فیمنسٹ سیاست کی جدوجہد: گفتگو کی شروعات

تحریر: ا یمن بُچہ

(ترجمہ: شاہ جہان وگڑپال)

تعارف

کسی بھی دوسری تحریک کی طرح، فیمنسٹ تحریک بھی تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے، جہاں سخت اور تاریخ ساز فیصلے کرنے ہوں گے اور واضح، منفرد اور مخصوص رستے کا انتخاب بھی کرنا ہو گا۔ ہم نے سالہا سال سے سرمایے کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوتا دیکھا ہے، جس کا ایک مخصوص سیاسی نتیجہ عیاں ہے: سرمایے کا سیاسی تحریکوں کو اپنی لپیٹ میں لینا، انکے ساتھ گٹھ جوڑ کرنا، اور اس کے نتیجے میں تحریکوں میں سیاسی بانجھ پن کا ظہور اور اُنکی سیاست بدر ی کا واقع ہونا۔ فیمنزم کے ساتھ بھی یہی ہوا، وہ بھی سرمایے کی زد میں آ کر سیاست بدر ہوئی۔ سرمایے کے تابع ہو کر “کارپوریٹ فیمنزم ” ہو گئی، دوسرے لفظوں میں لاغر ہو کر “نحیف فیمنزم “بن گئی۔ یہ طرزِِ فیمنزم عورتوں کے لئے سرمایہ دارانہ مراعات و طاقت کے حصول کو فیمنزم کی کامیابی تشریح کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کارپوریٹ فیمنزم زیادہ سے زیادہ عورتوں کا سرمایہ داری کے بیڑے کا کپتان بن جانے کو فیمنزم کی کامیابی مانتا ہے: یعنی عورتوں کا چیف ایگزیکٹیو کی دوڑ میں شامل ہو کر دوسری عورتوں اور مردوں پر سبقت حاصل کرنے کو فیمنزم کی کامیابی مانا جاتا ہے (لُکسٹون: 2016ء)۔1 خواتین سیاستدانوں کا سامراجی ایجنڈے کو آہنی مکے کے ساتھ آگے بڑھانے، عورتوں کا ڈرون حملوں کے احکامات جاری کرنے، اور آہنی سلاخوں والی باڑھ بردار سرحدات کی حفاظت کرنے کو بھی فیمنزم کی کامیابی گردانا جاتا ہے۔

اِس منظر نامے کے دوسرے سرے پر ہمیں فیمنسٹ سیاست ملتی ہے جس نے اپنی جڑیں استحصالی معاشی ڈھانچوں میں ڈھونڈی ہیں، اور اُن کے خلاف مزاحمت پر کمربستہ ہیں، خاص طور پر اُن استحصالی ڈھانچوں کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں، جو کہ پدر شا ہی جبر اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ یہ دو مخصوص قسم کی سیاستیں اور طرزِ فیمنزم، دو مخصوص قسم کے رستوں کا تعین کرتے ہیں: ایک وہ سمت جو فیمنزم کو سرمایہ داری کی لونڈی بناتا ہے، جو حاکم طبقات کی بالادستی میں عورت کو مرد کے برابر کے مواقع اور حصہ داری کو صنفی مساوات کے لئے جیت سمجھتا ہے۔ اِس لبرل، کارپوریٹ اور نحیف فیمنزم کے عین بر عکس، دوسری سمت وہ طرزِ فیمنزم ہے جو جبر کے کثیر پہلو نظام، جہاں کہ پدر شاہی اور سرمایہ داری کا گٹھ جوڑ ہے، کے خلاف جدوجہد میں اپنی ’جڑیں پرورش‘ کرتا ہے۔ یہ طرزِ فیمنزم اوقاتِ کار، بِلامعاوضہ خدمتگاری، جنگ، دہشت گردی، سرحدات، جیلوں اور کئی دوسرے اہم ایشوز پر سوال اٹھا رہی ہے۔ اِنہوں نے اپنی جڑیں ” سوشلسٹ فیمنزم “میں ڈھونڈی ہیں۔ اس نقطہ نظر کی حامی کچھ تحریکیں فخریہ طور پر سوشلسٹ فیمنسٹ چاپ کے ساتھ جدو جہد کر رہے ہیں، جبکہ کئی دوسری تحریکیں بھی اِنہی مقاصد کے لئے لڑ رہی ہیں، مگر بغیر کسی چاپ کے۔

اس طرح فیمنزم کے یہ دو مندرجہ بالا نکتہ نظر ہمیں ایک دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہیں۔ جبکہ آگے ہمیں خود فیصلہ کرنا ہو گا، کہ ہمیں کس سمت جانا ہے۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ کارپوریٹ اِزم چند مخصوص عورتوں کو انفرادی مراعات تو دے سکتا ہے لیکن یہ پوری دنیا کی تباہی اور بربادی پر منتج ہو کر رہے گا، کہ یہ اپنی بساط میں انسانیت کی تباہی کا سامان لیے پھرتا ہے۔ کسی بھی ایک سمت کا شعوری انتخاب کرتے وقت ہمیں اپنا ذہن کھلا رکھنا ہو گا اور معنی خیز اور مدلل مکالمہ/ مذاکرات کرنے ہوں گے۔ ہمیں انقلابی فیمنسٹ کے تخلیقی عمل سے بھی گزرنا ہو گا، اور اُن لوگوں کو بھی شامل کرنا ہو گا جو کہ سیاست میں حصہ تو لینا چاہتے ہیں لیکن کنار ے پر انتظار میں کھڑے ہیں۔ ایک سیاسی کارکن کے ناطے ہمیں اپنے ساتھ بھی دیانت داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ حقیقت قبول کرنی ہو گی کہ سرمایہ داری کی عطا کردہ انفرادیت پسندی اب ہماری روحوں کا جزو لازم بن چکا ہے، اس نے ہمارے تصورات اور ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو محدود تر کر رکھا ہے، اور انقلابی سیاسی کام کو ایک یوٹوپیائی /تصوراتی مغالطے میں تبدیل کر دیا ہے۔

