مارکسز م، فیمنز م، اور مارکسسٹ فیمنز م: چند سیاسی اور نظریاتی نکات

تحریر: ایاز ملک

حالیہ دنوں میں اور خاص طور پر عورتوں کے بین الاقوامی دن کے حوالے سے پاکستان کے کچھ مارکسی حلقوں میں صنفی سوال اور مارکسزم اور فیمنزم کے درمیان رشتے کے حوالے سے بحث چھڑی ہے۔ اس بحث کا پس منظر مختلف شہروں میں منعقد ہونے والی عورتوں کی ریلیاں تھیں جن میں ہزاروں خواتین اور دوسری صنفوں کے افراد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جہاں کراچی میں ہزاروں محنت کش اور گھر مزدور خواتین نے پہلے جداگانہ اور پھر ایک عمومی ”عورت مارچ” میں حصہ لیا، وہیں اسلام آباد میں بائیں بازو سے منسلک کئی کارکنان نے ’’ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ‘‘ کا تاسیسی اجلاس منعقد کیا۔ ایک طرف جدھر ٹریڈ یونین حلقوں سے جڑے کارکنان نے ان سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ادھر بائیں بازو کے کئی حلقوں میں فیمنزم اور مارکسزم کے حوالے سے گرما گرم بحث بھی چھڑ گئی۔ کچھ نے فیمنزم کو سرے سے ہی ایک بورژوا اور اشرافیہ طبقے سے جڑا رجحان قرار دیا، دوسری طرف کچھ یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ عورتوں کو اپنے طور پر منظم کرنا محنت کش طبقے میں تفریق پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ ایک سوشل میڈیائی دانشور نے تو یہ تک قرار دے دیا کے مارکسسٹ فیمنزم کوئی چیز ہی نہیں ہوتی!۔

اس مضمون کے ذریعے میرا مقصد ان تمام خدشات اور اختلافات کو کلی طور پر دور کرنا تو نہیں، اور نہ ہی اس مضمون میں مارکسزم اور فیمنزم کے مختلف رجحانات میں جڑت اور تفریق کے تاریخی ارتقا و محرکات کا جائزہ لیا جائے گا۔ البتہ مارکسزم اور فیمنزم کے رشتے کے حوالے سے چند چیدہ چیدہ سیاسی و نظریاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ حتمی طور پر امید یہ ہی ہے کے ان وضاحتوں کے نتیجے میں سماج میں ابھرتے تضادات و سوالات کو سمجھنے اور ان میں ایک ترقی پسند سیاسی عمل کو مزید تقویت دینے میں مدد ملے گی۔

عملی و سٹریٹیجک محرکات

عملی لحاظ سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے مارکسزم اور فیمنزم کے رشتے کو ایک حکمت عملی یعنی سٹریٹجک سوال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمیں محنت کش یا ”پرولتاریہ” کی تشریح کو محض اجرتی مزدور یا فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں سے وسیع تر کر کے مارکس کی ”پرولتاریہ” کی اس تشریح کی طرف بڑھنا ہو گا جس میں وہ ”پرولتاریہ” کو ”درحقیقت مسکین” (ورچول پاپر) قرار دیتا ہے، یعنی کے پیدا واری نظام کا وہ مخصوص سماجی طبقہ جو محض اپنی بقا کے لئے اس بات پر مجبور ہے کہ وہ اپنی قوت محنت کسی اور طبقے یا سماجی گروہ کو بیچے یا اس کی بقا کا انحصار ان کے لئے محنت کرنے پر ہو۔ اسی طرح پیداواری رشتوں کی وسیع تر تشریح بھی ہم پر یہ عیاں کرتی ہے کہ قدر زائد پیدا کرنے کے عمل کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے کی اپنی پیداوار کا عمل جدلیاتی-عضویاتی طور پر جڑا ہوا ہے۔

یہ نقطہ اکثر اس لئے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کیوں کہ مارکس خود اپنی بشری حدود کی بنا پر اپنا وہ پراجیکٹ مکمل نہیں کر پائے تھے جس کے تحت ان کو نہ صرف ”سرمایہ” بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ”زمینی جائداد”، ”قوت محنت”، ”ریاست”، ”بین الاقوامی تجارت”، اور ”عالمی منڈی” کے موضوعات پر بھی تفصیلی مقالات لکھنے تھے (مارکس،1973: 39)۔1 سیاسی معاشیات کے پروفیسر مائیکل لئبووٹز اس کو ”مارکس کی قوت محنت پر غیر موجود کتاب” قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کے اس میں مارکس (جو ہمیشہ ہی سے پیداواری رشتوں کی وسیع تر تشریح کرتے تھے) یقیناً قوت محنت کی پیداوار کے محرکات اور اس میں تاریخی (نہ کہ فطری) طور پر عورتوں کے کلیدی کردار پر تفصیلی روشنی ڈالتے (لئبووٹز، 2003)۔2 پرولتاریہ اور پیداواری نظام کو وسیع تر تشریح کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ محنت کش طبقے کا ایک بہت بڑا حصہ بلکہ ایک عمومی اکثریت ہی عورتوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں یہ بات ہمیں عملی طور بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ دیہی علاقوں اور گھر مزدور محنت کشوں میں اکثریت  عورتوں ہی کی پائی جاتی ہے، جب کے گلوبلائزیشن کے تحت رونما ہونے والی معاشی تبدیلیوں کا ایک عمومی اظہار ”رسمی”  لیبر فورس کی صنفی تبدیلی میں نظر آتا ہے (فیمنائزیشن آف لیر)۔

اس سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوئے طبقاتی استحصال کی اکثر شکل صنفی استحصال سے الگ نہیں کی جا سکتی۔ مثال کے طور پر 2000ء کے اوائل میں گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین میں ایک سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کے %93 خواتین کام کے دوران کسی نہ کسی قسم کی ہراسانی رپورٹ کرتی ہیں اور %58 فیصد خواتین نے یہ بھی کہا کے ذہنی، جسمانی و جنسی ہراسانی کی وجہ سے انہیں اکثر گھر سے باہر نوکری کو خیرباد کہنے کا بھی خیال آیا ہے (بروہی، 2000)۔3 یعنی کے استحصال کی مخصوص جنسی شکل کا عورتوں کے معاشی و سماجی حالات پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔ اب کام اور کام کے دوران رستے میں جنسی ہراسانی ایک ایسا ٹھوس معاملہ ہے کہ جس میں ہم طبقاتی و معاشی سوال کو صنفی سوال سے الگ کر کے دیکھ ہی نہیں سکتے۔ کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کے متوسط طبقے یا اشرافیہ طبقے کی خواتین کو ہراسانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، بلکہ محض یہ کہ محنت کشوں کو منظم کرنے کے دوران بھی اگر ہم صنفی جبر اور اس کی مخصوص اشکال کا سامنا نہیں کریں گے، تو ہماری طبقاتی یکجہتی کی کاوش محض ایک خواہش تک ہی محدود رہتی ہے۔ صنفی سوال ایک لیول پر اپنے طور پر واضح ہوتے ہوئے طبقاتی سوال سے ایک بہت مربوط طریقے سے جڑا ہوا ہے۔ اور یہ ہی وہ مماثلت بمع تفریق (ڈسٹنکشن اِن یونٹی) کا جدلیاتی تصور ہے، جس پر ہم اس مضمون میں آگے روشنی ڈالیں گے۔

پیداواری نظام و رشتوں کی صنفی سوال سے تاریخی جڑت پر تو کوئی بحث نہیں ہے۔ فریڈرک اینگلز کی مشہور زمانہ تصنیف ”خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز”،4  اور مارکسی فیمنسٹ ماریا میز کی کتاب ”پدرسری اور عالمی سطح پر ارتکاز/جمع واری ”  (پیٹریارکی اینڈ ایکیومولیشن آن اے ورلڈ سکیل)5 میں اس حقیقت پر گہری روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسان کے سماجی ارتقاء میں صنفی بنیاد پر محنت کی تقسیم اور پیداواری رشتوں میں درجہ بندی کوئی فطری عمل نہیں، بلکہ وہ مخصوص اور پرتشدد عمل تھا جس کے ذر یعے غیر طبقاتی اور اکثر مدرسری بنیاد پر منظم سماج کو پدرسری اور طبقاتی تفریق کے تحت تشکیل دیا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی اپنی تاریخ میں جہاں مارکس داس کیپٹل کے مشہور آخری سیکشن میں ”ابتدائی یا اصل ذخیرہ پیداواری آلات (“اوریجنل” آر پریمیٹیو ایکیومولیشن) کی بات کرتا ہے، اسی طرح سلویا فیڈرچی جیسی فیمنسٹ مورخین نے اس میں یہ بھی اضافہ کیا ہے کے محرومی اور فقیری پیدا کرنے کے اس عمل کا ایک کلیدی حصہ عورتوں کی اپنے جسم اور اس کے پیداواری جوہر پر اختیار کھونا بھی تھا (فیڈرچی،2004)۔6 یہ ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے ماریا میز نوآبادیت اور خواتین کے محض گھر تک محدود کرے جانے کو جوڑتی ہیں۔ یوں پدرسری اور صنفی تفریق کا سلسلہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام سے پرانا ہے، لیکن اس کے محرکات تاریخی طور پر اور مربوط طریقے سے پیداواری رشتوں اور ان کے ارتقا کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

