فلم تبصرہ
سندھی تحریر: فہمیدہ ابڑو
(ترجمہ فروا تھلہو)
پیار ایک فن ہے جس کے اپنے اصول اور تقاضے ہوتے ہیں۔ اگر ان تقاضوں کو پرکھا اور سمجھا جائے تو وہ پیار جو زندگی کو مکمل اور خوبصورت بناتا ہو، وہ زندگی کو بگاڑ بھی سکتا ہے۔ اگر پیار کے صحیح تقاضے معلوم نہ ہوں تو جہاں پیار انسان کو آزاد شخص بنا سکتا ہے، اس کے برعکس وہ اسے غلام بھی بنا سکتا ہے۔
فلم ‘دی تھیوری آف ایوری تھنگ’ پیار کے انہی تقاضوں کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ فلم اسٹیفن اور جین ہاکنگ کی زندگی پر مبنی ہے جو کہ جین کی ایک کتاب ( ٹریولنگ ٹو انفنٹی) پر فلمائی گئی ہے، جسے جیمز مارش نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ یہ سال 2007 میں چھپی جین ہاکنگ کی میمائر ٹریولنگ تو انفینٹی: مائی لائف ویتھ سٹیفن پر مبنی ہے۔ انگریزی زبان کی یہ فلم 2014 میں ریلیز ہوئی تھی۔
فلم کی شروعات میں سٹیفن ہاکنگ کو دکھایا گیا ہے۔ سٹیفن کیمبرج یونیورسٹی کا طالب علمی ہے اور اپنی ذہانت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ طالبہ علمی کے زمانے میں اسکی ملاقات جین سے ہوتی ہے جو شاعری میں ماسٹرز کر رہی ہے۔ صرف چند ملاقاتوں میں ان کی دوستی پیار میں بدلتی ہے۔ لیکن اسی دوران سٹیفن ایک شدید بیماری موٹر نیوران ڈزیز ( موٹر نیوران ڈیزیز) میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جس میں اسٹیفن کے پاس صرف دو تین سال کا وقت بتایا جاتا ہے۔ سٹیفن بالکل ناامید ہو کر خود کو ہاسٹل کے کمرے تک محدود کر لیتا ہے تو وہ جین ہی ہے جو اسٹیفن کو یہ یقین دلاتی ہے کہ وہ کبھی اسٹیفن کی بیماری کو پیار کے بیچ نہیں لائے گی بلکہ وہ اپنی محبت سے اسٹیفن کو اس بیماری سے ابھرنے میں بھی مدد کرے گی۔
سٹیفن کا والد جب کہتا ہے کہ اسٹیفن کی سائنس میں دلچسپی تمہارے خلاف ہے اور اس کی بیماری سے لڑنے کا نتیجہ صرف شکست ہی ہے، تو جین جواب دیتی ہے کہ میں اسٹیفن سے محبت کرتی ہوں اور اسٹیفن مجھ سے۔ ہم مل کر اس بیماری کا مقابلہ کریں گے۔ اور وقت گزرتا جاتا ہے۔ یوں تو سٹیفن کی طبیعت بگڑتی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی اس کی سائنسی کھوجناؤں کا کام بھی چلتا رہتا ہے۔ لیکن ان سب میں جو پیچھے رہ جاتا ہے وہ ہے جین کا اپنا وجود۔ اس کی انفرادی حیثیت۔ جین سٹیفن کی سائنس، اس کی صحت، گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں میں مصروف ہو جاتی ہے کہ پندرہ سالوں تک اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی نہیں لے پاتی ۔
سٹیفن کی دیکھ بھال کے لیے جین کچھ نرسوں کو مقرر کرتی ہے۔ ان میں سے ایک، جس کا نام ایلن میسن ہے، اسے سٹیفن پسند کرنے لگتا ہے اور 1995 میں جین کو طلاق دیتا ہے۔ حالانکہ، جین نے اپنی زندگی کا کافی حصہ سٹیفن کے لیے قربان کر دیا تھا اور جین اب بھی سٹیفن سے پیار کرتی تھی لیکن پھر بھی یہ طلاق جین کے لیے اپنے آپ کو ڈ ھونڈنے میں اہم فیصلہ ثابت ہوا۔
ایک بہت ہی خوبصورت بات جو طلاق کے بعد بھی قائم رہی وہ تھی جین اور سٹیفن کی دوستی۔ جین اور سٹیفن آزاد دوستوں کی طرح زندگی گزارتے رہے۔ پر سوال صرف یہ نہیں ہے کہ جین ایک آزاد فرد کی حیثیت سے زندگی گزار رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ آزادی ممکن کیسے ہوئی؟ کیا عورت جین کی طرح اپنا حقِ ارادیت اور انفرادیت حاصل کر سکتی ہے؟ کیا جین اس سماج کی عورت سے کوئی مشابہت رکھتی ہے؟
جواب شاید اتنا آسان نہیں۔ جین کی طرح یہاں عورتیں مختلف مصائب سے گزرتی ہیں۔ مستقل قربانیاں دیتی ہیں۔ کبھی تعلیم چھوڑ کر تو کبھی نوکری سے ہاتھ اٹھا کر۔ کبھی مرضی کے خلاف شادی کر کے تو کبھی خاندان کی ناموس اور جرگوں کی بھینٹ چڑھ کر۔ جو بات جین کو اس سماج کی عورت سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے اپنے آزاد فرد ہونے کا احساس۔ اپنے وجود کی آگہی۔ لیکن عورت صرف بچوں اور شوہر کے لیے زندہ نہیں ہوتی بلکہ وہ خود بھی ایک زندہ وجود رکھتی ہے۔
پدرشاہی سماج میں بڑے منظم طریقے سے ریتی رواج، عزت اور اخلاق کے نام پر عورت کی انفرادیت کو کچلا جاتا ہے اور یہ عمل اتنا منطقی اور فطری دکھایا جاتا ہے کہ عورت خود بھی اپنے ہونے کا احساس صرف دوسروں کی خوشیوں سے جوڑتی ہے۔ جہاں ایک طرف جین اور سٹیفن کی طلاق کے بعد کی دوستی ایک ترقی پسند سماج کی عکاسی کرتی ہے وہاں اس بات سے بھی منہ نہیں موڑنا چاہیے کہ ایسی کیا وجہ تھی جس نے جین اور سٹیفن کے رشتے کو ناکام بنایا اور اسی طرح اس سماج میں ناکام رشتے ہیں چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا پیار کے۔ ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ مسلسل ناکامیوں کے باوجود ہم بنیادی سبب کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور خام خیالی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ کیا ہمارا رستہ دوسروں سے الگ ہے؟
انسان نے سائنس کی دوسری شاخوں میں چاہے کتنی بھی ترقی کرلی ہو مگر سماجی سائنس کا علم شاید آج بھی ہمارے مسائل کو حل کرنے کے لیے کافی پیچھے ہے۔ اور اس معاملے میں غیر ترقی یافتہ ممالک کی بات کیا کرنی، ترقی یافتہ ممالک کی حالت بھی بہت حوالوں سے ٹھیک نہیں ہے۔
خیر۔ بات کو موضوع کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے نفسیات دان ایرک فرام اپنی کتاب (دی آرٹ آف لوونگ) میں لکھتا ہے کہ عموماََ دنیا میں کہیں بھی دیکھا جائے تو جب دو لوگ شادی یا پیار کے رشتے میں جڑتے ہیں تو ایک ‘میزوکیسٹ’ (ایک انسان جو تکلیف میں خوشی محسوس کرتا ہو) اور دوسرا ‘ سیڈیسٹ’ (جو کسی دوسرے کو تکلیف پہنچا کر خوشی محسوس کرتا ہو) کا کردار بتاتا ہے۔ تھیوری آف ایوری تھینگ کی ایک تشریح تو اس طرح بھی کی جا سکتی ہے کہ سٹیفن جو کہ ایک مرد ہے وہ اپنی مردانگی پیسے اور شہرت کے بل بوتے پر سیڈیسٹ بن سکتا ہے اور بن بھی جاتا ہے۔ جبکہ جین جو کبھی کبھی اس رشتے سے اکتا جاتی ہے لیکن اس کے بعد بھی وہ اسی رشتے میں رہتے ہوئے خوشی محسوس کرتی ہے اور ایک میزوکیسٹ کا کردار ادا کرتی ہے۔
میزوکیسٹ اور سیڈیسٹ دونوں ‘غلامانہ نفسیات’ کی شکلیں ہیں۔ اور غلاموں کے درمیان کبھی آزاد محبت جنم نہیں لے سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ شادی اور پیار کی ناکامیاں اور مایوسیاں ہمیشہ اسی انجام کو پہنچتی ہیں جسمیں دونوں افراد ایک دوسرے سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں لیکن دونوں پہلے سے زیادہ مایوس ہوتے ہیں۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ دونوں کے ذہن میں صرف مروجہ سرمایہ درانہ سوچ ہی حاوی رہتی ہے، یعنی کہ کس کو کیا ملے گا؟ حالانکہ، ایرک فرام کے مطابق پیار ایک ایسے ملاپ کا نام ہے جس میں فرد کی انفرادیت باقی رہتی ہے۔ اور اسی طرح پیار صرف ”دوسرے کو دینے” کا نام ہے۔ دینے سے مراد ہے وہ چیز جو فرد میں زندہ ہے۔ جیسے اپنی سمجھ اور سوچ، اپنا علم، اپنی حس اور اپنی اُداسی۔ مطلب ہر وہ چیز جو فرد میں زندہ ہے اور جس کو بانٹنے سے ایک فرد دوسرے فرد کی شخصیت میں وسعت پیدا کر سکتا ہے۔
جین پیار دوسرے کو دینے اور اسے وسیع کرنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے لیکن اس اعلیٰ صفت کے ساتھ اگر انفرادیت برقرار نہیں رہتی تو پھر رشتے کی موت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ رشتہ دو زندہ انسانوں کے بیچ میں قائم ہو سکتا ہے۔
سٹیفن اس رشتے میں مسلسل جیتتا رہا اور وہ محبت ہارتی رہی!۔