یہ مضمون اِسی سیاسی دوراہے، مستقبل کے امکانات، “لبرل/ کارپوریٹ فیمنزم “اور “سرمایہ داری مخالف فیمنزم “کے مختلف رُجحانات کو زیرِبحث لاتا ہے، خاص طور پر پاکستان کے پس منظر میں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اِس ’آغازِ شروعات گفتگو‘ میں مُدعے کے تمام تر پہلوؤں کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہے (جیسے کہ سیکس ورک، پورنوگرافی، کوئیر پرسن تھیوری اور دوسرے ممکنہ موضوعات کو نہیں چھیڑا گیا ہے)، کیونکہ ساری کی ساری فیمنسٹ تحریک کی روح، اور اُس سے جڑی ہوئی مکمل سیاست کا صرف چند ایک صفحات میں جائزہ لینا ممکن نہیں۔

فیمنز م: لبرل بمقابلہ سرمایہ داری مخالف فیمنز م

: سرمایہ داری کا فیمنزم پر قبضہ

فیمنزم کے منظر نامے کے یہ دو مدِمقابل سیاسی رُجحانات اور دو مختلف اہداف کے لیے جدوجہد بھی دو بالمقابل/ متضاد نوعیت کے اصولوں کے بنیاد پر مبنی ہیں:۔

پہلا اُصول : “سرمایہ داری کی حامی” لبرل فیمنزم کا سادہ ترین الفاظ میں تصور یہ ہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار میں اگر عورتیں معاشی، سماجی اور سیاسی میدان میں اہم اور طاقتور عہدوں پر ہوں تو یہ عورت اور فیمنزم دونوں کے لیے جیت ہو گی، اور اس طرح ہم صنفی اور جنسی مساوات کے اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔

دوسر اُصول : “سرمایہ داری مخالف فیمنسٹوں ” کے نقطہ نظر سے پیداوار کا موجودہ سرمایہ دارانہ طریقہ پوری دنیا اور انسانیت کے لیے موت کا پیغام ہے۔ اور وہ سیاسی ایجنڈا جو کہ زندگی کے معیار میں ’بربادی لاتی ہے، نسل پرستی کو بڑھوتری دیتی ہے (دونوں نسلی اور لسانی بنیادوں پر)، ماحولیاتی تباہ کاری کا سبب بنتی ہے، جنسی بحرانی صورتحال سے لوگوں کو دوچار کرتی ہے (جیسے کہ دہشت و تشدد میں اضافہ، ظلم، غیر مخلوط نظام، بیگانگی ذات اور اکیلے پن کے مسائل)، اُس کا ہمیں جواب دینا ہو گا۔

تاریخی لحاظ سے فیمنزم اپنے نظریے اور سیاست کی تشکیل کے عمل کے دوران اِن مسائل سے لڑی ہے۔

فیمنسٹ تحریک ‘خود تنقیدی ‘کے اصول کو بروئے کار لا ئی ہے اور اپنے لیے نئے رستے خود تلاش کیے ہیں۔ میں جب فیمنزم کے مختلف رجحانات اور طر یقہ کار پر بات کرونگی تو امریکی اوریورپین فیمنسٹ سیاست کے مختلف فریم ورک کا ذکر بھی کرونگی۔ ہمارے سامنے جو فیمنزم ہے وہ یورپ اور امریکہ کے اندر عورتوں کی جدوجہد کے دوران ہی ممکن ہو سکا ہے۔ کہ جہاں عورتوں نے سول رائٹس کے مطالبات جیسے کہ ووٹ کا حق، تعلیم، روزگار، جائیداد رکھنے کا قانونی حق، شادی اور طلاق وغیرہ کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ برطانیہ اور امریکہ میں حقِ رائے دہی کی تحریک(سفریج موومنٹ) عورتوں کی تحریک کے آغاز کا پہلا اقدام مانا جاتا ہے۔ پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں پر عورتوں کی جدوجہد عمومی طور پر سرمایہ داری نظام کے اندر ہی نظر آتی ہے۔ کیونکہ عورتوں نے اپنے مظاہروں میں 2یہاں کے پیداواری نظام (سرمایہ داری) اور ان ریاستوں کی سامراجی نوعیت پر کوئی بات نہیں کی (موہانتی:2003ء)۔مزید برآں اِس نوعیت کا امریکی یورپین فیمنسٹ نقطہ نظر، عورتوں کی سامراج مخالف تحریکوں میں شرکت کو جھٹلاتا ہے، جو کہ ہمارے دیشوں میں جاری تھیں اور ہیں۔ برصغیر میں گہری رنگت کی خواتین مردوں کے نشانہ بشانہ سامراجیت کے خلاف کھڑی نظر آتی ہیں، گورے مرد اور عورت دونوں کی بالا دستی کے خلاف۔

اِس دوران میں 19ویں صدی کے آخری سالوں میں جب یورپ اور امریکہ میں لبرل فیمنسٹ لٹریچر لکھا جا رہا تھا اور لبرل فیمنسٹ تحریک بھی جنم لے رہی تھی، اُسکے بر عکس بالشویک عورتیں ایک مختلف نقطہ نظر اور لٹریچر تخلیق کر کے سامنے آتی ہیں۔ ان میں کلارا زڈکن، روزا لکسمبرگ، ایلکسنڈرا کولنتائی اور اس طرح کی کئی دوسری بالشویک عورتوں نے نہ صرف اپنے حقوق کی بات کی بلکہ کمیونسٹ انقلابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور متبادل کمیونسٹ نقطہ نظر تخلیق کیا۔ انقلابی ماڈلوں کو سامنے لایا گیا، تاکہ ورکنگ کلاس کے لوگوں کو بوروژوا نقطہ نظر کی جکڑ بندیوں سے آزاد کیا جائے۔ کولن تائی کا کام بیسویں صدی کے اوائل میں صنفی ہنگامی صورتحال کے بارے میں منظر عام پر آتا ہے۔ اور جس میں کہ حقیقی معاشی مادہ پرستی کو پہلی دفعہ جنسیت (سیکشیولٹی)کے مسئلے کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ ان کے مضامین میں سرمایہ دارانہ طرز پیداوار اور اس سے جُڑی جنسی روایات اور رسومات کی نفی کی گئی ہے۔مزید یہ کہ جنسی سچائیوں کو، جو کہ پدرشاہی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، کو زیر بحث لایا گیا۔ ان کے مضامین میں محبت کے عمل کا بھی کمیونسٹ نقطہ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اور جنسیت کو ایک” معمولی مسئلہ” کے تصور سے آزاد کیا، اِسے محض ایک جنسی عمل کے تصور سے بھی علیحدہ کیا (کولنتائی:1921ء)۔3 اُن کے مطابق یہ صرف لذت لینے کا عمل نہیں ہے، بلکہ کولن تائی نے اسے خاندان اور افزائش نسل سے جوڑ کر پاکبازی، قحبہ گری اور تشدد کے پس منظر میں تشریح کی ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان بالشویک فیمنسٹ کاوشوں کو نیولبرل دانشوروں نے دہائیوں تک انقلابی نقطہ نظر سے دور لے جانے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ “ریڈیکل فیمنزم ” جو کہ 1960ء اور 70ء کی دہائیوں کے دوران امریکہ کے اندر ظہور پذیر ہوئی، نے جسم اور جنسیت کے موضوع کو زیر بحث لانے کی کوششیں کی ہیں۔ اور یہ بحث اُنہی کی مرہون منت بھی ہے۔ مذکورہ سیاست کے اندر ایک غیر زبان زدِعام نعرے ”ذاتی بات، سیاسی بات“ نے جنم لیا۔ اس دور میں فیمنسٹوں کا مشہور نعرہ تھا ”عورت کا وجود ہی جدوجہد کا میدان ہے“۔عورت کے وجود کی نمائندگی اور معنی کو حیاتیاتی فرق کو واضح حقیقت کے ساتھ جوڑا گیا۔ اور مسائل جیسے کہ خاندان، اسقاط حمل، جنسیت اور لیبر (مزدوری) میں صنفی تقسیم کار، زبرجنسی اور گھریلو تشدد جیسے موضوعات اور بحثوں کو مرکزی دھارے میں لایا گیا۔ مذکورہ فیمنسٹوں نے معاشی دائرہ کار میں عمل دخل کی ابتداء کی ۔ اس طرح اُنہوں نے اپنے گھروں کے اندر اور ساتھ ساتھ معاشی محور اور عوامی جگہوں پر اپنی صنفی موجودگی منوانے کی بات کو آگے بڑھایا۔ امریکہ میں سیاہ فام فیمنسٹ عورتوں نے علمی کاوشیں کیں اور سیاست میں عمل دخل کیا اور منظم و ادارہ جاتی نسل پرستی کو سرمایہ داری کے نظام اور پدرشاہانہ رویوں کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں کیں۔ انہیں فیمنسٹوں نے اپنے ریڈیکل نقطہ نظر سے بالادست طبقہ کی گوری عورتوں کو بھی للکارا اور انہوں نے اپنے آپ کو مختلف سماجی پرتوں میں تقسیم کیا اور استحصالی تشخص /شناختوں کے پس منظر میں اپنی بات کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر ایک سیاہ فام امریکی عورت اپنی رنگت سیاہ ہونے کی وجہ سے حقوق سے محروم ہے، بلکہ وہ محنت کش طبقے سے تعلق ہونے کی وجہ سے بھی پِسی ہوئی ہے (کرینشاو:1991)۔4 لہٰذا اس طرز عمل نے مارکسسٹ فیمنسٹوں کو بھی اپنا طرزِ فکر و عمل کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا اور انہوں نے کلاسیکل مارکسی اصولوں اور اقدار پر نئے سرے سے غور و فکر شروع کیا، کہ کس طرح صنفی رشتے کو طاقت کے طبقاتی تقسیم کے تجزیے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

اِسی ریڈیکل فیمنسٹ تحریک کا اثر پاکستان کے اندر بھی عمل پذیر ہوتے دیکھا گیا، ضیاء رِجیم کے دوران عورتوں کی تحریکوں میں ”ذاتی بات، سیاسی بات“ کے نعروں کو مرکزی دھاروں میں دیکھا اور سنا گیا۔ ان تحریکوں میں عورتوں نے ضیاء الحق کے استبدادی قوانین کو للکار ا اور ماننے سے انکار کے نعرے بلند کیے۔ مذکورہ قوانین ظلم کی انتہا پر مبنی تھے اور نجی زندگی کے برائے نام تقدس کی آڑ میں ظلم کا بازار گرم کیا گیا تھا، زبرجنسی کے جرم وقوع پذیر ہونے پر ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی عورت پر ہی ڈالی جاتی تھی۔ اگر تو متاثرہ عورت ثبوت فراہم کرنے میں ناکا م رہے تو اُسی پر زنا کی دفعہ لگ جاتی تھی۔ اور سزائیں دی جاتی تھیں۔ اس تحریک کے دوران عورت کے حقوق کی بات کی گئی۔ اور اس بات کی مخالفت کی گئی کہ عورتوں کو دی جانے والی سزاؤں میں ریاست کے معاملات میں مذہب کا عمل دخل بند کیا جائے۔ اور مطالبہ کیا گیا کہ اسلام اور سیکولرازم کو آپس میں گڈمڈ نہ کیا جائے۔ کیونکہ ضیاء رِجیم نے حدود آرڈینینس جاری کیا تھا، جو کہ اسلام کی متنازعہ تشریحات پر مبنی تھا (اس پر فیمنسٹوں کا آپس میں بھی اختلاف رہا ہے)۔

اگر1980ء کی دہائی کی مذکورہ تحریک نے سیکولر ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی اہمیت کو تسلیم کیا اور آج سوشلسٹ فیمنسٹوں کی اکثریت اِس مؤقف سے اتفاق رکھتے ہیں لیکن مذہب کے سوال کو آگے بڑھانا پھر بھی مسئلہ ہی رہا ہے، خاص طور پر یہ کہ عوام کو مائل کرتے وقت سیکولرازم اور عورت کے سوال کو کیسے چھیڑا جائے۔ خصوصاً آج کل مذہب کے پس منظر میں عورت کے حقوق سے متعلق بات کرنا آسان کام نہیں ہے۔

مذکورہ تحریک میں طبقاتی سوال کے ضمن میں مزید سوال اٹھائے گئے، مگر اس قسم کی سوچ کو کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی کیونکہ تحریک میں حصہ لینے والی خواتین کی اکثریت کا تعلق مالدار طبقے سے تھا۔ اور اس طرح طبقاتی سوال کو عملی سیاست کا حصہ نہیں بنایا جا سکا، تاکہ کسی معنی خیز انداز میں طبقے، صنف اور جنسیت کے مسائل کا ایک دوسرے پر اثرانداز ہونے کے عمل کا جائزہ لینا ممکن ٹھہرے۔ پھر بھی ہمیں عورتوں کی تحریک کی کچھ قانونی کامیابیاں نظر آتی ہیں، اور ساتھ ہی فیمنسٹ سیاست کو آگے بڑھانے کا امکان بھی نظر آتا ہے۔ لیکن میری رائے میں ایک مربوط اور جہدِمسلسل پر مبنی فیمنسٹ تحریک بننا ابھی باقی ہے، جو کہ پاکستان کے اندر جبریت اور ظلم پر کھڑے اس نظام / ڈھانچے کو یکسر توڑے، نہ کہ موجود ہ نظام کے اندر ہی چند ایک تبدیلیاں لائے۔

جوں جوں سرمایہ داری نظام میں مزید بڑھوتری ہوتی گئی، ہم نے عالمی سیاست میں ریڈیکل اقدار کا زوال ہوتے دیکھا۔نتیجتاً لوگوں میں سیاست گریز رجحانات عام ہوئے ہیں، خصوصاً 1990 ء کی دہائی کے دوران نوجوان مردوں اور عورتوں میں۔ ہم نے لبرل فیمنزم کی گھناؤنی صورت بھی نمودار ہوتے دیکھی ہے۔ میں اس کے لیے ” گھٹیا اور گھناؤنا “جیسے الفاظ کا استعمال کروں گی کیونکہ اس تحریک نے سرمایہ داری نظام پر تنقید کو مکمل طور پر پسِ پشت رکھا۔ اور سماجی انصاف کے لیے اس جدوجہد نے قنوطی طرز کی اور انتہائی انفرادیت پرستانہ شکل اختیار کی ہوئی ہے۔ صرف ثقافت کوہی نشانہ بنایا ہے۔ اور پاور سڑگل اور کیرئیرازم پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔

جارحیت پرستانہ سرما یہ داری نظام سے جڑی ہوئی میڈیا، وہ بھی مین سٹریم میڈیا، ساتھ ہی سوشل میڈیا نے عالمی سطح پر مذکورہ لبرل فیمنزم کو بڑھوتری بخشی ہے۔ نتیجتاً یہ بیانیہ خاصا مقبول ہو کر ایک غالب نظریہ ہوگیا ہے۔ اِن رجحانات سے نہ صرف انقلابی فیمنسٹ سیاسی کارکنوں کو دور رہنا پڑے گا، بلکہ سماج کے اندر پائے جانے والے ان رویوں کے ساتھ ساتھ لیفٹ حلقوں کے اندر اور باہر پائے جانے والے ِ ان رجحانات کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا۔

ہمیں نہ صرف کارپوریٹ حقائق کے ’تجزئے‘ کی بات کرنا ہو گی، بلکہ کام کی جگہ پر اُن مسائل کے بارے میں بھی بات کرنا ہوگی جس کو لبرل فیمنزم اُٹھا رہی ہے۔ اور اُس “انفرادی ترقی/ کامیابی ” پر بھی سوال اُٹھانا ہوگا جو کہ فیمنسٹ تحریک کی سیاسی کاٹ کو کھا رہی ہے۔ اب جبکہ فیمنزم کو سیاست سے خارج کرنے کا گھناؤنا پروپیگنڈہ جاری ہے، سوشل میڈیا پر ”سوشل میڈیا سیلبرٹی“ کا تصور بھی مذکورہ سازش کا خمیازہ ہے، جسے ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر الفاظ کو زیادہ اہمیت اور پذیرائی دی جا رہی ہے، بہ نسبت زمین پر سیاسی کام کے۔ حقائق کو مسخ کیا جاتا ہے اور اس طرح فیمنزم کنفیوژن کا شکار ہوتی ہے۔ جہاں چند ایک مخصوص نوعیت کی عورتوں کو اہمیت اور تشہیر دی جاتی ہے۔ وہیں ان خواتین کی خصوصیات کی سرمایہ داری نظام اور پدرشاہیت بھی اپنے نقطہ نظر سے تشریح اور تشہیر کرتی ہے۔ جبکہ رجعت پسند ا ور قدامت پرستانہ پالیسیوں کو ترقی پسندی کی عام فہم زبان اور نعروں کا لبادہ اوڑھے سامنے لایا جاتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ عورتوں کو افرادی قوت بڑھانے اور سرمایہ کے لیے کام کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے، لیکن ساتھ ہی انہیں ایک کونے میں بھی بند کیا جاتا ہے۔ اور ”گھرکی ملکہ“ جیسے خطابات سے نوازا جاتا ہے اور پُرجوش لیکن بے جان نیک پروین اور جنسی وحشاؤں کا کردار نبھانے اور مردوں کو صرف تفریح کا سامان مہیا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر مروجہ پاپولر کلچر اور اشتہار بازی کی مدد سے ان کو نرم و نازک ساتھ ہی بہادر بھی دکھایا جاتا ہے، تاکہ وہ سرمایہ دار ی نظام میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالیں۔ لیکن ساتھ ہی انہیں خود اعتمادی اور خود پسند کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ تاکہ پدرشاہی نظام کو بروئے کار لایا جا سکے۔

اس کے علاوہ، ایک اور طرز کی فیمنزم بھی سامنے آرہی ہے:’ “چوئس فیمنزم ” ‘، یعنی اختیاری فیمنزم۔ جہاں کہ کسی عورت کا اپنی مرضی جتانا ہی فیمنزم سمجھا جاتا ہے: یعنی کہ عورت کی اپنی مرضی کا اظہار یا اختیار استعمال کرنا ہی کافی ہے۔ جبکہ اس مبینہ اقدام کی مدد سے بنیادی سوالات میں اختیار اور مرضی کا ایک اہم عنصر چھپایا جاتا ہے اور جو کہ پہلے سے تشکیل شدہ عورت کی صلاحیت، اہلیت اور حیثیت سے متعلق سوال ہے۔

مثال کے طور پر پاکستانی عورت کو اپنا شریک حیات خود چُننے کا حق دیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مذکورہ حق اُس کے پاس ہوتا ہی نہیں بلکہ اُس کے خاندان کی پدرشاہانہ اقدار اُس کی مرضی چلانے کے دوران آڑے آجاتے ہیں، اور اسی دوران اگر تو عورت اپنی مرضی کی بات کرے تو اس کے نتائج گھمبیر نکلتے ہیں اور کبھی کبھار تو عورت موت کے گھاٹ بھی اتاری جاتی ہے۔ ساتھ ہی دوسرے پس منظر بھی ہیں جہاں عورت کی” اپنی مرضی “والی بات کا تنقیدی جائزہ لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، مذکورہ پسندیدگیاں (چوائسز) پدر شاہانہ نظام کی اپنی ہی تخلیق کردہ ہیں (اور سرمایہ دارانہ نظام کی بھی)۔ سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنے اختیار سے اپنے شریک حیات کا انتخاب کر سکتی ہوں؟ یا میرے اختیار کا معیار پدر شاہی نے بچپن سے مجھے سُدھاتے وقت میرے ذہن میں ترتیب نہیں دیا؟ اور یہ کہ اگر میں اپنی مرضی سے پسند کی شادی کر بھی لوں، تو بھی تو مجھے اُسی خاندانی نظام کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جسے پدرشاہیت ہی کنٹرول کرتی ہے۔ مثال کے طور پر مجھ سے کہا جاتا ہے کہ شوہر کے گھر چلی جاؤں، اور شوہر کو ہی خاندان کا سربراہ تسلیم کروں، اور یہ سب کچھ ریاستی نظام کی مدد سے بروئے کار لائی جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ مجھے اپنی شناخت (نیا وجود) شوہر ہی کے نام سے قائم رکھنا ہوتا ہے۔ اب کیا اِسے آزادی (ایمنسی پیشن) کہا جائے گا؟ کیونکہ یہ سب کچھ میری مرضی(چوائس)سے ہوا!۔

درجِ بالا بحث سے مراد یہ ہے آج پاکستان کی نوجوان عورت جسے انٹرنیٹ وغیرہ تک رسائی بھی حاصل ہے، کی گلوبل نظام تک رسائی ممکن ہو گئی ہے اور وہ باقاعدہ اس کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ وہ اِسی نظام کے اندر ہی اندر اپنا وجود منوا نے کے لئے بات چیت کر رہی ہے اور گلوبل مروجہ نظام میں اپنی آواز بلند کر رہی ہے اور اپنے لیے مقام ڈھونڈنے کے عمل سے گزر رہی ہے۔ مگر صرف سوشل میڈیا پر بات چیت اور عملی سیاست میں کم سے کم حصہ داری کے سبب ہمیں اپنی صورتحال کو سمجھنے میں دقت پیش آرہی ہے تاکہ ہم ان سوالات کی صحیح جانکاری کر سکیں، اور جو کہ ہم پوچھنا بھی چاہتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال آج” #می ٹو ” کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جو کہ آج سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہی ہے۔ مذکورہ تحریک امریکہ کی ایک سیاہ فام سیاسی سرگرم کارکن خاتون “ترانا برکی” نے شروع کی۔ وہ جبر اور نفرت کی شکار خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم عمل رہی ہیں۔ لیکن اس تحریک کے اندر جان اس وقت آئی جب ہالی ووڈ کی اداکاراؤں نے جنسی ہراسانی کے واقعات کو منظر عام پر لانا شروع کیا اور اس طرح مروجہ نیولبرل اشتہار بازی کا رواج زور پکڑ گیا۔ لیکن حقیقی سیاسی کام پس پشت ڈالا گیا۔ تحریک کا ظہور اور طریقہ کار آن لائن بنیادوں پر ہے۔ می ٹو کے آن لائن آنے پر یہ ایک گلوبل معاملہ بن چکا ہے۔

ہم نے دیکھا کہ #می ٹو آج سیاست اور اکیڈیمیا (شاعر، ادیب، دانشور، عالم) پر نہایت تیزی سے اثر انداز ہو رہی ہے۔ بالکل تفریح سے متعلق انڈسٹری کی قوت کی طرح۔ مذکورہ تحریک نسل در نسل جمع ہونے والے اجتماعی غم و غصے کا اظہار لے کر آئی ہے، جہاں عورتیں پہلے خاموشی سے بے عزتی جھیلتی رہیں، جسے اب مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن پھر بھی موجودہ صورتحال میں حقیقی سیاسی سوالات سے ہمارا سامنا ہے۔ اور جو کہ انسانوں کی اجتماعی بقا اور سالمیت اور انصاف پر مبنی ہیں:۔

:متاثرین کی اجتماعیت کا سوال
جب ہم “’ہم متاثرین ہراسگی و بے عزتی‘ ” کا جملہ استعمال کرتے ہیں تو اس میں لفظ “ہم” سے ہماری مراد کیا ہوتی ہے؟ آیا اِس سے مراد وزیرستان اور مومند کی وہ عورتیں ہیں جن کو حالیہ دور میں پاکستان کے سب سے طاقتور ادارے کے اہلکاروں نے جنسی بربریت کا نشانہ بنایا؟ یا پھر آیا اِس سے مراد ورکنگ کلاس عورتیں ہیں جن کا کوئی گھر یا ٹھکانہ نہیں ہوتا؟ آیا وہ صنف ِ آزاد لوگ ہیں؟ یا وہ مرد بھی جو عورتوں کے ہاتھوں بے عزتی کا شکار ہیں؟” ہم” کا مسئلہ نہایت گھمبیر اور زومعنی ہے۔ لیکن جیسے’ آدر ے لار’ نے کہا ہے کہ ہمارے لئے اپنے تحفظات کی جانکاری، فرق کو سمجھنا، اور ایک ہی نوعیت کے تجربات کے مابین تعلق داری استوار کرنا، نہایت اہمیت کی حامل بات ہے۔ ہم انواع و اقسام کے مختلف نوعیت کے ظلم و تشدد کے تجربات سے گزرتے ہیں لیکن جس چیز سے وہ سب تجربات جا کر جُڑتے ہیں، وہ ایک ہی ہے: ” سرمایہ دارانہ پدر شاہی کا ڈھانچہ”۔ مذکورہ تشدد کے بارے میں اس سسٹیمک صورتحال کا تصور ہی دراصل ہمارا مشترکہ مسئلہ ہے۔ یہاں اس مشترکہ مسئلے کو سوچتے ہوئے ہمیں ایک بات واضح کر لینا چاہیے کہ ہمارے طبقاتی اور لسانی پس منظر کی وجہ سے ہمارے خطرات یکساں نوعیت کے ہرگز نہیں ہیں اور نہ ہونگے۔

:انصاف کا سوال
#می ٹو کے ساتھ جو خوف جُڑا رہاہے اُس کا ایک حصہ تو یہ ہے کہ اِس نے مرد کی حاکمیت کو چیلنج کیاہے، لیکن ساتھ ہی دوسرا حصہ اِسے نیو لبرل کرتب (سٹنٹ) کی صورت میں مختلف کارپوریشنوں کی مدد سے اِسے آلہ کار بنا رہے ہیں ۔تاکہ کارپوریشنز اپنے حصص اور منافع محفوظ کر سکیں۔ کارپوریٹ سماج نے ہمیشہ ہراسگی کی پالیسیوں کو اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ اور دشنام طرازی کے خلاف کاروائیاں کی ہیں، لیکن اس غرض سے کہ اپنے مکروہ منافع خور چہرے اور کردار کو نرم بنا کر دکھایا جائے۔ اور لیبر کی استحصال کی بدصورت ترین شکلوں کو سامنے آنے سے روکا جائے، اور وہ بھی صنفی انصاف کے پردے کی آڑ میں۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا ہوگا: کہ آیا #می ٹو کسی انقلاب کا نام ہے یا پھر محض بدلہ اور سزا ( ری ٹریبیوشن) کی کوششیں ہیں؟ اگر تو ہم اپنی تمام تر توانائی چند ایک انفرادی بدکردار لوگوں کی نشاندہی کرنے میں صرف کرنے لگیں تو ہمارے پاس وقت نہیں بچے گا کہ ہم اُن ڈھانچوں کو نیست و نابود کر دیں جہاں ا س طرح کے گھناؤنے کردار تخلیق اور تیار کیے جاتے ہیں اور جو کہ بعد میں اس قابل ہو جاتے ہیں کہ تشدد کے عمل کے مرتکب ہو جائیں۔ لہٰذا اس طرح ہمیں مزید الجھایا جاتا ہے اور تشدد کے منظم ڈھانچوں سے دور لے جانے کی سازش کی جاتی ہے تاکہ ہم اُن اداروں کا تجزیہ اور جانکاری نہ کر سکیں، جن کے سبب تشدد ایک منظم صورت اختیار کر لیتا ہے یا پھر اس کا سبب بنتا ہے تاکہ دُشنام کے اصل کرداروں کو لوگوں کے سامنے لایا جائے، بے عزت کیا جائے اور پیشہ ورانہ طور پر سزا دی جائے (وہ بھی ایسی صورت میں اگر توہم خوش قسمت ہوئے اور ہمارا مقدمہ آگے بڑھ سکے)۔لیکن وہ تمام ڈھانچے اور ادارے جو لوگوں کو نسل در نسل اِن واقعات کے آئے دن رونما کرانے کی تیاریوں میں لگے ہیں، اُن پر کوئی بات نہیں کرتا۔ اُن ڈھانچوں اور اداروں کو نظروں سے اوجھل رکھا جاتا ہے۔ اور اس طرح ہم مسلسل کوتاہی برتتے جاتے ہیں تاکہ عسکریت پسندی اور فاشنرم کے پیچھے گلوبل سطح پر کار فرما عوامل کا جائزہ نہ لے سکیں۔ اور سوالات نہ اٹھائیں، خاص طور پر پاکستان کی صورتحال میں مردوں کی طرف سے دن بدن بڑھتے ہوئے پُرتشدد رویوں پر۔

مذکورہ بالا سوالات وہ چند ایک ہیں جن کے جوابات آج کے شہری نوجوان فیمنسٹوں کو خود تلاش کرنے ہونگے۔ اور جو معاشی سوال کو موجودہ مسائل /واقعات کو صنفی اور جنسی حقائق سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ لوگ بہرحال تعداد میں بہت تھوڑے ہیں۔ ہم مسلسل اس مغالطہ کا شکار رہتے ہیں کہ فیمنزم تشخص/شناخت سے متعلق ہے، نہ کہ سیاسی سیاسی نقطہ نظر سے۔ نتیجتاً ہم اس امر پر اکتفا کرنے لگتے ہیں کہ فیمنزم کا تعلق صرف عورتوں کے جسموں کے ساتھ ہے اور صرف انفرادی حقوق کی بات کو آگے بڑھاتا ہے۔ ہمارے تنظیمی کام کے اندر ’’صنف‘‘ کو صرف ایک چیک باکس کی طرح لیا جاتا ہے کہ بس اس کو بھی دیکھنا ہے، بجائے اس کو ایک سیاسی تجزیاتی پہلو کے طور پر دیکھنے کے، کہ کس طرح صنف اور جنس دنیا کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر تشکیل دیتا ہے۔ اور دنیا کا ایک نئے متبادل نقطۂ نظر سے جائزہ لیں۔ اس طرح مذکورہ اقدامات سرمایہ داری کو ترقی اور تقویت دیتے ہیں جو کہ لبرل فیمنزم کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرتا ہے۔۔ اب یہ کسی حد تک لیفٹ کی تحریک کی غلطی بھی گردانی جاتی ہے، جہاں کہ ابھی تک صف آرائی کا عمل جاری ہے۔ جہاں “فیمنسٹ کام” اور “سیاسی کام” کے درمیان لکیریں کھینچی جاتی ہیں، جس کے سبب فیمنسٹ سوچ سے جڑے ہوئے تیزوتند ورکرز (خصوصاً عورتیں) تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں، اور مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔سماجوں میں بھی فیمنسٹ سیاست کے ساتھ جڑے ہوئے طبقاتی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی بھول بھلیوں میں گھرے رہے ہیں۔ اور اس طرح ایک ہی عمل سے بار بار گزارا جاتا ہے۔

سرمایہ داری مخالف فیمنزم: بدترین وقتوں میں آزادی پسند سیاست

وہ لوگ جوکہ فیمنسٹ تحریکوں کے ساتھ جڑنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی نظر میں موجود ہ حقائق، خاصے گڈ مڈ ہو کر رہ گئے ہیں اور جبکہ وہ طبقاتی لحاظ سے تقسیم در تقسیم کے عمل میں بھی اُلجھے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی مختلف جغرافیائی پس منظروں کے باوجود طبقاتی سوال کو فیمنسٹ تحریک کے اندر بار بار اُٹھا رہی ہیں۔ ہم نے یہی تجربہ بالشویک عورتوں کے سیاست میں عمل دخل کے دوران بھی دیکھا ہے۔ ساتھ ہی امریکہ میں سیاہ فارم عورتوں اور جنوبی ایشیا خصوصاً ہندوستان میں بھی۔ ہندوستان میں عورتوں کو اپنی جدوجہد کے دوران صنفی امتیاز، استحصال اور ذات پات کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا اور اُنہوں نے یہ سوال اٹھائے بھی۔ یہی کچھ ہم پاکستان کی شہری خواتین فیمنسٹوں نے بھی تجربہ کیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی چند فیمنسٹ عورتیں سیاسی تنظیم کاری کے دوران نئے رستوں کا تعین کر رہی ہیں، جبکہ باقی اپنے پرانے طریقہ کار اپنائے ہوئے ہیں۔ جبکہ دوسرے ایسے بھی ہیں جو کہ اپنے سوشلسٹ نظریات اور اُصولوں پر نظرثانی کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ حالیہ عورت آزادی مارچوں کے دوران میں نے لاہور میں یہی کچھ دیکھا(چونکہ میں لاہور موجود تھی اس لیے میں صرف یہاں کی بات کروں گی)۔میں نے دیکھا کہ وہ فیمنسٹ عورتیں جو پہلے سیاست میں آنے سے کتراتی تھیں، ساتھ ہی وہ عورتیں جو لیفٹ کی سیاسی تحریکوں کا حصہ رہی ہیں، آج کے دن آپس میں گھل مل گئیں۔ اس طرح انہوں نے بحثوں میں حصہ لیا اور آپس میں جڑنے کی بات کو آگے بڑھایا۔ اب طبقاتی سوال پر بھی توجہ دی جانے لگی۔ لیکن بحث و مباحثہ کی حد تک، اور نہ کہ کسی مربوط اور منظم پروگرام اور لائحہ عمل کے حوالے سے، جہاں کہ حقیقی تجزیہ ممکن ہو سکے، لیکن پھر بھی آپس میں وعدے ضرور کیے گئے۔ یہ کہ ہمیں جُڑنا ہوگا، اور کھلے ذہن کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ اور یہ کہ کارپوریٹ لبرم فیمنزم، جس نے ہمیں ناکارہ اور بے حس بنائے رکھا ہے، سے نکلنا ہوگا۔ اور اس امر کا بھی اعادہ کیا گیا کہ ہمیں سرمایہ داری کے خلاف فیمنسٹ نقطہ نظر کو آگے لے جا نا ہوگا۔

آج مقامی اور گلوبل سطح پر سرمایہ داری کے خلاف فیمنزم سے جُڑے ہوئے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں وہ فیمنزم نہیں چاہیے جوکہ عورتوں کو سرمایہ دارانہ طاقت میں حصہ دار بنائے۔ ہمیں ایسی فیمنز م درکار ہے جو کہ سرمایہ داری کے نظام کو جڑ سے اُکھاڑ پھینک دے، کیونکہ یہی طاقت پدر شاہیت کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے، اور ایک طرح کی شیطانی خصلت والے گٹھ جوڑ کی تخلیق کرتی ہے جو کہ عورتوں کو طرح طرح کے طریقوں سے پیچھے دھکیلتی ہے۔ یہ سوال آج اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ کل تھا۔ آج ہم سماجی تنظیم کے بحران سے برسرپیکار ہیں کہ جہاں ہمارا سامنا دنیا کی بقاء، جبریت اور ظلم و تشدد کی مختلف شکلوں، اور سُکڑتی جمہوری اقدار اور اصولوں کے گرد کئی سوالوں سے ہے۔

مندرجہ بالا واقعات کو مدنظر رکھ کر ہم جان سکتے ہیں (یاپھر جاننے کی توقع کر سکتے ہیں) کہ کس طرح کیپٹلزم ہمارے کام کی صلاحیتوں کا استحصال کرتا ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ ہماری زندگیوں کے اُن کونوں کھدروں تک رسائی حاصل کرتا ہے، جہاں ہم اپنی زندگیوں کو سنوارنے کا بندوبست کرتے ہیں اور ہماری کمیونٹیز کو بے حس اور ایک دوسرے سے بیگانہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب لوگوں کو زندہ جلانے والی ذہنیت کا ہجوم/ بلوائی مذہب کی بے حرمتی کے نام پر اکھٹا ہو کر کسی پر بھی ٹوٹ پڑتا ہے، توہم اس کی بیک زبان مخالفت کرتے ہیں۔ کیونکہ جو کچھ بھی پاکستان میں ہو رہا ہے اس کے پیچھے وہ سوچ کار فرما ہے کہ جہاں کئی دہائیوں سے آج تک مذہب کو مقتدرہ طبقہ کے مفاد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اور یہ اشرافیہ کلاس کی سیاست اور فوجی اسٹبلشمنٹ کی آپس کی گٹھ جوڑ اور بددیانتی، عوام دشمنی پر مبنی سازش کا خمیازہ ہے جسے کہ عام لوگ بھگت رہے ہیں۔ اِس گفتگو کی یہی شروعات ہے جس کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنی زمینی حقائق اور سماجی رشتوں کی آپس میں جڑے ہونے کا جائز لیں۔ اگرچہ جنگ پرستی، بذات خود جنگیں، مذہبی بنیاد پرستی، جہادی کلچر، مذہبی انتہا پسندی، قومی جبر، سرمایہ کی بالادستی اور پُر تشدد پدرشاہانہ روئیے کی وجہ سے ہمارے یہاں سماجی ترقی کی رفتار سست رہی ہے۔ لیکن اسکے باوجود، اس گفتگو میں اس امر کا پھر سے جائزہ لینے کی کوشش کی جائے کہ ہم مشترکہ طورپر کوئی سرما یہ داری مخالف فیمنسٹ ایجنڈا وضع کر سکیں، جوکہ “پروگریسو نیولبرل فیمنسٹ” وضع یا ” لیفٹ بنیاد پرستی” کی سیاست سے آزاد اور خود مختار ہو۔

مجھے اس بات کا احساس ہے، کہ میں کسی مربوط نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہی، لیکن یہ بھی تو فیمنسٹ سیاست کی موجودہ علاقائی مؤقف اور صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ آج بھی ہم اپنے رستے، مستقبل کے لائحہ عمل اور طریقہ کار متعین کرنے میں لگے ہوئے ہیں، جن کے ذریعے ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ پھر بھی ہمارا ایمان ہے کہ ہم نے خاصہ وقت اور قوت ضائع کی ہے اور غیر مثبت تنقید میں اُلجھ پڑے ہیں، جو کہ منظم اور غیر منظم لیفٹ کے برائے نام ترقی پسندوں کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ لیکن اب وقت آن پہنجا ہے کہ ہم فیمنسٹ سیاست بارے ِان لوگوں پر مزید وقت برباد نہ کریں جو کبھی بھی ہمارا ساتھ نہیں دیں گے۔ اس مضمون میں، میں نے کوشش کی ہے کہ فیمنسٹ سیاست کے بارے میں سوچتے ہوئے جو بھی خیالات میرے ذہن میں آتے ہیں، وہ مختصراََ تحریر کروں، کہ آج فیمنسٹ سیاست کہاں کھڑی ہے۔ یہ پاکستان میں آغاز گفتگو کی شروعات پر میری ایک مقدور کوشش ہے۔ اُمید ہے، ایک فیمنسٹ سیاسی لائحہ عمل کی تشکیل کے ٹھوس گفتگو کے آغاز کے لئے!۔


References:.

  1. Luxton, Meg. (2016), Marxist Feminism and Anticapitalism: “Reclaiming Our History, Reanimating Our Politics. ↩︎
  2. Mohanty, Chandra Talpade (2003), Feminism Without Borders: Decolonizing Theory, Practicing Solidarity. Duke University Press. ↩︎
  3. Kollontai, Alexandra (1921), Sexual Relations and the Class Struggle, Alexandra Kollontai, Selected Writings, Allison & Busby, 1977, Translated by Alix Holt. marxist.org ↩︎
  4. Crenshaw, Kimberlé Williams 1991, Mapping the Margins: Intersectionality, Identity Politics, and Violence Against Women of Colour.Stanford Law Review, Vol. 43, No. 6 (Jul., 1991), pp. 1241-1299 ↩︎

Hartmann, Heidió (2003), The Unhappy Marriage of Marxism and Feminism, Feminist Theory Reader: Local and Global Perspectives.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .