب ہیں۔

آرٹ کی مزید ملٹرائزیشن اور افغان جہاد کے پس منظر میں عربوں کے نئے ثقافتی غلبے کے نتیجے میں پاکستان کی ثقافت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ وقار کے نشان کے طور پر چھوٹے بچوں کو جس طرح کے نمائشی کپڑے پہنائے جاتے ہیں، خاص طور پر چھوٹے لڑکوں کو فوجی وردیاں پہنائی جاتی ہیں اور لڑکیوں کو گڑیا کی طرح سنوارا جاتا ہے، پھر سعودی حجاب میں ملبوس کیا جاتا ہے، یہ سب ریاستی سرپرستی میں فروغ پانے والے عسکری اور مذہب پرست ثقافتی اور فنکارانہ تخلیق کے مضر اثرات ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اسی سماج میں وہ رواج جو جاگیرداری اور متشدد پدرشاہی کے روایات ہیں، جن میں سے کئی اسلامی قانون کے بھی منافی ہیں، پر یہاں نہ صرف عمل کیا جاتا ہے، بلکہ مقدس مقام رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح طور پر نظر آتی ہے کہ پدر شاہانہ صنفی تقسیمِ کو آرٹ (بصری، سمعی یا نمائشی آرٹ) کے ذریعے مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نوآبادیاتی اور مذہبی آرٹ ان کے ذریعے ترویج پانے والی طرز زندگی اور طرزِ فکر کی ایک اور شکل میں بڑے پیمانے پہ بکنے والا آرٹ، ڈرامے ہیں۔ اس طرح جمالیت، اخلاقیات اور آرٹ کو نہ صرف ملٹرائز کیا گیا بلکہ اسلامائز بھی کیا گیا، اور جمالیات اور اخلاقیات بھی ایک دوسرے کے شدید تضاد میں آئے۔

 سب سے زیادہ بُرا تو فنِ مصوری کے ساتھ ہوا۔ بہترین فن پارے طاقت کے ایوانوں، فوجی اکیڈمیوں اور عجائب گھروں، صدارتی محل، گورنر ہاوؑسز، فارن آفس، چیف منسٹر ہاوؑسز، اسمبلیوں میں ان اداروں کا وقار بلند کرنے کے لئے سجائے گئے، جو پبلک کے لئے بند ہیں  (مرزا: 2019ء)۔8 یہ ایک شرمناک بات ہے کہ پبلک کولیکشن بالکل بھی پبلک نہیں ہے۔ اکثر مصوروں کو مسلم لیگیوں، فوجی جنگیں لڑنے والے جرنیلیوں، اور فوجی آمروں کے ہی پورٹریٹ بنانے پڑتے ہیں، کہ سرکار زیادہ تر وہی خریدتی ہے۔ کسی بھی پبلک مقام پر یہاں بسنے والی محکوم قوموں کے ہیروز کی پورٹریٹ تو دور کی بات ہے، حتیٰ کہ پنجابی ہیرو بھگت سنگھ کی بھی نہیں، جس نے برطانوی سامراج سے آزادی کی تحریک میں جان دی۔

آرٹ پر عہدِحاضر کے مشہور مفکر اور تخلیق کار ’جان برجر‘ اپنی ڈاکومینٹری سیریز اور کتاب ’’ویز آف سیئنگ‘‘ میں آرٹ کے ذریعے دولت اور طاقت کی نمائش، آرٹ کی مالیت اور قوتِِ خرید کے درمیان باہمی رشتے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’آئل پینٹنگ کسی بھی چیز سے پہلے نجی ملکیت کا جشن تھا۔ ایک آرٹ فارم کے طور پر یہ اس اُصول سے ماخوذ ہے، کہ آپ وہی ہیں، جو کچھ آپ کے پاس ہے…..آئل پینٹنگز اکثر چیزوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ وہ چیزیں جو حقیقت میں خریدی جا سکتی ہیں۔ کسی چیز کو پینٹ کر کے کینوس پر لگانا اسے خریدنے اور اپنے گھر میں رکھنے کے مترادف نہیں ہے۔ اگر آپ پینٹنگ خریدتے ہیں تو آپ اس چیز کی شکل بھی خریدتے ہیں جس کی وہ نمائندگی کرتی ہے‘‘9۔

