نیولبرلزم اور گینگسٹر کیپٹلزم پر فرد جُرم
تحریر: عصمت شاہ جہان
پچھلے دو سالوں میں سرمایہ دارنہ اخلاقیات، ثقافت اور جمالیات کے تصورات ’ہالی ووڈ‘ اور ’بالی ووڈ‘ کی کئی فلموں اور ٹی وی پروڈکشنز کا موضوع رہے ہیں۔ اِن پروڈکشنز نے سرمایہ داروں کی طرف سے ریاستی تحفظ میں چوری کی جانے والی عوامی دولت کی منظم چوریوں، اور اُن چوریوں کو چھپانے کے لئے تشکیل دی جانے والی منظم اخلاقیات، ثقافت اور جمالیات کو بے نقاب کیا ہے۔ فلم جوکر ان میں سے ایک ہے۔ ان فلموں نے سرمایہ دارانہ سماجی اقدار جیسے کہ نیکی اور بدی، خوبصورتی اور گھناوؑنا پن، وقار اور ذلت؛ استحصال اور آزادی، چوری اور حق، ہیروا ور ویلن، محبت اور جنسی غلامی، صنفی و جنسی آزادی، کنزیومراِزم / لالچ، قیادت اور پدر شاہی جیسے تصورات کو اُلٹایا ہے۔
یہ پروڈکشنز سرمایہ داری نظام کے اندر بد معاشی (گینگسٹراِزم) کی خصوصیات اور اُس میں ریاستی کردار کو بھی سامنے لائی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ہدایتکار ٹوڈ فلپس کی ہالی وڈ فلم ‘جوکر’ہے، اور ویب ٹی وی نیٹ فلیکس پر چلنے والی تین ٹی وی سیریز ہیں: ہدایتکار ایلکس پینا کی ہسپانوی ٹی وی سیریز ‘منی ہائیسٹ’، کارلوس مونٹیرو کی ہسپانوی سیریز ‘ایلیٹ’، اور اَنو راگ کیشپ کی ہندی سیریز ‘سیکریڈ گیمز’ ہے۔ ہسپانوی سیریز انگریزی میں بھی دستیاب ہیں۔
فلم ’جوکر‘ کامیڈی انڈسٹری کو سرمایہ داری نظام کے ثقافتی ہتھیار کے طور پر بے نقاب کرتا ہے، اور دکھاتا ہے کہ کامیڈی انڈسٹری کس طرح سسٹم کے حفاظتی والو ( سیفٹی والو)کے طور پر کام کرتی ہے، اور کس طرح انتھک محنت، مسائل اور ڈپریشن میں گھرے لوگوں کو تفریح دے کر بہلایا جاتا ہے، اور اُن سے وہ جبر اور استحصال بھلایا جاتا ہے، جو وہ دن بھر سرمایہ داری نظام میں جھیلتے ہیں۔ یہ فلم سرمایہ داری نظام کی خون آلود مسکراہٹ پر ایک گہری تنقید ہے۔ یہ فلم کامیڈی کی انڈسٹری میں کام کرنے والوں کے استحصال اور منظم مزاحمت کو بھی سامنے لاتا ہے۔
اس کے باوجود کہ کئی بڑے مغربی کارپویٹ میڈیا ہاؤسز کے اخباروں نے فلم’جوکر‘ کے منفی ریویو چھاپے ہیں، یہ فلم پچھلے دو مہینوں سے باکس آفس پر ہِٹ جا رہی ہے اور کئی ایوارڈز کے لئے نامزد کی جا چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سرمایہ دارانہ مغرب اس کو برداشت نہیں کر پا رہا۔ کئی نقادوں کا کہنا ہے کہ یہ فلم ڈولنڈ ٹرمپ کے جدید رجعتی اور پُر تشدد دور میں، تشدد کے رجحان کو مزید بھڑکا سکتا ہے؛ یہ ایک ڈارک کامیڈی ہے جو ایک ویلن اور قاتل کو ہیرو بنا کے پیش کرتا ہے؛ اور یہ، کہ یہ ایک سطحی سُپر ویلن ٹائپ فلم ہے۔ دی گارڈین کے چیف نقاد نے فلم ’جوکر‘ کو اس سال کی بد ترین مایوس کُن فلم قراد یا ہے (بریڈ شا:2019) اور ہر لحاظ سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔1 جبکہ دوسروں کا ماننا ہے کہ فلم ‘جوکر’ نیو لبرلزم اور گینگسٹر کیپٹلزم کے اوپر ایک فردِ جرم ہے: کہ کس طرح یہ نظام انسانوں سے لاتعلق ’عفریت نما‘ انسانوں کو جنم دیتا ہے (دیویگا:2019)۔ فلم میں کئی جگہ کِل دی رچ، اینٹی کیپٹلسٹ، کیپٹلزم ڈز ناٹ ویٹ فار یو ، اے جاب اِز اے رائٹ جیسے پوسٹر مزاحمتی جلوسوں میں بھی دکھائے گئے ہیں۔2 ۔
ستمبر 2019 میں ریلیز کی گئی فلم جوکر کی کہانی 1980 ء کی دہائی میں رونالڈ ریگن کے امریکہ، اور اُسکی نیو لبرل پبلک پالیسیوں کے منفی اثرات کے پس منظر میں تشکیل دی گئی ہے۔ کہانی کو ہدایت کار ٹوڈ فلپس اور سکاٹ سلور نے لکھا ہے۔ کہانی ایک فرضی امریکی شہر’’گوتم سٹی‘‘ کے کرداروں کے گرد بُنی گئی ہے۔ گوتم سٹی امریکی ’کامِک لٹریچر‘ میں مشہور شہر ہے، (اسے خاص طور پر ایک فرضی کردار ‘بیٹ مین’ کے شہر سے جانا جاتا ہے)، مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ گوتم سٹی درحقیقت ’نیو یارک سٹی‘ ہے۔ اس طرح کا زیادہ تر لٹریچر ’’ڈی سی کومِک.ائی.این.سی‘‘ چھاپتی ہے جو کہ ایک بہت بڑی انٹرٹینمنٹ کارپوریٹ کمپنی ہے۔
میری نظر میں ’گوتم سٹی‘ خود سے اس فلم میں ایک اہم کردار ہے، کہ اس شہر کی کوکھ کے اندر موجود تضادات، استحصال، مسائل اور دُکھوں سے کئی طرح کے مرد اور عورتوں کے کردار جنم لیتے ہیں۔
اس فلم کا مرکزی کردار ’آرتھر فلیک‘ ہے، جو پارٹیوں میں پرفارم کرنے والا ایک کامیڈین ہے۔ اس کردار کو امریکی اداکار’ہواقین فینکس‘ نے ادا کیا ہے۔ یہ وہی اداکار ہے جس نے مشہور فلم گلیڈیئٹر میں ’’کوموڈس‘‘ کا کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے آرتھر فلیک کا کردار بھی خوب نبھایا ہے۔ وہ کئی عرصے تک فلم کے ہدایتکار اور مصنف کے ساتھ مل کر خود کو کردار میں ڈھالنے کے لئے کام کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے جسم کو بھی ذہنی بُحرانوں کے شکار ایک غربت زدہ ’جوکر‘ کے وجود میں ڈھالا، اور ہونے، نہ ہونے کے درمیان کی کیفیت کے انسانی ذہن و جسم پر ہونے والے اثرات کو اپنے میں سمویا۔ یہ کردار نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے: کہ کس طرح آرتھر فلیک کی طرح کا ایک عام انسان بیگانگی کا شکار ہو کر آخر کار ایک سُپر ویلن بنتا ہے۔ اور ایک عام سا غمزدہ مسخرہ، جو ایک بڑا کامیڈین بننا چاہتا ہے، کیونکر قاتل بن جاتا ہے؟
آرتھر فلیک کے اپنی ماں اور باپ کے ساتھ رشتے میں گہری نفسیاتی الجھنوں کو موضوع بناتے ہوئے، یہ فلم انسانی رشتوں، اخلاقیات اور جمالیات کے اندر باہمی تضادات کو بھی چھیڑتا ہے۔ جدید سرمایہ داری نظام میں محنت کش خاندان اور ریاست کے رشتے کو بھی زیرِ بحث لاتا ہے، جہاں بچے استحصالی سماج اور ریاستی نظام کی بے حسی کے بیچ میں پھنسے ہوئے ہیں، اور ساری زندگی بنیادی ضروریات کے حصول کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔
فلم ’جوکر‘ جہاں کئی سماجی، معاشی، اور نفسیاتی مسائل میں اُلجھے ہوئے شخص کی کہا نی ہے، اور سرمایہ داری نظا م کے کئی طبقاتی پہلوؤں کو سامنے لاتی ہے، وہاں یہ فلم امریکی کامِک لٹریچیر کی نسلی اور صنفی روایات کو مکمل طور پر نہیں توڑ سکی ہے۔ مثال کے طور پر کامِک روایت میں ۱ کثر مرد کردار قانون شکن اور پُر تشدد ’’سفید فام‘‘ ہوتے ہیں، اور عورتوں کے کردار جسمانی طور پر شہوانی (سیکشولائزڈ) ہوتے ہیں (انکے ہونٹ، سینے اور کولہے اُبھرے ہوئے ہوتے ہیں)، اور انکے صنفی کردار” مردانہ وار طاقت” پر مبنی ہوتے ہیں، مگر سرمایہ دارانہ پدر شاہی کے خلاف انفرادی یا انقلابی جدوجہد پر مبنی نہیں ہوتے۔ بلکہ عورتیں اکثر ان قوتوں سے گٹھ جوڑ میں دکھائی جاتیں ہیں۔ فلم جوکر میں عورت کو سیکشولائز نہیں کیا گیا، اور نہ ہی مردانہ طاقت دی گئی ہے۔ آرتھر فلیک کو بھی نظام سے صرف انفرادی بغاوت کے بجائے، منظم جدوجہد میں بھی دکھایا ہے، اپنے پروڈکشن علامتی نشان (لوگو)میں کامِک بُک مائتھوس‘‘ مخالف فلم کے طور پر پیش کی گئی ہے، مگر پھر بھی اِسکے نسلی اور صنفی پہلو کمزور ہیں۔’’
میری نظر میں یہ فلم دو پہلو (نسل پرستی، اور پدر شاہی) سامنے نہ لانے کے نتیجے میں یہ فلم کسی حد تک مظلوم ’سفید فام‘ مرد کی نظام سے بغاوت، اور اس عمل میں تشدد کو صحیح ثابت کرنے کی بھی کوشش کر تی ہے، جو کہ ہالی ووڈ کی کئی فلموں کا خاصہ رہا ہے۔ ہالی ووڈ کی اکثر فلموں میں صرف مظلوم سفید فام مرد کو ہی یہ اجازت ہے کہ وہ قانون اور معاشرتی نظام کو انتشار اور تشدد کے ذریعے بدلنے کی کو شش کرے اور خون خرابہ کرنے کے باوجود بھی بدلے میں لوگوں سے ہمدردی ملتی ہے۔ آرتھر فلیک کا کردار اگر کسی’’سیاہ فام‘‘ مرد کو دیا جاتا تو لوگوں میں ہمدردی کی جگہ غم و غصہ پیدا ہوتا اور فلم بین بھی اُس کرادر کو ایک وحشی اور درندانہ صفت شکل دینے کی کوشش میں نظر آتے۔ سینما اور کامِک لٹریچر کے ذریعے ذہن سازی کے باعث سیاہ فام قومیں آج بھی نسل پرستی جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔
اگر اِس فلم کا سوشلسٹ فیمنسٹ نظریے کی روشنی میں جائزہ لیا جائے، تو یہ بات پہلے سمجھنی ہو گی، کہ ہالی ووڈ کی فلموں میں سرمایہ داری نظام کا سب سے بڑا نقصان بھی مرد کا ہوتا ہوا دکھایا جاتا ہے، اور اس پورے معاشرے میں عورت کے ساتھ ہونے والے استحصال کو سامنے بہت ہی کم لایا جاتا۔ عورت فلم ‘جوکر’ میں ایک مجہول اور غیر متحرک (پیسیو) کردار میں نظر آتی ہے، جس کی حیثیت انقلابی جدوجہد میں ثانوی ہے۔ یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا کبھی ایسا ممکن ہو گا کہ عورت، جو کہ سرمایہ دارانہ پدر شاہی اور مذہبی انتہا پسندی کے دلدل میں صدیوں سے پھنسے رہنے کے بعد بھی ‘جوکر’ جیسے کردار کو ادا کرتی نظر نہیں آ سکتی۔ یہ سوالات اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ فلم کی دنیا میں آج بھی ‘سفید فام’ مرد کی طبقاتی مظلومیت پر داستانیں رقم ہوتی ہیں۔
تکنیکی طور پر ‘جوکر’ ہالی ووڈ کے سُپر ہیرو ٹائپ فلموں میں اپنائے جانے والے روایات اور تصورات کو رَد کرتی ہے: جیسے کہ سادہ کہانی کی روایت یعنی ایک سادہ ’فیل گُڈ‘ سٹوری، نیکی و بدی، اور صحیح و غلط کو رد کرتی ہے۔ یہ ایک بے بس انسان کے ضبط اور قوت کو دکھاتی ہے۔ !۔
تخلیقی طور پر، چیک ناولسٹ ‘میلان کوندیرا’ کے ناولوں کی طرح ‘جوکر’ بھی بظاہر / بالائی طور پر بحرانوں کے شکار ایک عام، غریب، غمزدہ، نحیف، ہنسنے کی بیماری کا شکار، اور تھکان زدہ جوکر کی ’روزمرہ زندگی کی کہانی‘ ہے، جس کو ہر راہ چلتا آدمی ذلیل کرتا اور مارتا ہے۔ مگر اس کہانی کے زیریں حصوں میں کئی گہری نظریاتی، سیاسی، معاشی، سماجی، نفسیاتی، ثقافتی، جمالیاتی اور وجودیاتی پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ فلم جوکر ’کافکا‘ کے ناول کی طرح فلم بین کے اندر جمے ہوئے سمندر کو کاٹتا ہے!۔
‘‘A book must be the axe for the frozen sea within us. That is my belief.’’ – Kafka
References:
- Bradshaw, Peter. Joker review – the most disappointing film of the year, The Guardian, 3 October 2019. ↩︎
- Devega, Chauncey. “Joker”: A harsh indictment of neoliberalism and gangster capitalism, Salon, 10 October 2019 ↩︎