ماحولیاتی انصاف کا واحد راستہ: انٹرنیشنلزم

تحریر: منرویٰ طاہر

لاہور ڈیفنس کے مین بولیوارڈ پر لائن میں ایسے اشتہاری بورڈ لگے ہوئے ہیں جو کہ شام ہوتے ہی روشن کر دیئے جاتے ہیں۔ روزانہ کے معمول میں بجلی کا یہ بدترین ضیاع دیکھنے کو ملتا ہے۔ سوائے آنکھوں کو اذیت دینے کے ان بورڈز کا اور کیا مقصد ہے؟ ہم اپنی بنیادی ضروریات سے بخوبی واقف ہیں۔ یہ بورڈز ہمیں کوئی ایسی معلومات فراہم نہیں کرتے کہ جس کے ذریعے یہ جانچا جا سکے کہ آیا جن مصنوعات کا اشتہار لگایا گیا ہے، وہ ماحول کے حوالے سے پائیدار ہیں یا نہیں؟ یا یہ کہ انسانیت کو ان مصنوعات کی حقیقتاً ضرورت ہے یا نہیں؟ یہ اشتہار بس ہمارے ذہنوں میں ان مصنوعات کی بے جا ضرورت پیدا کرتے ہیں۔ اگر پیداوار کا مقصد انسانیت کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا تو ایسے تمام اشتہارات پر پابندی لگائی جاتی اور یہاں سے بجلی بچا کر بہتر سمت میں صرف کی جاتی مثلاً محنت کشوں کے رہائشی علاقوں میں روشنیاں لگانے پر، تاکہ محنت کش خواتین کو رات میں سفر کرنے میں دقت پیش نہ آئے۔ مگر سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا کبھی نہ ہو گا کیونکہ کام کرنے والی خواتین کی سہولت کے لیے لگائی جانے والی روشنیاں کسی سرمایہ دار کے لیے منافع نہیں پیدا کریں گی۔ اس کے برعکس اس نظام کی منافع کے حصول کی نہ ختم ہونے والی بھوک کے تحت ہم یہ بجلی ’بے معنی‘ مصنوعات کی تشہیر پر ضائع ہوتے دیکھتے رہیں گے جس سے ماحولیاتی بحران مزید شدت اختیار کرے گا۔

دنیا بھر میں ماحولیاتی بحران کے اثرات عیاں ہو رہے ہیں مگر نو آبادیوں میں اس بحران کی شدت کہیں زیادہ ہے۔ اسی سال جولائی میں سندھ کے کسانوں نے ایک ہفتہ تک لانگ مارچ کیا جس کا اختتام ٹھٹہ میں ہوا۔ وہ اپنے علاقوں میں پانی کے بحران اور سمندری کٹاؤ (سی ایروژن) کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ پچھلے کئی سالوں سے دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے آس پاس کے علاقوں میں پانی کا شدید بحران ہے۔ ٹھٹہ اور بدین کے ضلعوں کی 2.5 ملین ایکڑ زمین اب تک زیر آب آچکی ہے اور امکان ہے کہ 2050ء تک سمندر ٹھٹہ تک پہنچے گا اور پورا انڈس ڈیلٹا زیر سمندر ہوگا (تونیو:2019ء )1 ۔

ایک تحقیق کے مطابق سندھ کے ساحلی علاقوں میں پانی کا بحران مقامی دیہی خواتین کو زیادہ بڑے پیمانے پر متاثر کرتا ہے (حیات:2019ء) انہیں تقریباً دو کلومیٹر کا سفر دن میں کئی دفعہ پیدل طے کرنا پڑتا ہے تاکہ گھریلو ضروریات کے لیے ہینڈ پمپ یا کنویں سے پانی لا سکیں۔2 پاکستان جیسے ملک میں دن میں کئی بار ایسا سفر کرنے کا عموماََ مطلب یہ ہوتا ہے کہ خواتین کے جنسی ہراسانی و تشدد کا نشانہ بننے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ ایک اور اندازے کے مطابق مردوں کے مقابلے میں خواتین اور بچوں کی قدرتی آفات میں موت کا امکان 14 مرتبہ زیادہ ہے۔ ماحولیاتی آفات کے اثرات کی مردوں اور عورتوں کے لئے نابرابری کی اہم وجہ پاکستان کا پدرشاہی نظام ہے۔ ماسوائے اپر کلاس کی چند ایک خواتین کے، ہمارے معاشرے میں عورتوں کو صحیح طرح تیراکی جیسی بنیادی چیز تک نہیں سکھائی جاتی کہ سیلاب، سونامی یا حتیٰ کہ جہاز کے کریش ہونے کی صورت میں وہ تیر کر اپنی جان بچا سکیں۔ اس کے برعکس محنت کش طبقہ کے بھی مردوں کے پاس دوستوں کے ساتھ سمندر اور نہروں میں تیرنا سیکھنے کے مواقع موجود ہوتے ہیں کیونکہ معاشرے میں تفریح کی خاطر گھر سے باہر نکلنا مردوں کے لیے کوئی معیوب عمل نہیں۔

پاکستان کے موجودہ وزیراعظم خود کو ماحول دوست رہنما بنا کے پیش کرتے ہیں۔ اس سال انہوں نے یو این کی جنرل اسمبلی میں ماحولیاتی بحران پر بھی گفتگو کی۔ وہ اکثر اپنی پارٹی کے 10 بلین درختوں کے منصوبے کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ اگر وہ ذکر نہیں کرتے تو سی پیک منصوبے کے تحت تعمیر کئے جانے والے ان 9پاور پلانٹس کا ذکر نہیں کر تے جو کوئلہ جلا کر بجلی پیدا کریں گے (اے ایف پی: 2018)۔3 ماحول میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی بڑی مقدار کے اخراج کے علاوہ کوئلہ کی مائننگ اور اس کا جلانا دونوں ہی ایسے عوامل ہیں کہ جن میں پانی کی بڑی مقدار ضائع ہوتی ہے۔ سی پیک منصوبے کے ان پاور پراجیکٹس میں سے ایک تھر کا مائن اینڈ پلانٹ پراجیکٹ ہے۔ گرمی کی شدت اور پانی کے بحران کے لیے تھر کا صحرا جانا جاتا ہے۔ اس علاقے میں سے جو کوئلہ نکلتا ہے وہ لگنائٹ کہلاتا ہے جس کی توانائی کی افادیت( انرجی افیشینسی) بہت کم ہے اور جس کو جلانے سے بہت زیادہ مقدار میں کاربن ڈائی آکسائڈ کا ماحول میں اخراج ہوتا ہے۔ ایسا پراجیکٹ نہ صرف ہوا کے معیار کو بدتر بنائے گا او ر درجہ حرارت میں اضافہ کرے گا بلکہ پانی کے بحران میں بھی شدت لائے گا جس کے اثرات مقامی لوگوں کو بھگتنے پڑیں گے۔ یہ صرف چین نہیں کر رہا۔ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک جامشورو میں ایک چھ سو میگاواٹ کوئلہ سے چلنے والے پاور پلانٹ کی فنڈنگ کر رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کی 60 فیصد بجلی کوئلہ، گیس اور فرنس آئل جیسے فاسل فیولز سے پیدا کی جاتی ہے ( احمد:2018)۔4

ایک ایسے دور میں کہ جب ماحولیاتی سوال پر غور کرنے والے دنیا بھر کی حکومتوں کو فاسل فیول کے بجائے سورج یا ہوا جیسی قابلِ تجدید توانائی (رینوایبل انرجی) کی جانب مائل کرنے کی سعی کر رہے ہیں، پاکستان ایسے وقت میں سامراجی قوتوں اور بین الاقوامی معاشی اداروں کے آشیرواد تلے نئے پلانٹ لگا رہا ہے جو کوئلہ پر چلیں گے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح نوآبادیاتی ممالک کا حکمران طبقہ مجموعی طور پر ان حالات کو پیدا کرنے میں سامراجی قوتوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے کہ جن کے سبب نہ صرف تمام انسانیت کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے بلکہ جو حالات سب سے پہلے انہی نوآبادیوں کے باسیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ اگر وزیراعظم صاحب یا کوئی بھی سامراجی قوت یا ادارہ حقیقتاً پاکستانی لوگوں اور ماحول کا رفیق ہوتا تو آج کامریڈ بابا جان گلگت بلتستان میں ماحولیاتی تبدیلی سے۔متاثر ہونے والے خاندانوں کے حق میں کھڑے ہونے کی سزا عقوبت خانوں میں نہیں کاٹ رہے ہوتے(نوی والا:2017)۔5

ریاست کی فطرت کی ایک مادہ پرست تفہیم ہمیں یہ دکھاتی ہے کہ کوئی بھی وزیراعظم یا سامراجی قوت کبھی بھی عوام، عورت، جنسی و لسانی اقلیتوں اور ماحول کے دوست نہیں ہو سکتے۔ کسی بھی بورژوا ریاست کا بنیادی فریضہ اپنے لوگوں کی بہبود نہیں بلکہ چند لوگوں کے منافع بڑھانے کا تحفظ ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ پیداواری نظام کے تحت معیشت منافع پیدا کرنے کی غرض سے چلتی ہے۔ اس نظام کا ہر نیا دور اپنے ساتھ ٹیکنالوجی میں نئی ترقیاں لاتا ہے۔ مگر کیپٹلزم کے غیرمعقول اور انتشار آمیز کردار (اِرریشنل انارکیک کیریکٹر) کے تحت ان ترقیوں کو تمام انسانیت کی ترقی کے لیے استعمال میں لانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ سرمایہ داری نے خود کو غالباً 200 سال تک فاسل فیول کی بنیاد پر تعمیر کیا ہے۔ عالمی سطح پر سب سے بڑی کمپنیاں اور تمام تر توانائی کا شعبہ فاسل فیول نکالنے اور جلانے سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں سائنس، ٹیکنالوجی اور ریسرچ کے حوالے سے کیپٹلزم کا کردار آجاتا ہے۔ ایسی ٹیکنالوجیز موجود ہیں کہ جن پر کام کیا جائے تو ہم بجلی پیدا کرنے کے دیگر پائیدار طریقوں کی طرف جا سکتے ہیں۔ مگر ایسا ہوتا نہیں ہے کیونکہ اس سے تمام انسانیت کا تو فائدہ ہوتا ہے مگر سرمایہ دار کے لیے کوئی منافع نہیں پیدا ہوتا۔

آپ نے فیبس کارٹیل اور منصوبہ بند متروکیت (پلینڈ اوبسو لیسینس) کے بارے میں سنا یا پڑھا ہو گا (کراجیوسکی:2019)۔6 1924 تک ایک لائٹ بلب 2500 گھنٹوں تک استعمال کیا جا سکتا تھا۔ دسمبر 1924 میں جینوا میں بین الاقوامی سرمایہ داروں کا ایک گروپ آپس میں ملا۔ اس گروپ میں جرمنی کے اوسرام اور نیدرلینڈز کے فلپس سے لے کر امریکہ کے جنرل الیکٹرک تک تمام بڑے لائٹ بلب مینوفیکچررز موجود تھے۔ انہوں نے فیبس کارٹیل تشکیل دیا جس کے ایک خفیہ منصوبہ کے تحت لائٹ بلب کی سیلز میں اضافہ کرنے کے لیے یہ طے کیا کہ اب ایسے بلب بنائے جائیں گے جو بس 1000 گھنٹوں تک جل سکیں تاکہ لوگوں کو نئے بلب خریدنے پڑیں۔ پلینڈ اوبسولیسنس کی یہ سب سے پہلی مثالوں میں سے ایک ہے۔ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے 1924 کا لائٹ بلب پہلے ہی خاصہ نفیس تھا۔ روشنی بھی اچھی دیتا تھا اور 2500 گھنٹوں تک پائیدار تھا۔ بلب کی پائداری میں جان کر کمی لا کر فیبس کارٹیل نے دہائیوں کی ترقی کو پلٹ دیا۔ یہ کارٹیل پھر ان ‘پے ٹینٹس ‘کو بھی قابو کرتا رہا جو نئی انرجی ایفیشینسی اور مزید پائیدار ٹیکنالوجی لا سکتے تھے۔

اس مثال کے ذریعے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح انسانیت کی ضروریات اور ماحولیاتی پائیداری کو لائٹ بلب کمپنیوں کے منافع کی خاطر پس پشت دھکیل دیا گیا۔ پلینڈ اوبسولیسنس کا تمام تصور اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ کیپٹلزم ایک ایسا نظام ہے جو مصنوعات کی پیداوار پر مبنی ہے، جو زیادہ سے زیادہ مصنوعات فروخت کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے اور اس کی خاطر کھپت (کنزمپشن )کے عمل کو بھی تیز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ مصنوعات انسانیت کی ضروریات کے لیے پیدا نہیں کی جاتیں۔ یہ صرف منافع کے لیے پیدا کی جاتی ہیں اور پھر ایک ایسے نظریہ کو فروغ دیا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے ان مصنوعات کی فروخت یقینی بنائی جا سکے۔ ایک طرف یہ نظریہ ہمیں یہ تلقین کرتا ہے کہ ہمیں نت نئی اشیاء چاہیے ہیں۔ مثلاً ہم کئی ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو صحیح سلامت فون موجود ہونے کے باوجود مارکیٹ میں نیا آنے والا فون خریدتے ہیں۔ دوسری جانب پلینڈ اوبسولیسنس کی مدد سے صارف کو ایک ہی طرح کی مصنوعات خراب ہونے کی صورت میں بار بار خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ پیداوار کے غیر معقول اور انتشار آمیز کردار کی ایک اور مثال کاروں کی پیداوار ہے۔ گاڑیاں وہ مصنوعات ہیں جو روزانہ کے معمول میں ماحولیاتی تباہی میں اضافہ کرتی ہیں۔ یقیناً پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک پائیدار نظام ایک سمجھدار حل ہے۔ مگر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے کاروبار ٹھپ ہو جائیں اگر وہ معروضی حالات تبدیل ہو جائیں جو لوگوں کو گاڑیاں خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس کے برعکس گاڑیاں بنانے والے ان نام نہاد پائیدار متبادلات کی طرف سماج کو دھکیلتے ہیں کہ جن کے تحت ان کی گاڑیاں منافع پر بکتی رہیں بیشک ماحول جائے بھاڑ میں۔

انسانیت کی ضروریات کو حقیقی طور پر پورا کرنے والا متبادل، یعنی ایک پائیدار پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ان کمپنیوں کے مالکان کو کسی صورت قبول نہیں۔ پھر اس کار انڈسٹری کو صرف مخصوص طبقات کے صارفین کی ضروریات سے غرض ہوتی ہے۔ مہنگی گاڑیاں بنانے والے اور انہیں خریدنے والے افراد حکمران طبقے اور اپر کلاس سے ہوتے ہیں اور اگر وہ چاہیں تو اپنی طاقت کے استعمال سے موجودہ ٹرانسپورٹ سسٹم کو ایک پائیدار عوامی سسٹم میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ مگر اس میں سرمایہ دار کا آخر کیا فائدہ؟ اور یوں یہ ایک پورا نظام بن جاتا ہے۔ کیونکہ اشرافیہ گاڑیاں خریدتے ہیں لہٰذا جس کسی کے پاس بھی تھوڑی بہت جمع پونجی ہوتی ہے اسے کار یا موٹر سائیکل خریدنی پڑتی ہے۔ اس مجبوری کی وجہ یہ ہے کہ عوامی سطح پر کوئی ایسا متبادل موجود نہیں جس پر عوام با آسانی سفر کر سکیں۔ لہٰذا انہیں انفرادی ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال ہمیں کیپیٹلزم کے تحت مصنوعات کی پیداوار کی منطق پر سوال اٹھانا پڑے گا۔ کیا گاڑیاں واقعی کوئی ضروری مصنوعات ہیں یا ہم اس نظام کے تحت ایسی مصنوعات کے استعمال پر مجبور ہیں؟

نیولبرل کیپٹلزم کے عہد نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ سماجی و سیاسی تحریکوں کے تحت جیتی گئی معمولی سے معمولی اور بڑی سے بڑی فتوحات کو حکمران طبقہ اپنے فائدے کے رنگ میں ڈھال لیتا ہے کہ جس سے منافع کی دوڑ مزید تیز ہو سکے۔ اس کی ایک اہم مثال غیر روایتی جنسیت کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک ہے کہ جہاں ایک طرف مغربی ممالک کی بڑی کمپنیاں اپنے منافع میں اضافہ کی خاطر خود کو ‘کوئیر دوست’ بنا کر پیش کرتی ہیں یا بالخصوص کوئیر افراد کے لیے نت نئی اشیاء کی پیداوار ان کی جنسیت سے بلاوجہ جوڑ کر کرتی ہیں تو دوسری جانب سامراجی ریاستیں دنیا بھر میں اپنی قتل و غارتگری و دیگر جرائم کو ‘پنک واش’ کرنے کے لیے ایک ہومونیشنلسٹ اور ہومونارمیٹو انداز میں مخصوص قسم کے ہم جنس پرستوں کو قبول کر کے خود کو دیگر دنیا سے زیادہ ترقی پسند بنا کر پیش کرتی ہیں۔

ماحولیاتی تحریکوں کے تناظر میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح مغربی ریاستیں ماحولیاتی لاگت کو اشیاء و خدمات کی پیداوار کی بیلنس شیٹوں کا حصہ بنانے کی دعویدار ہوئیں۔ حالانکہ یہ ایک مثبت اور درست اقدام تھا، سرمایہ دارانہ پیداواری نظام نے اس اقدام کے الٹ کو یقینی بنایا۔ فاسل فیول جلانے کا سرمایہ دارانہ حل ایمیشن ٹریڈنگ ہے کہ جس کے تحت کمپنیوں کو ماحول میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کے عوض سر ٹیفکیٹ خریدنے پڑیں۔ یورپین یونین اس وقت وسیع ایمشیشن ٹریڈنگ کو متعارف کرانے میں سب سے بڑھ کر کوشاں ہے۔ اس کے باوجود سالوں سے یہ سر ٹیفکیٹ کوڑیوں کے مول بیچ رہے ہیں، جس کا مطلب یہ نکلا کہ یہ سرٹیفکیٹ وافر مقدار میں دستیاب رہے ان کمپنیوں اور گروہوں کے لئے جو سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ملوث تھے۔ سرٹیفکیٹس کی وافر فراوانی کا مطلب ان سرمایہ داروں کے لیے یہ تھا کہ بس کچھ بھی بدلے بغیر وہ سستے داموں میں ان سرٹیفیکیٹس کو خرید بھی سکتے ہیں اور آگے بیچ کر پیسہ بھی بنا سکتے ہیں۔ یوں ایمیشن رائٹس خود سے کماڈیٹی بن گئے کہ جن کا خود تبادلہ کیا جا سکے۔ مادی و عملی سطح پر اس کا مطلب یہ نکلا کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج جاری رکھنے میں کوئی قباحت نہیں جب تک کہ سرمایہ داروں کے پاس اس اخراج کے بدلے خرچ کرنے کے لیے پیسے ہیں۔ اگر ایمیشن ٹریڈنگ نے کچھ بھی حاصل کیا ہے تو وہ صارفین پر مزید لاگت کا بوجھ ڈالنا ہے۔

مگر اس سے پہلے کہ اخراج کی لاگت کو بیلنس شیٹ میں شامل کرنے کے فوائد پر بات کی جائے، ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت پیداوار کی فطرت پر سوال اٹھانا پڑے گا۔ مثلاً کیا گاڑیوں کی پیداوار کوئی سمجھدار عمل ہے بھی یا نہیں؟ سرمایہ داروں کے لیے ایمیشن ٹریڈنگ ایک ایسا حل ہے جو مخصوص مصنوعات کی ماحولیاتی لاگت پر توجہ دیتا ہے مگر کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ آیا سماج کو ان مصنوعات کی درحقیقت ضرورت ہے یا نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ایسے سوالات اٹھانے سے قاصر ہے کیونکہ اس نظام کے تحت پیداوار کا تعین مارکیٹ کا انتشار کرتا ہے نہ کہ یہ بشارت کہ معاشی، معاشرتی اور ماحولیاتی ذمہ داری کے لحاظ سے کون سا عمل سماج کے لیے مفید ہوگا۔

پاکستان کے حوالے سے ایک اور ماحولیاتی سوال کپاس، کھانے پینے اور زرعی اشیاء کی برآمد یعنی ایکسپورٹ کے اثرات ہیں (بزنس رہکاڈر: 2018)۔7 پانی کا بحران ویسے ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے اوپر سے ہمارے ملک میں زراعت کی جاتی ہے جس کے لیے بھی بڑی مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے۔ اب ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہم طرح طرح کی کپاس جیسی اشیاء اگاتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں زمینی پانی کی سطح یعنی گراؤنڈ واٹر لیول مزید گھٹتی ہے اور اس کے بعد ہم یہ تمام اشیاء دوسرے ممالک کو برآمد کرتے ہیں۔ گویا پاکستان بین الاقوامی سطح پر ایک گاؤں ہے اور ہماری اشیاء درآمد کرنے والے ممالک شہر ہیں۔ اس مثال کے ذریعے ہم بین الاقوامی سطح پر دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح سرمایہ دارانہ نظام شہر اور دیہات کے درمیان تعلق کو توڑتا ہے کہ دیہات سے شہر بہت کچھ جاتا ہے مگر شہر سے دیہات میں کچھ خاص واپس نہیں آتا۔ نیولبرل کیپیٹلزم کے تحت پاکستان کو جو اشیاء دوسرے ممالک سے ملتی ہیں وہ محض کنزیومر پراڈکٹس ہیں جن کی پیداوار نہ صرف عالمی سطح پر آلودگی پھیلاتی ہے بلکہ جو پاکستان میں بھی صرف امیر طبقات کے استعمال میں آتی ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام پاکستان جیسے نوآبادیاتی ممالک کے لیے روئی جیسی اشیاء جو ہمیں اُگانی بھی نہیں چاہیٔیں ان کی برآمد کے علاوہ زیادہ مواقع بھی نہیں چھوڑتا۔ اگر پاکستان آج یہ برآمدات روک دے تو بیلینس آف پیمنٹس میں مزید بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دیگر ممالک میں بھی اس امر کے منفی اثرات کھپت پر مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً جرمنی میں سیب قدرتی طور پر اگتے ہیں اور اس ریاست کو کوئی ضرورت نہیں کہ بیرونی ممالک سے سیب درآمد کرنے کی خاطر شپنگ کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں مزید اضافہ کا باعث بنے (ورکمین:2019)۔8 آپ بخوشی لوکل سیب جرمنی میں کھا سکتے ہیں اور سردی کے موسم میں ان سیبوں کو بعد کے استعمال کے لیے اسٹور بھی کیا جا سکتا ہے۔ مگر ہوتا کیا ہے کہ جب آپ جرمنی کی کسی بھی سپر مارکیٹ میں جاتے ہیں تو آپ کو اٹلی سے لے کر پولینڈ تک سے درآمد کئے گئے سیب ملیں گے اور نہیں ملیں گے تو لوکل سیب نہیں ملیں گے۔ یوں درآمد کئے گئے سیبوں کی ڈیمانڈ مصنوعی طور پر ہی سہی مگر پیدا ہو جاتی ہے۔ درحقیقت یہ ایک مضحکہ خیز ضرورت ہے جس کی حقیقی معنوں میں کوئی ضرورت نہیں۔ مگر کیپٹلزم کی غیر معقول اور ماحول دشمن فطرت کے تحت ایک طرف ضروریات صارف کی خواہشات پر مبنی ہوتی ہیں تو دوسری طرف صارف کی خواہشات کا تعین مارکیٹ پر تھوپی جانے والی اشیاء سے کیا جاتا ہے۔

اسی طرح ماحول کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ خود بارڈرز کا ہونا ہے۔ ہر جدید قومی ریاست ایک فوج کو پروان چڑھاتی ہے جو ان بارڈرز کی حفاظت پر مامور کی جاتی ہے۔ اور فوج وہ ادارہ ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے میں ملوث ہے۔ امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کا فٹ پرنٹ کسی بھی کارپوریشن سے بڑا ہے۔ امریکی فوج کی سرگرمیوں کے تحت پینے کے پانی کے ذرائع زہرآلود ہوئے ہیں اور یہ ریکاڈ پر تسلیم شدہ حقائق ہیں (ویب:2017ء)9 ۔

یہ تمام مثالیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ماحولیاتی انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت موجود نہیں۔ یہ محض خودفریبی ہے کہ اگر ہم یہ سوچیں کہ بس نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم ماحول کا سوال سرمایہ دارانہ نظام کو تبدیل کیے بغیر حل کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی اور برطانیہ میں اسکولوں کے سب سے زیادہ ترقی پسند اور باشعور طالبِ علموں کا نعرہ تھا سسٹم چینج ناٹ کلائمیٹ چینج۔ پاکستان کے سب سے زیادہ باشعور نوجوان سوشلسٹوں نے بھی اس نعرہ کو تقویت بخشی ہے۔ اس نعرہ کا مطلب یہ ہے کہ طاقت کے مراکز کا طبقاتی کردار ہے جو ہمیں تبدیل کرنا ہے۔ نیولبرل کیپیٹلزم کے تحت رہتے ہوئے کسی بھی بورژوا ریاست سے ماحولیاتی انصاف کی امید وابستہ کرنا خودفریبی ہے۔ ماحولیاتی انصاف کے لیے کسی بھی حقیقی اقدام کا مطلب سامراجی حکمران طبقہ کی ذاتی ملکیت میں مداخلت کرنا ہے، جس کی اجازت کوئی بورژوا ریاست نہیں دے سکتی۔

اسی سلسلے میں ایک اور اہم سوال سامراجی عہد اور بالخصوص گلوبلائزیشن کے اندرونی تضادات ہیں کہ جہاں ایک طرف پیداوار اور تبادلہ بین الاقوامی سطح پر ہوتا ہے تو دوسری طرف یہی پیداوار قومی ریاست کے ڈھانچے کے اندر ہوتی ہے اور تبادلہ انہی رجعت پسند قومی ریاستوں کے مابین ہوتا ہے۔ ماحولیاتی سوال اور اس کے خطرات عالمی ہیں اور وہ عالمی سطح پر ہی حل کئے جا سکتے ہیں۔ کوئی بھی ایک ریاست اس مسئلہ کو اکیلے حل نہیں کر سکتی۔ زمین پر تو یہ ریاستیں مصنوعی حدبندیاں کرنے میں اب تک کامیاب رہی ہیں مگر خیر سے ماحول میں ایسی جبری مداخلت کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ تمام ریاستوں کی بورژوا حکومتیں ویسے تو ماحول کے سوال پر اپنی ریاستی حدود کے اندر بھی خاصی بیکار اور نااہل ثابت ہوئی ہیں مگر عالمی سطح پر ان کی بدترین کارکردگی کی تاریخ میں مثال نہیں۔ ایسے میں ماحولیاتی انصاف کے حوالے سے آگے بڑھنے کا واحد راستہ انٹرنیشنلسٹ تحریک ہے۔

خوش آئند پیشرفت یہ ہے کہ دنیا بھر میں فرائڈیز فار فیوچر جیسی تحریکوں نے بالخصوص مغربی ممالک میں ماحولیاتی انصاف کے نعرہ کو تقویت بخشی ہے۔ اسی طرح کلائمیٹ ایکشن ناؤ نے پاکستان بھر میں ماحولیاتی انصاف کے لیے احتجاج آرگنائز کروائے جو ایک خوش آئند پیشرفت ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والی ان تحریکوں نے ایک عالمی تحریک کو جنما ہے۔ ماحولیاتی بحران نے مزارعین، محنت کشوں اور مقامیوں کی تحریکوں کو ایک دوسرے سے جوڑا ہے جس سے ایک عالمی تحریک ابھر رہی ہے۔ اس تحریک میں یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ وہ آگاہی سے آگے بڑھ کر ایک ایسا نظام تشکیل دے، جو نہ صرف ماحولیاتی تباہی کو لگام دے بلکہ حقیقی ماحولیاتی انصاف فراہم کرے۔ اس وقت ہمیں ماحول پر ایک پروگرام ترتیب ہوگا جس میں معاشرتی سوال پر غور کیا جائے۔

ماحولیاتی تبدیلی کا سوال ایک مخصوص معاشرتی نظام نے پیدا کیا ہے جسے ہم کیپیٹلزم یا سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں۔ یہ وہ نظام ہے کہ جو مارکیٹ کے انتشار کے لئے پیداوار کرتا ہے یعنی تمام انسانیت کی ضروریات کے برعکس صرف ان چند افراد کے لیے اشیاء پیدا کرتا ہے جو خریدنے کی قوت رکھتے ہیں۔ پائیداری کی بنیاد کے بجائے منافع خوری کی بنیاد پر پیداوار کرتا ہے اور اس پیداوار کے تحت ماحول کو بھی تباہ کرتا ہے اور انسانیت کی بقا کو بھی خطرہ میں ڈالتا ہے۔ اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاشرتی سوال کے حوالے سے مزید ریڈیکل مطالبات کی ضرورت ہے۔

بورژوا طبقے اور بڑے زمینداروں کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے مطالبات اسی نظام میں منوانا بھی ضروری ہے مگر ساتھ ایک ایسے سیاسی پروگرام کی ضرورت ہے کہ جو سرمایہ دارانہ نظام سے آگے جائے۔ اس کے لیے ہمیں ان لوگوں کو تبدیلی کا محور بنانا ہو گا جو ماحولیاتی بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں یعنی محنت کش، غریب مزارعین، خواتین، نوجوان اور نسلی و جنسی اقلیتیں وغیرہ۔ اس پروگرام کے بارے میں بنیادی سوال یہ ہو گا کہ یہ کس طبقہ کے مفادات کا دفاع کرتا ہے۔ کسی بھی مظلوم کی حقیقی آزادی خواہ وہ عورت ہو یا ماحولیاتی تبدیلی کے متاثرین، یہ آزادی سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن نہیں کیونکہ تمام حقوق اور اقدامات منافع کے ماتحت ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے پروگرام کو سرمایہ داری مخالف ہونا ہو گا۔ ظاہر ہے پروگرام تشکیل دینا ایک اجتماعی عمل ہوتا ہے۔ میرے پاس چند ایک تعارفی تجاویز ہیں جن پر ہم آپس میں بحث کر کے ماحول پر پروگرام لکھنے کے عمل کو شروع کر سکتے ہیں:۔

پہلی تجویز: پاکستان جیسے نوآبادیاتی ممالک میں ماحول دوست اور پائیدار ٹرانسپورٹ اور رہائش کے نظاموں کے لیے پیسہ جمع کرنا ملک کے اندر مشکل ہو گا۔ لہٰذا ایسے ٹرانسپورٹ سسٹم اور ایسی رہائش کہ جو ماحولیاتی تبدیلی کے ناگزیر اثرات سے نمٹنے کے قابل ہو، ان کے لیے پاکستان میں موجود سامراجی سرمایہ کو بلامعاوضہ بے دخل کیا جائے اور تمام سامراجی بینکوں سے لئے گئے قرضے نوآبادیاتی ممالک پر معاف کیے جائیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنی تحریک کو انٹرنیشنلائز کرنا ہوگا۔ ان سامراجی ممالک پر پریشر ڈالنے کا واحد مؤثر ترین طریقہ وہاں کے محنت کشوں کا سٹرائیک ایکشن ہے۔ سامراجی ممالک کی ایسی صنعتیں جو بڑے پیمانے پر ماحول کو تباہ کر رہی ہیں مثلاً گاڑیوں کی پیداوار کی صنعتیں، انہیں پاکستان جیسے ممالک میں پائیدار پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم لگانے کی سمت میں دھکیلا جائے اور یہاں کے محنت کشوں کو گرین صنعتی انقلاب کے لیے تیار کیا جائے۔

دوسری تجویز: ہم گرین ٹیکسوں کے تصور کو رد کرتے ہیں اور ان تمام اقدامات کو بھی کہ جو نئے ماحول دوست اور پائیدار اقدامات کا معاشی بوجھ محنت کش طبقے اور غرباء پر ڈالنا چاہتے ہوں۔ ہم یہ بوجھ امراء اور بڑے سرمایہ داروں پر ڈالنے کے حق میں ہیں۔ ان سے ٹیکس وصول کر کے نئے پائیدار پراجیکٹس قائم کئے جائیں۔ ہم موجودہ ٹرانسپورٹ کے نظام کی فوری تبدیلی اور ایک ایسے عوامی نظام کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں کہ جس کو بڑے سرمایہ داروں کے ٹیکسوں سے تعمیر کیا جائے۔

تیسری تجویز: زرعی سوال، بالخصوص نوآبادیاتی ممالک میں سرمایہ دارانہ زراعت کے نتیجے میں جنگلات، فصلوں کی اقسام اور زمین کی زرخیزی کی تباہی اور صحراؤں اور آلودگی میں اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ بڑی اجارہ داریوں یعنی مونوپولیز کے تحت زرعی پیداوار کے عمل میں دور اندیشی کی عدم موجودگی تھی۔ ہم غریب مزارعین اور زرعی محنت کشوں پر مبنی کمیٹیوں کی تشکیل کی کال دیتے ہیں۔ یہ کمیٹیاں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان اقدامات پر بحث کریں کہ جن کے ذریعے خوراک کی پیداوار کو پائیدار انداز میں جاری رکھا جا سکے۔ یہ کمیٹیاں ان سائنسدانوں کی مدد سے کہ جو تحریک کے ساتھ مخلص ہیں زرعی پیداوار کی تنظیم نو پر بھی بحث کریں۔ ایسی کمیٹیاں زرعی انقلاب کے لیے ایک طاقتور قوت بن کر ابھر سکتی ہیں جو نہ صرف زراعت کو پائیدار بنائیں بلکہ بڑے زمینداروں کے شکنجوں سے زمینیں چھین کر زرعی انڈسٹری کو نیشنلائز کر سکیں۔

چوتھی تجویز: تمام انڈسٹریل کمپنیوں کی اکاؤنٹس کتابیں کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ان کی فائدہ مندی کے ساتھ ساتھ محنت کشوں اور ماحول پر منفی اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔ محنت کش پھر نہ صرف منافع ہڑپنے اور لندن و دبئی بھیجنے کے خلاف بلکہ کارخانوں کو ماحول دوست اور کم آلود بنانے کے لیے اقدامات میں اپنا کنٹرول قائم کر سکتے ہیں۔

پانچویں تجویز: محنت کشوں اور غریب مزارعین کو تبدیلی کا ایجنٹ بنا کر ایک جمہوری منصوبہ بند معیشت ہمارا حتمی ہدف ہے تاکہ معاشرہ انسانیت کی ضروریات کی بنیاد پر پیداوار کرے اور ماحول کا حقیقی معنوں میں دفاع کرے۔ اور ایسی معیشت عالمی سطح پر ہی حقیقی معنوں میں چل سکتی ہے کیونکہ پیداوار اور تبادلہ بین الاقوامی سطح پر ہی ہوتا ہے۔


References:

  1. Tunio. Hafeez.,Dying’ of thirst: Framers march 150 kms in quest for water, Tribune, 4 July 2019 ↩︎
  2. Hayat. Sara, Climate change affects women more. What can the sate do to intervene, Dawn, 20 September, 2019 ↩︎
  3. afp, Nine of 17 CPEC power plants to be run on coal, Tribune, 15 Nov. 2019 ↩︎
  4. Ahmed. Amin. CEPEC coal-based power plants to damage environment: ADB, Dawn.4 February 2018 ↩︎
  5. Naviwala. Zehra. Who is Baba Jan. Dawn. 29 July 2019. ↩︎
  6. Krajewski Markus. The Great Lightbulb Conspiracy. spectrum.ieee.org ↩︎
  7. Business Recorder۔ The real cost of crops, ,4 April, 2018 ↩︎
  8. Workman, Daniel. Apples Imports by County. 4 September ↩︎
  9. Webb, Whitney. U.S Military Is World’s Biggest Polluter, echowatach.com,15 May 2017. ↩︎

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .