شماریات کا سرمایہ دارانہ نظام، عورتوں کی پوشیدہ محنت اور استحصال، مارکسی لیبر تھیوری اور عورت کا سوال
تحریر: عصمت شاہ جہان
تعارف
پدرشاہی نظام میں عمومی طور پر ’’استحصال‘‘ کی اصطلاح بنیادی طور پر مرد مزدور سے متعلق سمجھی جاتی ہے، اور وہ بھی گھر سے باہر کی جانے والی محنت، اور لیبر مارکیٹ میں بِکنے والی (بامعاضہ) محنت سے متعلق۔ جبکہ سرمایہ داری نظام میں ’’پیداوار‘‘ کی اِصطلاح بھی صرف منڈی میں بِک سکنے والی مصنوعات سے متعلق سمجھتی جاتی ہیں۔ اور پیداواری عمل میں ورکنگ کلاس عورت کو صرف مرد مزدور کی “مددگار” کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں ایک طرف ان نظریات پر مبنی سرمایہ دارانہ شماریات کا نظام ورکنگ کلاس عورتوں کی طرف سے پورے خاندان کو خدمات، اور گھریلو معیشت اور غیر رسمی معیشت میں کی جانے والی محنت کو غائب کرتا ہے۔ دوسری طرف، سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کرنے والے روایتی مارکسی حلقوں میں بھی یہی پدر شاہانہ رُجحان پایا جا تا ہے، کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح عورت کی محنت کو ’محنت‘ اور صنف کی بنیاد پر اس کے برملا اور پوشیدہ استحصال کو تسلیم نہیں کرتے۔ اور نہ ہی اِسے اپنی جدوجہد کا اہم پہلو سمجھتے ہیں۔
یہ مضمون انہی موضوعات پر تحقیق کرتا ہے، اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر محنت کے شماریات کے پدر شاہانہ نظام، ورکنگ کلاس عورتوں کی پوشیدہ محنت اور استحصال، اور مارکسی لیبر تھیوری کا جائزہ لیتا ہے۔
عورت کی محنت کا استحصال اور اس کا شُمار
آپ نے جبری گمشدہ افراد کے بارے میں تو اکثر سُنا ہو گا مگر جبری گمشدہ کی گئی محنت کے بارے میں نہیں سُنا ہو گا۔ کہ کِس طرح سرمایہ دارانہ پدر شاہی نظام (کیپلٹلسٹ پیٹریارکی) کروڑوں عورتوں کی محنت نہ صرف پوشیدہ استحصالی طریقوں سے بٹورتا ہے، بلکہ اُسے مُلکی اکاؤنٹس سے بھی غائب کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ شماریات نہ صرف عورتوں کی چوری شدہ محنت کو غائب کرتا ہے بلکہ یہ اکثر گھریلو معیشت، اور غیر رسمی پیداواری اور کاروباری شعبوں میں سیلف ایمپلائیڈ یعنی خود کفیل ورکرز کو بھی نہیں شمار کرتے، جو ہمیں بازاروں میں ہر جگہ نظر آتے ہیں، جیسے ریڑھی بان، کوکھے والے، فنکار، درزی، نائی اور لو ہار، اور گھروں میں کام وغیرہ۔
سرکاری اعداد و شمار میں محنت کی پوشیدہ استحصال کی کئی شکلیں چھپائی جاتیں ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کے لیبر فورس سروے کے اعداد و شمار بنیادی طور پر ایمپلائمنٹ کو کام سمجھتے ہیں، خود کفیل ورکرز کو شمار نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ، انڈر ایمپلائمنٹ کو شمار نہیں کرتے، جیسے کہ ایم اے کی تعلیم رکھنے والا/والی ورکر بیروزگاری کی وجہ سے پرائمری سکول میں چند ہزار روپے پر کام کرے، یا میکڈولنڈ میں سیلز مین بن جائے، یا ٹیکسی چلائے۔ دوسرا یہ کہ لیبر فورس کا کتنا حصہ سال میں کتنا وقت بیروزگار رہتے ہیں، اور کام ڈھونڈتا رہتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار قوم اور مذہب کی بنیاد پر استحصال کی شکلوں کو بھی سامنے نہیں لاتے: جیسے کہ ہندو اور مسیحی مذاہب کی لیبر فورس کی اکثریت کو شہروں کی صفائی اور نرسنگ کے شعبوں میں دھکیلا جاتا ہے؛ جیسے کہ پشتونوں کو ٹرانسپورٹ، کنسٹرکشن اور محنت طلب کھدائی، کوئلے کی کان کنی، اور چوکیداری میں دھکیلا جاتا ہے۔ اور نہ ہی اس میں کہیں خواجہ سراؤں کا ذکر ہے۔
عورتوں کی محنت کو جبری گمشدہ کرنے کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ لیبر فورس سروے 2017-2018 میں کُل 65.5 ملین لیبر فورس کا صرف 14.76 ملین (%22.53) عورتیں دکھائی گئ ہیں، اور باقی %77.45 مرد دکھائے گئے ہیں۔ جبکہ انہی عمروں کی عورتوں کی آبادی 57.47 ملین اور مردوں کی آبادی 58.75ملین ہے، یعنی عورتوں کی آبادی مردوں سے صرف دو فیصد کم ہے۔ گویا کام کرنے والی عمروں کی 4 کروڑ 27 لاکھ عورتوں اور بچیوں کی تفصیل لیبر فورس سروے سے غائب ہے۔1
اس ضمن میں سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ ان عمروں کی بقایا 4 کرڑو 27 لاکھ بیروزگار اور معاشی غلامی کا شکار عورتیں اور بچیاں کیا کرتی ہیں؟ کیا وہ کوئی ’کام‘ نہیں کرتیں؟ کیا وہ ’پیداوار‘، ’محنت‘، اور ’استحصال‘ کے زمرے سے باہر ہیں؟ اور کیا ملکی معیشت صرف مرد کی محنت کی مرہونِ منت ہے اور اس میں محنت کش طبقے کی کروڑوں عورتوں اور بچیوں کا کوئی کردار نہیں؟ اور جو باروزگار ہیں، کیا ان کو صنف کی بنیاد پر اضافی استحصال اور جنسی ہراسانی کا سامنا نہیں؟
حقیقت تو یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ پیداواری نظام میں عورت کی محنت، اور اُس کے استحصال کی کئی پوشیدہ شکلیں اس کے خمیر میں ہیں: (1) خاندان کی افزائش و نگہداشت/گھریلو کام/خدمت، (2) گھریلو معیشت میں ِ بلامعاوضہ پیداواری فیملی لیبر، اور (3) رسمی معیشت میں سستی ترین لیبر، اور (4) غیر رسمی معیشت میں مخفی اور جبری مشقت۔ رسمی معیشت میں ادنیٰ مانے جانے والے، مردوں کی نسبت کم معاوضے اور زیادہ محنت طلب کام کی صورت میں؛ اور غیر رسمی معیشت میں غیر معین اور غیر مقرر کام کی صورت میں (ایمپلائر کو مکمل صوابدیدی اختیارات حاصل ہوتے ہیں) ۔اس لئے نہ صرف اِس چوری اور استحصال کی پوشیدہ شکلوں کو، بلکہ اس کے خوفناک حد تک بڑے پیمانے کو بھی بے نقاب کرنا لازمی ہے:۔
: بِلا معاوضہ لیبر
ورکنگ کلاس خاندانوں کی عورتوں کی اکثریت گھریلو معیشت چلاتی ہیں اور بِلامعاوضہ’’فیملی لیبر‘‘ کے طور پر پیداواری محنت کرتی ہیں۔ ’’فیملی لیبر‘‘ سے مراد خاندان کا وہ فرد ہے جو خاندان کے کسی دوسرے فرد کے لیے اُس کے بامعاوضہ کام کو بِلامعاوضہ کرے۔ زرعی پیداواری نظام میں عورتیں خود کاشت یا جاگیردارانہ اِجارے کی زمینوں پر کام کرتی ہیں، مویشی پالتی ہیں، خاندان کو پالتی ہیں اور گھر کا کام بھی کرتی ہیں۔ جس کے اوپر پورا پیداواری نظام کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح شہروں میں غیر رسمی شعبے میں ہوم بیسڈ ورکرز کے طور پر کام کرتیں ہیں، جن کی اُجرت خاندان کے سربراہ کو ملتی ہے، اور مُلکی اکاؤنٹس میں انہیں خاندان کی “مددگار” کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر عورت لیبر فورس کا آدھے سے زیادہ حصہ (%52) مدد گار کے طور پر دکھایا گیا ہے۔
ایک طرف پاکستان کا سب سے بڑا ایکسپورٹ اب ’’لیبر‘‘ یعنی مزدور ہے، جو عورتیں ہی پیدا، اور تیار کرتی ہیں۔ جو اب عالمی منڈی میں پاکستان کی رہاست خوب خوب بیچ رہا ہے، اور باہر ممالک سے مزدوروں کی بھیجی گئی رقوم پر مُلک چلتا ہے ۔ اوپر سے اب بڑھتے ہوئے لیبر ایکسپورٹ کے نتیجے میں مرد مزدوروں کے بیرونِ ملک جانے کی وجہ سے عورت زراعت اور غیر رسمی شعبہ میں فیملی لیبر یا معمولی اُجرت پر جُزوقتی مزدور کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہے۔ اب زراعت محنت کش عورت کے حوالے ہو چکی ہے، مگر عورت کو سرے سے کسان ہی نہیں مانا جاتا۔
فیملی لیبر کرنے والی عورتوں کی اکثریت کاشتکار، دہقان، اور مزارعین ہیں جو پٹے/اجارے/بٹائی پر لی ہوئی زمینوں پر کام کرتی ہیں اور مویشی پالتی ہیں۔ جنگلوں، باغوں2، اور فصلوں کی کٹائی کے ٹھیکوں میں فیملی کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ اسکے علاوہ ماہی گیری، مینوفیکچرنگ، خوراک و مشروبات کی انڈسٹری میں بھی گھر لایا ہوا کام کرتی ہیں۔
عورتوں کی اِکنامک پارٹسپیشن پر ویمن کمیشن کی رپورٹ (2016ء) کے اندازے کے مطابق بِلامعاوضہ فیملی لیبر کے استحصال سے مالی سال 13-2012 میں 1,065 بلین روپے کمائے گئے، یعنی کہ 10 بلین امریکی ڈالر، جن کا مُلکی اکاونٹس میں کہیں زکر نہیں ہے، جبکہ یہ مُلکی جی ڈی پی کا %10.4 فیصد بنتا ہے۔ جو عورتوں کے کام کا 42 فیصد ہے، مگر اس کے مقابلے میں مردوں کے کام کا صرف 12 فیصد فیملی لیبر ہے۔ اِن شعبوں میں جن خواتین مزدوروں کو معاوضہ ملتا ہے، اُن میں سے98 فیصد کو کم سے کم اُجرت (مینمم ویج) نہیں ملتا ہے۔
: بامعاوضہ لیبر
بامعاوضہ کاموں میں عورتوں کو ادنیٰ ترین مانے جانے والے، کم معاوضے اور زیادہ محنت طلب کاموں میں دھکیلا گیا ہے۔ ویمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 42 فیصد مرد ملازمین کے مقابلے میں 77 فیصد عورت ملازمین کو سرکار کی طرف سے اعلان کردہ کم سے کم تنخواہ (مینمم ویج) نہیں ملا۔ یہ تفریق ہر سطح پر پائی جاتی ہے، مثلاََ 10 فیصد مرد گریجویٹس کے مقابلے میں 30 فیصد عورت گریجویٹس کو مینمم ویج نہیں ملا۔ معاوضے میں بھی واضح صنفی فرق ہے۔ عورتوں کو مردوں کے معاوضے کا تقریباً نصف ملتا ہے: مردوں کی آمدن کا 58 فیصد۔ تعلیم یافتہ خواتین جیسے کہ وکلاء، ٹیچر، ڈاکٹر ، انجنیئر، آفس سٹاف وغیرہ بھی صنفی امتیاز کا شکار ہیں۔ برسرِ روزگار عورتوں کا 35 فیصد اپنی قابلیت سے کم معاوضہ والے روزگار لینے پر مجبور ہیں۔ ویمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مالکان عورتوں کو کم تنخواہیں دے کر ہر سال تقریباً 500 بلین روپے کی رقم لُوٹتے ہیں، جو مُلکی اکاؤنٹس سے بھی غائب ہے۔
غیر رسمی شعبے میں استحصال:- معیشت کا غیر رسمی شعبہ (اِن فارمل سیکٹر) اُسے کہتے ہیں جس پر نہ ٹیکس لگتا ہو، نہ ہی لیبر قوانین کا اطلاق ہوتا ہو، اور نہ لیبر رائٹس مانیٹر ہوتے ہوں ۔ یاد رہے کہ پاکستان میں خواتین ورکرز کا سب سے زیادہ استحصال معیشت کے غیر رسمی شعبے میں ہوتا ہے اور خواتین ورکرز کی اکثریت بھی اِسی شعبے میں ہے۔ غیر رسمی شعبے کی سرگرمیاں، رسمی شعبے کی طرح مجموعی ملکی پیداوار جی ڈی پی میں بھی شمار نہیں ہوتیں۔ اب تو نیو لبرل اکنامسٹ بھی غیر رسمی شعبے کو ‘گرے مارکیٹ آف لیبر’ کہتے ہیں۔
جہاں تک صنفی بنیادوں پر معاشی فرق کی بات ہے، تو سرمایہ داری میں نہ تو عورتوں کو پیداواری وسائل میں وراثت ملتی ہے، اور نہ ہی کام کے مساوی مواقع۔ مثال کے طور پر غیر رسمی معیشت جس میں سب سے زیادہ استحصال ہوتا ہے، اُس کے مینو فیکچرنگ کے شعبے سے منسلک کُل لبیر فورس کا 61.5 فیصد عورت مزدور کے مقابلے میں صرف 17.7 فیصد مرد تھے۔ جبکہ سماجی اور ذاتی خدمات کا شعبے میں عورت مزدور کے 31فیصد کے مقابلے میں 14 فیصد مرد تھے۔ بےروزگاری کے تناسب میں بھی صنفی فرق واضح ہے، جو مردوں کے لیے 5.1 فیصد اور 8.3 فیصد عورت مزدور کے لئے۔3 ۔
غیر زرعی شعبے کے اندر 15 سے 64 سال کے عمروں کے کُل عورت لیبر فورس کا 78 فیصد غیر رسمی شعبے میں ہیں جہاں استحصال زیادہ ہوتا ہے، مگر اس کے برعکس رسمی شعبے میں صرف 22 فیصد ہیں۔ کُل برسر روزگار آبادی کا 30 فیصد عورتیں ہوم بیسڈ کام کرتی ہیں اور صرف 3 فیصد مرد ہوم بیسڈ کام کرتے ہیں۔ ویمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ہوم بیسڈ ورکرز مالکان کو تقریباََ 400 بلین روپے کی مالیت کی سالانہ پیداوار کر کے دیتے ہیں۔ ہوم بیسڈ ورکرز کی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں تقریباََ ایک کروڑ بیس لاکھ گھر مزدور خواتین ہیں، اور یہ تعداد سالانہ 9 فیصد کے رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ ان کی اکثریت فیکٹری آرڈر پر چوڑیاں بنانے، سلائی کڑھائی، ملبوسات، کرافٹس و کھڈی کا کپڑا، آلات جراحی، کھانے و مشروبات بنانے، جھینگے چھیلنے، پیکنگ میٹریل بنانے، اور پیکنگ کا کام کرتی ہیں۔ اِن خواتین کو نہ تو نادرا شماریات کے کھاتے میں لایا جاتا ہے اور نہ ہی لیبر لاء کے تحت اِنہیں قانونی تحفظ حاصل ہے۔
زیادہ محنت طلب کام:- عورتوں کو کم تنخواہ پر زیادہ محنت طلب اور خواری والے کاموں اور سماجی خدمات میں دھکیلا گیا ہے، جیسے کہ گارمنٹس اور کارپٹ انڈسٹری، پیکنگ، اینٹوں کے بھٹوں پر کام، دائی کا کام، سڑکوں اور گھروں کی صفائی، چوڑیاں بنانا، اور جھینگے وغیرہ۔ مثال کے طور پر حیدر آباد میں چوڑیاں بنانے کی 32 فیکٹریاں ہیں، جن میں دس لاکھ مزدور روزانہ بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہے۔ شیشے کی چوڑیوں کی پیداوار اور منافع بنا بنا کر ان عورتوں کے ہاتھوں کی لکیریں مٹ مسخ ہو کر مٹ چُکی ہیں، اور سن نادارا ان کے انگوٹھوں پر نشان نہ ہونے کی وجہ سے ان کو شناختی کارڈ بھی بنا کے نہیں دے رہی۔
جبری مشقت: – استحصال کی یہ شکل تو عورتوں اور بچوں کی محنت بٹورنے کی انتہائی جابرانہ شکل ہے۔ پاکستان دُنیا میں جبری مشقت اور غلامی کا گڑھ بن چکا ہے۔ دُنیا کے 167 ممالک میں غلامی اور جبری مشقت کے انڈکس میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ کوئی مستند اعداد و شمار نہیں ہیں مگر باور کیا جاتا ہے کی ان کی تعداد 45 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔4 یہ زرعی اور غیر زرعی دونوں شعبوں میں ہیں۔ مثال کے طور پر 21 لاکھ سے زیادہ بھٹہ مزدور اور ہاری چھوٹے چھوٹے قرضوں کے جال میں پھنس کر غلامی اور جبری مشقت کا شکار ہیں۔ چونکہ بھٹوں کو ابھی تک لیبر لاء کے تحت نہیں لایا گیا، اس لیے بھٹہ مزدور کو کم سے کم اُجرت بھی نہیں ملتی۔ پورا کا پورا خاندان دن میں بمشکل 1,000 اینٹیں بناتا ہے اور پانچ افراد کے خاندان کو بمشکل 750 روپے دہاڑی ملتی ہے۔ بھٹہ مالکان پورا ریٹ نہ دے کر سالانہ کھربوں روپے کا منافع کماتے ہیں۔
بھٹہ مزدوروں کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہے۔ یہ انتہائی کم آمدن کی وجہ سے پیشگی (ایڈوانس رقم) لینے پر مجبور ہوتے ہیں اور پھر اُس کی وصولی کے لیے مالکان اُنھیں دوسرے بھٹہ مالکان کے ہاتھوں بھی بیچتے رہتے ہیں۔ یہ خرید و فروخت اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے 1992 کے فیصلے کے مطابق بانڈڈ لیبر غیر قانونی ہے، اور پیشگی سسٹم بھی بانڈڈ لیبر ایکٹ کے تحت غیر قانونی ہے (جو جبری مشقت کی جڑ ہے)، مگر نہ صرف بانڈڈ لیبر جاری و ساری ہے، بلکہ عورتوں کی یہ محنت بھی مدد گار کے طور پر شمار کی جاتی۔ اور اِن کی اُجرت بھی اکثر اِن کے شوہر وصول کرتے ہیں، جسے ہم فیملی لیبر میں بھی شمار کر سکتے ہیں۔
رسمی شعبے میں استحصال: اس شعبے میں کام کرنے والی عورتوں کا حال بھی بد تر ہے۔ اس کے باوجود کہ سرکار نے رسمی شعبے کے لئے کم سے کم اُجرت 15,000 روپے ماہانہ مقرر کی ہے، لیکن تنخواہوں کو منافع میں چوری کیا جاتا ہے، جن کا مُلکی اکاؤنٹس میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر برسرِ روزگار 7 فیصد عورتیں پروفیشنل ملازمتوں پر کام کرتی ہیں، جس میں سے 92 فیصد یعنی 9 لاکھ ٹیچنگ کے شعبے میں ہیں، لیکن وہ بھی اکثریت سب سے نچلی سطح کی ملازمتوں میں۔ ٹیچرز کا 50 فیصد پرائمری سکولوں میں ملازم ہیں جن کی ماہانہ اوسط تنخواہ صرف 12,889 روپے ہے، جو کہ کم سے کم اُجرت بھی نہیں ہے۔ پرائمری سکول ٹیچرز کی تنخواہ 2,000 سے 15,000 روپے کے درمیان ہے۔ سب سے کم تنخواہ گلی مُحلے کے پرائیویٹ سکول مالکان، اور سرکاری پراجیکٹوں اور این جی اوز کے مالکان کے غیر رسمی سکولوں اور دینی مدرسوں میں ملتی ہے، انہیں زچگی کی چھٹی بھی نہیں ملتی اور نہ ہی میڈیکل اور پنشن۔ اگر ٹرانسپورٹ کا خرچہ نکال دیں تو پھر بچتا کیا ہوگا؟ اُوپر سے نجکاری!۔
ٹیکسٹائل اور گارمنٹس پاکستان کا سب سے بڑا ‘مینو فیکچرنگ’ شعبہ ہے، اور یہ لیبر کے بعد ملکی ایکسپورٹ آمدن کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ اِس شعبے میں 42 لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ کاٹن پِکنک اور گارمنٹس کے کام میں اکثریت عورتوں کی ہے۔ ہر سال بلین ڈالرز کی سالانہ ایکسپورٹ کا مال بنانے والی خواتین ورکرز کو اوسطاً 5,435 روپے ماہانہ آمدن ملتی ہے، جو کہ اسی سیکٹر میں مردوں کی اُجرت کا آدھا ہے۔ پیس ریٹ نظام کے تحت ہوم بیسڈ ورکرز کو صرف 2 سے 5 روپے فی دانہ (پیس) کی اُجرت ملتی ہے۔ عورتوں کی محنت کی یہ چوری بھی شماریات کا نظام چھپا دیتا ہے
پاکستان کے وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں اور تمام بڑے شہروں کی ساری امیر عورتوں کے پاؤں کی میل اُتارنے والی پارلرز میں روزانہ 10 گھنٹے کام کرنی والی غریب عورتوں کی ماہانہ تنخوا 3000 سے8000 روپے کے درمیان ہے۔ انہیں علاج معالجہ، رہائش اور بونس بھی نہیں ملتا۔ اگر کبھی مالک/ مالکن اچھے ہوں تو ٹرانسپورٹ کی سہولت دیتے ہیں، وہ بھی حق کے طور پر نہیں بلکہ وقت پر پہنچنے کے لیے۔ سیلز گرلز، ویٹرز، بس ہوسٹس، وارڈ ویمن، مڈوا ئفیں، سیکیورٹی گارڈ، اور ڈومیسٹک ورکرز کی اکثریت تنخواہ بھی 8,000 روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ تنخواہ میں صنفی امتیاز سے مالکان کی کمائی کا بھی مُلکی اکاؤنٹس میں کہیں ذکر نہیں ہے۔
محنت کا سوشلسٹ فیمنسٹ تصور: چند نظریاتی پہلو
پاکستان میں عہد حاضر میں لیفٹ کے کچھ “راسخ العقیدہ” مارکسسٹوں (خاص طور کِسانی حلقے) کا ماننا ہے کہ پدر شاہی کی بنیاد صرف پیداواری ذرائع (کھیت، کارخانہ، کاروبار، مالی و اقتصادی وسائل) کی نجی ملکیت پر مبنی ہے، اور چونکہ ورکنگ کلاس کے پاس نجی ملکیت ہوتی نہیں ہے، تو اس لئے ورکنگ کلاس خاندان پدر شاہی کا شکار نہیں ہوتا۔ لہٰذا جدوجہد صرف طبقاتی بنتی ہے اور پدر شاہی کے خلاف جدو جہد صرف اپر کلاس عورت کا مسئلہ ہے۔ اور ہر طرح کی فیمنزم ایک بورژوا نظریہ ہے!۔
جبکہ سوشلسٹ فیمنسٹ حلقے اس نقطۂ نظر سے متفق نہیں ہیں، اِس لئے ملکیت، پیداوار، محنت اور استحصال سے متعلق موضوع پر بحث بنتی ہے۔ ایک طرف، راسخ العقدہ کسانی حلقے عورت کی محنت کے تِہرے استحصالی نظام کو پدر شاہی کے تجزئے میں شامل نہیں کرتے۔ دوسری طرف لیفٹ کے جو حلقے (خاص طور شہری مارکسی حلقے) عورت کی محنت کو پدر شاہی کے تجزئے میں شامل کرتے ہیں، وہ ‘ورکنگ کلاس’ کی ساخت کے وضاحت کے لئے دو زمرے استعمال کرتے ہیں: (1) محنت کش (وہ جو جسمانی محنت کرتے ہیں)، اور (2) محنت کار (وہ جو ذہنی محنت کرتے ہیں، جیسے کہ وائیٹ کالر ورکرز)۔ میں اس پر بھی میں بحث کھولنا چاہونگی۔ پہلی بات: یہ زمرے بھی بامعاوضہ محنت (ویج لیبر) سے جُڑے ہیں، محنت سے نہیں۔ دوسری بات: یہ زمرے ورکنگ کلاس کی عورتوں پر لاگو نہیں ہوتے، کیونکہ وائیٹ کالر خواتین ورکرز گھر کے سارے کام بھی کرتی ہیں، جو اکثر جسمانی نوعیت کے ہی ہوتے ہیں۔
سوشلسٹ فیمنسٹ نظریے نے عورت کے سوال کے بارے میں روایتی مارکسی بحثوں پر کئی سوالات اُٹھائے ہیں: کہ کیا عورت کا سوال صرف نجی ملکیت کا سوال ہے، یا صرف پیداواری نظام کا سوال ہے، یا پیداواری نظام کے اندر صنفی تقسیم محنت کا بھی سوال ہے؟ کیا عورت کی زیرِدست حیثیت صرف مزدور کے سرمائے سے رشتے کے ذریعے ہے، یا اس کی کوئی صنفی، تاریخی اور ثقافتی وجوہات بھی ہیں؟ کیا عورت اور مرد مزدور کے تجربات سرمایہ داری نظام میں ایک جیسے ہوتے ہیں، اور کیا صنف اور پدر شاہی کی بنیاد پر عورت کا تگنا استحصال نہیں ہوتا؟ کیا سرمایہ داری میں مرد مزدور کو پدر شاہانہ مراعات اور بالا دست حیثیت حاصل نہیں ہیں؟ کیا سرمایہ داری مرد اور عورت دونوں کو لیبر مارکیٹ میں شامل ہونے کے برابر کے مواقع دیتا ہے اور ایک ہی نوعیت کے کام کی ایک ہی طرح کی اجرت کی ضمانت دیتا ہے؟ اور کیا سرمائے نے اُلٹا گھر اور باہر کی صنفی تقسیم محنت کھڑی نہیں کی، جو عورت کی محنت کے استحصال میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے؟
: لیبر کے بغیر لیبر پاور نہیں بن سکتا
کارل مارکس، جنہوں نے محنت کے استحصال (لیبر ایکسپلائٹیشن) کی اصطلاح تخلیق کی ہے، اُن کا ماننا ہے کہ ورکرز کی محنت کو بِلامعاوضہ بٹورنا استحصال ہے۔ مارکس کا کہنا تھا کہ منافع کا حتمی ذریعہ، سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کو چلانے والی ڈرائیونگ قوت ورکرز کی بِلامعاوضہ محنت ہے۔ لہٰذا ’استحصال‘ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد بناتا ہے، کیونکہ استحصال سرمایہ دارانہ نظام کی جڑ ہے اور استحصال کے بغیر یہ نظام چل نہیں سکتا۔ لئے محنت کش طبقے کے پاس واحد رستہ یہ ہے کہ وہ سرمایہ داری نظام کو گرا کر انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال سے پاک ایک نیا نظام معاشی اور سماجی نظام بنائے۔۔۔سوشلزم۔۔۔ اشتراکی ملکیت کا نظام!۔ ۔
مارکس کے مطابق سرمایہ داری نظام میں مزدور کو’ لیبرپاور’ کا معاوضہ ملتا ہے، جبکہ سرمایہ داری نظام میں’لیبر پاور‘ تو جنس (کموڈٹی) ہے، جبکہ ’لیبر‘ جنس نہیں ہے۔ مگر لیبر وہ کام اور خدمات ہیں جو انسانوں نے ہمیشہ کئے ہیں، جس پر انسانی زندگی کا دار مدار ہے۔5 عہد حاضر کی سوشلسٹ فیمنسٹوں نے اِس نظریے کو مزید آگے بڑھا یا ہے: کہ سرمایہ داری میں ایک انسان کو لیبر پاور بیچنے تک پہنچانے اور اُس کی لیبر پاور کو برقرار رکھنے کے پیچھے خاندان کی نگہداشت (فیملی کیٔر) اور گھریلو معیشت کا پورا نظام ہے، جسے عورت چلاتی ہے۔ یعنی لیبر پاور کے پیچھے لیبر ہے، اور سرمایہ داری میں ’لیبر‘ کے بغیر ’لیبر پاور‘ نہیں بن سکتا۔
درج بالا سوالات کو لے کر، گزشتہ آدھی صدی سے سوشلسٹ فیمنسٹ عملی اور علمی تحریکوں نے اینگلز6 کے تھیسسوں پر کافی لکھا ہے اور نجی ملکیت کے علاوہ محنت کے استحصال کی گھریلو بنیادوں، اور جنسی استحصال کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ عہدِ حاضر کی فلاسفر نینسی فریز نے (کونٹراڈکشنز آف کیپٹل اینڈ کئیر) میں مالیاتی سرمایہ داری نظام کے تناظر میں عورت کے استحصال کی نئی اُبھرنے والی گھریلو بنیادوں کو بے نقاب کیا ہے، کہ یہ کس طرح سامراجی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ریاستوں نے مزدور کے بنیادی حقوق جیسے کہ گزر بسر لائق تنخواہ اور علاج، تعلیم، رہائش کاٹ کر اور فیسوں، بلوں، قیمتوں میں اضافہ کر کے اپنی ذمہ داری سے خود کو مستثنیٰ کیا ہے، اور مزدور طبقے کو سرمایہ داروں کے آگے ڈال دیا ہے۔ نتیجتاً مزدور خاندان کو چلانے کا مزید بوجھ، اور مزید کمائی کا دباؤ عورت کے کندھے پر ہی آن پڑا ہے7۔
سوشلسٹ فیمنسٹ نہ صرف گھریلو محنت کو پیداواری عمل کا حصہ سمجھتے ہیں، بلکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نجی ملکیت سمیت سرمایہ داری نظام عورت کی بلاِمعاوضہ محنت کے اوپر ہی کھڑا ہے: جیسے کہ (1) عورت کا پیداواری کام کے لئے خود فیملی لیبر مہیا کرنا، (2) خاندان میں موجود مزدوروں کی دیکھ بھال کرنا تاکہ وہ چاک و چوبند اور صحت مند رہیں، محنت کرتے رہیں اور سرمایہ و منافع پیدا کرنے کا عمل جاری و ساری رہے، اور (3)نئے مزدوروں کو جنم دینا، پالنا اور مزدور ہی کے طور پر تیار کرنا ہے۔ اب یہ سوال بھی زور دار طریقے سے اُٹھایا جا رہا ہے کہ گھر کے اندر عورت جو محنت کرتی ہے، اُس کا فائدہ کس کو ہوتا ہے؟ یقیناً سرمایہ داروں کو، کیونکہ گھریلو محنت پیداواری عمل کا حصہ ہے۔ مگر یہ فائدہ مردوں کو بھی ہوتا ہے جو شوہر اور باپ کے طور عورت سے خدمات لیتے ہیں۔ یہ خدمات مختلف ہو سکتی ہیں مگر فوائد حاصل کرنے والے ایک ہی رہتے ہیں، یعنی سرمایہ دار اور مرد۔ اس طرح گھر سے باہر ہونے والا کوئی بھی پیداواری کام، گھر کے اندر ہونے والی محنت کے بغیر ممکن نہیں، اور یہ کہ لیبرپاور اور محنت کش طبقے کی تولید اور افزائش (ری پروڈکشن) کے بغیر پیداوار (پروڈکشن) ممکن ہی نہیں۔ اِس حقیقت کو اب بورژوا ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں اور اِسے ‘کیٔر اکانومی’ مانتے ہیں۔ میری دانست میں گھر یلو محنت استحصال کی سب سے پوشیدہ اور ظالمانہ شکل ہے, ۔
: محنت کا غیر سرمایہ دارانہ اور غیر پدر شاہانہ تصور
ہمیں نہ صرف سرمایہ دارانہ تصور پر مبنی محنت کے تصور کو رد کرنا ہو گا، بلکہ روایتی مارکسی تصور پر مبنی معاشی جبریت (اکنامک ڈٹرمنزم) تک محدود تصور سے بھی آگے سوچنا ہو گا۔ ہمیں صنفی اور سماجی مساوات کے لئے جدوجہد میں پیداواری رشتوں کے ہر پہلو میں صنفی اور قومی استحصال و جبر، طبقاتی استحصال کے ذاتی اور عوامی دونوں پہلوؤں کے علاوہ اس کے ثقافتی و سیاسی پہلوؤں، اور پدر شاہی کی تاریخی جدلیات کو بھی دیکھنا ہو گا، خاص طور پر بلامعاوضہ پیداواری رشتوں میں صنفی بنیادوں پر محنت کے استحصال کو۔
گھریلو کام اور گھریلو معیشت کو پیداواری نظام کی فاؤنڈیشن ہے، اور انسانی سماج کی بقاء میں انسان کی تخلیق نو اور پیداواری عمل لازم و ملزوم ہیں، ان کی باہمی جُڑت میں سرمایہ داری نظام تقسیم کار کے ذریعے مصنوعی تفریق پیدا کرتا ہے۔ جس میں عورت کی ذمہ داری گھر کے اندر اور مرد کی گھر سے باہر ٹھہرائی جاتی ہے۔ اس صنفی تقسیم کار کی وجہ سے جہاں محنت کش طبقے کے مرد کا تضاد طبقاتی حوالے سے سرمائے کے ساتھ بنتا ہے، وہاں وہ پدر سری نظام کی وجہ سے عورت کی گھریلو محنت سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزدور تحریکوں میں پیداواری رشتوں میں استحصال کے خاتمے کے لئے جدوجہد تو کی جاتی رہی ہے مگر بلامعاوضہ پیداواری رشتوں میں صنفی استحصال کے خاتمے کی کوششیں نمایاں نظر نہیں آتیں ا ور یہی بات مزدور تحریک کی کمزوری کا ایک بنیادی سبب بھی ہے۔ ہمیں پروڈکشن اور ری پروڈکشن کے درمیان براہ راست تعلق ، گھریلو کام اور گھریلو پیداوار میں استحصال کے پہلو کو اپنے تجزیے اور سیاست کا حصہ بنانا ہو گا۔
پیداواری رشتوں کی وسیع تر تشریح بھی ہم پر یہ عیاں کرتی ہے کہ قدرِ زائد (سرپلس) پیدا کرنے کے عمل کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے کی طبقے کے طور خود کی اپنی پیداوار و افزائش کا عمل اس سے جدلیاتی اور عضویاتی طور پر جڑا ہوا ہے۔ ہمیں پیداواری نظام اور رشتوں کے صنفی سوال سے تاریخی جڑت کو بھی دیکھنا ہو گا۔ ان موضوعات پر فریڈرک اینگلز کی مشہور زمانہ تصنیف ’’خاندان, ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘‘، مارکسی فیمنسٹ ماریا میز کی کتاب ’’پدرسری اور عالم سطح پر ارتکاز/جمع واری‘‘، 8 سوشلسٹ فیمنسٹ مفکر ہائیڈی ہارٹمین کا مضمون ’’مارکسزم اور فیمینزم کی ناخوش شادی: ایک ترقی پسند یونین کی طرف‘‘9 اور سلویا فیڈرچی جیسی فیمنسٹ مورخین10 نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح عورتوں کے جسم اور پیداواری صلاحیتوں پر پدرشاہی نے کنٹرول حاصل کیا۔ پدرسری اور صنفی تفریق کا سلسلہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام سے پہلے کا ایک قدیم نظام ہے، وہاں اس کے محرکات تاریخی طور پر پیداواری اور سماجی رشتوں اور ان کے ارتقاء کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ محنت کش خاندان کو ملنے والی معمولی اُجرت پر خاندان کے اندر مرد اور عورت کی آپسی لڑائی سے استحصال سے نجات ممکن نہیں، کیونکہ خاندان کے تمام افراد کو استحصال کی کئی شکلوں کا سامنا ہے، کسی کو ایک شکل میں اور کسی کو دوسری میں، اور اِن کا آپسی تعلق بھی استحصالی ہی ہے۔ استحصال کے نظام کی زنجیر کا سب سے تنگ اور مضبوط شکنجہ یہ ہے کہ یہ مزدور خاندان کے اندر صنفی تقسیمِ کار کے ذریعے مصنوعی تفریق کا نظام بناتا ہے ۔ اِس صنفی تقسیمِ کار کی وجہ سے جہاں محنت کش طبقے کے مرد مزدور کا تضاد طبقاتی حوالے سے سرمائے کے ساتھ بنتا ہے، وہاں پدر سری نظام کی وجہ سے وہ گھر کے اندر عورت کی بِلامعاوضہ محنت سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے۔ اِن ہی پدر شاہانہ مراعات کی وجہ سے ہمیں پیداواری رشتوں میں صنفی بنیاد پر استحصال کے خاتمے کی کوششیں نمایاں نظر نہیں آتیں۔ اور یہی بات مزدور تحریک اور بائیں بازوں کی کمزوری کا ایک بنیادی سبب بھی ہے۔
میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ محنت کی وہ مادی بنیادیں جن کے اوپر پدر شاہی نظام کھڑ ا ہے، دراصل عورت کی محنت، تولیدی طاقت، جنسیت اور نفسیات پر مرد کی بالا دستی ہے۔ اِن کے استعمال پر پدر شاہی، جاگیرداری، اور سرمایہ داری کے مابین کسی حد تک متضاد مفادات کے باوجود، ان تینوں کا عورت کا جبر و استحصال سے آزادی کے خلاف آپسی گٹھ جوڑ انتہائی گہرا مضبوط ہے۔ اس لیے ہمیں معاشی جبریت سے آگے سوچنا ہو گا، اور اپنی جدوجہد میں پیداواری رشتوں کے ہر پہلو میں صنفی استحصال اور جبر، طبقاتی استحصال کے نجی اور غیر نجی دونوں پہلوؤں کے علاوہ اس کے ثقافتی، اور تاریخی پہلوؤں کو بھی دیکھنا ہو گا۔
میری نظر میں سوشلسٹ معاشرے کے قیام کی طرف پہلا قدم اُن سماجی تعلقات بشمول صنفی تعلقات کا قیام ہے، جس میں انسانی محنت سے کی گئی پیداوار معاشی ویلیو کے طور پر اپنی اضافی معروضیت اور اہمیت کھو دے، جس میں پیداوار نجی دولت میں نہ بدلے، بلکہ انسانیت اور معاشرے کے کام آئے۔ ایسا معاشرہ جہاں گھریلو کام اور معاشرے کی دولت مشترکہ سماجی نوعیت کے ہوں، تا کہ لوگ ‘مزدور’ اور ‘عورت’ جیسے زمروں میں تقسیم ہو کر استحصال کے بجائے حقیقتاً انسان بن کر مرضی کے کام اور تخلیق کے لئے آزاد ہوں، اور بھرپور انسانی زندگی جی سکیں!۔
References
- Labour Force Survey 2017-2018. Pakistan Bureau of Statistics, ↩︎
- Women’s Economic Participation and Empowerment in Pakistan: Status Report 2016. National Commission on The Status of Women/UN Women Pakistan ↩︎
- Malik. Ayesha Anees. (2019). On the Margins: Women Workers and the Future Work. FES ↩︎
- Bonded Labour in Pakistan. (2018). SPARC ↩︎
- Karl Marx. (1847). Wage Labour and Capital. Marxist Archive, 2006 ↩︎
- Engels, Friedrich. (1884) [1962]. Origin of the Family, Private Property, and the State. [PDF version on www.marxists.org]. ↩︎
- Nancy Fraser. Contradictions of Capital and Care. New Left Review100:99-117 (2016) ↩︎
- Maria Mies. (1986). Patriarchy and Accumulation on a World Scale: Women in the International Division of Labour. London: Zed Books, 1994. ↩︎
- Heidi Hartmann (1981), The Unhappy Marriage of Marxism and Feminism: Towards a Progressive Union, in Lydia Sargent (ed.) Women and Revolution: A Discussion of the Unhappy Marriage and of Marxism and Feminism, Boston, South End press ↩︎
- Silvia Federici. (2004). Caliban and the Witch: Women, Capitalism and Primitive Accumulation. New York, NY: Autonomedia. ↩︎