آج بھی ہمیں نظر آتا ہے کے سرمایہ نہ صرف مزدور طبقے کو پیداواری ڈھانچے کے ایک مخصوص مقام میں جوڑتا ہے، بلکے اسی جوڑنے کے عمل میں ہی تفریق کے محرکات بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر سرمایا دارانہ نظام میں ناہمواری صرف علاقائی سطح پر نہیں بلکہ سماجی رشتوں میں بھی ناہمواری کا پہلو حاوی رہتا ہے۔ یوں کہیں عورت کو محض گھر مزدور اور سرمایہ کی فاضل فوج (ریزرو آرمی آف لیبر) کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، تو کہیں اشیا کی مخصوص صنفی تشہیر کر کے سرمایہ کی تقویت کے نت نئے رستے ہموار کئے جاتے ہیں۔ یوں سرمایہ کے پیداواری رشتوں میں ہر موقع اور ہر جائے وقوع پر ناہمواری کا عنصر حاوی رہتا ہے، اور اس ناہمواری کے تحت مخصوص شناخت (جیسے کے صنف، زبان، یا مذہب) پر ابھرنے والی تحریکوں کو محض ایک خیالی طور پر یکجا مزدور طبقے کو تقسیم کرنے کی سازش نہیں سمجھا جا سکتا۔ جیسے کہ معروف مارکسی دانشور سٹوورٹ ہال لکھتے ہیں کہ ”سرمایہ کی حکومت یکسوئیت اور مماثلت کے بجائے امتیاز و تفریق کے ذریعے بھی کام کر سکتی ہے اور اکثر کرتی بھی ہے” (ہال، 1986: 337)۔7 یوں اگر سرمایہ اور اس کے استحصال کی شکل و جوہر میں اتنی لچک ہے تو انقلابی سیاست کو بھی اپنے نظریاتی و عملی آلات و ہتھیار میں ایسی ہی لچک اور فراغ دلی دکھانی ہو گی۔ اس کے لئے یہ ضروری ہے کے ہم محض ایک خیالی طور پر یکجا محنت کش طبقے کے انتظار میں بیٹھنے کے بجائے سماج میں ابھرتے ان تمام تضادات کو سمیٹتے ہوئے آگے بڑھیں جو محنت کشوں کو نا صرف جوڑتے ہیں بلکہ ان میں تقسیم بھی پیدا کرتے ہیں۔ قصہ مختصر ہمیں محنت کش طبقے کو بھی ایک جدلیاتی جڑت کے طور پر دیکھنا ہو گا، یعنی کہ ”مماثلت-بمع-تفریق” کے طور پر۔

جدلیات اور کچھ علمیاتی (ایپسٹمولوجکل) پہلو

یکسوئیت اور فرق، مماثلت اور تفریق کے اسی جدلیاتی رشتے کے حوالے سے میں اس مضمون کا آخری اور نظریاتی نقطہ پیش کرنا چاہوں گا، یعنی کے جدلیات  ( ڈائلکٹیکس) میں ظہور اور حقیقت یا جوہر (اپئرنس اینڈ رئیلٹی) کا رشتہ۔ یہ سوال فلسفے اور مارکسی فلسفے کے دیگر اہم سوالات سے جڑا ہوا ہے جیسے کے معروض اور موضوع (آبجیکٹیو اینڈ سبجیکٹیو)،ایجنسی اور سٹرکچر یعنی ڈھانچے کے حوالے سے ابھرنے والیسوالات۔ ہیگل اور مارکس دونوں میں ظہور اور جوہر، حقیقت اور اس کے اظہار کا رشتہ ”مماثلت بمع تفریق”   (ڈسٹنکشن اِن یونٹی) کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔ یعنی کے کسی بھی چیز، عمل یا نظام کی حقیقت یا جوہر کبھی براہ راست ہمارے سامنے پیش نہیں ہوتی، بلکہ ہمیشہ کسی مخصوص قسم کے اظہار کے ذریعے پیش ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پانی کو صرف دیکھا یا محسوس کیا جائے تو وہ ایک گیلی شے معلوم ہوتی ہے جس کے مختلف استعمال ہو سکتے ہیں (جیسے کے کپڑے دھونا، کھانا پکانا وغیرہ)۔ لیکن اس کے جوہر یعنی کہ ا س کے ایٹمی ڈھانچے اور جہت (یعنی H2O) تک پہنچنے کے لئے ہمیں سائنسی تجزیہ درکار ہے۔ لیکن اگر پانی کا جوہر (H2O) ہے، تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کے اس کا گیلا ہونے کا اظہار محض ایک شکل یا احساس ہے۔ بلکہ اس کی حقیقت اور اس کا اظہار ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہے کہ ایک کا انحصار دوسرے پر ہے۔ اسی طرح کسی فٹبال کو ایک مخصوص زاویے سے دیکھا جائے تو وہ ایک دائرہ نظر آئے گی  جب کے ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو وہ انڈے کی طرح گول (اوول) دکھے گی۔ اس کو ایک مجموعی طریقے سے ہی دیکھنے سے آپ اس کی حقیقت یعنی کے اس کے فٹبال ہونے تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کے اس کا دائرے یا گولائی کے طور پر مظہر کلی طور پر غلط تھا۔ بلکے یہ وہ صورت حال ہے جس کو مارکس ”اصل مغالطہ”   (ریئل الووژن) کہتا ہے، یعنی کے ایک ایسی صورت حال جدھر اظہار سچ اور مغالطہ دونوں ہے، یعنی کے ایک ایسا جزوی سچ جو اکثر کلی سچ کی دریافت میں رکاوٹ حائل کرتا ہے۔ یوں اظہار اور مظہر ہی محض سب کچھ نہیں (ورنہ تو سائنس کا کوئی جواز ہی نہ ہوتا)، لیکن حقیقت و جوہر تک رسائی بھی اظہار اور اس کے موضوعی تجربات کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کے معروضی حقیقت تک رسائی ہمیشہ موضوعی تجربات اور حقیقت کے اظہار کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ جوہر اور مظہر کو، حقیقت اور اس کے اظہار کو، معروض اور موضوع کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا بلکے یہ ایک جدلیاتی جڑت ہیں، یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک مماثلت بمع تفریق  ہیں۔

ظہور اور جوہر کے جدلیاتی رشتے کو ہم مارکسزم اور فیمنزم، پیداواری رشتوں اور صنفی جبر کے درمیان رشتے کو بھی سمجھنے کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ جس طرح اوپر تفصیل کیا گیا کہ پیداواری رشتوں کے استحصال کا اظہار ہمیشہ مخصوص اشکال لیتا ہے، جن میں صنفی اور لسانی جبر شامل ہیں۔ کسی بھی سماجی فرد یا گروہ کی معروض تک رسائی اس کے موضوعی احساسات و تجربات کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مزدور جب فیکٹری میں احتجاج یا ہڑتال کرتے ہیں تو وہ عمومی طور پر سرمایہ دارانہ طبقے یا کلی طور پر پیداوار کے نظام کے خلاف احتجاج نہیں کرتے، بلکے ہمیشہ احتجاج کسی مخصوص مینیجر کمپنی یا سرمایا دار کے خلاف ہی ہوتا ہے۔ یوں ان کا اس شخص یا کمپنی کے خلاف احتجاج کوئی مغالطہ یا جھوٹا شعور (فالز کانشسنیس) نہیں، بلکہ وہ شخص یا کمپنی وہ مخصوص مظہر ہے جس کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا اظہار ہوتا ہے اور جس کے تحت مزدور اپنے موضوعی تجربات کے ذریعے معروضی حقیقت (یعنی کے وسیع تر سرمایہ دارانہ ڈھانچے) کو جانتے پہچانتے ہیں۔

اسی طرح پیداواری نظام کے استحصال کا مظہر پدرسری کے جبر اور اکثر مردوں کی طرف سے صنفی جبر اور اس کے عوامل میں ہوتا ہے۔ جس طرح کے مارکس فیورباخ پر اپنے پہلے تھیسس میں کہتا ہے کہ ”آج تک کی مادیت کے فلسفے کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہا کہ اس نے کسی چیز، حقیقت کو محض ‘شے’ یا قیاس کی صورت میں سمجھا ہے، لیکن اس کو انسان کے نفسانی عمل، یعنی اس کی موضوعیت کے ذریعے نہیں سمجھا گیا” (مارکس، 1845)۔8 یوں اگر کوئی عورت یا تحریک صنفی جبر یا پدرسری کے خلاف متحرک ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کے یہ محض ایک مغالطہ یا مزدوروں کو بانٹنے کی اشرفیائی سازش ہے۔ بلکے اکثر صنفی جبر وہ مخصوص شکل ہے جس کے ذریعے پیداواری نظام کے معروضی ڈھانچے کا ظہور ہوتا ہے، یعنی کے صنفی جبر وہ مخصوص موضوعی یا داخلی تجربہ ہے جس کے ذریعے سماج کا ایک مخصوص گروہ وسیع تر پیداواری نظام کو سہتا، جیتا، سمجھتا اور بدلتا ہے۔ یقیناً ان آخری دو باتوں (یعنی کے سمجھنے اور بدلنے) کا انحصار ایک مخصوص سیاسی عمل و فکرپر ہے، یعنی کے انقلابی جہت پر استوار ایک فلسفہ عملی غور و فکر۔ لیکن پوری طرح سمجھنے اور بدلنے کے عوامل کی غیر موجودگی ہرگز یہ نہیں کے صنفی جبر کا موضوعی احساس اور اس کے خلاف جدوجہد محض مغالطہ یا بورژوا سازش ہے۔ بلکے یہ احساس اور اس سے ابھرنے والی فیمنسٹ اور صنفی جبر کے مخالف تحریک بھی اسی معروضی حقیقت کی طرف ایک جہت ہے جیسے کے کسی فیکٹری میں مزدوروں کا سرمایہ دار یا مینیجر کے خلاف بغاوت کا عمل۔

آخر میں

کسی بھی زندہ مارکسی سیاست کو طبقاتی سوال اور صنفی سوال کو ایک جدلیاتی مجموعہ یعنی کے مماثلت-بمع-تفریق کے طور پر دیکھنا ہو گا۔ یعنی کے نہ ہی صنفی جبر کو مکمل طور پر طبقاتی سوال میں ضم کرا جا سکتا ہے، اور نہ ہی صنفی جبر کو طبقاتی استحصال اور وسیع تر پیداواری رشتوں سے الگ کر کے سمجھا جا سکتا ہے۔ جدھر صنفی سوال کو مکمل طور پر طبقاتی سوال میں ضم کر دیا جائے، ادھر ہم صنفی جبر کی خصوصیت کو سمجھنے سے قاصر ہوں گے اور میکانکی اور غیرجدلیاتی ”مارکسزم” کی طرف بڑھیں گے۔ دوسری طرف اگر صنفی سوال کو مکمل طور پر طبقاتی سوال اور پیداواری نظام کے محرکات سے الگ دیکھا جائے تو نا صرف ہم صنف کے تاریخی ارتقا کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے، بلکے سیاسی طور پر ہم ایسی لبرل فیمنزم کی طرف بڑھیں گے جو محض سرمایہ کے جبر کا ”ترقی پسندانہ” چہرہ ہو گی۔

سیاست معیشت اور ثقافت کے آپس میں رشتے پر تبصرہ کرتے ہوئے (جس کو مارکسی تھیوری میں اکثر سٹرکچر- سوپر سٹرکچر کی بحث بھی کہا جاتا ہے) مایہ ناز مارکسی مورخ ای پی تھامپسن لکھتے ہیں کہ وہ تھیوری جو کسی بھی پیداواری نظام کو محض ”معاشی” لحاظ سے سمجھنے کی کوشش کرے یہ سمجھے بغیر کے وہ کون سے روزمرہ کے اظہار، معیار و اقدار تھے جن کے ذریعے عام لوگ اس پیداواری نظام کو جیتے تھے، ایسی تھیوری کاغز پر تو اچھی لگ سکتی ہے، لیکن حتمی طور پر یہ معیشت ثقافت وغیرہ کے درمیان من مانی تفریق ”محض آپ کے تصورات میں ہی ایک دلیل ہے” (تھامپسن، 1878: 18)۔9 اسی طرح وہ مارکسزم اور طبقاتی سیاست جو کے صنفی سوال کو ایک ”مماثلت-بمع-تفریق” کے طور پر نہ اٹھائے، وہ محض ایک تصوراتی ”مارکسزم” اور تصوراتی طبقاتی سیاست ہے۔ ایک جدلیاتی عمل و تصور کے لئے یہ ضروری ہے کے ہم معروض اور موضوع، مظہر اور جوہر کے درمیان رشتے کو ٹھوس جدلیاتی طور پر دیکھیں، کیوں کے اظہار اور مظہر وہ مخصوص شکل ہیں جن کے ذریعے ہم معروض اور سماجی ڈھانچے تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ جبر و استحصال کی موضوعی اشکال و تجربات ”غیر سائنسی” ہونے کے برعکس وسیع تر سماجی حقیقت میں ہمارے داخلے کا رستہ ہیں، یعنی ان کو سمجھنا اور ان سے ابھرنے والے شعور پر سنجیدگی سے عملی غور و فکر کرنا ہی سماجی سائنس اور اس کی انقلابی تبدیلی کی طرف ہمارا پہلے قدم ہے۔ مماثلت اور تفریق کی یہ ہی کشیدگی اور ٹینشن ہماری سیاست کو وہ لچک اور تخلیقی روح بخش سکتی ہے جو اس سماج اور نظام کے بدلتے محرکات اور اظہارات میں سے دور رس انقلابی سٹریٹجی کا احاطہ کر سکے۔ مارکسزم کے بغیر فیمنزم وسیع تر استحصالی نظام کے ساتھ محض ایک سمجھوتہ ہے۔ لیکن فیمنزم کے بغیر مارکسزم بھی محض ایک خیالی مارکسزم ہی ہے۔


مصنف: ڈاکٹر ایاز ملک یونیورسٹی آف لیور پول، برطانیہ میں سیاسیات اور عمرانیات پڑھاتے ہیں, اور پاکستان میں لیفٹ کی سیاست سے وابستہ ہیں۔

References

  1. Marx, Karl. (1973). Grundrisse: Foundations of the Critique of Political Economy. [Page number given from PDF version on www.marxists.org]. ↩︎
  2. Leibowitz, Michael. (2003). Beyond Capital: Marx’s Political Economy of the Working Class. Palgrave Macmillan UK. ↩︎
  3. Brohi, Nazish. (2000). Summary Report on Harassment of Women at the Workplace. For Working Women Support Center (WWSC), part of Lawyers for Human Rights and Legal Aid (LHRLA). Karachi, Pakistan. ↩︎
  4. Engels, Friedrich. (1884) [1962]. Origin of the Family, Private Property, and the State. [PDF version on www.marxists.org]. ↩︎
  5. Mies, Maria. (1986). Patriarchy and Accumulation on a World Scale: Women in the International Division of Labour. London: Zed Books, 1994. ↩︎
  6. Federici, Silvia. (2004). Caliban and the Witch: Women, Capitalism and Primitive Accumulation. New York, NY: Autonomedia. ↩︎
  7. Hall, Stuart. (1986). “Gramsci’s relevance for the study of race and ethnicity”. In Stuart Hall: Critical Dialogues in Cultural Studies, edited by D. Morely and K. Chen, 411-441. London: Routledge, 1996. ↩︎
  8. Marx, Karl. (1845). Theses on Feuerbach. [PDF version on www.marxists.org] ↩︎
  9. Thompson, Edward Palmer. (1978). Folklore, Anthropology and Social History. The Indian Historical Review, 3(2): 247-266. [Journal out of print; page number given from British Library copy] ↩︎

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .