تحریر: عصمت شاہ جہان
منظر نامہ
۔’’اقراء کی لاش اتنی مسخ شدہ تھی کہ پولیس نے مجھے دکھائے بغیر کھیت سے اُٹھانے کے بعد کاروائی کر کے باہر ہی سے دفنا دی۔ میری بچی کی مُٹھی میں قاتل کی داڑھی کے بال تھے۔ اب تو کھیتوں اور داڑھیوں سے ڈر لگتا ہے۔ اقراء کا والد باہر ملک میں مزدوری کرتا ہے، اِسی لئے لوگ ہماری بیٹی نوچ کے کھا گئے‘‘۔
اقراء کی والدہ
یہ وہ الفاظ ہیں جو اقراء کی ماں نے ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ (مردان) کے تعزیتی وفد سے کہے۔ 13 اگست 2019ء کو چار سالہ بچی اقراء کو مردان میں ریپ اور بہیمانہ قتل کے بعد کھیتوں میں پھینک دیا گیا تھا۔ اِسی طرح کے الفاظ فرشتہ مومند کے والدین نے اسلام آباد میں اس تحریر کی مصنفہ اور پشتون تحفظ موومنٹ کے وفد کو کہے، جن کی بیٹی کی گمشدگی کی رپورٹ تین دن تک پولیس درج کرنے سے انکار کرتی رہی اور اگلے دن جنگل میں درندوں کی شکار شدہ لاش ملی۔ فرشتہ، زینب اور اقراء جیسی اَن گنت بچیوں کا ریپ اور بہیمانہ قتل محض واقعات نہیں ہیں۔ یہ الفاظ نا صرف معاشرے میں موجود پدر شاہانہ جنونیت اور جنسی بربریت کو بے نقاب کرتے ہیں، بلکہ سماج میں اس کی طبقاتی بنیادوں کو بھی بےنقاب کرتے ہیں۔ یہ ریاست میں پائی جانے والی طبقاتی، قومی، پدر شاہی (عورتوں پر مردوں کے تسلط اور حاکمیت کا نظام)، اور مذہبی جانبداری کو بھی بے نقاب کرتے ہیں، کہ شنوائی صرف اُسی کی ہو گی اور انصاف صرف اُسی کو ملے گا جو ریاست کے پسندیدہ سماجی گروہ سے منسلک ہوں گے۔
تعارف
پاکستان اس وقت ایک بڑے صنفی اور جنسی بُحران سے گزر رہا ہے۔ پدر شاہی نظام (مردوں کی بالادستی کا نظام) اب ایک درندہ صفت ایذا رساں عفریت بن چُکا ہے۔ سماج میں پاگل پن کی حد تک زن بیزاری، صنفی اور جنسی جنونیت، اور درندگی پیدا ہو چکی ہیں۔ کیا دیہات، اور کیا شہر، کیا امیر اور کیا غریب، یہ واقعات پورے ملک میں وباء کی طرح پھیل رہے ہیں۔ عورتوں، کمسن بچوں اور خواجہ سراؤں کا قتلِ عام جاری ہے۔ اِس سے زیادہ خطرناک اور گھناؤنی بات یہ ہے کہ اِس عفریت کے پیچھے نہ صرف پاکستان کے حکمران طبقات اور مذہبی رائٹ ونگ کھڑے ہیں، بلکہ پاکستان کی آمرانہ اور استبدادی ’قومی سلامتی ریاست‘ کا جنگی اقتصاد، اور عالمی سامراجی ریاستیں بھی اپنی مکمل طاقت کے ساتھ کھڑی ہیں۔ پدر شاہی سے بھی بڑی عفریتیں!۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں پدرشاہی کی پچھلی چار دہائیوں میں ازحد بڑھوتری ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں صنفی جبر اب بربریت کی حد کو پہنچ چکا ہے۔ جنگ اور بہیمانہ قتل عام سے آگے ظلم اور بربریت کو کوئی اور حد نہیں ہو سکتی، اور ہمیں دونوں کا سامنا ہے۔ جہاں پدرشاہانہ جبر اِس حد تک ہو، کہ صنف کی بنیاد پر عورتوں کا قتل عام ہو رہا ہو، وہاں زندگی کے حق کا سوال پہلے آتا ہے۔ جہاں مائیں مقتول بچوں کی لاشیں اُٹھائیں، وہاں زندگی کے حق کا سوال پہلے آتا ہے۔ اس وقت عورتوں، بچوں اور خواجہ سراؤں پر حملے عروج پر ہیں۔ یہ تینوں سماجی گروہ حالتِ جنگ میں ہیں، حالتِ امن میں نہیں۔ اور یہ جنگ، پدرشاہی جنگ کی خونی ترین شکل ہے!۔
المیہ یہ بھی ہے کہ سماج، ریاست، مین سٹریم سیاسی جماعتیں اور میڈیا، اور اہلِ فکر و دانش کی اکثریت اس بُحران پر، اور پدر شاہانہ جنونیت اور جنسی بربریت کے وبائی نوعیت پر مجرمانہ طور پر خاموش ہیں۔
اس مضمون کے دو مقاصد ہیں: پہلا، پاکستان میں بڑھتی ہوئی پدرشاہانہ جنونیت کی شکلیں اور شدت، اور اِس کی تشکیل میں ریاست کے کردار کو سامنے لانا ہے۔ دوسرا، اس کے نظریاتی اور سیاسی پہلو پر بحث کھولنا ہے۔ یہ مضمون پاکستان میں پدرشاہی نظام کی منظم ملٹرائزیشن اور پچھلی چار دہائیوں میں اس کی ازحد بڑھوتری پر گفتگو کا آغاز ہے۔
اِس مضمون کا دوسرا پارٹ ’پاکستان میں صنفی اور جنسی بُحران کے محرکات‘ کا تجزیہ پیش کرتا ہے، خاص طور پر پیداواری نظام میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے بدلتے صنفی آرڈر، اور اس سے اُبھرنے والے تشدد کے پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔
تشدد کی شدت
جہاں تک شدت کا تعلق ہے تو پاکستان کئی دہائیوں سے ’عورتوں کے لئے خطرناک ترین ٹاپ ٹین ممالک‘ کی عالمی فہرست میں شامل ہے۔ صنفی مساوات کی 153 ممالک کی عالمی انڈکس پر آخری ممالک میں ہے، یعنی 151ویں نمبر پر۔1 مگر ہم انسانی حقوق کی عالمی رینکنگ میں نہیں پڑتے، اُس کی اپنی سیاست ہے۔ ایک طرف یہ رپورٹیں ممالک کی صورتحال کو پوری طرح واضح نہیں کرتے۔ دوسری طرف سامراجی ممالک انہیں تیسری دنیا میں اپنی امپریلسٹ توسیعات کے لئے استعمال کرتے ہیں، کبھی غیر مُلکی قرضوں، تو کبھی جنگوں کے جواز کے لئے۔ آئیے اپنے مُلک پر خود نظر ڈالتے ہیں:۔
اس وقت پاکستان کے بارے میں اس موضوع پر کوئی مستند اور ہمہ گیر اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے صحت کے نکتۂ نظر سے صرف ایک پہلو کو دیکھتا ہے: وہ ہے شوہر کی طرف سے بیوی پر جسمانی تشدد۔ یہ سروے بھی صرف 49-15 سال کی عمر کی ایج بریکیٹ کی ملک بھر سے 12,364 عورتوں پر مبنی ہے۔ یہ سروے سیمپل بھی چھوٹا ہے، مگر رزلٹ پھر سنگین ہیں:۔
سال 2017-2018 کے سروے کا خُلاصہ یہ ہے: %42 بیویاں اور %40 شوہر ’نافرمانبردار‘ بیوی پر شوہر کی طرف سے تشدد کے حامی تھے۔ تشدد سہنے والی شادی شدہ عورتوں پر کئے جانے والے تشدد میں شوہر ملوث تھے (%80)۔ شادی شدہ عورتوں پر جنسی تشدد میں اُن کے شوہر ملوث تھے (%78)۔ شادی شدہ عورتوں کی %34 کو شوہر کی طرف سے ہر طرح کے تشدد کا سامنا رہا۔ جبکہ طلاق شدہ، علیحدہ شدہ اور بیوہ عورتوں کی %45 کو شوہر کی طرف سے ہر طرح کے تشدد کا سامنا رہا۔ سندھ میں شوہر کا بیوی پر تشدد کم رپورٹ ہوا (%18)، جبکہ سب سے زیادہ ایکس فاٹا میں رپورٹ ہوا (%66) ۔تشدد کا شکار بیویوں کی اکثریت نے کھبی مدد نہیں مانگی (%56) ،جنہوں نے مدد مانگی، ان کی اکثریت نے اپنے میکے سے مدد مانگی (%76)۔2
میری نظر میں یہ سروے صرف شادی شدہ، اور وہ بھی صرف بچ جانے والی عورتوں تک محدود ہے۔ آئے دن بے دردی سے غیر شادی شدہ لڑکیوں کو انکے باپ اور بھائی قتل کرتے ہین اور مارتے پیٹے ہیں، انٹر نیٹ پر صرف یہ تین لفظ لکھیں کی ’’بیٹی کو قتل کر دیا‘‘ تو لاتعداد قتل سامنے آ جائیں گے ۔نابالغ بچوں اور خواجہ سراؤں کے بھی بہیمانہ قتل اور پُر تشدد ریپ کئے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ماؤں کی گود میں کھیلنے والی بچیاں “ریپ اینڈ کِل” کی لہر سے محفوظ نہیں ہیں، نا نابالغ لڑکے، نہ ہی ماؤں کے رحم میں مادہ حمل، اور نہ ہی قبروں میں نوجوان عورتوں کی تازہ لاشیں!۔
پاکستان کی ریاست نے آج تک پدرشاہانہ تشدد کی تحقیق کے لئے کوئی باقاعدہ سروے نہیں کیٔے، اور نہ ہی کرے گی کیونکہ کوئی بھی جابر اور مطلق العنان ریاست خود اپنے آپ کو بے نقاب نہیں کرے گی۔ مشرف کے دور میں یو.این.او نے منسٹری آف ویمن کی وساطت سے ایک سروے کرایا، مگر سروے کے خوفناک نتائج برآمد ہونے کے بعد وہ ڈیٹا ’وزارت داخلہ‘ نے اُس وقت اُن کی وزیر ویمن ڈیویلپمنٹ عطیہ عنایت اللہ کے تعاون سے ضبط کر لیا، تاکہ گلوبل رینکنگ مزید خراب نہ ہو۔ اُس کے بعد کوئی بھی دوسری کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ جو اعداد و شمار دستیاب ہیں، وہ میڈیا رپورٹس پر مبنی ہیں، جبکہ اکثر حملے رپورٹ نہیں ہوتے۔ ویسے بھی اکثر عورتیں خاموش رہنا پسند کرتیں ہیں، کیونکہ یہ سماج میں اُن کے اپنے وقار کا سوال ہے۔
پدرشاہی مخالف سیاسی کارکن، فیمنسٹ تحریک، تجزیہ کار اور صحافی اِس بات پر متفق ہیں کہ منظرِ عام پر نہ آنے والے قتل کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے، بہ نسبت رپورٹ کے گئے واقعات کے۔ مصنف اور کالم نگار محمد حنیف روزنامہ ’دی گارڈین‘ کے لئے اپنے 9 مئی 2019ء کے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان وہ ملک ہے جہاں روزانہ عورتوں کا قتلِ عام ہوتا ہے مگر خبروں میں بمشکل اِس کا ذکر ہوتا ہے۔‘‘3 پاکستان میں عورتیں اور بچیاں، نابالغ لڑکے، اور خواجہ سراؤں کی اکثریت اپنی زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے پر پُرتشدد پدرشاہانہ حملوں کا شکار ہوتے ہیں (شادی اور بغیر شادی، دونوں صورتوں میں)، خاص طور پر محنت کش طبقے کے، بلکہ تشدد ان کی روزمرہ زندگی کا تجربہ بن چکا ہے۔