ٹی وی ڈرامہ اور ترغیب

 ڈرامہ، آرٹ کی ایک پُراثر شکل، جس کی ٹیلیویژن کے ذریعے تشہیر کی جاتی ہے، پاکستان کی شہری آبادی میں بہت مقبول ہے۔ اگرچہ ان ڈراموں کی اکثریت کو ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ٹیلیویژن نیٹ ورک (جو دوسری طرف مصالحہ دار خبروں کے بیوپاری ہیں) بنواتے ہیں، لیکن ان ڈراموں کی ایک بڑی تعداد  فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے پیسوں پر بھی بنائے جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال پچھلی چار دہائیوں سے چلنے والے سیکوئیل ڈراموں کا تسلسل ہے، جیسے کہ: سُنہرے دن، لفا، براوو، چارلی، اور عہدِ وفا (شاہجہان اور سید:2024ء)۔10 آئی.یس.پی.آر آرٹ کا ایک بڑا پروڈکشن ہاؤس ہے، مہنگے بجٹ کی فلموں، نمائشوں اور تہواروں کے انعقاد، اور ہر موقع پر فوجی بالادستی کے حق میں رائے سازی کے لئے ترانے اور اشتہار بازی کے لئے بھی بڑی بڑی رقوم فراہم کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیلیویژن اور تشہیری صنعت پر کروڑوں روپے لگانے کا مقصد آرٹ کی ان نمونوں کی مدد سے پاکستان کا ”نرم چہرہ“ دکھایا جائے۔ جو بات نہیں بتائی جاتی وہ یہ ہے کہ ان ڈراموں اور فلموں کا مقصد، دقیانوسی تصورات سے تراشے گئے متوسط طبقے کی عورت کے تصور کو معاشرے میں تقویت بخشنا  ہے۔  ریاست کی نظر میں ’اچھی عورت‘، ’بری عورت‘، ماں، ساس، بہن کے کردار پدر شاہی کے ترازو میں تول کر بنائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ‘ مثالی مرد’ کا نمونہ ، جناح کی شیروانی اور پنجابی کُلا  پہنے دُلہے، اور غرارے اور لہنگے پہنے دُلہنوں کو بھی ہمارے اجتماعی سماجی اور ثقافتی تصور میں ٹھونسا جاتا ہے۔

  اداکار کو کسی بھی قیمت پر شہرت حاصل کرنے کے تربیت دی جاتی ہے۔ کوئی اداکار، ایک بار ٹیلیویژن  یا فلم کے شعبے میں مشہور ہو جائے تو اس کو پُرکشش مراعات کی مدد سے راغب کیا جاتا ہے، اور فوج کے غالب نکتہ نظر اور کارپوریٹ سیکٹر کی اشتہاربازی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کہ اگر وہ برانڈ ایمبیسڈر بننا چاہتے ہیں تو اس صورت میں، اُنھیں ایسے معاہدوں کی پیشکش کی جاتی ہے جہاں وہ حقیقتاً اپنی سیاسی وابستگیوں سے دستبرداری کے معاہدوں پہ دستخط کرتے ہیں، اور معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں  سزائیں دی جاتی ہیں۔

آرٹ، تاریخ اور قوموں کی شناخت

آرٹ کو پاکستان میں بسنے والی اقوام کی تاریخ اور شناخت مسخ کرنے کے لئے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان بننے کے بعد، ریاست نے مملکت پاکستان کو ایک کثیرالقومی ملک تسلیم نہیں کیا، نہ ہی یہاں بسنے والی قوموں کی اپنی اپنی قومی، تہذہبی، ثقافتی اورفنی تاریخ کو تسلیم کیا۔ اور نہ ہی ان کے تہذیبی ورثے جیسے کہ موئنجو دڑو تہذیب، مہر گڑھ ،امری نل اور کُلی و زھوب تہذیب، سوانی اور ہڑپہ تہذیب، آریہ تہذیب اور گندھارا آرٹ (حسن: 2009ء)۔11  ان کو قوموں کا قومی ثقافتی اور فنی ورثہ مانا جاتا ہے۔ ان کے نام پر چین اور جاپان سے ان کی بحالی کے نام پر فنڈ ضرور لئے گئے، مگر ان کو پاکستان کی تاریخ اور ہم عصر آرٹ سے غائب کر دیا گیا ہے۔

ہندوستانی تہذیبوں کو اپنی تاریخ کا حصہ تسلیم نہ کیا، اور اسے” ثقافتی حملہ” کہا۔ تاریخ کا آغاز ایک حملہ آور محمد بن قاسم سے کیا، اور پاکستان کی اندر قوموں کے ہیروز، اور انقلابی کرداروں کو آرٹ اور تاریخ میں جگہ ہی نہیں دی۔ اس کے باوجود کہ پاکستان ایک کثیرالقومی، کثیرالثانی اور کثیرالثقاتی مُلک ہے، مگر ثقافت اور آرٹ کا ایک ’’وحدانی تصور‘‘ جبراََ نافذ کیا، کہ ہماری ’’ایک‘‘ ہی ثقافت ہے اور وہ ’’پاکستانی‘‘ ہے۔ اُردو اور پنجابی ثقافت کے غلبے کے ذریعے باقی قوموں سے اپنی زبان اور فنی اظہار کا حق بھی چھینا گیا۔ ابھی تک قومی زبانوں کو ’’علاقائی زبانیں‘‘ کہا جا رہا ہے اور انکو قومی زبانیں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ قومی رقص جیسے کہ اتنڑ، جھومر، چاپ، لُڈی، دھمال کو قومی ڈانس کے بجائے ’’فوک ڈانس‘‘ کہا جاتا ہے۔  پشتون سماج پر ڈرامے اب بھی ڈرامے اُردو زبان میں بنتے ہیں، جس میں پشتو لہجے اور زبان کے مسخ شدہ ادائیگی کی جاتی ہے، اور اسی طرح محکوم قوموں کی باقی زبانوں کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے۔

اُردو ڈرامے کو خاص طور پر قومی زبانوں کو کُچلنے، اور اُردو کو رائج کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ قومی زبانوں (پشتو، بلوچی، سندھی، سرائیکی اور پنجابی) میں ڈرامے بنانے کے بجائے، بڑے چینلز کے سب ہی ڈرامے اُردو زبان میں ہوتے ہیں، جن میں قومی زبانوں کے مسخ شدہ لہجوں میں اُردو بولی جاتی ہے، خاص طور پر پشتو لہجے میں۔ قوموں کی ثقافت اور آرٹ کو پسماندہ اور بھونڈا دکھایا جاتا ہے، وہ بھی اکثر بندوقوں والے کردار، اور عورت پر مظالم کرنے والے کردار، چوکیدار، اور ٹرانسپورٹر کے کرداروں میں۔

پاکستان کی ریاست آج بھی سماج کی ثقافتی اور فنی تاریخ کی جڑیں کبھی عربی، اور کبھی تُرکش ثقافت میں عوام کو باور کروا رہی ہے۔ حال ہی میں ریاستی ٹی وی پر ترکی جنگجو سیریز ارتغرل کا ڈرامہ چلایا گیا اور وزیرِاعظم عمران خان نے خود اس کے تشہری پیغامات میں حصہ لیا تھا۔ اور ساتھ ہی ’ریاست مدینہ‘ کا خلائی تصور ان کے نیولبرل مارکیٹ اکانومی کو ’اسلامک ٹچ‘ کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ اس سے پہلے سلطنت عثمانیہ کے دسویں اور سب سے طاقتور سلطان سلیمان کے جلال و جمال اور داستان حرم پر مبنی سوپ اوپرا سیریز ”میرا سلطان“ جیو ٹی وی پر چلایا گیا۔ اس سیریز میں ملبوسات اور زیورات سے لدی حرم میں موجود سلاطین کی ملکائیں اور کنیزیں سلطان کے ساتھ ایک رات بسر کرنے کے لئے ایک دوسرے کا مقابلہ کرتی دکھائی گئیں۔ اس ڈرامے نے پاکستان میں فیشن پر اثر ڈالا اور سب قوموں کے قومی لباسوں کو متاثر کیا۔ اس طرح اس ملغوبے کے ذریعے ہماری اپنی قومی وحدتوں، قومی تاریخوں، تہذیبوں اور ثقافتوں سے اُٹھے آرٹ کو مسخ کیا گیا۔

اگرغلطی سے محکوم قوموں اور زیرِ عتاب مذاہب اور فِرقوں کا کوئی آرٹ فارم ریاستی سطح پر سپورٹ بھی کیا تو وہ بھی ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘، یا جبری ایکتا کے تصور کو آگے بڑھانے کے لئے ’جبری ریاست سازی‘ کے لئے آرٹ کو استعمال کیا۔ اکثر ڈرامے نا صرف اُردو میں ہوتے ہیں، بلکہ ڈراموں اور اشتہاروں میں ’مہذب خاندان‘  اُردو سپیکنگ ہوتے ہیں، اور اکثر اُردو بولنے والوں کی ثقافت ہی کو ’پاکستانی اور مسلم‘  تہذیب و ثقافت کو دکھایا جاتا ہے۔ پشتو، سندھی، بلوچی، سرائیکی، اور پنجابی زبان میں کی گئی تخلیقات، یا ان قوموں سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کی تخلیقات بمشکل آرٹ کے سنٹر سٹیج تک پہنچ پاتی ہیں۔1947ء سے 2007ء تک سینما کا مرکز لاہور رہا، مگر پرائیویٹ میڈیا ہاؤسز کے بننے کے بعد کراچی بھی مرکز بن چکا ہے۔ آج بھی محکوم قوموں کے فنکاروں کو سنٹر سٹیج تک پہنچنے کے لئے کراچی یا لاہور منتقل ہونا پڑتا ہے۔ پشتو کی فلمیں آج تک لاہور میں بنتی ہیں۔

 محکوم قوموں کے ثقافتی اور فنی اظہار پر پابندیاں ہی رہیں، حتیٰ کہ یونیورسٹیوں میں اجرک پر پابندی لگائی گئی۔ پشتون طلباء کو اپنا قومی رقص ’اتنڑ‘ کرنے کی سزا میں پنجاب اور اسلام آباد میں جمیعت کے ذریعے سے پُرتشدد حملے کرائے گئے۔ چیک پوسٹوں پر بلوچوں کی شلواروں کے گھیروں کو قینچیوں سے کاٹا گیا۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں ہندوؤں کے تہوار ’’ہولی‘‘  کو منانے پر پابندی لگائی گئی۔ آج پاکستان میں بسنے والی ایک قوم، اپنے ہی مُلک میں بسنے والی دوسری قوم کے گیت، ناچ، مصوری اور شاعری کی بنیادی معلومات تو کیا، اہم شہروں کے نام، فنکاروں اور ادیبوں کے نام، مشہور تخلیقات، اور تاریخ  تک نہیں جانتے۔ حتٰی کہ قوموں کو جبری قوم سازی پر مبنی زبان، نظریات، ثقافت اور آرٹ کے ذریعے خود انہی کی اپنی تاریخ، ثقافت اور آرٹ سے بیگانہ کیا جا رہا  ہے!۔

آرٹ اور تعلیم

آرٹ، سائنس اور ٹیکنالوجی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ ایک دوسرے سے تقویت اور نمو پاتے ہیں، اور ایک دوسرے میں جیتے ہیں۔ عمومی طور پر ایک تھیوکریٹک ریاست ہونے کے ناطے، آر ٹ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم و فروغ تو درکنار، پاکستان کی ریاست اور سماج کا رویہ بھی آرٹ اور سائنس مخالف ہی رہا، کیونکہ آرٹ اور سائنس پرانے سماجی رشتوں، مذہبی انتہا پسندی اور ثقافتی قدامت پرستی کے آگ کے لئے پانی کی حیثیت رکھتے ہیں ہے۔ جدید سائنس اور ترقی پسند آرٹ پرانے قبائلی و جاگیردارانہ سماجی اور پیداواری رشتوں میں انقلابی تبدیلی کی راہیں کھولتے ہیں۔ پاکستان کی ریاست نے ایک طرف آرٹ اور سائنس کے مضامین کے درمیان علمی لکیر کھنچ دی، تو دوسری طرف دونوں کو تعلیم میں ضمنی حیثیت دی۔ اوپر سے پرفارمنگ آرٹس کو تعلیم کا حصہ نہیں بنایا۔  ثقافتی اور ریاستی پابندیوں سے آرٹ کی ارتقاء اور بالیدگی، تعلیم و ترویج بہت کم رفتار اور بے ہنگم رہی ہے۔

آج بھی پورے پاکستان میں پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر میں ایک بھی آرٹ یونیورسٹی نہیں ہے، جو آرٹ پر پی ایچ ڈی پروگرام رکھتی ہو۔ ایک آرٹ کالج ہے (نیشنل کالج آف آرٹس)، اور یا چند ایک بڑی یونیورسٹیوں میں فائن آرٹ ڈیپارٹمنٹس ہیں، جہاں زیادہ تر مصوری، فلم پروڈکش، گرافک ڈیزاننگ اور ٹیکسٹائل ڈیزائننگ، فنِ تعمیر پر گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ پروگرام ہیں (ماسوائے این سی اے کے، جہاں میوزیکالوجی پڑھائی جاتی ہے)۔ این سی اے بھی  لاہور میں وائسرائے لارڈ میو نے 1875ء میں ’’میو سکول آف انڈسٹریل آرٹس‘‘ کے نام سے بنایا تھا اور 1956ء میں برٹش ڈومینین سے آزادی کے بعد اسے 1958ء میں نیشنل کالج آف آرٹ کا نام دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ریاست نے کھبی خود کوئی آرٹ یونیورسٹی نہیں بنائی، اور سالوں سے این سی اے کو چارٹرڈ یونیورسٹی کا معاملہ بھی صدر پاکستان کے دفتر میں پھنسا ہوا ہے۔ دوسری طرف تمام بڑی پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں اسلامک سٹڈیز، اُردو، اور مطالعہ پاکستان (ان تین مضامین کے اوپر ریاست کی نظریاتی اور سیاسی بنیادیں کھڑی ہیں) میں پی ایچ ڈی پروگرام آفر کر رہی ہیں، حتیٰ کہ پاکستان میں انجنیئرنگ کی سب سے بڑی  یونیورسٹی ’یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی‘، لاہور بھی اسلامک سٹڈیز میں پی ایچ ڈی پروگرام رکھتی ہے۔

مشرف دور میں ففتھ جنریشن وار فیئیر کے منصوبے کےتحت نجی ٹی وی چینلوں کے اجراء کے بعد، ان کی کاروباری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا)  2005ء میں بنائی گئی، مگر وہ بھی میوزک اور تھیٹر میں ڈپلومہ دیتا ہے، اور ڈانس اس کے پروگرام میں شامل نہیں ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش کو آزاد ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے، مگر سیکولر ریاست ہونے کی وجہ سے وہاں آرٹ کی تعلیم کافی ترقی کر رہا ہے۔ کئی یونیورسٹیاں آرٹ میں اعلیٰ تعلیم دے رہی ہیں، بشمول تھیٹر، موسیقی، مجسمہ سازی، مصوری، فیشن، فلم ینڈ ٹیلی وژن، ڈیزائننگ، اورینٹل آرٹ اور پرنٹ میکنگ، سرامکس، ڈانس، فن تعمیر اور ہسٹری آف آرٹ میں بی اے، ماسٹرز، ایم فل .اور پی ایچ ڈی کے پروگراموں کے۔ صرف ڈھاکہ شہر میں دسیوں ڈانس اور میوزک اکیڈمیاں ہیں، جہاں سے ہزاروں طلباء و طالبات ہر سال گریجویٹ کرتے ہیں (اراج:2020ء،اور سہانا: 2020ء)12 13 ۔

  عمومی طور پر پاکستان کے پورے ریاستی تعلیمی نظام میں پرائمری سے اعلیٰ تعلیم تک میں، پرفارمنگ آرٹ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ یہ مضامین اسلامی ریاست کی نظریاتی سرحدات کے حدود کے اُس پار کے مضامین ہیں:  جیسے کہ موسیقی، مصوری، صنم تراشی، رقص اور ڈرامہ/تھیٹر، نقش نگاری۔ سرکاری سکولوں میں جو آرٹ پڑھایا جاتا ہے، وہ تھوڑی بہت ڈرائنگ تک محدود ہے۔ آرٹ میں دلچسپی رکھنے والے لوگ، انفرادی استادوں اور چھوٹے چھوٹے پرائیویٹ سنٹرز سے اپنے خرچے پر تعلیم لیتے ہیں۔ ٹی وی پر ڈانس اور گانے کی تعلیم ضیاء کے اسلامائزیشن کے دور سے آج تک بند ہے۔ مگر فلم، ڈرا مہ اور اشتہار بازی کی انڈسٹری کی ضرورتوں کو پورا کرانے کے لئے”ٹیلنٹ ہنٹ” کے لئے کچھ مقابلے ضرور کرائے جاتے ہیں۔ مگر سماج میں ڈانس اور گانا ہوتا ہے: سٹیج پر، ٹی وی پر، فلم میں، تھیٹر میں، مُجروں میں، شادیوں میں، ڈیروں پر، پارٹیوں میں، اور فیملی تقریبات میں۔ ہماری نظر میں آرٹ سماج کا ضروری جزو ہے، اس کا فروغ اور تعلیم ضروری ہے، ورنہ یہ بے سمت، بے ہنگم، اور منفی انداز میں استعمال ہوتا ہے۔

  آرٹ کے فروغ کے لئے پاکستان میں پبلک سیکٹر میں چند شہروں میں آرٹ سنٹر ہے، خاص طور پر دارلخلافوں میں ان مراکز میں زیادہ تر تھیٹر، موسیقی کے کنسرٹ، اور مصوری کی نمائشیں ہوتی ہیں۔ اطراف کے فنکاروں کے لئے کوئی بندوبست نہیں ہے۔ عمومی تعلیمی نظام سے آرٹ کی بےدخلی کی وجہ سے فنکاروں کو ملازمتیں بھی میسر نہیں ہیں، اور بڑے بڑے فنکار استاد اور ادیب غربت میں سسک سسک کر مر جاتے ہیں۔

آرٹ برائے آرٹ /سوشل میڈیا کی چمک

یہاں ”آرٹ برائے آرٹ” کی عملی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ گھٹن زدہ سماجی منظر نامے میں افراد آرٹ کو کتھارسس یا اظہار رائے کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہ عمل ان افراد کی  نفسیاتی تھیراپی کا وسیلہ  بنتا ہے، اور  انسان دشمن  معاشرے  میں جینے میں مدد کرتا ہے۔ تاہم محنت کشوں اور پسے ہوئے گروہوں کے حالات زندگی کو تبدیل کرنے میں، آرٹ کے اس کردار کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے، کیونکہ آرٹ ذاتی نوعیت کا عمل ہے اور اسے اپنانا صرف ایک خاص طبقے کے افراد کے لئے ہی ممکن ہے، جو کافی سارا وقت ریاضت کے لئے دے سکتے ہیں۔ ہاں البتہ فوک آرٹ بغیر ریاضت کے سینہ بہ سینہ روزمرہ کی طرز زندگی کے طور پر منتقل ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا کی لت نے، اور آج کل کے بیہودہ اور ’برائے فروخت‘ آرٹ کو بڑے  پیمانے پر تخلیق  نے عوام کو تنقیدی سوچ اور سمجھ کی آزادی سے محروم کر دیا ہے۔ پرویز مشرف کی آمریت میں کارپوریٹ میڈیا  کو پروان چڑھایا گیا، بہت سے ٹی وی چینل کھلے، جہاں ریئلٹی شوز، ایوارڈ شوز، طرز زندگی کی نمائشیں، فیشن میگزین اور ان جیسے دوسرے پروگراموں کو بطور ’تفریح‘ کی جگہ دی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ کارپوریشنوں نے بڑے پیمانے پر تقریباً مکمل طور پر آرٹ کو خرید لیا ہے۔

مالی اشتراک، اشتہارات اور مہمات میں فیمنزم اور سماجی مساوات کا  بھی سہارا لیتے اور ان سے منافع کماتے دیکھتے ہیں۔ اس نوعیت کے آرٹ کی کچھ اقسام خواتین کو ایک نمائش کی شے کے طور پر پیش کرتی ہیں تا کہ وہ  اس کا زیادہ سے زیادہ معاشی فائدہ اٹھا سکیں۔ ’تفریح‘ کے حصول کی اس دوڑ میں آرٹ اور خواتین شروع سے آخر تک جڑے ہوئے ہیں۔ استحصال کی کئی صورتیں ہیں، متبادل بیانیہ کی تلاش میں نکلے آرٹ کے ناظرین یا صارفین کا استحصال، یا اس کے ذریعے نمائش کے شے بننے والی خواتین/فنکار کا استحصال، یا چاہے آرٹ کا اپنا استحصال۔

آرٹ برائے آرٹ کی ایک بڑی شکل ٹک ٹاک جیسے ایپ ہے، جس کے ذریعے عوام بھی اب اپنے فن اور رائے کا اظہار کر سکتی ہے۔ شاید کچھ ہی تجزیہ کار ہوں گے جنہیں ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارم کی طاقت کا اندازہ تھا۔ سیاچن سے لے کر پشین تک ٹک ٹاک کے ’’کانٹینٹ کرییٹر‘‘ ہیں، ان میں ہر عمر، جنس، قوم کے صارفین ہیں۔ ایک طرف ٹک ٹاک کے بہت ایسے ویڈیو ہیں، جو سیاسی موضوعات پر بنے ہیں اور دوسری طرف بےتحاشا ایسے ویڈیو ہیں جو ٹرینڈ یا فنکارانہ پیشکش ہیں۔

اِختتامی نُکات

ہماری نظر میں آرٹ، سماج اور سیاست کا رشتہ ایک جدلیاتی رشتہ ہے، جہاں کہ یہ مسلسل ایک دوسرے کو متاثر کرتے اور بدلتے رہتے ہیں، یعنی اگر آرٹ سماج کا اظہار ہے، تو یہ سماج اور سیاست پر اثر انداز بھی ہوتا ہے، اور سیاست اور سماج بھی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے کہ آرٹ کو بلا شرکت غیرے سویلین اور ملٹری حکمران طبقے، اور سرمایہ دارانہ، پدرشاہانہ، جنگجویانہ اور انتہا پسند مذہبی ریاست کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑا جا سکتا۔

پاکستان میں آرٹ اور ریاست و سماج کے رشتے کو نہ صرف دوبارہ سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے، بلکہ ترقی پسند بنیادوں پر تشکیل دینے کی شدید ضرورت ہے۔ اور یہ تشکیلِ نو اُس وقت  تک ممکن نہیں ہے جب تک پرانے استحصالی اور جابرانہ پیداواری اور سماجی رشتے توڑے نہ جائیں، جب تک عوام اور ریاست کے درمیان نیا عمرانی معاہدہ نہیں ہوتا،  سیکولر ڈیموکریٹک اصولوں پر مبنی سویلین عوامی جمہوری نظام کا قیام نہیں ہوتا، اور ہم  نوآبادتی تسلط اور قومی جبر سے آزاد نہیں ہوتے۔ اِس بنیادی تبدیلی کے لئے تنقیدی آرٹ اور عملی سیاسی جدوجہد ہی واحد رستہ ہے، جس کو تنقیدی سوچ رکھنے والے باشعور عوام اور فنکاروں نے اپنایا ہے۔


Referencs:

  1. Mujica Jose Pepe. (2018). El Pepe: A Supreme Life. Documentary by Emir Kisturiza. Netflix ↩︎
  2. Gramsci Antonio. (1971). Selections from the Prison Notebooks. New York: International Publishers ↩︎
  3. Azhar Aslam. (1986). آرٹ کا جدلیاتی تصور. Research Forum Publications, Matkaba-e-Danyal, Karachi ↩︎
  4. Rejimon P.K. . (2017) . Exploring Philosophyof Art in Indian Approach. International Journal of Research – Granthaalayah [Vol.5 (Iss.9): September,2017] ↩︎
  5. Kortright Chris ( 2003) .Colonization and Identity. The Anarchist Library. ↩︎
  6. Abu-Lughad. Laila. (2005). Dramas of Nationhood: The Politics of Television in Egypt. University of Chicago Press. ↩︎
  7. Nayar Pramod K.(2012). Colonial Voices: Colonial Voices: The Discourses of Empire. Wiley-Blackwell ↩︎
  8. Mirza Quddus. (December 22, 2019) Accessing Public Art. The News on Sunday ↩︎
  9. Berger John (1972). Ways of Seeing. BBC. and ways-of-seeing.com ↩︎
  10. Shahjahan Ismat and Syed, Tooba. پروپیگنڈا آرٹ: ڈرامہ سیریز ’’عہدِ وفا‘‘۔‘‘ . Narivaad . 20 January 2024. narivaad.com ↩︎
  11. Hassan, Sibt e . (2009). پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء. Maktaba-e-Danyal, Karachi ↩︎
  12. Iraj Sheikh. (22 June 2020).  Dance. The Independent. Bangladesh. ↩︎
  13. Sohana Shahi. (22 June 2020). Dance Courses in Dhaka. The Daily Star. ↩︎

One Response

  1. بہت زبردست ہے ۔ ہم ایک گھٹن زدہ معاشرہ ہے جس کا غالب حصہ اس گھٹن کو نارمل سمجھتا ہے کیونکہ دنیا ویسے بھی جیل خانہ اور مسافر خانہ ہے۔ اب جیل خانے اور مسافر خانے کو کون سجاتا ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .