تحریر: گُل رُخسار مُجاہد
تعارف
وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2020-2019ء جس کے لئے حکومت کا دعویٰ تھا کہ عوام دوست ہوگا اور غریبوں کے لئے معاشی بحالی کا باعث ہوگا۔ اس کے برعکس یہ ’ٹیکسوں والا بجٹ‘ غریب عوام کے لئے مہر کے بجائے قہر ثابت ہوا۔ جس کی وجہ سے مہنگائی اور مزید نئے ٹیکسوں کے ’بوجھ تلے‘ عوام کی حالت بد سے بد تر ہو جائے گی۔ اگر سوچا جائے کہ حالات اس سے بھی برے ہو سکتے تھے تو موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے اور اس کی پے در پے مایوس کن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ایسا ہونے کا بھی امکان کچھ غیر معمولی بات تو نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے وزیرِ مملکت برائے محصولات حماد اظہر نے اپنی حکومت کا پہلا سالانہ بجٹ پیش کیا۔70 کھرب 36 ارب روپے سے زائد حجم کے اس وفاقی بجٹ میں وفاقی ادارہ برائے ریونیو (ایف بی آر) کو ٹیکس وصولی کے لیے 5,550 ارب روپے اکٹھے کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ جس کے ذریعے حکومت 258ارب ایڈیشنل ریونیو کی مد میں اضافہ پہ عمل درآمد کرے گی۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے 1,863 ارب روپے کے مجموعی قومی ترقیاتی پروگرام کا اجراء کر دیا۔ یاد رہے کہ پی ایس ڈی پی کا بجٹ پچھلے سال 1,650ارب روپے تھا۔ بجٹ کے یہ بھاری بھرکم اعداد و شمار ملازمت پیشہ افراد، محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے مرد اور عورت کے لئے کیا معنی رکھتے ہیں، اس پر ایک تجزیاتی نظر ڈالتے ہیں: ۔
ایک تفصیلی مُطالِعہ میں جانے سے پہلے اس کی نشاندہی بیحد ضروری ہے کہ بجٹ کا ڈاکومنٹ محض ایک سرکاری اور قانونی اہمیت کا حامل ہے اور دراصل اعداد و شمار کے ذریعے ڈویلپمنٹ کے کھوکھلے دعوے کئے جاتے ہیں جو کہ حقیقت سے کافی دور ہوتے ہیں۔ بجٹ کے بارے میں بنیادی بات مختص رقوم کے ساتھ خرچہ کئے گئے رقوم کی بھی ہے۔ اِس ضمن میں اگر ہم ماضی کے بجٹوں اور خرچوں پر نظر ڈالیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ “مقدس اخراجات” مختص بجٹ سے کہیں زیادہ تھے یا پھر جہاں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے پیسے خرچ کئے جانے تھے وہ یا تو فوجی اخراجات اور قرضوں کی واپسی میں چلے گئے، یا کرپشن ’کی‘ نذر‘ ہو گئے یا سرے سے استعمال ہی نہیں ہوئے، یا اصل میں تھے ہی نہیں، صرف بجٹ کے کاغذوں پر تھے۔ برسوں بلکے دہائیوں میں جو بجٹ عوام کے نام پر پیش کئے گئے ان سے الٹا عوام کی ہی کمر ٹوٹی اور انکے معاشی استحصال و جبر میں مزید اضافہ ہوا۔ اس کے مقابلے میں حکمران طبقات اور اپنے خرچ پر ہیں لوگ قید تیرے راج میں اشرافیہ کی دولت اور ملکیت میں بلا تفریق اضافہ ہوا جس پر شاعر عوام حبیب جالب کا یہ شعر صادر آتا ہے کہ:۔
اپنے خرچ پر ہیں لوگ قید تیرے راج میں
سامراجی آئی ایم ایف کی معاشی زنجیریں
تحریک انصاف کی حکومت کے اس پہلے سالانہ بجٹ کو عوام دشمن بجٹ کہا جا رہا ہے کیونکہ اس میں عالمی اقتصادی فنڈ’ آئی ایم ایف’ کے ساتھ کئے گئے اسٹاف لیول معاہدے کو مد نظر رکھتے ہوئے روزمرہ استعمال کی عام چیزوں پر بالواسطہ اور بلاواسطہ اضافی اور نئے ٹیکسوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ تاکہ آئی ایم ایف کا چھ ارب ’ڈالر‘ کے تین سال کی مدت والے بیل آؤٹ پیکج کے لئے وصولی عمل میں لائی جائے جس کے لئے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس پہ سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے اس بیل آؤٹ پیکج میں شامل شرائط اور پالیسیوں کا سارا بوجھ عام افراد کے ناتواں کاندھوں پر لادھ دیا گیا ہے۔ پاکستانی عوام اور تاجر برادری و کاروباری افراد کی معاشی حالت اس قابل نہیں کہ وہ آئی ایم ایف کے مطالبات جو کہ کسی حکم نامے سے کم نہیں ہیں، کے مطابق ان عظیم الجثہ ٹیکسوں کو ادا کر سکیں۔ پیکج کے مطابق آئی ایم ایف کے مطالبے پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کے لئے اہم عہدوں پہ موزوں بھرتیاں بھی کی گئی ہیں جو کہ عوام کے بجائے آئی.ایم.ایف اور ریاست کی پالیسیز کو ترجیح دینگے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آئی.ایم.ایف کی گرفت ہمارے ملک کی معاشی آزادی کے گرد اور زیادہ تنگ ہوتی جا رہی ہے اور تحریک انصاف کی حکومت ملک کو اس معاشی غلامی کے طوق سے آزادی دلانے میں اپنی ناقص کارکردگی کے باعث بری طرح ناکام رہی ہے۔ یہ وہی سیاسی جماعت ہے جس نے ایک زمانے میں دعوے کے ساتھ ببانگ دہل کہا تھا کہ وہ آئی.ایم.ایف کے پاس جانے کے بجائے خود کشی کو ترجیح دیں گے۔ اور آج اس جماعت نے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کو آئی.ایم.ایف کے در پہ تیرہویں مرتبہ لا کھڑا کیا۔ اور ایک بار پھر اس حکومت نے حسب ِ عادت ایک اور یوٹرن لیا اور ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا کہ ایک ایسے ملک، کہ جس کو بنیادی ضروریات زندگی، ترقیاتی اور فلاحی معاشی پالیسیوں کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، کے کاروبارِ مملکت چلانے میں اپنی نااہلی اور غیر مستعدی اور غیر فعالی دکھا دی۔
ٹیکسوں کی بھرمار اور مہنگائی
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ حکومت نے محصولات کا ہدف پورا کرنے کے لئے سرمایہ داروں اور زمینداروں سے ٹیکس وصولی کو لازمی بنانے کے بجائے متوسط، ملازمت پیشہ طبقے پر نئے ٹیکسوں کی بھرمار کر دی ہے۔ انکم ٹیکس میں 25 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد اضافے کے ساتھ ساتھ 50,000روپے ماہانہ تنخواہ پہ بھی ٹیکس لاگو کر دیا ہے اور نان سیلری کلاس کو 33ہزار روپے ماہانہ پہ ٹیکس دینا ہو گا۔ اس کی ایک مثال یہ لیں کہ ایک شخص جس کی تنخواہ پچاس ہزار روپے ماہانہ ہے، اب انکم ٹیکس تو دے گا ہی، ساتھ ہی روپے کی قدر میں کمی کے باعث ہوشربا مہنگائی اور سیلز ٹیکس کا بوجھ بھی اٹھائے گا۔ حکومت کو اس کے بجائے سرمایہ داروں اور زمینداروں اور زیرِ زمین غیر قانونی معاشیات کا حصہ پردہ نشینوں پہ ان تمام ٹیکس کی وصولیوں میں شامل کرنا چاہئے تھا۔ اصولی طور پر حکومت کو ٹیکس چوروں کو معافی دینے کے بجائے ان کی پکڑ کرنا چاہیئے تھی اور بالواسطہ ٹیکسوں کو کم کرنا چاہیئے تھا۔ کوئی بھی حکومت و ریاست اگر اپنی عوام سے کئے گئے سماجی معاہدہ (سوشل کانٹریکٹ) پہ ایمانداری سے عمل کرنا چاہے تو وہ سالانہ میزانیہ ترتیب دیتے وقت عوام کی اکثریت کی ضروریات اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ترتیب دے سکتی ہے۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کھانے پینے کی بیشتر اشیاء مہنگی کردی گئی ہیں، چینی، گھی، خوردنی تیل، گوشت، خشک دودھ، پنیر، کریم، منرل واٹر، روح افزا جیسے مشروبات، سی.این.جی، سیمنٹ، سگریٹ، گاڑیاں، زیورات، چمڑے کی اشیاء، قالین، کھیلوں کا سامان، آلات جراحی، اسٹیل کی راڈ، بلٹ مہنگے ہوگئے، سنگ مرمر کی صنعت،’پنیر‘، مرغی، مٹن، بیف اور مچھلی کے گوشت کی سیمی پروسیسڈ اور پکی ہوئی اشیا پر 17فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز ہے جبکہ روئی پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ بجٹ میں کھاد، موبائل، اینٹیں، بیکری ’کی‘ اشیاء، لکڑی کا فرنیچر اور ریزر سستے ہو گئے، زرعی صارفین کیلئے بجلی سستی کر دی گئی ہے جبکہ برادہ، کاغذ کے اسکریپ، ٹیکسٹائل مشینری کے پارٹس و آلات کی درآمد پر ڈیوٹی’پہ‘ استثنیٰ دے دیا گیا ہے جبکہ لچکدار دھاگے، غیر بنے کپڑے اور سولر پینل پر ڈیوٹی کم کرنے اور ریسٹورنٹ پر سیلز ٹیکس 17سے 7.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
سرکاری ملازمین کے لئے گریڈ ایک سے 16تک کے سرکاری سول و فوجی ملازمین کی موجودہ بنیادی تنخواہ میں 10فیصد، گریڈ 17سے 20تک کے سرکاری سول ملازمین کی تنخواہوں میں 5فیصد اضافہ کیا گیا ہے اس کے علاوہ حکومت نے مزدور کی کم سے کم اْجرت سترہ ہزار سے بڑھا کر17500 روپے مقرر کر دی ہے۔
تعلیم عام کرنے پر توجہ کی سخت ضرورت ہے، ایسے میں حکومت نے بجٹ میں تعلیم کے لئے بہت کم پیسے رکھے ہیں۔تعلیم کے کل بجٹ 97.155 میں نظر ثانی کے بعد مختص کئے گئے بجٹ میں سے 77.26 ارب روپے ’ایجوکیشن افیئرز اینڈ سروسز‘ کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ جو کہ 20.5فیصد کم ہے۔ جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لئے 28.64بلین روپے رکھے گئے ہیں جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں ایک واضح کمی ہے اور جس کی وجہ سے ملک کی 117سے زائد پبلک سیکٹر جامعات کے مختلف پروگرام براہ راست متاثر ہوں گے۔ یو.این.ڈی.پی پاکستان کی ایک پچھلے سال کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ٪60 سے زائد آبادی کی عمر تیس سال سے کم ہے اور ٪29 کی عمریں 15اور 29 سال کے درمیان ہیں۔ موجودہ حکومت ’کو‘ کرنا تو یہ چاہیئے تھا کہ نوجوانوں سے کیا گیا تبدیلی کا وعدہ مثبت انداز میں پورا کرتے،نہ ’کہ‘ تعلیم جو کہ ہمارے نوجوانوں کی اہم ترین ضرورت ہے، کے بجٹ کو کم کر کے تعلیم اور نوجوانانِ پاکستان کے خلاف ایک منفی تبدیلی اس بجٹ کی شکل میں پیش کی۔
جبکہ دفاعی بجٹ 1.15ٹریلین روپے پہ برقرار رکھتے ہوئے ایک بار پھر عوام کو یہ سوچنے پہ مجبور کر دیا کہ اس حکومت کی اولین ترجیحات عوام کے بنیادی مسائل کا براہ راست، دیرپا اور مؤثر حل نہیں۔ حکومت کے پاس اسلحہ اور بارود کی خریداری کے لئے بجٹ ہے لیکن قرض چُکانے، مہنگائی کم کرنے، تعلیم کے فروغ کے لئے پیسے نہیں۔ ہماری ریاست یہ خوف پیدا کرتی رہی ہے کہ ہمیں اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ ی بنیاد پر دفاعی اخراجات میں پے در پے اضافہ ہوتا گیا ہے اور اس دفعہ مظلوم عوام کی مشکلات اور مہنگائی کو خارج کرتے ہوئے حکومت نے دفاعی بجٹ میں کمی نہیں کی۔ ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ نام نہاد عوامی اور جمہوری حکومت نہ صرف اسٹبلشمنٹ کے تھپتھپانے سے طاقت میں آپا تی ہے، بلکہ انکو منہ مانگی رقم بجٹ یا کسی سیاسی سمجھوتے کے بدلے دینی ہوتی ہے کیونکہ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کا اقتدار GHQ کے ہی مرہون منّت ہے۔ اس صورتحال میں تعلیم اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے نوجوان پس رہے ہیں۔
بجٹ کی روشنی میں عورت کا سوال اور قومی سوال
اب ذرا ہم صوبوں کے بجٹ کی طرف چلتے ہیں۔۔۔ این ایف سی ایوارڈ کے نئے فارمولے کے مطابق ٪51.74 شیئر پنجاب کو دئیے گئے، سندھ کو %24.55 شیئرز ملے، %14.62 پختونخوا اور٪9.09 بلوچستان کو شیئر دئیے گئے۔ یاد رہے کہ یہ 1951ء اب تک اپنے سلسلے کا صرف ساتویں بار ہوگا، جس کا آئینی مقصد وفاق کی طرف سے اور اس ہی کی زیر نگرانی چاروں صوبوں تک رقوم کی مؤثر انداز میں ترسیل کو ممکن بنایا جا سکے۔ یہ تقسیم صوبوں کی آبادی کی بنیاد پہ کی گئی، نہ کہ غربت اور پسماندگی کی بنیاد پر۔ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے کیونکہ پنجاب کو دوسرے صوبوں کے حساب سے حصہ ملنا صوبوں میں ’غیر منصفانہ تقسیم‘ کی جانب اشارہ کرتا ہے اور اس سے دوسرے صوبوں پہ پنجاب کی سبقت کو تعصبانہ رویہ ہی کہا جاسکتا ہے۔صوبوں کے ترقیاتی بجٹ کی تفصیل کچھ یوں ہے: پنجاب 322 بلین روپے۔ بلوچستان 126 بلین اور فاٹا کے صوبے میں ضم ہونے کے بعد پختونخوا کے لئے محض237 بلین، او سندھ کے لئے 285بلین مخصوص کئے گئے۔
اس مہنگائی والے طوفانی بجٹ نے تمام متوسط اور کم آمدنی والے زیریں طبقے کو تو متاثر کیا ہی، لیکن ان میں بری طرح متاثر ہونے والے عورتیں اور بچے ہیں۔ خاص طور پر، محنت کش طبقے کی عورت ہی ہے جو اس بجٹ سے سب سے زیادہ بُری طرح متاثر ہوگی۔ گھریلو عورت کو پدر شاہی گھرانوں میں ماہانہ ایک نپا تلا بجٹ ملتا ہے جس میں اُسے تمام بنیادی ضروریات پوری کرنی ہوتی ہیں۔ اور اگر خرچہ مرد کے دئیے گئے بجٹ سے انیس بیس بھی تجاوز کر جائے تو غیض و غضب اور یہاں تک کہ گھریلو تشدد تک نوبت آتے دیر نہیں لگتی۔ اس صورتحال میں سب سے پہلے گھر کی بچیوں کی تعلیم اور صحت پہ اثر پڑتا ہے اور مہنگائی ہونے کے سبب غریب طبقہ اپنی بچیوں کو اسکولوں اور کالجوں سے اٹھوا دیتے ہیں، اور کام پر لگا دیتے ہیں۔ حالیہ بجٹ خصوصی طور پر ان عورتوں کے لئے المناک نتائج کا باعث بنے گا جن پر بچوں کی پرورش اور سماجی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں عائد ہیں۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں بامعاوضہ سماجی دیکھ بھال اور عورتوں کے گھر کے کام کو پہلے ہی بِلامعاوضہ رکھا جاتا ہے۔ عام استعمال والی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ عورتوں کی زندگی کے تجربے کو محال اور معاشی طور پر مزید استحصال زدہ بنا دے گا۔ مزید یہ کہ عورتوں کو پہلے ہی مردوں کی نسبت کم اُجرت ملتی ہے، اور اُجرت میں اضافہ نہ ہونا مگر مہنگائی کا بڑھ جانا، محنت کش عورتوں کے لئے مزید معاشی مسائل لائے گا۔
اِختتام
تعلیم، صحت، ماحولیات، کہ جن کی اس ملک میں شدید ضرورت ہے۔ نئے اسپتالوں، نئے اور فعال تعلیمی اداروں، پارکوں، سستے علاج اور اعلیٰ تعلیم تک ہر شہری کی رسائی کو ممکن بنانے کے بجائے تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے سالانہ بجٹ میں عوام کی توقعات کے برعکس کا م کیا۔ مہنگائی کم کرنے کے بجائے حکومت نے لوگوں کے استعمال کی ایک ایک چیز پہ ٹیکسوں کی نہ صرف بوچھاڑ کر دی، بلکہ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی نجکاری بھی منظور کی۔ تعلیمی وضائف بھی کاٹ دئیے۔
پاکستان کو ایک آزاد، معاشی طور پہ خود مختار ملک بنانے اور قرضوں سے نجات دلانے کے بجائے حکومت نے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے سامنے لا کھڑا کیا۔ جبکہ دیگر آمرانہ ممالک یعنی متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اور ٹرمپ کے امریکہ کے آگے بھی قرضوں کے لئے ہمیں سر جھکانا پڑا۔ اس نئے بجٹ سے عوام کی توقعات اور ”نیا پاکستان“ کے جھوٹے خواب چکنا چور ہوئے۔
اس طرح کی سماجی و سیاسی صورتحال کے نتیجے میں اسی بنیادی سوشلسٹ اور بائیں بازو کے مؤقف کو تقویت ملتی ہے، کہ بورژوا ریاست اور حکمران جماعت سے معاشرے کی اکثریت اور غریب عوام کی بھلائی کی توقع رکھنا نری حماقت اور فریب کے مترادف ہے۔ بورژوا ریاست اور حکمرانوں کے مفادات ہمیشہ مزدور طبقے کے منافی ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ حکمران طبقے کے طرز زندگی اور اسی کی بدولت پاکستان کے پسے ہوئے طبقوں کی حالتِ زار اور محرومیوں کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اب صرف وسائل کی نئے سرے سے تقسیم، جس کے تحت قابلیت کے بجائے سب انسانوں کو ان کی ضروریات کے مطابق وسائل مہیا کئے جاتے ہوں، اور حقیقی عوامی جمہوریت کی تعمیر کی مدد سے ہی ‘عوام دوست’ معاشی پالیسیاں تشکیل دی جا سکتی ہیں۔
References
“Budget 2019-20: All You Need to Know.” The News www.thenews.com.pk/latest/483546-budget-2019-20-all-you-need-to-know
Chaudhry, Hufsa. “Budget 2020: Govt Predicts 2.4pc Growth, Rs7 Trillion in Expenditures.” DAWN.COM, 12 June 2019, www.dawn.com/news/1484102.
“Finance Bill /ACT 2019.” Federal Budget 2019-2020, 2019. www.fbr.gov.pk/Budget2019-20/FinanceBill.html.
Finance Government Pakistan. “Budget in Brief.” Finance.govt.pk, 2019, www.finance.gov.pk/budget/Budget_in_Brief_2019_20.pdf
Kiani, Khaleeq. “Budget 2019-20: Tax-Heavy Budget Fails to Arrest Growing Fiscal Deficit.” DAWN.COM, 12 June 2019, www.dawn.com/news/1487720.
Rana, Parvaiz Ishfaq. “Sindh Budget 2019-20: Sindh Plans Rs285bn Development Spending.” DAWN.COM, 15 June 2019, www.dawn.com/news/1488347.
“Salient Features of Budget 2019-20.” Business Recorder, 11 June 2019, www.brecorder.com/2019/06/12/502156/salient-features-of-budget-2019-20/