زیادہ گھناؤنی بات یہ ہے کہ ریاست اِن مظالم پر پردہ ڈال رہی ہے: پہلے میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے والے انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کی پامالی کے کچھ واقعات کے جمع شدہ اعداد و شمار کی تفصیلات نان گورنمنٹل آرگنائزیشنز (این.جی.اوز) کی رپورٹوں اور اور ویب سائٹ میں آ جاتی تھیں۔ مگر اب اُن پر بھی ریاستی ایجنسیوں نے عالمی بدنامی سے بچنے کے لئے اور مزاحمتی تحریکوں کو دبانے کے لئے غیر اعلانیہ پابندیاں لگا دی ہیں (یہ ڈیٹا تحریکیں اپنی مہم میں استعمال کرتی رہی ہیں)۔ یاد رہے کہ سامراجی ممالک انسانی حقوق کی پامالیوں کو کئی ممالک پر تجارتی و مالیاتی پابندیوں کے ذریعے پالیسی دباؤ ڈالنے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان نے کئی این جی اوز کے این او سی بھی کینسل کر دیئے ہیں، خاص طور پر 2011ء سے، جب ایک انٹرنیشنل این.جی.او ’سیو دی چلڈرن فنڈ‘ نے امریکہ کی بنائی ہوئی عالمی دہشت گرد تنظیم ’القاعدہ‘ کے رہنما اور پاکستان کے سٹریٹیجک ایسٹ اُسامہ بن لادن قتل کیس میں سی.آئی.اے کے لئے بن لادن کا ڈی.این.اے حاصل کرنے کے لئے جعلی ویکسین عوامی مہم کروائی۔4 اس مہم کے بعد سی.آئی.اے نے بِن لادن کو پاکستان ملٹری اکیڈمی ابیٹ آباد کے اندر قتل کیا۔ اس کے بعد سے دہشت گردوں کی طرف سے پولیو ورکرز پر بھی اب تک حملے جاری ہیں۔
اب ہر طرح کے انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے سروے کے لئے, یا ریلیف ورک کے لئے, این جی اوز کو حکومت سے پہلے نو ابجیکشن سرٹیفکیٹ (این.او.سی) لینا پڑتا ہے۔ اِس لئے اِن واقعات کی صحیح شدت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ جو تحریکیں انسانی حقوق کی پامالی کے اعداد و شمار جمع کرنے کی کوشش کرتی ہیں، اُن کا ڈیٹا، متعلقہ کارکنان، اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی قبضے میں لے لئے جاتے ہیں۔
ریاست تو فریبی اور جعلی جمہوریت کی طرح “فریبی فیمنزم” کی اجازت تک نہیں دیتی ہے، اور ’’ایمپاورمنٹ‘‘ کے فریم ورک میں فردی بنیادوں ترقیاتی اور بہبود ٹائپ کام کرتی ہے، مگر نظام اور استحصال کے ڈھانچوں کو جوں کا توں رکھتی ہے۔ جبکہ پدر شاہی کے وجود کو صنفی جبر کے نظام کے طور پر تسلیم کرنا کسی بھی طرح کی فیمنزم کے لئے پہلی شرط ہے۔ مگر ریاست نہ صرف صنفی جبر کو تسلیم نہیں کرتی، اُلٹا خود اس میں ملوث ہے، بلکہ ریاست خود سب سے بڑا پیٹریارک ہے!۔
ریاست جبر و استحصال سے آزادی کا ہر بیانیہ رد کرتی ہے، چاہے وہ پدر شاہی سے آزادی کا ہو، یا طبقاتی اور قومی جبر سے آزادی کا ہو، یا مذہبی انتہا پسندی اور سامراجیت سے آزادی کا۔ پاکستان کی ریاست تو ’’آزادی‘‘ کا کوئی بھی نعرہ سُن کر بھڑک اُٹھتی ہے، اور پوری طاقت کے ساتھ اِس پدرشاہانہ جنونیت اور جنسی بربریت کے پیچھے کھڑی ہے۔
موجودہ ریاستی نظام میں تشدد اور ہراسانی کا سبجیکٹ جن ریاستی اداروں کے دائرہ کار میں آتا ہے اُن کے پاس نہ تو اختیار اور نہ وسائل ہیں، اور نہ ہی ملٹری اور سویلین اسٹبلشمنٹ اور اشرافیہ کی طرف سے اُن کو اجازت ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق زمینی یا میڈیا سروے کریں، یا حقائق منظرِ عام پر لائیں: جیسے کہ فیڈرل اور صوبائی سطح پر کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن، نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس، سینیٹ کمیٹی فار ہیومن رائٹس، پارلیمنٹری کمیٹی فار ہیومن رائٹس، اور منسٹری آف لاء اینڈ جسٹس، اور وزارت داخلہ وغیرہ۔
بربریت کی شکلیں
میری نظر میں پدرشاہانہ بربریت ’’وباء‘‘ کی صورت میں سامنے آئی ہے اور اِس کے کئی سماجی، معاشی، ثقافتی اور نفسیاتی پہلو ہیں، مگر سب سے تشویشناک پہلو بہیمانہ جسمانی تشدد اور اموات کا بڑھنا ہے، اور صرف گھر نہیں، ہر جگہ ہونا ہے۔ خاص طور پر قتل عام، جنسی حملے، طفل کشی اور خاموش اموات۔ ویسے تو کوئی جگہ محفوظ نہیں مگر سماج کے تین ادارے اس بُحران کی شدید لپیٹ میں ہیں: خاندان، تعلیمی ادارے اور مدرسے، اور کام کی جگہ۔ میڈیا کے ذریعے منظرِ عام پر آنے والے واقعات/حملوں کو موٹا موٹا درج ذیل چار صنفی زمروں میں گروپ کیا جا سکتا ہے: (1) سماجی نوعیت کے واقعات، (2) سیاسی نوعیت کے واقعات، (3) مذہبی نوعیت کے واقعات، (4) خاموش اموات اور منظم ریپ کی وباء (شاہجہان:2019)۔5
عام طور پر ہمارے سماج میں عورتوں پر جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے کئی طریقے عام رہے ہیں، مگر اس وقت بہیمانہ تشدد کے کئی نئے گھناؤنے طریقے سامنے آئے ہیں۔ دو دہائیوں سے نہتے اور بے بس ترین انسانوں بشمول عورتوں، نابالغ بچوں اور خواجہ سراؤں پر جنسی حملوں اور قتلِ عام میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے، بلکہ ان کو آتشیں اسلحہ سے قتل کرنے کے علاوہ، چھرے اور کلہاڑیوں سے مارنا، پھانسی لگا کر خود کشی کا رنگ دینا، دریا میں پھینک کر خودکشی کا رنگ دینا، آگ اور تیزاب سے جلانا، ڈنڈوں اور ہتھوڑیوں سے مارنا، بجلی کے کرنٹ سے مارنا، ذبح کرنا، گلہ دبانا، سانس روک کر مارنا، زہر پلانا، دریا میں گرانا، سنگسار کرنا، اور زندہ دبا کر قتل کرنے کے واقعات بھی میڈیا پر منظرِ عام پر آ رہے ہیں۔ حالیہ وقتوں میں قاتلوں کی طرف سے آتشیں اسلحے کا استعمال بڑھا ہے:ـ
قتل عام: شوہر سے ناچاقی پر عورت کا قتل۔ دُلہنوں کو جہیز کم لانے یا کنواری نہ ہونے پر قتل۔ غیرت کے نام پر قتل۔ ریپ چھپانے کے لئے قتل، مثال کے طور پر قصور میں ایک ہی مرد کے ہاتھوں 100 بچوں کا ریپ اور قتل، اور فرشتہ مومند کی طرح کے لا تعداد قتل۔ جبری شادی سے انکار پر بیٹیوں کے قتل۔ مالکان کی طرف سے ملازمین بچیوں پر تشدد اور قتل، مثال کے طور پر عظمٰی قتل کیس۔ خواتین ٹیچرز اور ہیلتھ ورکرز کا دہشت گردوں کی طرف سے منظم قتل ۔ دوسرے ممالک سے اپنی بیٹیوں کو پاکستان میں لا کر نافرمانی کی سزا میں قتل۔ ذاتی وڈیو اور تصویروں کو بلیک میلنگ کے لئے نیٹ پر چڑھانے کے بعد قتل، مثال کے طور پر کوہستان وڈیو کیس۔ خواتین سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ، مثال کے طور پر بینظر بھٹو اور سبین محمود قتل۔ پختونخوا میں خواتین فنکاراؤں اور خواجہ سراؤں کا قتل عام۔ طفل کشی یعنی مادہ بچی کا حمل گرانا۔ اور نومولود مادہ بچے پھینک کر قتل کرنا۔
جسمانی تشدد اور جنسی حملے: خاندان کے مردوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر عورتوں، بچوں اور خواجہ سراؤں پر ہر طرح کا تشدد اور مار پیٹ۔ تعلیمی اداروں میں منظم جنسی حملے، مثال کے طور پر بلوچستان یونیورسٹی کیس۔ مدرسوں اور کام کی جگہ پر شاگرد بچوں پر منظم حملے، تازہ ترین مثال مانسہرہ میں دس سالہ بچے کو ایک قاری نے 100 بار پُرتشدد ریپ کیا، تو اُس کی آنکھوں سے خون نکل آیا۔ روزانہ کی بنیاد پر عورتوں کا گینگ ریپ، خاص طور پنجاب میں۔ مُلک بھر میں لڑکیوں کی جبری شادیاں۔ سندھ میں غیر مسلم بچیوں کا اغواء اور درگاہوں میں بندوق کے سائے میں مسلمان اغواء کاروں سے جبری شادیاں۔ شادی اور جسم فروشی کے لئے مسیحی لڑکیوں کا چینیوں کو بیچنا۔ گھریلو ملازمین خواتین پر جنسی حملے اور ریپ۔ پولیس کی حراست میں جنسی تشدد۔ عوامی مقامات پر پولیس اہلکاروں کی طرف سے ہراسانی۔ فوجی اور لیوی اہلکاروں کی طرف سے عورتوں کا اغواء، جبری گمشدگیاں اور تشدد، اور چاردیواریوں کے اندر اُن پر جنسی حملے، مثال کے طور پر خیسور اور مومند میں واقعات۔ سیکس ورکرز سے پولیس کے جنسی بھتے۔ دفاتر میں ایمپلائرز کی طرف سے جنسی بھتوں کے تقاضے۔ خاندانوں سے تاوان وصول کرنے کے لئے بچوں کا اغوا اور ریپ وڈیو، مثال کے طور پر قصور میں 280 بچوں کا اغوا اور ریپ کیس۔ جواں سال لڑکیوں پر تیزاب سےحملے۔ بدلہ لینے کے لئے دُشمن خاندان کی عورتوں کو گلیوں میں ننگا گھمانا۔ عورتوں کے بال کاٹنا۔ پیشاب پلا کر وڈیو بنانا۔ اور آن لائن جنسی ہراسانی وغیرہ پدر شاہانہ تشدد کی نئی شکلیں ہیں، جو کئی متاثرہ عورتیں خود سوشل میڈیا پر منظرِ عام پر لا رہی ہیں۔
منظم ریپ تو سب سے زیادہ ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 23 فیصد بچوں (18.3 فیصد لڑکیوں اور 4.7 فیصد لڑکوں) کو نو عمری میں ہی ’شرعی نکاح‘ کے تحت بیاہ دیا جاتا ہے،6 7جو کہ منظم ریپ (سٹیچوٹری ریپ) اور جبری شادی کے زمرے میں آتا ہے۔ پوری دُنیا میں بلوغت اور ’رضامندی‘ کی سرکاری عمر اٹھارہ سال مانی جاتی ہے، جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔
طفل کشی: جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سیکس سلیکشن کر کے ماؤں کے رحم میں مادہ حمل کو مار دیا جاتا ہے۔ نوزائیدہ بچیاں بھی زندگی کا حق کھو رہی ہیں، مثال کے طور پر ایدھی فاؤنڈیشن ہر سال کراچی میں کام از کم 1000 سے زیادہ نومولود لڑکیوں کی لاشیں اُٹھاتی ہے (خان: 2014ء اور دُرانی:2018ء)8 9 ایدھی جھولوں میں لوگ بچیاں الگ سے چھوڑ کر جاتے ہیں۔
خاموش اموات (سائلنٹ ڈیتھس): ریپ کی طرح، خاموش اموات بھی کبھی منظرِ عام پر بھی نہیں آتے۔ کام کی زیادتی، کمسنی کی شادی، غیر محفوظ اسقاط حمل، صحت جیسی بنیادی سہولت کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان میں سالانہ ہر ایک لاکھ حاملہ عورتوں میں سے178 عورتیں دوران حمل اور زچگی میں مر جاتی، جو عالمی اوسط سے اونچا ہے۔ دوران زچگی عورتوں کی زیادہ اموات کی وجہ سے بھی اُن کی آبادی مردوں سے کم ہے۔
مروجہ اِصطلاحات
مروجہ اصطلاحات خود سے پدرشاہانہ اور نیو لبرل نظریات پر مبنی ہیں۔ اقوام متحدہ، ریاست، مین سٹریم سیاسی جماعتیں، سب ہی پدر شاہانہ تشدد کو نجی اور عوامی زندگی کی پدر شاہانہ تقسیم (پبلک اینڈ پرائیویٹ ڈیوائڈ) کے تحت نجی زمرے میں لا کر اسے’’گھریلو‘‘ تشدد کہہ کر سیاست بدر، اور سماج بدر کر تے ہیں، اسے عوامی یا سیاسی مسئلہ نہیں سمجھتے۔ اور اس طرح یہ خود بھی اِس کے حل کی ذمہ داری سے مستثنی ہو جاتے ہیں۔ کچھ این.جی.اوز اسے ’وائلنس اگینسٹ ویمن‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں۔ جدید میڈیا ’خواتین پر تشدد‘ اور ’گھریلو تشدد‘ کی اصلاحات استعمال تک محدود ہے۔
میری نظر میں ’’گھریلو تشدد‘‘ کی اصطلاح بذات خود پدرشاہانہ ہے، اِسے فوری طور پر ترک کر کے اس کی جگہ ”پدرشاہانہ تشدد‘‘ کی اصطلاح رائج عام کرنی چاہیئے۔ ’’عورتوں پر تشدد‘‘ کی اصطلاح بھی اس کی پدر شاہی نوعیت کو بلیک آؤٹ کرتی ہے، کہ اس میں تشدد سہنے والی عورت کا ذکر تو ہے، مگر پدر شاہی کا نہیں، تشدد جس کا اوزار اور خاصہ ہے۔
اب دنیا میں صنف کی بنیاد پر بڑھتے ہوئے عورتوں کے قتل کے لئے ایک نئی اصطلاح ’فیمیسائڈ’ سامنے آئی ہے، یعنی مردوں کے ہاتھوں عورتوں کا صنف کی بنیاد پر قتل۔ یہ اصطلاح بالکل ا سی طرح ہے، جس طرح قوموں کی نسل کُشی کو ’جینوسائیڈ‘ کہا جاتا ہے۔ ہمیں پاکستان کے پس منظر میں پدر شاہی محرکات پر مبنی عورتوں اور بچیوں کے ہر طرح کے قتل کو فیمیسائڈ کی تعریف میں شامل کرنا چاہیئے، بشمول جبری اسقاطِ حمل میں عورتوں کی موت، طفل کشی (انفنٹسائیڈ) یعنی نوزائیدہ بچیوں کو مار کر کچروں کے ڈھیر پر پھینکنا، یا مادہ حمل کا گرانا، تشدد کے دوران قتل، غیرت کے نام پر قتل/ کاروکاری، ہیلتھ ورکرز اور پولیو ورکرز کے قتل، اور سابقہ یا موجودہ شوہر/محبوب کے ہاتھوں قتل وغیرہ۔
عوامِل
:نفسیاتی اور ثقافتی عوامل
درندگی اور جنگی جنونیت پر مبنی مردانگی کی تشکیل: صنفی اور جنسی جنونیت اور بربریت کا اظہار اکثر ظالمانہ شہوت پرستی اور ایذا رسانی کی صورت میں بھی نظر آتا ہے، جہاں حملہ آور پر شدید نفسیاتی اور جنسی مریض ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ سماج میں شدید ثقافتی اور جنسی حبس اور گھٹن ہے، جس کے بیج پاکستان کو کالونیل ریاست بنانے کے لئے بوئے گئے، جبکہ بعد میں فوجی آمروں، خاص طور پر جنرل ضیاء الحق نے ریاستی طور پر منظم ثقافتی اور جنسی جبر کی صورت میں اس کی مزید آبیاری کی۔ ایک طرف عورت کی جنسیت (سیکچولیٹی) اور استحقاق کو ضبط کیا، عورتوں کے لئے جابرانہ صنفی، جنسی اور تولیدی رموز و قواعد لائے گئے۔ تو دوسری طرف ثقافت کی منظم عربائزیشن اور ملٹرائزیشن کی گئی۔ تعلیمی اداروں میں صنفی اور ثقافتی پابندیاں لاگو کی گئیں۔ نصاب کے ذریعے قدامت پرست نظریات کی ترویج اور منظم زہن سازی کی گئی۔ ان اقدامات سے پہلے سے موجود جدی پُشتی چلتے آئے پدر شاہانہ تصورات کو بے انتہا تقویت ملی، جیسے کہ عزت، غیرت اور کمسنی کی شادی، اور جبری شادی وغیرہ۔
دوسری طرف افغان جہاد کی شکل میں ثور انقلاب پر سامراجی جنگ کے لئے اپنے سر سے گزر جانے والے انتہا پسند جنگجو مرد کی تشکیل کی، جس کو شہادت کے بعد “دوسرے جہان ” میں جنت اور شہوت بھری حوروں کا ریاستی وعدہ کیا۔ اور پورے سماج میں بھی جنسی جبر، اور ظالمانہ جنسی شہوت پر مبنی ذہن سازی کی گئی۔ جہادی اور تبلیغی حلقوں کے ذریعے حور پرستی، شہوت پرستی، اور پدر شاہانہ جنونیت کا منظم پرچار کیا گیا۔ بیشمار مدرسوں اور مذہبی علماء اور ملاؤں کا جال پھیلایا گیا، جنہوں نے کیسٹوں، سی ڈیز، ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ وڈیو کے ذریعے جبریت پر مبنی صنفی اور جنسی نفسیات تشکیل دیں۔ ذہن سازی کے لئے استعمال کئے جانے والے مواد میں “مباشرت اور شہوت” اور صنفی تعلقات کے موضوعات کو اہمیت حاصل ہے۔ اشاعت کا شعبہ بھی مذہبی انتہا پسندی کے گرفت میں ہے۔ ترقی پسند پبلشر امجد سلیم منہاس کا کہنا کہ پاکستان میں چھپنے والے مواد کا 80 فیصد مذہبی کتابوں پر مشتمل ہے۔
اب یہ سارا مواد مسافر اڈوں اور بسوں، دکانوں، مدرسوں اور تعلیمی اداروں، محلوں، گھروں اور خواب گاہوں تک پہنچ چکا ہے۔ اور دوسری طرف جنرل ضیاء کے مارشل لائی اور جہادی دور سے لے کر آج تک شادی کے باہر رومانوی اور جنسی تعلقات سماجی جرائم کی فہرست میں شامل ہیں، جس کی قانوناََ سزا اب بھی سنگسار ہے!۔
جنسی بیگانگی اور منظم ذہن سازی: ہماری جنسیت کو ضبط کر کے ہم سے الگ کر دیا گیا ہے، غیر انسانی بنا دیا گیا ہے، اسے دوبارہ ترتیب دے کر پیک کیا گیا، اور واپس ہم پر ٹھونس دیا گیا ہے، یا واپس ہمیں بیچ دیا گیا ہے۔ بیسویں صدی کے مارکسی سوشل تھیوریسٹ’ گرامچی ‘ کہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ ریاست اور حکمران طبقات سماج میں استحصال، جبر اور بربریت کو منظم نظریاتی و ثقافتی بالادستی اور ذہن سازی کے ذریعے برقرار رکھتے ہیں (گرامچی:1971ء)۔10
منظم ذہن سازی اور جنسی بیگانگی کی وجہ سے اب تمام پدرشاہانہ اور سماجی ادارے بشمولِ خاندان، پنچائت، جرگے، مسجدیں، تعلیمی ادارے پہلے سے زیادہ جابر اور پُر تشدد ہو گئے ہیں۔ عوام شدید صنفی و جنسی رجعت پرستی اور ماس ہسٹیریا کا شکار ہیں۔ آج پاکستان انٹرنیٹ کے ’گوگل سرچ انجن‘ پر پورنوگرافک فلمیں ڈھونڈنے والے ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر ہے۔ پورا سماج زنگ آلود ہے۔ زندگی نجی اور عوامی خانوں (پبلک اینڈ پرائیویٹ) میں شدید تقسیم ہے، عوامی مقامات پر عورتوں کا جانا محفوظ نہیں اور جنسی ہراسانی عام ہے۔ انتہا پسند پدرشاہانہ رجحانات جسمانی اور تولیدی طور پر عورتوں کو برباد کر رہے ہیں۔ یہ عورتوں کے شعور پر قبضہ کرتے ہیں، اور اُسے نفسیاتی بے بسی، پسماندگی، جہالت، اور ثقافتی حبس کے اندھیروں میں دھکیلتے ہیں۔ اُس کے تنقیدی شعور کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، خاص طور پر غریب طبقے اور دیہی علاقے کی عورت کے۔ نتیجتاً عورت اپنی صورتحال بدلنے کے لیے دم درود، دُعا، تعویذ گنڈے اور جادو ٹونے میں پھنسی ہوئی ہے، جس کا فائدہ بھی نذرانوں کی شکل میں مخدوموں، میاؤں، ملاؤں، عاملوں، اور پیروں کے درگاہوں، درباروں اور مزاروں کو ملتا ہے، یعنی مذہبی اشرافیہ کو۔ تاریخ گواہ ہے، کہ اِسی لئے مذہبی اشرافیہ ہمیشہ سے آمروں، سامراجیوں اور جاگیرداروں کے ساتھ پدر شاہی توسیعات کے لئے گٹھ جوڑ میں رہا ہے، کیونکہ اِس میں ان کو بے انتہا مالی اور جنسی فوائد ملتے ہیں۔
:سماجی اور معاشی عوامل
میڈیا پر منظرِ عام پر آنے والے واقعات سے یہ واضح ہے کہ: عورتوں، بچوں اور خواجہ سراؤں پر پُرتشدد حملے مردوں کی طرف سے کئے گئے ہیں، مگر اِکا دُکا واقعات میں عورتیں بھی مدد گار کی حیثیت سے شاملِ رہیں۔ اِن حملوں کا شکار ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق پہلے سے مجروح، پچھڑے ہوئے طبقات اور سماجی گروہوں سے ہے۔
عورتوں اور لڑکیوں پر اکثر حملے اپنے ہی خاندان والے کرتے ہیں، خاص طور پر باپ اور شوہر۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں میل ٹیچرز اور سٹاف ملوث ہوتا ہے۔ نابالغ لڑکوں پر اکثر حملے اُن کے آجر(جسے عام طور پر مالک کہا جاتا ہے) اور دینی مدرسوں کے قاری کر رہے ہیں۔ ان بچوں کی اکثریت اُن خاندانوں سے ہے جو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں دے سکتے اور مدرسوں اور ورکشاپوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ خواجہ سراؤں پر بھی اکثر حملے اُن کے آجر کرتے ہیں۔
سماج کے اِن تینوں متاثرہ گروہوں (عورتیں، نابالغ بچے اور جنسی اقلیتیں) میں تین قدریں مشترک ہیں: (1) کہ یہ سب پدر شاہی کے دائرہ اختیار اور ملکیت میں آتے ہیں، (2) ان کی اکثریت محنت کش طبقے سے ہو نے کی وجہ سے یہ اپنے حملہ آور پر پر معاشی انحصار رکھتے ہیں، اور اُن سے سماجی طاقت پر مبنی ماتحتی اور غلامی کا رشتہ رکھتے ہیں، اور (3) یہ نہتے ہیں، بندوقیں نہیں رکھتے۔ دراصل اسی معاشی و سماجی ماتحت حیثیت کی وجہ سے یہ اِن حملوں کی زد میں آتے۔لیکن اس کا حل یہ نہیں کہ انہیں بھی معاشی و سماجی استحصال کی طاقت، نجی ملکیت، پدرشاہی میں حصہ، اور ہتھیار دیئے جائیں۔ اس کا حل استحصال اور بالادستی کے نظام کا خاتمہ، نجی ملکیت اور پدر شاہی کا خاتمہ ہے ______اُس طاقت کا خاتمہ ہے، بندوق جس کے تابع ہوتی ہے۔ اور ملک میں سماجی انصاف، امن اور عوامی جمہوریت کا قیام ہے۔
سماجی، ریاستی اور سیاسی ردِ عمل
: سماجی ردِ عمل
پدر شاہانہ تشدد سے مانوسیت اور بے حسی: سماج میں اِس بُحران سے عمومی طور پر بیگانگی پائی جاتی ہے۔ ریاستی طور پر عوام کی منظم ذہن سازی اور نفسیات سازی کی وجہ سے لوگوں میں ایک ظالمانہ بے حسی پائی جاتی ہے۔ لوگ اُلٹا ظلم اور ہراسانی کی شکار عورتوں کو رُسوا کرتے ہیں، اور سوشل میڈیا پر چسکے لیتے ہیں۔ تنقیدی فیمنسٹ شعور انتہائی کم ہے، اُلٹا پدرشاہانہ جنونیت اور بربریت کی اکثر شکلیں عوامی کامن سینس اور نفسیات کا مانوس ترین حصہ بن چکی ہیں اور ”جرم” تصور نہیں کی جاتیں۔ اکثر لوگ پدر شاہی روایات سے بغاوت کا عنصر رکھنے والے قتل (غیرت کے نام پر قتل اور خاندان کی طرف سے تشدد میں کئے گئے قتل) پر خاموش رہتے ہیں۔ پدرشاہی یکجہتی میں آگے آگے ہوتے ہیں، اور کبھی بھی اپنے، گاؤں، مُحلے داروں اور رشتے داروں کے خلاف پدر شاہی یکجہتی اور گٹھ جوڑ کی وجہ سے احتجاجی جلسہ جلوس نہیں کرتے، نہ ہی پولیس کو اطلاع کرتے ہیں۔ جنسی حملوں کی صورت میں بھی وہ اپنی ہی کمیونٹی کے خلاف اپنے علاقوں میں نہیں نکلتے۔ اکثر راضی نامے ہو جاتے ہیں، کبھی کبھی کوئی خود ہی بدلہ لے لیتا ہے (عورت کے قتل کا بدلہ رواج میں بھی نہیں ہے)۔ البتہ بچوں کے ریپ اور قتل (جو کہ پدر شاہی کا ہی حصہ ہے، مگر اِس میں بغاوت کا عنصر نہیں ہے) کے منظرِ عام پر آ چُکنے والے نمایاں واقعات کے خلاف کبھی کبھی محدود لوگ سانحے کے شہر اور دارالخلافوں میں اکٹھے ہوتے ہیں، اور کچھ پڑھے لکھے روشن خیال، ترقی پسند اور فیمنسٹ لوگ مہم چلاتے ہیں۔
تشدد سے پیار اور رُجعت پرستی: احتجاج کرنے والوں کی اکثریت جارحیت پر مبنی موجودہ سسٹم سے انصاف مانگتے ہوئے ’’سرِعام پھانسی‘‘ کا مطالبہ کرتے ہیں، جو کہ اُتنا ہی پر تشدد ہے، جتنا کہ وہ واقعہ خود۔ انصاف کا یہ تصور نہ صرف شرعی اور قبائلی ہے، بلکہ لوگ تشدد سے بھی عمومی طور پر پیار کرنے لگے ہیں۔ اگر آپ لوگوں سے کہیں کہ ریپسٹ اور قاتل کو سرِعام پھانسی دے کر لٹکا دو، ننگا کر دو، کوڑے لگا دو، عضو تناسل کاٹ دو، گنجا کر دو، جوتوں کا ہار پہنا دو، گدھے پر بٹھا دو، تو لوگ خوشی خوشی تیار ہو جاتے ہیں۔ مگر اگر کہیں کہ مردوں میں پائے جانے والے پُر تشدد پدر شاہانہ رجحانات کے خاتمے کے لئے تحریک چلانی ہے، معاشرے کو فیمنسٹ تعلیم دلانی ہے، ان سے تشدد کے سماجی ہتھیار، سماجی و معاشی طاقت واپس لینے ہیں، پدر شاہی نظام اور اس کی مادی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی بنیادوں کو گرانا ہے، تو وہ اُلٹا ہم پر پل پڑتے ہیں۔
پدر شاہانہ دہشت: پدر شاہی نظام کی اِس تباہی کو عوام کی اکثریت محض فرد کی” اخلاقی گراوٹ ” کا نام دیتی ہے, نہ ہی اِسے پورے نظام کے تناظر میں دیکھتی ہے، اور نہ ہی حل کے طور پر سماج اور معاش میں بنیادی تبدیلی کا شعور رکھتی ہے۔ ان میں مذہبی اور غیر مذہبی دونوں طرح کے پدر شاہانہ انتہا پسند شامل ہیں۔ یہ دونوں مذہب یا ثقافت کی آڑ لیتے ہیں، اور ’’سچے مذہب‘‘ یا اپنی متعلقہ قوم کی “سچی قومی عظمت” میں پدر شاہی کی ننگی جارحیت کو چھپا دیتے ہیں۔ اپنے مذہب اور ثقافت کے مطابق عورت کو ’’پاکیزگی‘‘ کا اخلاقی اقدار کا درس دیتے ہیں، اور جنسی جرائم کے واقعات کو عورتوں اور بچوں کو ڈرانے اور ’’پدر شاہانہ دہشت‘‘ پھیلانے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ گویا عوامی بیانیے میں پدر شاہی اور مذہب کا گٹھ جوڑ مضبوط ہے۔
: ریاستی ردِ عمل
پالیسی سازی : خطرناک بات یہ ہے اِس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوئی قابلِ ذکر مثبت ریاستی ردِعمل نہیں آیا۔ بلکہ اُلٹا ریاست (تمام ادارے مقننہ، عدلیہ، ایگزیکٹیو، اور میڈیا) خود اپنے ڈھانچوں کے ذریعے اِس بربریت میں ملوث ہے۔ ریاست نہ صرف منظم طریقے سے عوام کی پدرشاہانہ انتہا پسندی میں ذہن سازی کرتی رہی ہے، اور اپنی پدرشاہانہ جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان کی ریاست خود بھی تاریخی طور پر عورتوں کے خلاف منظم پدرشاہانہ جرائم میں ملوث رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی تحریکِ آزادی کے خلاف فوج نے جماعت اسلامی کے عسکری دستوں الشمس اور البدر کے ساتھ مل کر ریپ کیمپس بنائے تھے، جن میں دو سے چار لاکھ کے درمیان بنگالی عورتوں کو منظم طور پر ریپ کیا گیا، جسے تاریخ میں “جینوسائڈل ریپ” کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ 1971ء میں جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے کہا کہ ’’میں اِس حرام زادی قوم کی نسل بدل دوں گا، یہ مجھے سمجھتے کیا ہیں‘‘ (میجر جنرل راجہ: 2012ء)۔11
پاکستان کی ریاست نے افغانستان میں صنفی مساوات پر مبنی ’ثور انقلاب‘ کو گرانے میں بہت بڑا عسکری اور سیاسی کردار ادا کیا۔ اُس کے بعد جو کچھ افغان/پشتون عورتوں کے ساتھ ہوا، اور آج تک جاری ہے، اُس بربریت کی کوئی دوسری مثال انسانی تاریخ میں نہیں ہے۔ آج افغانستان کو بیواؤں کا ملک کہنا بجا ہو گا، یہاں پچیس لاکھ بیوائیں ہیں، جن کی اوسط عمر پینتیس سال ہے اور کئی عورتوں کے دوسرے شوہر بھی جنگ میں مارے جا چکے ہیں (بامیک: 201ء اور چیان:2017ء)۔12 13 جو سنگسار کی گئیں، سڑکوں پر بِک گئیں، ماری گئیں، جبری بیاہی گئیں، بھکاری بنیں، ملازمتوں سے نکالی گئیں، ان کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ پاکستان فوج کے پراکسی جنگجو تنظیم ‘طالبان‘ کو شام بھیجا گیا، جہاں داعش کے خلاف ہماری کُرد بہنیں لڑ رہی تھیں۔ سعودی کی چھاؤنی ریاست ہونے کی ناطے، اب اُسکے لئے یمن کی جنگ کو بھی پاکستان کے لیڈ کرنے کی بات ہو رہی ہے۔
خود پاکستان کے اندر، پاکستانی ریاست نے صنفی تعلقات اور عورت کے وجود کو تختۂ مشق بنائے رکھا ہے۔ اس کی بڑی مثال جنرل ضیاء کی منظم طور پر زنا اور زنا بالجبر میں فرق کو حدود آرڈینینس کے ذریعے ختم کر کے جنسی حملوں کو ریاستی تحفظ دیا۔ اور عورت کی پہلے سے موجود حیثیت کو مزید گھٹایا۔ عورت کی گواہی آدھی کر دی، تاکہ ان قانونی چارہ جوئی میں کوئی عورت گواہی تک نہ دے سکے۔ قصاص و دیت کا قانون لایا، تاکہ قتل کے بعد میں خون بہا کے پیسے دے دلا کر راضی ناموں کے ذریعے معاملات رفع دفع کئے جائیں۔ بدقسمتی سے یہ سب قوانین آج تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
ریاست کے سب ستون بشمول مقننہ، عدلیہ، ایگزیکٹیو اور میڈیا پدرشاہانہ جارحیت میں جانبدار اور ملوث ہے۔ صدر جنرل مشرف نے مختاراں مائی کیس کے پس منظر میں واشنگٹن پوسٹ کو 2005ء میں اپنے انٹرویو میں کہا کہ “عورتیں کروڑ پتی بننے اور کینیڈا یا دوسرے ممالک میں شہریت لینے کے لئے ریپ کو اُچھالتی ہیں“, اور پھر انہیں عالمی طور پر خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مختاراں مائی کی ریاستی طور پر کردار کشی کی گئی کیونکہ ریاست کی نظر میں مختاراں مائی نے نیشن سٹیٹ کے لئے “قربانی” نہیں دی، اُس نے “گھر کی بات گھر میں رکھنے” کے بجائے ملک کی بدنامی کی، اس لئے وہ نیشن سٹیٹ کی “اچھی بیٹی ” نہیں ہے، اور نتیجے میں ریاست نے اُسے بد نام کیا اور انصاف بھی نہیں دیا۔ ریاست خاموشی توڑنے والی ہر عورت کے ساتھ یہی برتاؤ کرتی ہے۔
اسی طرح سمیعہ وحید لو میریج کیس عدالتی نظام اور عدالتی ثقافت کو بے نقاب کرتا ہے کہ وہ کس طرح عورت کو پدرشاہانہ فرمانبرداری میں دھکیلتے ہیں اور کس طرح عدالتیں خاندان کے ادارے کو پُر جبر بنانے میں کردار ادا کرتی ہیں۔ صائمہ وحید کیس کے عدالتی فیصلے میں جج قانون نہیں، بلکہ اخلاقیات پر بحث کرتے رہے۔ جسٹس احسان الحق چودھری نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ: ”ہم قومی جج ہیں اور اس ناطے ہم شہریوں کے اخلاقیات کے نگران اور محافظ ہیں”۔
غیرت کے نام پر1999ء میں قتل کی جانے والی سمیعہ سرور کے کیس پر سینیٹ اجلاس میں سینیٹر اجمل خٹک نے کہا کہ ’’جب معاملہ غیرت کا ہو، تو پھر کوئی بحث نہیں ہو سکتی‘‘ اور اس وقت کے چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے قرارداد پیش نہیں ہونے دی۔ بابا کوٹ، جعفر آباد، بلوچستان میں 2008ء میں غیرت کے نام پر زندہ دفن کی جانے والی پانچ عورتوں کے واقعے پر سینیٹر اسرار اللہ زہری نے سینیٹ میں کہا کہ ’’یہ ہماری صدیوں پرانی روایات ہیں اور میں ان کا دفاع کرتا رہوں گا، اور وہ جو غیر اخلاقی حرکتیں کرتے ہیں، اُنہیں ڈرنا چاہئے‘‘۔ منسٹر آف سٹیٹ مولانا فضل الرحمان نے 2016ء پنجاب ویمن پروٹیکشن بل کے بارے میں طنزاََ کہا کہ ’’اتنے‘ بڑے بِل کی کیا ضرورت تھی، صرف دو لفظوں کا قانون بنا دیتے کہ بیوی، شوہر ہو گی اور شوہر، بیوی“۔ نے نظیر، ملالہ یوسفزئی، سبین محمود، پروین رحمان کیس میں بھی سینیٹ اور اسمبلیاں تذبذب کا شکار رہیں۔
ریاستِ مدینہ کے علمبردار، طالبان اور فوج کے حلیف، اور ریاستی سطح پر اہم آفس رکھنے والے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے2018ء میں کہا کہ ”فیمنزم ایک ویسٹرن سوچ ہے، یہ ماں کے کردار میں تنزلی کا باعث ہے“۔ اُن کی موجودہ قوی اسمبلی نے کمسنی کی شادی کے خلاف قانونی بِل کو شیلف کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی پختونخوا اسمبلی پچھلے سات سال عورتوں پر تشدد کا بل پاس نہیں ہونے دے رہی۔ اور ہم نے دیکھا کہ کئی اسمبلیوں نے2019ء میں عورت آزادی مارچ تک کے خلاف قرار دادیں پاس کیں۔
قانون سازی:- اکثر عورتیں طبقاتی اور صنفی طور پر زیرِدست سماجی حیثیت کی وجہ سے موجودہ قوانین کا فائدہ نہیں اُٹھا سکتیں۔ اوپر سے آجکل اگر کوئی اکا دکا ممبر قومی اسمبلی میں بل لے بھی آئے، تو وہ بھی شیلف کر دئیے جاتے ہیں۔ تحریکِ انصاف تو عورت سے متعلق ہر کاغذ کو اسلامی نظریاتی کونسل اور شریعت کورٹ بھیجتی ہے، جہاں 2013ء سے آج تک اُنہوں نے کوئی بھی اور بِل نہیں بھیجا۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ ضیاء دور میں جنونی پدرشاہی کی تشکیل کے لئے عورت کی حیثیت کو منظم طریقے سے گھٹا نے والی قانون سازی کو چھیڑے، حتیٰ کہ بے نظیر بھٹو بھی خاموش رہیں، اور نظام کے اندر رہتے ہوئے ویمن بینک اور ویمن پولیس سٹیشن، اور خیراتی پروگرام جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر ہی اکتفا کیا۔ سب پاپولسٹ پارٹیاں سرمایہ داروں، جاگیر داروں، سرداروں، خانوں اور مُلاؤں کی رہنمائی میں چل رہی ہیں، جو ملٹری اور مُلا کی خوشنودی کے بغیر سیاسی پیش قدمی نہیں کرتیں، اور پدر شاہی کے حامی طبقات سے ہیں۔
جب بھی عورتوں، بچوں اور خواجہ سراؤں کے خلاف مظالم روکنے کے لئے قانون سازی کا کوئی بِل تجویز ہوتا ہے تو پدر شاہی کے سماجی ضابطوں کو بچانے کے لئے اُسے وزارت مذہبی امور کو بھیج دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر شادی کی عمر کے بِل کا معاملہ، جہاں کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل، وزارتِ مذہبی اُمور نے طے کیا کہ اسلامی روایات کے تحت کم عمری کی شادی کو جرم قرار دینا غیر اسلامی ہے ،کیونکہ اسلامی تاریخ میں کم عمری میں نکاح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔14 ۔
سال 2006ء سے اب تک عورتوں پر تشدد، اور کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے خلاف کچھ قانون سازی تو ہوئی ہے، مگر اُن پر عملدرآمد مشکل رہا ہے، نہ ہی ان کا کوئی خاطر خواہ فائدہ ہو رہا ہے، کیونکہ باقی ریاستی اور سماجی نظام جوں کا توں ہے۔ دوسرا مسٔلہ یہ ہے کہ عمومی ملکی قوانین اور پالیسیاں اُن کے متضاد ہیں۔ فقہ، قانون، عدالت اور پولیس کا نظام اِس طرح کے واقعات کو نجی اور گھریلو معاملہ سمجھتے ہیں اور کیس رفع دفع کرتے ہیں۔ اور نہ ہی عورتیں اِس قدر پدر شاہانہ، طبقاتی اور قدامت پرست نظام سے اپنی انفرادی لڑائی کی سکت رکھتی ہیں۔
عورتوں اور لڑکیوں کے ریپ اور قتل کے کیسز اوّل تو عدالت تک لائے ہی نہیں جاتے، اگر لائے بھی جائیں، تو سزائیں نہیں ہوتیں, صرف %1.5 کیسز میں سزائیں ہوئی ہیں۔ اگر سزائیں ہو جائیں تو اکثر قصاص اور دیت کے قانون کے تحت راضی نامے ہو جاتے ہیں۔ ابھی تک غیرت کے نام پر قتل کو قانوناََ ’’ناقابلِ راضی نامہ جرم‘‘ تسلیم نہیں کیا گیا ہے، نہ ہی ریاست کے خلاف جرائم کی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ نہ ہی ’’گھریلو تشدد “ کو جرائم کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ریاست بھی اِسے پدر شاہی نظریے کے تحت سماج کی پبلک اور پرائیویٹ کی تقسیم میں ایک پرائیویٹ معاملہ ہی سمجھتی ہے۔ ۔
ان وجوہات کی بنا پر میں سمجھتی ہوں کہ اب فیمنسٹ تحریک کو اپنی لڑائی قانون کے محور سے با ہر جا کر گھر، سماج اور ریاست سے لڑنا ہو گی، کیونکہ جب تک پدر شاہی اور اِس کی معاشی اور سیاسی بنیادیں رہیں گی، عورت کی جان، جسم، اور معاش خطرے میں ہی رہیں گے۔
: سیاسی ردِ عمل
کسی بھی جدوجہد میں کسی پارٹی یا عوامی مزاحمتی تحریک کے نقطہ نظر اور سیاسی عزم کی سطح جانچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم سے اور کس کے لئے احتجاج کی کال دیتا ہے؟ اور کون کال دینے والوں کے ساتھ یکجہتی میں کھڑا ہوتا ہے؟ تاریخی طور پر مین سٹریم سیاسی پارٹیوں نے کبھی بھی اپنے پلیٹ فارم سے پدر شاہی نظام کے خلاف احتجاج کی کال نہیں دی۔ ہاں البتہ چند سیاسی پارٹیوں کے اندر فیمنسٹ اور روشن خیال حلقوں نے ضیاء کے خلاف فیمنسٹ تحریک کا ساتھ دیا، جیسے کہ پیپلز پارٹی، ترقی پسند قوم پرست جماعتوں اور لیفٹ کی جماعتوں بشمول کمیونسٹ پارٹی، مزدور کسان پارٹی، پاکستان سوشلسٹ پارٹی، اور عوامی تحریک۔ اب بھی اِنہی پارٹیوں نے عورت آزادی مارچ/عورت مارچ میں شرکت کی۔ عوامی ورکرز پارٹی نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عورت کے سوال پر ملٹی پارٹی کانفرنس کی،15 اور اپنے پلیٹ فارم سے کئی جلسے اور جلوس بھی کئے، اور عورت آزادی مارچوں کا بھی ساتھ دیا۔ لیفٹ کی مزدور کسان پارٹی اور حقوقِ خلق موومنٹ لاہور نے بھی عورت مارچ میں شرکت کی۔ ترقی پسند ٹریڈ یونین تحریک، اور طلباء تحریک کے اندر بھی فیمنسٹ عناصر نے حمایت کی۔ حالیہ دور میں طلباء تحریک کے اندر ترقی پسند اور قوم پرست عناصر نے تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی پر آواز اُٹھانی شروع کی ہے۔
تاریخی طور پر پاپولسٹ جماعتیں اور عوامی مزاحمتی تحریکیں پدر شاہی کے خلاف، یا پدر شاہی روایات سے بغاوت کی پاداش میں ماری جانے والی عورتوں کے لئے اپنے پلیٹ فارم سے احتجاج نہیں کرتی تھیں۔ مگر اب کچھ پارلیمانی پارٹیاں خواتین ووٹرز کی نظر میں اپنی بہتر شناخت اور ساکھ کے لئے کبھی کبھی نمایاں واقعات پر ٹوکن احتجاج کر لیتی ہیں، وہ بھی ان پارٹیوں میں نوجوان عناصر نکلتے ہیں۔ آج کل ایک اور رجحان سامنے آیا ہے کہ پارلیمانی پا رٹیوں نے میڈیا پر نمایاں ہونے والے واقعات کو ایک دوسرے کے خلاف اپنے مفادات کی پرانی لڑائیوں میں استعمال کیا۔ اکثر احتجاج نمایاں واقعات کے گرد ہوتے ہیں، مگر نظام کے خلاف خاموشی ہے۔ سوشل میڈیا پر انفرادی فیمنسٹوں کا ردِ عمل بھی اکثر اِنہی نمایاں واقعات کے گرد آیا ہے۔
تاریخی طور پر پاکستان میں عوامی مزاحمتی تحریکیں پہلے خاموشی رہتی تھیں۔ جب کسی قوم یا مذہبی کمیونٹی کے مرد کا قتل ہوتا تھا، تو اُس پر قوم پرست اور مذہب پرست لاشیں لے کر سڑکوں پر بیٹھ کر احتجاج کرتے تھے۔ مگر جب عورت کا قتل ’اُن کے اپنے‘ ہی قوموں اور کمیونٹی کے اندر کے مرد کرتے تھے تو وہ خاموش رہتے تھے۔ گویا اُن کی نظر میں عورتیں ’اُن کے‘ قوم/کمیونٹی کی ’ملکیت‘ ہے، اور اُن کی قومیں اور کمیونٹی ’’اپنی‘‘ عورت کے ساتھ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ اب کچھ عوامی مزاحمتی تحریکیں بولنے لگیں ہیں۔ پہلی بار ہم نے پشتون قوم پرستوں کو اپنے پلیٹ فارم سے عورت کے لئے احتجاج کرتے دیکھا- مثال کے طور پر اِسی سال خیسور اور مومند میں عورتوں پر سیکورٹی فورسز کی طرف سے جنسی حملوں، اور اسلام آباد میں فرشتہ مومند پر جنسی حملوں کے خلاف پشتون تحفظ موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی نے مزاحمت کی، مگر ان کیسز میں بھی دُشمن ریاست تھی،” پدر شاہی خاندان” نہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کے کیس میں تمام بلوچ قوم پرست پارٹیوں نے آواز اُٹھائی۔ نمرتا کے کیس میں سندھی قوم پرستوں نے آواز اُٹھائی۔ یہ ایک مثبت فیمنسٹ سیاسی قدم ہے، لیکن اصل ٹیسٹ یہ ہے کہ یہ خاندان کے ادارے کے اندر تشدد، غیرت کے نام پر قتل، اور کمسنی کی شادی پر احتجاج کرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں؟ کیونکہ تنگ نظر قوم پرستی اور فیمنزم ایک دوسرے سے زیادہ میل نہیں کھاتے، کیونکہ تنگ نظر قوم پرستی صرف اپنی ثقافت سے نظریاتی طاقت لیتی ہے، اور ہمارے ملک میں سبھی قومی ثقافتیں پدر شاہانہ ہیں!۔
تاریخی طور پر ”سیکولر دایاں بازو‘‘ سرمایہ دارنہ پدرشاہی کا حامی رہا ہے، اور مُلا اور ملٹری کی آشیرباد سے عورت کے سوال پر کوئی نیو لبرل” پائیدار ترقی اور ویمن ایمپاورمنٹ‘‘ سے ملتا جلتا انفرادی اور اصلاحی حل ڈھونڈ رہا ہے، جو اُنہیں آج تک نہیں مل سکا ہے، اور نہ ہی مِلے گا، کیونکہ پدرشاہی اِسی نظام کا خاصہ ہے۔ خاص طور پاکستان میں سیکولر لبلرز کو پاکستانی ریاست کے مذہب سے گہرے رشتے کی وجہ سے پدرسری نظر آتی ہے، مگر ریاست اپنی اساس میں پدرسری ہی ہوتی ہے، وہ بھی خاص طور پر سرمایہ دارانہ۔ اس کی بڑی مثال مغربی سرمایہ دارانہ ممالک کی ہے، جو سیکولر ہیں، مگر ریاستیں پدر سری اُصولوں پر مبنی ہیں۔
مذہبی دایاں بازو پدرشاہی کا علمبردار ہے، نظریاتی طور پر ہر طرح کی فیمنزم کا مخالف ہے۔ اور فیمنسٹ قوتوں کے تضاد رکھتا ہے۔ عورت پر ہونے والے مظالم کا حل نظامِ شریعت پیش کرتا ہے، جو خود سے سخت پدر شاہانہ ہے۔ نظریاتی طور پر اس کا نقطہ نظر ہے کہ پدر شاہی نظام رضائے الہٰی ہے، یہ نا صرف تا ابد رہے گا، بلکہ دوسرے جہان میں بھی پدر شاہی نظام ہو گا۔ اس کی نظر میں عورت کی پدر شاہانہ اخلاقی تصحیح کے لئے تشدد جائز ہے۔ مذہبی دایاں بازو نیشنل سیکورٹی سٹیٹ کی مدد کے لئے فوج کی حمایت میں ہر دم تیار رہتا ہے ۔
لیفٹ سرمایہ داری اور پدر شاہی دونوں نظاموں کو گرانے کا ایجنڈا تو رکھتا ہے اور سماجی و معاشی انصاف اور صنفی برابری پر مبنی نظام کے لئے جدوجہد بھی کرتا ہے، مگر لیفٹ کے چند روایتی حلقے لائحہ عمل کے طور پر طبقاتی جدوجہد پر زیادہ فوکس رکھتے ہیں، لیکن لیفٹ عمومی طور پر عورت کے سوال پر سب سیاسی قوتوں کی نسبت سب سے زیادہ کھڑا رہا ہے۔
روایتی قوم پرستوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ عورت کا سوال” قومی آزادی کے بعد کا سوال” ہے۔ جبکہ ترقی پسند قوم پرست اپنی صفوں میں نہ صرف زیادہ عورتیں رکھتے ہیں بلکہ قومی سوال کو عورت کا سوال بھی سمجھتے ہیں۔ یہ اپنے نظریے میں سیکولر ہیں۔
سول سوسائٹی کے افراد “فکرمند شہری ” (کنسرنڈ سیٹزنز) کے طور پر احتجاج کی انفرادی کال دیتے ہیں، جس میں اُن کے نیٹ ورکس کو لوگ شرکت کرتے ہیں۔جس کو سماج، ریاست اور میڈیا تینوں “موم بتی مافیا” کہہ کر سیاست بدر کر دیتے ہیں (این.جی.اوز کے لوگ اکثر موم بتیاں جلا کر ’تعزیتی اکٹھ‘ کرتے ہیں)۔ اِس طرح سرمایہ داری نظام کبھی ایک، تو کبھی دوسرے طریقے سے فیمنسٹ سیاسی قوتوں کو سیاست بدر کر رہی ہے۔
اعلانیہ فیمنسٹ مزاحمتی تنظیمیں خود اپنے پلیٹ فارم سے احتجاج کی کال دیتی ہیں۔ مگر آج کل ایک نیا رُجحان سامنے آیا ہے: وہ ہے ’’آگے دوڑ۔ پیچھے چھوڑ‘‘ کا رجحان۔ یعنی کہ عورت اور بچی کے قتل کے ہر واقعہ پر ایک بار احتجاج کر کے، سوشل میڈیا کے ذریعے واقعہ کو اُجاگر کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے، جبکہ اکثر واقعات میں انصاف نہیں ملتا۔ کچھ تو سوشل میڈیا پر اکتفا کرنے کا مسئلہ ہے، مگر اصل وجوہات دو ہیں: پہلی وجہ یہ ہے کہ واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے، اور فیمنسٹ تنظیموں کی موجودگی کم علاقوں میں ہے، اور جہاں ہے، وہاں بھی تعداد کم ہے، غیر منظم ہیں، اور جہدِ مسلسل کا بھی فقدان ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ نظام میں بھی انفرادی انصاف پانے کی گنجائش نہیں ہے، اور نہ ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت فیمنسٹ تنظیمیں تو ہیں، اور گاہے بگاہے کبھی ایک، تو کبھی دوسرے ایشو کو لے کر آواز اٹھاتی رہتی ہیں، مارچز بھی کرتی ہیں، مگر جہدِ مسلسل پر مبنی کوئی منظم اور متحرک تحریک نہیں ہے۔ موجودہ دہائی میں فیمنسٹ مزاحمت بھی عارضی بنیادوں پر کبھی ایک، تو کبھی دوسرے ایشو کے گرد چل رہی ہے، سیاسی کام بکھرا ہوا ہے، اور اکثر شہروں تک محدود ہیں۔ فیمنسٹ تنظیمیں عمومی طور پر طبقاتی اور قومی سوال، سول رائٹس، جمہوری حقوق اور قیامِ امن کے سوال پر دوسری تحریکوں کے ساتھ یکجہتی کے ذریعے اُٹھا رہی ہیں اور ان تحریکوں کے اندر فیمنسٹ پہلو کو بھی اُجاگر کر رہی ہیں، مگر فیمنسٹ تنظیموں کی خود سے کوئی منظم اور متحد مزاحمتی تحریک نہیں ہے، جو نظام کو بدلنے کی قوت رکھتی ہوں، اور نہ الگ تھلگ یہ قوت بن سکتی ہے۔ اور اپنے پلیٹ فارمز سے سرگرمیاں بھی کم کرتی رہی ہیں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ فیمنزم بھی اِسی جنونی پدر شاہی کی لپیٹ میں ہے، اور سماج میں مزید متنازعہ بن چکی ہے خاص طور پر عورت آزادی مارچ/عورت مارچ کے بعد سے۔ مگر یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ فیمنسٹ تحریک ہمیشہ متنازعہ رہے گی کیونکہ یہ صرف بظاہر دور سے نظر آنے والے دشمن (سماج اور ریاست)سے لڑائی نہیں لڑتی ہے بلکہ یہ تمام سماجی تعلقات، خاص طور پر عورتوں کے قریبی رشتوں (خاندان) سے بھی مطالبات/ مزاحمت رکھتی ہے۔ مگر اب عورت آزادی مارچ/عورت مارچ نے پاکستان میں ایک نئی فیمنسٹ لہر پیدا کی ہے، جس کو ترقی پسند نظریے، اندرونی اتحاد، جہدِ مسلسل، اور منظم سیاسی جدوجہد پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
میری نظر میں اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ پاکستان میں ایک مضبوط اور متحد فیمنسٹ تحریک کی اشد ضرورت ہے، جو موجودہ تحریک کی نئی صف بندی کی صورت میں بنائی جا سکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے، کہ کیا موجودہ بکھری ہوئی تحریک، جو کہ دو متضاد لبرل اور سوشلسٹ رجحانات رکھتی ہے، کو کسی ایک مخصوص ایجنڈا پر متحد کر کے نیا موڑ دیا جا سکتا ہے؟ اور وہ ایجنڈا کیا ہونا چاہیئے؟ اور کیا ایک الگ تھلگ فیمنسٹ تحریک، وہ بھی اکیلے میں پورے نظام کو بدل سکتی ہے؟
ان سوالوں کے جواب دینے کے لئے فیمنسٹ تحریک کو ایک نئے مکالمے کا آغاز کرنا پڑے گا۔ اس مکالمے کے آغاز کے لئے میرا تھیسس درج ذیل ہے:۔
نظریاتی اور سیاسی پہلو
: پدر شاہی کی از حد بڑھوتری
پاکستان میں جنگی اقتصاد میں جڑیں رکھنے والی بیحد بڑھی ہوئی ریاست کی وجہ سے پچھلی چار دہائیوں میں پدر شاہی کی نہ صرف حد درجہ “بڑھوتری‘‘ ہوئی ہے، بلکہ یہ بڑھوتری ” پُرتشدد‘‘ بھی ہے۔ اِس بڑھوتری کی دو خصوصیات سامنے آئی ہیں:۔
پدر شاہانہ انتہا پسندی : جس سے زندگی کے ہر پہلو میں پدر شاہانہ فرمانروائی، زن بیزاری، رجعتی اقدار پرستی اور سخت پردہ بڑھے ہیں۔
پُر تشدد پدرشاہانہ جنونیت : جس سے عورتوں، اور عور ت کے روایتی تصور سے جسمانی اور سماجی مماثلت رکھنے والے افراد (نابالغ چھوٹے لڑکے، خواجہ سرا اور صنفِ آزاد) پر جان لیوا جنسی اور صنفی حملے اور ہراسانی بڑھے ہیں۔ یہ حملے شہوت پرستی، جنسیت پرستی، ایذا رسانی اور جنسی بربریت پر مبنی ہیں۔ عورتوں کو آتشیں اسلحے سے قتل کے واقعات عام ہونے لگے ہیں۔ سرکاری اہلکاروں کی طرف سے عورتوں پر جنسی حملے ہو رہے ہیں۔ ہیلتھ ورکرز اور پولیو ورکرز کو قتل کیا جا رہا ہے۔ اِس صورتحال کے نتیجے میں ایک پدر شاہانہ اور جنسی ٹیرر پھیلا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں عورتوں اور بچیوں پر پابندیاں بڑھ رہی ہیں۔
مارکسی سوشیالوجسٹ حمزہ علوی اپنے تھیسس ’’پوسٹ کالونیل معاشروں میں ریاست: پاکستان اور بنگلہ دیش‘‘ میں لکھتے ہیں(علوی :1972) کہ پاکستان اپنی پوسٹ کالونیل ساخت کی وجہ سے ایک ’’بے حد بڑھی ہوئی ریاست‘‘ (اوور ڈیویلپڈ سٹیٹ) ہے۔16 یعنی کہ ریاست پر فوجی اشرافیہ کا تسلط ہے اور اپنی ساخت میں قومی سلامتی ریاست (نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ) ہونے کی وجہ سے یہ بے حد بڑھی ہوئی ریاست ہے۔
سادہ لفظوں میں قومی سلامتی ریاست سے مراد وہ ریاست ہے جس میں تمام معاشی، ریاستی، سماجی، نظریاتی، اور ثقافتی اختیارات ’دفاع‘ کے گرد منظم ہوں اور فوج کے پاس ہوں، اور تمام داخلی اور بیرونی فیصلوں کی سمت کا تعین وہ کرتی ہو۔ اس طرح کی ریاست میں فوجی اور سول بیوروکریسی بے حد بڑھی ہوئی اور طاقتور ہوتی ہیں۔ سماج کی ہر پرت پر ملٹری اپریٹس کا تسلط ہو تا ہے۔ ریاست میں مُلکی بورژوازی کی جگہ سامراجی بورژوازی کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ اور قومی سلامتی کو کسی نہ کسی بیرونی دشمن سے خطرہ گھڑا جاتا ہے، اور ہر خطرے سے نمٹنے کا حل فوجی نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہ ریاستیں دوسری جنگ عظیم کے بعد سرمایہ داری کی بقاء کے لئے بنائی گئیں۔
میں حمزہ علوی کے تھیسس سے تاریخی طور پر کسی حد تک متفق ہوں، مگر پوری طرح متفق نہیں ہوں۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے ریاست کی از حد بڑھوتری ہوئی ہے، مگر پاکستان کھبی بھی ایک ’پوسٹ کولونیل‘ سٹیٹ نہیں تھا، بلکہ یہ کلونیل دور سے سیدھا نیو کالونیل دور میں داخل ہوا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان خود سے ایک کالونیل پراجیکٹ تھا، اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین کے خلاف کولڈ وار کے لئے ایک ردِ انقلاب ریاست کے طور پر ہی بنایا گیا تھا۔ اور بنتے ہی برطانیہ کے ساتھ ساتھ امریکہ کی بھی کالونی بنا۔ اور پھر امریکہ نے اپنی سامراجی توسیعات کے لئے اسے اپنی گیرژن سٹیٹ کے طور استعمال کیا، اور اپنے جنگی اقتصاد اور سٹریٹیجک مفاد کو شروع سے ہمارے خطے میں آگے بڑھایا۔ افغان انقلاب کو مٹانے کے لئے افغانستان کو ملبے کے ڈھیر اور قبرستانوں میں بدل دیا۔ کولڈ وار کے دور میں امریکہ کی سوویت یونین کے جنگ میں پاکستان کی فوج نے امریکہ کی مدد سے قومی سلامتی ریاست کو مزید مستحکم کیا، اور ریاست، سیاست اور معیشت پر مکمل گرفت حاصل کی۔ سویلین حکمران اشرافیہ، اور مذہبی اشرافیہ بھی اس گرفت سے مستفید ہوئیں۔ چاہے وہ آئی ایم ایف کے قرضے ہوں، ٹیکس مراعات ہوں، یا ٹھیکے۔ سماج اور قوموں کی ارتقاء کو مزید مسخ کیا۔
:حمزہ علوی سے کسی حد تک اتفاق کرتے ہوئے، میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان کی ریاست نہ صرف بے حد بڑھی ہوئی ریاست ہے، بلکہ ”بے حد بڑھی ہوئی پدر شاہی‘‘ (اوور ڈیویلپڈ پٹریارکی) بھی اِسی ریاستی بڑھوتری کا حصہ ہے۔ اِس قومی سلامتی ریاست کو بنانے اور برقرار رکھنے کے لئے جو بیانیہ درکار ہے (پاکستان کو انڈیا اور روس سے خطرہ ہے)، اُس کو تشکیل دینے میں غُربت، مذہب اور جنونی پدر شاہی کا کلیدی کردار ہے۔ تاہم، سب کچھ اُوپر اُوپر سے ریاست کی طرف سے نہیں ہو رہا۔ پاکستان میں پیداواری نظام میں تبدیلیوں کی وجہ سے بھی سماجی و صنفی تعلقات میں تبدیلی آئی ہے۔ عورتیں بڑے پیمانے پر تعلیم اور روزگار کی طرف جا رہی ہیں۔ سماجی پسماندگی کی علامت جاگیردارانہ پدرشاہی ٹوٹ رہی ہے، سرمایہ دارانہ پدر شاہی تشکیل پا چُکی ہے۔ پیداواری، سماجی اور صنفی تعلقات ٹرانزیشن میں ہیں، جو اس صنفی بُحران کی ایک اور بڑی وجہ ہے (شاہجہان: 2019)۔17 مگر اُس کی تفصیل اس مضمون میں شامل نہیں ہے۔ اس مضمون کا فوکس ریاست پر ہے۔ٍ
درج بالا بڑھوتریوں کا تعلق پچھلی چار دہائیوں میں دُنیا میں پھلتی ہوئی سرمایہ دارانہ جنگی معیشت، خاص طور پر ہمارے خطے اور مڈل ایسٹ میں ’’وار آن ٹیررازم‘‘ کی آڑ میں چھپی سامراجی جنگوں (جس میں دنیا کی تمام عالمی سرمایہ دار اور امپریالسٹ قوتیں ملوث ہیں) سے ہے، جس میں پاکستان ایک فرنٹ لائن/ چاکر/ مرسینری ریاست کے طور پر شامل ہے۔ اِس جنگ کا بنیادی ہتھیار عسکریت پسندی، مذہبی انتہا پسندی اور پراکسی جنگیں ہیں۔ ان جنگوں کو بھڑکانے اور چلانے کی لئے پاکستانی ریاست نے منظم طور پر ’’پُرتشدد مردانگی/ جنگجو مرد‘‘ بنانے کے لئے “انتہا پسندانہ اور پُرتشدد پدرشاہی” کی تشکیل کی۔ ناصرف یہ، بلکہ قومی سلامتی کے نظریے کے تحت پاکستان میں بسنے والی قوموں کی تاریخی وحدتوں، تہزیبوں اور ثقافتوں کو بھی ختم کر کے ”جبری پاکستانی شناخت” کو ایک غالب شناخت کے طور پر آگے بڑھایا ہے، جس کے لئے نہ صرف زیرِعتاب قوموں کے حقوق غصب کئے، بلکہ قوم پرستوں کو مارا، اور منظم نسل کشیاں بھی کیں، خاص طور پر بلوچوں اور پشتونوں کی۔ اس وقت ہزاروں پشتون، سندھی اور بلوچ عورتیں اپنے خاندانوں کے جبری گمشدہ کئے گئے افراد کی بازیابی کی منتظر ہیں، اور شادی شدہ عورتیں مزید پدر شاہانہ سختیوں میں بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں ۔
پورے جنگی بیانیے میں دراصل ’’جنونی پدر شاہی‘‘ ہی سب سے بڑا سٹریٹیجک اثاثہ ہے، جس کے بغیر قومی سلامتی ریاست اور جنگی اقتصاد نہیں چل سکتے۔ دہشت گردی، مذہب کا سیاسی استعمال، اور پدر شاہانہ جنونیت تینوں اپنی اساس میں سامراجی ہتھیار ہیں، جسے سرمایہ ہمیشہ جنگی اقتصاد اور سامراجی توسیعات کے لئے استعمال کرتا رہا ہے۔ ایسی سامراجی مثالیں ہمیں افغانستان، ایران، شام، عراق اور لیبیا میں بھی ملیں گی۔ ان جنگوں میں دہشت گردی، مذہب کا سیاسی استعمال اور جنونی پدر شاہی کو سستی افرادی قوت حاصل کرنے کے لئے نظریاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پدر شاہانہ جنونیت افرادی قوت حاصل کرنے اور اپنے ہی بچے جنگ میں جھونکنے کی سماجی رضامندی پیدا کرنے کا بہترین وسیلہ رہا ہے (جنگ کا ایندھن عورتیں بچوں کی صورت میں افرادی قوت مہیا کرتی ہیں)۔
اب پاکستان کی معیشت نہ صرف جنگی اقتصاد پر مبنی ہے، اور اس کی ریاست بے حد بڑھی ہوئی ہے، بلکہ ”جنونی اور پُر تشدد پدرشاہی” اِس جنگی اقتصاد اور سرمایے کی بنیادی ضرورت بن کر اُبھری ہے۔ اب آتشیں ہتھیار، دہشت اور تشدد، اور ملٹرائزیشن پدر شاہی کے اندر سما چکے ہیں۔ جنگی اقتصاد کی وجہ سے اب تشدد اور دہشت سب سے زیادہ منافع بخش جنس (کموڈٹی) بن چکے ہیں۔ دہائیوں کی ذہن سازی کی وجہ سے اب ’سوشل سیکورٹی‘ کی جگہ ’نیشنل سیکیورٹی’ کا تصور لوگوں کے کامن سینس کا حصہ بن چکے ہیں۔ سیاست اور ریاست عوام کے حقوق اور ویلفیئر کے بجائے’ سٹریٹیجک سیکورٹی’ کے گرد گھومتے ہیں۔
افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کے خلاف جنگ اور جہاد کے لئے مینو فیکچر کی گئی جنونی پدر شاہی، ثقافتی قدامت، جنسی حبس، حُور پرستی، بندوقیں اور، سٹریٹیجک اثاثے اب طالبان اور تبلیغی مراکز، فوجی اسلحے کے ڈپوؤں اور فوجی تھنک ٹینکوں سے باہر نکل کر چلتے چلتے لوگوں کے گھروں اور خواب گاہوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اب یہ ہر گھر میں الگ الگ شکل میں موجود ہیں (محض ڈگری کا فرق ہے)۔
پہلے سے موجود پدر شاہی کی ہر شکل، چاہے وہ قبیلوی تھی، جاگیردارانہ یا سرمایہ دارانہ، دیہی یا میٹرو پولیٹن تھی، اب اُس میں اِنتہا پسندی اور جنونیت کے رجحانات پھیل چکے ہیں۔ ان رجحانات کی تاریخی، نظریاتی اور سیاسی جڑیں بھی اِسی سامراجیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی توسیعات، اور جنگی اقتصاد میں ہیں۔
یہ پُرتشدد بڑھوتری اب زندگی کے ہر شعبے اور پہلو کو اپنی لپیٹ میں لے کر اپنی بالادستی قائم کر چکی ہے۔ اب پاکستان میں بالغ عورتوں اور خواجہ سراؤں کو اکثر آتشیں اسلحہ سے قتل کیا جا رہا ہے۔ اس وقت سویلین اسلحہ رکھنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان چوتھا بڑا ملک ہے، جہاں 4.4 کروڑ سویلین بندوقیں ہیں (کارپ:2018ء)۔18 ہر100 سویلین افراد کے پاس 22.3 آتشیں اسلحہ ہے۔ پاکستان کی سویلین آبادی کو آتشیں اسلحہ کی تعداد سے اوسطاً جوڑ کر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ مردوں کی وہ آبادی جو عمومی طور پر قتل کرنے کی جسمانی اور سماجی طاقت رکھتی ہے ( 15 سے 65 سال عمروں کی آبادی) وہ 4.2 کروڑ ہیں۔ اس طرح اوسطاً ہر مرد کے پاس اسلحہ ہے۔ اب ہر گھر میں بندوق ہے۔ عورت کو بندوق سے مارا جاتا ہے، ریپ کیا جاتا ہے، اور جبری شادیوں پر مجبور کیا جاتا ہے۔ 2009-2010ء میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں خاندان کے رشتے داروں کی طرف سے تشدد سے زخمی 115، اور 2010-2011ء میں 190 زخمی عورتیں مر گئیں، اِن میں سے 77 فیصد کو آتشیں اسلحے سے مارا گیا تھا (شاہ :2012ء)۔19
اسی طرح کی صورتحال جنگی اقتصاد رکھنے والے تمام ممالک میں ہے۔ سویلین اسلحے سے پاک شہروں کے لئے کام کرنے والی تنظیم ’”ایوری ٹاون”‘ کی 2019ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے تمام امیر ممالک میں 2015ء میں ‘ بندوق سے ماری جانے والی’ عورتوں کا 92 فیصد امریکہ میں ماری گئیں، ان کی اکثریت غریب سیاہ فام عورتوں کی ہے۔ امریکہ جو دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا مینو فیکچرر، ایکسپورٹر اور مالک ہے، اور اسلحے کی ہر فہرست میں اول نمبر پر ہے، وہاں سویلین بندوقیں 39 کروڑ ہیں، اور ہر 100 سویلین افراد کے پاس 120 بندوقیں ہیں۔ ہر مہینے کم از کم اوسطاََ 52 عورتوں کو اُن کے قریبی ساتھی یا شوہر فائر آرمز سے قتل کرتے ہیں۔ تقریباََ 10 لاکھ عورتیں جو آج زندہ ہیں، ان پر ان کے قریبی ساتھیوں نے اسلحے سے حملے کئے۔ اور 45 لاکھ عورتوں پر اُن کے قریبی ساتھیوں نے بندوق تانی (ایوری ٹاون :2019 ، کارلیسل :2019 ) 20 21 ۔
کہنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں، کہ پدرشاہی ”کولڈ وار” سے پہلے موجود نہیں تھی، یا اُس کی سامراجی، طبقاتی، یا تاریخی جڑیں نہیں ہیں۔ آج جو ” انتہا پسندانہ” پدر شاہی پاکستان کی ریاست کے خمیر میں نظر آتی ہے، اُس کی تاریخی جڑیں کالونیل انڈیا اور برطانوی سامراج میں ہیں۔ اِس کی بنیادیں طبقاتی اور سامراجی نظام کو گرانے کے لئے بائیں بازو اور ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے خلاف تاجِ برطانیہ نے ’’ڈیوائڈ اینڈروول‘‘ کی پالیسی کے تحت رکھیں۔ سماجی اور سیاسی تقسیم مذہبی بنیادوں پر کی، جس کو اینگلو محمدن لاء کی تشکیل، مسلم بورژوازی، اور حلیف دیوبندی علماء کی سیاست میں عمل دخل سے طاقت ملی۔ اراضیاں اور بندوبستی نظام کنٹرول کرنے اور اپنا دائرہِ اختیار بڑھانے کے لئے دی کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈز پنجاب ایکٹ 1912ء، فرنٹیئر کرائم ریگولیشنز 1901ء، شریعت اپلیکشن ایکٹ 1937ء جیسے قوانین لائے۔ وقف، وراثت اور اوقاف کا نظام مذہبی اور پدر شاہی بنیادوں پر بنایا۔ یوں برطانوی سامراج، مسلم اشرافیہ اور دیوبندی ایک دوسرے کے حلیف بنے، اور سماج میں پہلے سے موجود طبقاتی استحصال، قومی جبر اور اور عورتوں پر پدر شاہی تسلط کو مضبوط کرنے پر گٹھ جوڑ کیا۔
مسلم لیگ کے مضبوط حمایتی ’مولانا شرف علی تھانوی‘ 1905ء میں کتاب “بہشتی زیور” لائے، جو پدر سری جبر اور فرمانروائی کا فقہء ہے، جس نے عورت کو عورت سے ”مسلم عورت” بنایا۔ اور آج تک یہی نقطہ نظر ہر سطح پر ذہن سازی کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ اب فرق صرف اتنا ہے کہ اب پاکستان صرف برطانیہ کی نہیں، بلکہ امریکہ، سعودی عرب اور چین کی بھی کالونی ہے….. شاید دُنیا میں سب سے زیادہ کالونائز کیا ہوا ملک، جس کی سول، ملٹری اور مذہبی اشرافیہ، اور میڈیا کسی نہ کسی سامراجی ایجنڈے کا حصہ ہیں، اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح کسی ملٹی نیشنل میں فرنچائز ’’حصہ دار اور دُم چھلا بورژوازی‘‘ (کامپریڈور بورژوازی) ہے۔ یہ نہ صرف سامراج کو تقویت دیتے ہیں، بلکہ سامراج سے تقویت لیتے بھی ہیں۔
میری نظر میں سامراج اور دنیا کے تمام مذاہب میں دو قدریں مشترک ہیں: دونوں سرمائے کے ارتکاز اور نجی ملکیت کے فروغ کی بات کرتے ہیں؛ دونوں عورتوں پر مردوں کی فوقیت اور تسلط کی حمایت کرتے ہیں۔ تاریخی تناظر میں دیکھیں تو سامراج اور مذہب کا آپس میں گہرا رشتہ رہا ہے۔ سامراجی قوتیں مذہب کو اپنے مفادات کے بڑھاوے کے لئے اور اپنی ’’ڈیوائد اینڈ رول‘‘ کی حکمت عملی کے لئے سیاسی طور پر استعمال کرتی رہی ہیں۔ پدر شاہی اور لبرل فیمنزم دونوں کو سامراج نے دنیا پر تسلط قائم کرنے اور دنیا پر جنگیں مسلط کرنے میں استعمال کیا ہے۔ اور کالونیل توسیعات میں بھی مذہب کا بھرپور سیاسی اور ثقافتی استعمال کیا ہے۔ یہاں مراد ہر گز پدر شاہی نظام کو سیکورٹی سٹیٹ کے نکتہ نظر کی طرح کوئی ’’بیرونی دشمن‘‘ کہنا نہیں ہے، بلکہ دشمن کے بڑے اتحادیوں اور پدر شاہانہ جنونیت کی عالمی اور معاشی جڑوں کی نشاندہی کرنا ہے۔
: سوشلسٹ فیمنسٹ انقلاب – یا – پدر شاہانہ بربریت
درج بالا بحث سے مراد ہرگز پدر شاہی میں اصلاح پسندی نہیں، یا یہ کہ ہماری جدوجہد کسی ’’سویلین پدر شاہی‘‘ یا ’’مہذب اور رحمدل پدر شاہی‘‘ نظام کی قیام کے لئے ہو۔ مراد یہ ہے، کہ اِس صورتحال میں ہمارے پاس نجات اور آزادی کا کوئی رستہ نہیں، سوائے موجودہ نظام کے ڈھانچے گرانے کے۔ ہمیں ایک ایسی فیوچرسٹک اور عوامی مزاحمت کے لئے صف بندی کرنی ہو گی جو تمام محکوموں کی سیاسی جدوجہد سے جُڑی ہوئی ہو۔
پاکستان میں فیمنسٹ تحریک تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے، جہاں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمیں تاریخ کے اِس موڑ پر کس سمت جانا ہے: جنگ، سرمایہ داری، سامراج اور اس سے جُڑی جنونی پدر شاہی اور جنسی بربریت کا شکار ہوتے رہنا ہے، الگ تھلگ سیاست کرنی ہے ….یا…. طبقاتی، فیمنسٹ، قومی اور سیکولر شعور کے ساتھ دوسری ہم خیال قوتوں کے ساتھ مل کر منظم سیاسی جہدِمسلسل کا رستہ اپنانا ہے؟ ہمیں ایک مخصوص رستے کا انتخاب کرنا ہو گا۔
روزا لکسمبرگ نے 1916ء میں جرمنی کی صورتحال کے بارے میں ایک جنگ مخالف پمفلٹ (دی جونئیس پمفلٹ) میں لکھا تھا کہ ’’بورژوا معاشرہ دوراہے پر کھڑا ہے، یا سوشلزم کی طرف آگے بڑھنا ہو گا، یا پھر رجعت اور بربریت کا راج ہو گا‘‘ (لکسمبرگ:2016ء)۔ 22یہ بات پاکستان پر بھی آج صادق آتی ہے۔ اِس کی مزید تشریح میں پاکستان کی سوشلسٹ فیمنسٹ تحریک کو بھی اب کہنا پڑے گا کہ ’’یا سوشلسٹ فیمنسٹ انقلاب یا پدر شاہانہ جنونیت و جنسی بربریت‘‘ ____ اگر فیمنسٹ سوشلسٹ انقلاب نہیں کریں گے، تو پدر شاہانہ جنونیت اور جنسی بربریت ہمارا مقدر ہو گا!۔
:ا یجنڈا سیٹنگ: گھر سے سرحدات تک امن کا قیام
میری نظر میں ’’گھر سے سرحدات تک امن کا قیام‘‘ وہ نکتہ آغاز ہے جس کے گرد تمام موجودہ فیمنسٹ مزاحمتی قوتوں اور ترقی پسند قوتوں کو تاریخ کے اِس موڑ پر متحد کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اِس نکتے میں عورتوں اور صنفی/ جنسی اقلیتوں، محکوم قوموں اور مذہبی اقلیتوں اور عوام کے نکتہ نظر سے کوئی ’’دوسرا پن‘‘ (ادرنیس) بھی نہیں ہے، یعنی کہ ہم کسی اور کی جنگ نہیں لڑیں گے۔
سیاسی نکتۂ نظر سے اس میں کوئی شک نہیں کہ طبقاتی و قومی جدوجہد، سیکولر اور سویلین جمہوریت کے لئے جدوجہد، اور امن و آزادی کی جدوجہدوں کی کامیابی میں ہی فیمنسٹ جیت پنہاں ہے، کیونکہ جبر اور استحصال کی ہر شکل ایک دوسرے سے تقویت لیتی ہیں۔
References:
- Word Economic Forum 2019. Global Gender Gap Report. weforum.org ↩︎
- National Institute of Population Studies (NIPS) [Pakistan] and ICF. (2019). 2017-2018 Demographic and Heath Survey: Key Findings. ↩︎
- Hanif, Mohammed. Pakistan: where the daily slaughter of women barely make the news. The Guardian, 9 May 2019 ↩︎
- Pakistan shuts down Save the Children Fund offices in Islamabad. 12 June 2015. The Guardian ↩︎
- Shahjahan Ismat. (2019) ۔ پاکستان میں صنفی اور جنسی بُحران narivaad.com . ↩︎
- Child Marriage Country Profile – Pakistan. UNICEF ↩︎
- Pakistan – Child marriages atlas – Girls Not Brides. girlsnotbrides.org ↩︎
- Khan, Asim. Bodies of newborn babies recovered from dumpster in Korangi. Dawn, September 24, 2014 ↩︎
- Durrani, Fakhar. Karachi becoming a killing field for newborn girls. The News, 26 April, 2018 ↩︎
- Gramsci, Antonio. Selections from the Prison Notebooks. New York. International Publishers, 1971. ↩︎
- Raja. Khadim Hussain. (2012). A Stranger in my own country. Oxford University Press. ↩︎
- Bamik, Hamid . Afghanistan: The Country of Widows: The Daily Outlook Afghanistan. 24 June 2018. outlookafghanistan.net ↩︎
- Chaon, Anne. Afghanistan’s Hill of Widows’ Live in a World Apart. AFP. June 2017. afp.com ↩︎
- Sara Hassan. شادی کی عمر کا تعین اسلام کے خلاف ہے . BBC. 1 5 January 2016. bbc.com.urdu ↩︎
- Government urged not to amend women protection laws. 9 April 2016. English daily Tribune ↩︎
- Alvi, Hamza. The State in Post-colonial Societies: Pakistan and Bangladesh: New Left Review I, no.74 (1972): 59-81. ↩︎
- Shahjahan Ismat. (2019) ۔ پاکستان میں صنفی اور جنسی بُحران narivaad.com ↩︎
- Karp, Aaron. Briefing Paper: Estimating Global Civilian-Held Firearms Numbers. June 2018. smallarmssurvey.org. ↩︎
- Shah, Mian Mujahid et al. Death in the Home: Domestic Violence Against Women in Khyber PakhtunKhwa. Journal of Ayub Medical College, Abbottabad, 2012; 24(1). ayubmed.edu.pk ↩︎
- Every Town, Report. Guns and Violence Against Women: America’s Uniquely Violence Lethal Intimate Partner Violence Problem. October 17, 2019. everytownresearch.org ↩︎
- Carlisle, Madeleine. Here’s Why Domestic Violence Kills So Many Women and Children in America.TIME. October 17, 2019. ↩︎
- Luxemburg, Rosa. The Junius Pamphlet. February 1916. marxists.org.archives. ↩︎