بُحران میں تنظیم کاری: کُردِش ویمن موومنٹ

تحریر: عصمت شاہجہان

تعارف

یہ مضمون کُردش قومی آزادی کی ترقی پسند تحریک، اور وہاں جاری تشدد اور جنگ کے خلاف عورتوں کی مزاحمت, تنظیم کاری کے نظریے اور اُصول و حکمت عملی، بیسویں صدی میں کُردستان قومی آزادی کی تشکیل کی مختصر تاریخ، اور کُردش ویمن موومنٹ کی تشکیل میں ترقی پسند کُردش قومی آزادی کی  تحریک کے رہنماء اور موجودہ کُردستان ورکرز پارٹی کے بانی قائد عبداللہ اوجلان اور سکینہ جانسز کے کردار کا احاطہ پیش کرتا  ہے۔

کُردستان قومی وحدت اور جیو ثقافت اور تہزیبی تاریخ پر مبنی ایک قومی خطہ ہے جو مغربی ایشیاء میں واقع ہے۔ یہ چار ممالک میں پھیلا ہوا ہے جیسے کہ شمالی کُردستان (جنوبی ترکی)، جنوبی کُردستان (شمالی عراق)، مشرقی کُردستان (شمال مغربی ایران)، اور مغربی کُردستان (شمالی شام) میں ہے۔ کُرد قوم مڈل ایسٹ کی چوتھی بڑی قوم ہے, اور اکثریت سُنی اور علوی شیعہ مسلمان، عیسائی، یہودی، اور یزیدی مذاہب رکھتے ہیں۔ کُرد قوم نہ صرف ان ممالک میں تقسیم ہیں، بلکہ اپنے ممالک کی طرف سے ریاستی جبر، نسل کُشیوں، اور خطے میں جنگوں اور سول وارز کی وجہ سے کئی دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ بھی لئے ہوئے ہے۔ ان چار ممالک میں کُردوں کی قومی تحریکیں چل رہی ہیں، کوئی علحیدگی پسند ہیں اور آزاد کُرد ریاست کے لئے لڑ رہی ہیں، تو کوئی موجودہ ریاستوں کے اندر خود مختاری کے لئے۔

 جہاں دُنیا میں امپریالزم کے خلاف قومی آزادی کی تحریکوں اور پہلی جنگ عظیم (جنوری 1914ء تا نومبر 1918ء) کے نتیجے میں جہاں دوسری بڑی شہنشاہیتیں ٹوٹیں، وہاں ترکی میں 1922ء میں 623 سالہ شہنشاہیت اور سلطنت عثمانیہ کے انہدام، اور ریپبلک آف ترکی کے قیام کے ساتھ سے ہی خطے میں قومی آزادی اور جمہوری تحریکوں کا آغاز ہوا، اور اِسی پس منظر میں کُرد قومی تحریک بھی اُبھرنی شروع ہوئی۔ اُوپر سے مڈل ایسٹ نئے ’ورلڈ آرڈر‘ کے تحت سامراجی جنگوں کی لپیٹ میں آیا، جہاں کہ کُرد اور انکی تحریکیں دوہرے بُحران کا شکار ہوئیں۔

کُرد قومی تحریکوں میں سب سے اہم اور لیفٹ کی مارکسسٹ لیننسٹ نظریاتی بنیادیں رکھنے والی تنظیم ’’کُردستان ورکرز پارٹی‘‘ (پارٹیا کارکیرن کردستان ۔ پی.کے.کے) ہے۔ 1978ء میں بنائی گئ پی.کے.کے نے ہی کُرد خطے میں فیمنسٹ سیاست اور عورتوں کی خود مختار تنظیم کاری کی بنیاد رکھی۔

پچھلی تین دہائیوں میں ایک طرف ریاستی سطح پر منظم کُرد جینوسائیڈ اور ثقافتی حملوں، منظم مذہبی فاشزم، اور تُرکی اور نیٹو افواج کے حملوں سے بچنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں کُرد عورتوں نے تُرکی، شام، عراق اور ایران کے شورش زدہ، اور جنگ زدہ متنازعہ کُرد علاقوں کے اندر پہاڑی علاقوں اور کُرد آزادی پسند گروپوں کے پاس پناہ لی اور قومی جدوجہد کا حصہ بنیں۔ دوسری طرف کُرد عورتیں صنف کی بنیاد پر صدیوں پرانی پدر شاہی نظام اور جنس پرستی کے خلاف ا پنی بقاء اور آزادی کی لڑ رہی ہیں۔ کُرد عورتیں، اپنی قومی، طبقاتی، اور صنفی لڑائی کو مختلف محاذوں پر لڑ رہی ہیں۔ اس صورت حال میں عورتوں نے اپنی ’خود مختار تنظیم کاری‘ میں اپنا رستہ ڈھونڈا۔

مزاحمت اور ایجنڈا کی تشکیل

کُرد عورتوں کی تحریک کو تشکیل دینے میں ابتدائی کام ‘پی کے کے ‘ کے بانیوں عبداللہ اوجلان اور سکینہ جانسز نے کیا۔ انہوں نے پدر شاہی، سِول وار، اور تشدد کے خلاف عورتوں کی جدوجہد کے لئے نظریاتی، سیاسی اور تنظیمی کام کی بنیاد رکھی۔ یہ ’پی کے کے‘ میں پہلی بار نظریاتی بدلاؤ تھا۔ اوجلان 1999ء سے ترکی میں جیل میں ہیں۔ سکینہ جاسنز بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ترکی میں دریائے دجلہ کے کنارے ’دیاربکر‘ جیل میں سالوں تک پُر تشدد زندان میں رہیں، جہاں 1981ء سے 1989ء کے درمیان اُن کے درجنوں ساتھی تشدد سے مارے گئے۔ رہائی کے بعد وہ لبنان اور عراق میں ‘پی کے کے ‘ کے کیمپس میں رہیں اور مسلح جدوجہد کا حصہ رہیں۔ سکینہ اور اوجلان نے 1990ء کی دہائی میں عورتوں کی ایک الگ اور آزاد خود مختار آرمی بنائی۔ سکینہ نے عورتوں کے سکواڈ کی بنیاد رکھی، جس میں  انہوں نے خود عورتوں کی سیاسی تعلیم اور مسلح جدوجہد کی تربیت کی۔

 سکینہ جانسز نے 1998ء میں فرانس میں سیاسی پناہ لی اور 9 جنوری 2013ء کو ترک سیکرٹ سروس نے پیرس میں کُردش انفارمیشن سنٹر میں ممبران کی فائلز کا ڈیٹا لینے کے بعد انہیں سر میں گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ ان کے ساتھ دو اور خواتین ساتھی فیدان دوگان، اور لیلیٰ سالیمیز کو بھی گولیاں مار کر قتل کیا۔

کُردستان فیمنسٹ ایجنڈا کی تشکیل اور تنظیم کاری کا آغاز 1987ء میں ہوا، جہاں ریاستی دباؤ کو مدِنظر رکھتے ہوئے یورپ میں پناہ گزین ’پی کے کے‘ کی ہمدرد اور کُردستان خطے کی کُرد خواتین نے جرمنی میں “یونین آف پیٹریاٹک ویمن فرام کُردستان ” (وائی.جے.ڈبلیو.کے) بنائی۔ یہ پی کے کے سے منسلک پہلی تنظیم تھی جس میں عورتوں نے خود کو صنف کی بنیاد پر خود مختار بنیادوں پر منظم کیا۔ اس کے بعد 1995ء سیلف ڈیفنس، اور کُرد عوام کی ڈیفنس کے لئے ’فری ویمنز آرمی‘  تنظیم بنائی اور خواتین کا پہلا گوریلا یونٹ بنایا۔ اور کُردستان فری ویمنز یونین (وائی.اے.جے.کے) کی بنیاد رکھی۔ 8 مارچ 1998ء کو ویمن لبریشن کا نظریہ اعلان کیا، اور 8 مارچ 1999ء کو کُردستان ورکنگ ویمنز پارٹی (پی.جے.کے.کے) کی بنیاد رکھی، بعد میں اس کو وسیع کرنے کے لئے 2004ء میں کُردستان ویمنز لبریشن پارٹی (پارٹیا آزادِیا جن اے کردستا (پی.اے.جے.کے) میں تبدیل کیا۔2005ء میں سب تنظیموں کی امبریلا تنظیم ’ہائی ویمنز  کونسل‘ بنائی۔ ہائی ویمنز کونسل عورتوں کی سب تنظیموں کی ایک ڈیموکریٹک کنفیڈریٹ تنظیم ہے، جس میں نظریاتی پہلو کے طور پر کُردستان ویمنز لبریشن پارٹی (پی.اے.جے.کے)، سماجی اور سیاسی تنظیم کاری کے پہلو کے طور پر یونینز آف فری ویمن (وائی.جے.اے)، اور سیلف ڈیفنس کے لئے فری ویمنز یونٹس (وائی.جے.اے.سٹار)، اور نوجوان خواتین کی تنظیم کاری کے لئے ینگ ویمنز یونٹس شامل ہیں۔1

نظریاتی، سیاسی، اور تنظیمی جڑ یں

موجودہ کُردش عورتوں کی تحریک کی تاریخی جڑیں ترقی پسند کُرد قومی اور طبقاتی تحریک میں ہیں، خاص طور پرکُردستان ورکرز پارٹی ’پی کے کے‘ میں۔ 1971ء کے ملٹری کُوو کے بعد لیفٹ اور قومی تحریکوں کو کُچلنے کے لئے منظم کریک ڈاؤن میں بہت سارے لوگ مارے گئے۔ اس پس منظر میں 1978ء میں پی کے کے کُردش سٹوڈنٹس کے ایک گروپ کے لیڈر عبدللہ اُجلان نے تشکیل دی تھی، جس کا نظریہ کئی نظریاتی پہلوؤں کا امتزاج تھا: انقلابی سوشلزم، مارکسسٹ لینن ازم، اور کُردش نیشنلزم، اور جس کا مقصد ایک آزاد کُرد کمیونسٹ ریاست کا قیام تھا۔ یہ لسانی بنیادوں پر مبنی کوئی روایتی نیشلسٹ پروجیکٹ نہیں تھا، بلکہ ایک سامراج مخالف آزاد کُرد سوشلسٹ ریاست کے قیام کی جدوجہد کا انقلابی پروگرام تھا۔ اور ترکی اور مڈل ایسٹ کی آزادی سے بھی جُڑا ہوا تھا۔ یہ تُرکی اور شام میں موجود تھا۔ اس میں شروع میں صرف دو عورتیں تھیں جو ’پی کے کے‘ کی تاسیسی کانگریس میں بھی تھیں، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں عورتوں کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے۔

ترکی، عراق، ایران، لبنان اور شام میں بکھری ہوئی کُرد قوم کو ان ممالک میں مائنارٹی میں بدل دیا گیا ہے۔ ان سب ریاستوں کی کُرد قوم کی طرف پالیسی انتہائی جارحانہ، جابرانہ اور پُر تشدد ہے۔ کُردوں کو شناخت، ثقافت، معیشت اور جمہوری حقوق پر پابندیوں کا سامنا ہے۔ منظم حملوں اور بمباریوں میں دو لاکھ کروں کا قتل کیا گیا۔  1923ء سے ترکی کی ریاست نے کُرد زبان اور قومی شناخت کے حق سے انکار کیا ہوا ہے، اور کُردوں کو قتلِ عام یعنی قومی جینو سائیڈ کا سامنا ہے۔ عراق میں صدام حسین کے دور میں 1980ء کی دہائی میں منظم جینو سائیڈ کیا گیا۔ ایران میں کُردوں کو سیاسی تحریکیں چلانے کی اجازت نہیں ہے، اور بہت سارے کُرد سیاسی کارکنان کو پھانسی چڑھا یا جا رہا ہے۔ اسی طرح شام میں کُردوں کی زبان پر پابندی ہے۔ کُردستان کے ردِ انقلاب سیاست، جنگ اور بُحران میں امریکہ بھی پوری طرح ملوث ہے۔

اپنے آغاز سے ہی ’پی کے کے‘ تُرکش ریاستی جبر اور منظم حملوں کا شکار رہی، اور تُرکش ریاستی فورسز کے مسلح جھڑپوں میں کئی ساتھی مارے گئے۔ لیکن اگست 1984ء میں پی کے کے نے باقاعدہ مسلح مزاحمت کا آغاز کیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ بڑے پیمانے پر سیاسی تعلیم کا آغاز کیا گیا۔ کُردستان خطے میں بھی رابطے تیز کیے گئے اور ترکی، شام، عراق اور ایران میں کُرد تحریکوں کو متحد کرنا شروع کیا۔ ترقی پسند فلسطینی گروپوں سے بھی رابطے بنائے، اور متحد ہو کر کام کیا۔

نوے کی دہائی میں مسلح جدوجہد جاری رہی۔ 1997ء میں ترکی، امریکہ اور کئی دوسرے نیٹو ممالک نے ’پی کے کے‘ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ 1979ء سے 1998ء تک اوجلان شام میں رہے، اور شام سے نکالے جانے کے بعد انہیں 1999ء میں نیروبی میں یونانی سفیر کے گھر سے سی.آئی.اے کی مدد سے تُرکش ایجنسیوں نے اغوا  کر کے تُرکش ریاست کے حوالے کیا۔ انہیں سزائے موت دی گئی مگر یورپین یونین میں شامل ہونے کے لئے سزائے موت کے خاتمے کے وجہ ترکی نے ان کی سزائے موت عمر قید میں بدلی، اور وہ اب تک تُرکش جیل میں ہیں۔

سال 2007ء میں ’پی کے کے‘ کی لیڈرشپ نے کُرد عوام کے تحفظ کے لئے لبریٹیرین سوشلزم پر مبنی ’کردستان ڈیموکریٹک کمیونٹیز یونین (کے. سی. کے)‘ بنائی، جس کے اندر ترکی، ایران، عراق اور شام میں کُرد تنظیموں کو اکٹھا کیا۔ پی کے کے نے 2013 ء میں ترک ریاست سے جنگ بندی اور قیام امن کا اعلان کیا، اور اپنی قوت کو شام منتقل کیا، مگر یہ جنگ بندی 2015ء میں ختم ہو گئی۔ جب سے ’کے سی کے‘ بنی تب سے ترکی نے اس کو بھی دہشت گرد قرار دے کر  اس پر پابندی عائد کی ہے اور شام میں اس سے جُڑے پیلپز پروٹیکن یونٹس (وائی. پی.جے) پر منظم تُرکش اور شامی حملے جاری ہیں۔ حالیہ وقتوں میں امریکہ نے بھی پی کے کے  کو “دہشت قرار” دے کر اس پر پابندی لگا دی ہے، اور کُردستان تحریک کے اکثر ویب سائیٹس، اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پربھی عالمی طور پر پابندی لگا دی ہے۔

 کُردستان تحریک میں کئی ممالک کی بائیں بازو کی پارٹیاں شامل ہیں، اور کُردستان کمیونٹیز یونین (کے.سی,کے) اُن کی امبریلا تنظیم ہے۔ کے.سی.کے میں ترکی اور شام کی کُردستان ورکرز پارٹی، شام میں ڈیموکریٹک یونین پارٹی (وائی. ڈی.پی) ، ایران میں کُردستان فری لائف پارٹی (پی. جے اے .کے)، اور عراق میں کردستان ڈیمویٹک سولوشن پارٹی (پی.سی.ڈی.کے)، اور ان ممالک میں کئی دوسری تنظیمیں شامل ہیں۔ ان سب تنظیموں کے قائدین، کیڈر، تنظیمی ڈھانچہ، حکمت عملی، مسلح یونٹس، مہم سازی کا نظام، مالی وسائل اور تعلیم و تربیتی نظام ایک دوسرے سے بندھا ہوا ہے۔ عبداللہ اوجلان کی گرفتاری کے بعد، جمیل بائیک اور مورات کرالیان کو پی کے کے کی  لیڈر شپ کے لئے منتخب کیا گیا۔ جمیل بائیک اس وقت ڈیموکریٹک کنفدیڈلزم پر مبنی کُردوں کی امبریلا تنظیم کے.سی .کے کے بارہ ممبران کی کمیٹی میں ہیں، اور اس کے ایگزیکٹیو کمیٹی کے وائس چیٔرمین ہیں، جبکہ انکے ساتھی  وائس چیئرمین بھی پی کے کے کے رہنماء بیز ہوزیٹ ہیں, جبکہ رہبر تحریک اوجلان ہیں2۔

پیپلزپروٹیکشن یونٹس میں مسلح اور غیرمسلح دونوں تنظیمیں شامل ہیں، جیسے کہ پیپلز ڈیفنس فورسز (جو پی کے کے سے جُڑی مسلح تنظیم پیپلز لبریشن  آرمی آف کُردستان کا تسلسل ہے)، پی کے کے کی خواتین گوریلا تنظیم ‘فری ویمنز یونٹس (وائی.جے.اے)، یوتھ کے لئے سول پروٹیکشن یونٹس (وائی.پی.ایس)، اور شامی سول وار میں لڑنے والی شمال مغربی شام کے خود مختار ریجن ’روجاوا‘ میں سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی تنظیم سے منسلک خواتین کی ملیشیا ‘ویمنز پروٹیکشن یونٹس’ (وائی. پی.جے) شامل ہیں۔

عورتوں کی آزادی کے لئے سیاسی اور مسلح جدوجہد کے لئے پی کے کے نے 2004ء میں ” فری ویمن یونٹس” بنائے۔ 2010ء  کی دہائی میں پی کے کے کو نئے چیلنجز کا سامنا ہوا۔ عراق اور شام میں اسلامک سٹیٹ آف سیریا اور اسلامک سٹیٹ آف عراق، جنگ، سول وار، اور سلفی جہادی تنظیمیں آئی.ایس.آئی.ایس اور آئی.ایس.آئی.ایل عورتوں کے لئے ایک عذاب بن کر نازل ہوئی، جس کے خلاف ڈیفنس میں یہی فری ویمن یونٹس لڑے، خاص طور پر روجاوا کے شہر کوبانی کے محاصرہ کے خلاف۔

اَسی اور نوے کی دہائی صنفی مساوات کا موضوع پی کے کے میں ایک اہم موضوع رہا، خاص طور پر عبداللہ اوجلان کے نظریاتی کام میں ایک مرکزی حیثیت کو طور پر اُبھرا۔ گوریلا جدوجہد میں عورتوں کی شرکت کو پدرشاہی بنیادوں پر اندرونی مزاحمت کا سامنا تھا۔ اور پارٹی اور کُرد ستان قومی تحریک میں ہر جگہ یہ موضوع زیرِ بحث رہا تھا، کہ عورتوں کو برابر حصہ انقلاب کے بعد ملے گا، جیسے کہ عرب سپرنگ میں بھی کہا گیا۔ اس لئے عورتوں نے پارٹی کے اندر پدرشاہی کو توڑنے کی جدوجہد بھی شروع کی۔

اس دوران اوجلان نے ان موضوعات پر کئی تحریریں لکھیں۔ درحقیقت صنفی جبر اور عورتوں کی آزادی، اور اس آزادی کا انقلاب میں کردار ان کی تحریروں کا مرکزی موضوع بنا۔ انہوں نے پانچ ہزار سال کی تُرکش تہذیب کو میسوپوٹمیا دور سے لے کر جدید سرمایہ دارانہ دور کا صنفی تجزیہ کیا  (اوجلان:2013)۔ 3 ان کا نقطہ نظر ہے کہ اس پانچ ہزار سال کی تہذیب کی تاریخ بنیادی طور پر عورتوں کی غلام داری کی تاریخ ہے۔ اور یہ کہ عورتوں کی غلامی ریاست اور معیشت کی بنیادوں میں ہے، اور ترک تاریخ میں جبر و تشدد کا سب سے زیادہ قدیم ادارہ عورتوں کے غلامی ہے۔ اور کوئی بھی ملک عورت کی آزادی کے بغیر آزاد نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کُرد سماج اور خاندان میں اس کو درپیش پدر شاہی جبر کا بھی تجزیہ کیا۔ اور ان ریاستوں کا کُرد عورت سے برتاؤ پر بھی بات کی۔ انہوں نے سماج اور گوریلا تحریک کے اندر موجود پدرشاہانہ یکجہتی کے توڑ کے لئے پدرشاہی اور سرمایہ داری مخالف فیمنسٹ یکجہتی بنائی۔

اوجلان کا ماننا تھا کہ ہمارے سماج کو درپیش مسائل کا حل عورتوں کی آزادی کی تحریک، مساوات اور ریڈیکل ڈیموکریسی میں ہے۔ عورتوں کی خود مختار تنظیم سازی کے اُصول کے مطابق عورتوں کی کئی خود مختار مسلح، سیاسی اور سماجی تنظیمیں بنائی گئیں۔

اوجلان کے جیل جانے اور بے شمار ساتھیوں کے مارے جانے کے بعد پی کے کے ایک بحران کا شکار ہو گئی۔ پی کے کے نے آزاد کُرد ریاست کی تشکیل کا آفیشل مؤقف ڈراپ کر دیا ،4 اور اس دوران میں سیاسی اور سماجی تحریکوں کی تنظیم کاری تیز کر دی گئی، خاص طور پر عورتوں کی خود مختار تنظیم کاری۔ انہوں نے جیل میں پڑھائی لکھائی کے بعد ‘ڈیموکریٹک کنٖفیڈرل ازم’  کا نیا نظریہ دیا (اوجلان: 2023ء، صفحہ 164-201 )۔5 یہ ایک ایسے نظام کا تصور ہے جو نظریاتی، سیاسی، معاشی، اور سماجی نظام، جو صرف خود مختاری کی بات کرتا  ہے۔ جس سے مراد زندگی کو آزاد کرنا تھا، صرف کُردوں نیشن سٹیٹ کے جبر سے آزاد کرنا نہیں تھا۔ اس کے تین ستون ہیں: (1) بُحران سے نجات کا رستہ ریڈیکل ڈیموکریسی، (2) عورتوں کی لبریشن، اور (3) سوشل ایکالوجی کی واپسی (اس سے مراد وہ حیاتیاتی فطرت  ہے جس پر معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے، یعنی روئے زمین پر جسمانی اور حیاتیاتی اِرتقاء کا باہمی تعلق)۔  یاد رہے کہ کُرد خطے اور مڈل ایسٹ میں دہائیوں سے امپریالسٹ جنگوں اور سول وار میں نہ صرف انسان اور انسانیت تباہ ہوئے بلکہ حیاتیات اور قدرتی وسائل بھی لُوٹے اور اُجاڑے گئے، بشمول باغ، کھیت، جنگل، تیل اور دوسرے قدرتی وسائل کے۔

اوجلان نے اپنی اس حالیہ کتاب ڈیموکریٹک کنفیڈرلزم میں ڈیموکریٹک کنفیڈرلزم کے پانچ رہنما اُصول دیئے ہیں (2011 صفحہ 34-33): (1) حقِ خود اِرادیت بشمول حق علیحدگی، مگر نیشن سٹیٹ کے بجائے ’ڈیموکریٹک کنفیڈرلزم‘ کے ساتھ۔ (2) اُن کا ڈیموکریٹک فیڈرلزم ایک غیر ریاستی مگر سماجی نظریہ ہے اور ایک جمہوری قوم کا خاکہ ہے۔(3) گراس روٹس سطح پر فیصلہ سازی میں عوام کی شرکت، (4) مڈل ایسٹ میں سماج کے موجودہ کنٖفیڈرل ڈھانچوں پر امپریالسٹ ڈیموکریسی کے غلبے کا خاتمہ، (5) اپنے دفاع کا  حق، اور ایک نیشن سٹیٹ کے بجائے ایک ایسے فیڈریشن کا قیام جو کہ تُرکی، ایران، شام اور عراق کی کُرد عوام کے لئے کُھلی ہو، اور کُردستان  کے چاروں حصوں کی  ایک  امبریلا کنفیڈریشن ہو6۔

آج عبداللہ اوجلان (2013) کا فیمنسٹ نظریہ “جِنیالوجی” (زندگی اور عورتوں کی سائنس کو کُردش زبان میں جنیالوجی کہتے ہیں) کُرد تحریکوں کے ٹریننگ مراکز اور تعلیمی اکیڈمیوں میں سب کو پڑھایا جاتا ہے، اور روجاوا کے آزاد ریجن کے سرکاری نظام میں بھی شامل ہے۔ روجاوا میں انقلاب کو بھی عورتوں نے ہی لیڈ کیا۔7 ’’جن، جیان، آزادی‘‘ یعنی ’’زن، زندگی، آزادی‘‘ کا نعرہ بھی کُرد عورتوں کی تحریک کا ہے، جو اِسی نظریے سے نکلا ہے۔ یہ زوردار نعرہ اس وقت نہ صرف ایران میں عورتوں کی سربراہی میں ایرانی مزاحمت کا نعرہ بن چُکا ہے، بلکہ افغانستان اور پاکستان بھی پہنچ چُکا ہے۔

 طبقاتی اور صنفی تضاد: حکمتِ عملی

عورتوں نے کوآپریٹیوز، تعلیمی اکیڈمیاں، اور کمیون بنائے، تاکہ لوگ انقلاب کر سکیں، اور جنگ اور تباہی، اور پدر شاہانہ تشدد اور غربت کا خاتمہ کریں۔ عورتوں کی خود مختار تنظیم کاری کا مقصد سماجی انقلاب تھا، یعنی انقلاب کا مطلب صرف بڑے بڑے ڈھانچوں کا ٹوٹنا نہیں ہے بلکہ تشدد اور جبر کے سماجی نظام کو بھی توڑنا تھا، جو کہ پدر شاہی ہے۔ اوجلان کے مطابق، ہم انقلاب میں مراحل کی بات نہیں کر سکتے، کہ پہلے یہ اور پھر وہ انقلاب۔ اور سب سے قدیم جبر اور تشدد کی شکل پدر شاہی ہے۔

عورتوں کی اس جدوجہد کے نتیجے میں آج پی کے کے کی دوست اور ترکی کی لیفٹ ونگ پارٹی ‘پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی’ نے شریک صدارتی نظام (کو پریزیڈنشل سسٹم آف لیڈر شپ) رکھا ہے، جہاں ہر صدارتی عہدے پر ایک منتخب مرد چیرمین اور ایک منتخب چیئر وومن کو رکھا ہے، جس کا مقصد اختیارات کی مساوی صنفی تقسیم ہے۔ اور یہ پارٹی اِس وقت تیسری بڑی پارلیمانی پارٹی ہے۔

 کُردش ترقی پسند دانشور اور کُرد سیاسی آرگنائزر ڈاکٹر دِلار ڈیریک اپنی حالیہ کتاب ’دی کُردش ویمنز موومنٹ‘   (2022ء :صفحہ 49-42) کے مطابق خود مختار تنظیموں کا مقصد عورتوں کو پدر شاہی سے لڑنے کی تیاری کے لئے خود مختار سیاسی ماحول دینا ہے، تاکہ وہ اپنی یکجہتی اور شرائط کے زور پر مین سٹریم سیاست میں آئیں۔ پارٹی کی مکسڈ جینڈر یعنی مخلوط گوریلا اور سیاسی تنظیموں کے اندر پدر شاہی قوتیں ہمیشہ عورتوں کے مابین طبقاتی اور دیہی و شہری فرق کو لے کر ہمیشہ عورتوں کی یکجہتی بنانے میں حائل ہوتی تھیں۔ طبقاتی تضاد کا مسئلہ عورتوں کی تنظیموں کے اندر بھی آیا، جن کا حل نظریاتی تعلیم کے ذریعے ڈھونڈا گیا۔ عورتوں کے اندر طبقاتی جدوجہد کے بارے میں شعور لانا ایک اہم تنظیمی کام ٹھہرا۔ یہ تنظیم کاری بڑی بڑی لیڈران پیدا کرنے کے بجائے عام عورتوں کی سیلف آرگنائزنگ کے اصولوں پر مبنی ہے8۔

حرفِ آخر

میری نظر میں کُردش عورتوں کی تحریک کی تنظیم کاری کے چھ پہلو، جنہوں نے کُردش عورتوں کو مشکل ترین اور بُحرانی حالات میں انقلابی جدوجہد اور مزاحمت منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، وہ ہیں: (1)عورتوں کی اپنی خود مختار اور آزاد تنظیم سازی اور سیلف آرگنائزنگ؛ (2) الگ تھلگ سیاسی کام کرنے کے بجائے سب ترقی پسند قوتوں کے ساتھ یکجہتی میں اکٹھے کام کرنے کا طریقہ کار؛(3) مسلسل نظریاتی تعلیم اور کیڈر بلڈنگ؛ (4) اپنی طبقاتی تاریخ، قوم اور دھرتی سے اُٹھی ہوئی سیاست؛(5)  سیلف ڈیفنس کا نظام، اور (6) سب سے اہم  نظریہ اور ’جہدِ مسلسل‘۔


References:

  1. The following sources informed this history, but most of these websites have been blocked now:
    History of KJK. (October 1, 2021). kjkonline
    https://komun-academy.com/…/militant-new-year-message…/
    https://www.kjkonline.net/en/hakkimizda/
    https://www.redpepper.org.uk/kurdish-women-call-for-a…/
    http://www.freeocalan.org/…/06/liberating-Lifefinal.pdf
    https://komun-academy.com/…/kurdistans-womens…/
    https://komun-academy.com/…/against-the-division-of…/
    https://komun-academy.com/…/the-womens-revolution-in…/ ↩︎
  2. Kurdistan Democratic Communities Union (KCK) . Our Home. ↩︎
  3. Abdullah Ocalan, (2013). Liberating Life: Woman’s Revolution. Mesopotamian Publishers. Germany ↩︎
  4. Joost Jongerden. (8. 2017) . Gender equality and radical democracy: Contractions and conflicts in relation to the “new paradigm” within the Kurdistan Workers’ Party (PKK). OpenEditionJournals. Anatoli ↩︎
  5. Abdullah Ocalan. (2023). Beyond State, Power and Violence. PM Press, USA ↩︎
  6. Abdullah Ocalan. (2011).  Democratic Confederalism (page 33-34). Transmedia Publishing Ltd. London, Cologne ↩︎
  7. Knapp. Michael etl. (2016). Revolution in Rojava: democratic autonomy and women’s liberation in Syrian Kurdistan. Pluto Press. London. Brecht Neven and Marlene Schafers. (25 November 2017).  Jineology: from women’s struggles to social liberation. ROAR Magazine  ↩︎
  8. Dilar Dirik. (2022). The Kurdish Women’s Movement: History, Theory and Practice.  Pluto Press. London ↩︎

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .