پاکستان میں مزدور تحریک: صنفی جائزہ

Image: Dawn

تحریر: مہناز رحمٰن

آج جبکہ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام نیولبرل ازم کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور مالیاتی سرمائے کا راج مکمل پنجے گاڑھ چکا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے نئے قرضوں کے شرایٔط اور پرانے قرضوں کو چکانے کے لئے عوامی اداروں کو تیزی سے نجکاری میں بیچا جا رہا ہے، مزدوروں کو نکالا جا رہا ہے، اور کرنسی کی منڈی میں روپے کی قیمت گرنے کی وجہ سے اُجرت کی حقیقی قیمت مزید گر رہی ہے۔ حتی کہ صحت اور تعلیم کے شعبوں کو بھی پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے۔ ان عوامل سے بڑھتی مہنگائی اور غربت کی وجہ سے محنت کش عورتوں کی خاصی بڑی تعداد لیبر فورس میں آ چکی ہے،،مگر سستی سے سستی محنت عورتوں اور بچوں کی محنت ہے۔

مجموعی طور پر عالمی سرمائے کی ضرورتوں کے پس منظر میں پاکستان میں روزگار کی بدلتی ہوئی نئی شکلوں سے مزدور طبقہ کو استحصال اور خطرات کی نئی شکلوں کا سامنا ہے۔ پچھلی چار دہائیوں میں ایک طرف پاکستان میں پیداواری نظام، معاشی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی غربت نے محنت کش طبقے کی عورت پر محنت کے بوجھ اور استحصال کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ نجکاری کی وجہ سے سرکاری ملازمتیں کم ہونے، صنعت سازی کے نہ ہونے، اور دہشت گردی کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہو جانے کی وجہ سے دیہاتوں سے مردوں کی اکثریت کا بیرون مُلک اور اندرونِ ملک شہروں میں روزگار کے لئے جانے کے بعد اب زراعت دیہی عورت کا شعبہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف عالمی سرمایہ داری نظام میں ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز (جہاں جو مزدور قوانین کے دائرے سے باہر ہیں) کی بُوم پاکستان تک پہنچ چکی ہے، جو کہ شہری عورت کو ٹھیکیداری نظام کے تحت گھر مزدور یعنی “ہوم بیسڈ ورکر” کے طور پر مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبوں میں ضم کر رہا ہے، مگر اکثریت کو زراعت میں فیملی لیبر کے طور پر ضم کیا ہے۔

اِن پالیسیوں کے خلاف پچھلی دہائی میں خواتین ہیلتھ ورکرز، اساتذہ اور ہوم بیسڈ ورکرز کی تحریکیں اُبھری ہیں اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ڈاؤن سائزنگ، اور نجکاری کے خلاف لڑی ہیں۔ اور ریاستی طاقت کے استعمال کے باوجود یہ عورتیں ڈٹی ہوئی ہیں۔ ہوم بیسڈ ورکرز قانونی جنگیں لڑ رہی ہیں کہ اِس شعبے کو مزدور قوانین کے تحت لا یا جائے تاکہ انکے بد ترین استحصال کو روکا جاسکے۔ بھٹہ مزدور خواتین بھی غلامی سے نجات کے لئے بھٹہ مزدور تحریک کا حصہ ہیں۔ اب خواتین ورکرز کے لئے منظم جدو جہد کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے، وہ جان گئیں ہیں کہ مزدور تحریک کے ذریعے ہی اس استحصالی نظام سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔

مزدوروں کی اقتصادی جدوجہد کو مربوط اور منظم بنانے کے لئے ٹریڈیونینز بے حد اہمیت رکھتی ہیں اور مزدوروں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ پاکستان میں عورتیں بڑی تعداد میں اقتصادی میدان میں داخل تو ہو چکی ہیں لیکن انہیں معاوضہ کم ملتا ہے۔ مگر ٹریڈ یونین تحریک میں عورتوں، بچوں، کانٹریکٹ لیبر، اور ڈیلی ویج لیبرکی کوئی آواز نہیں ہے۔ اِن مزدوروں کی اکثریت غیر رسمی شعبوں میں ہے جو نہ ہی آج تک مزدور قوانین کے دائرے میں لائے گئے ہیں اور نہ ہی ٹریڈ تونین تحریک نے مزدوروں کے استحصال کی ان شکلوں کے خاتمے کے لئے کوئی خاطر خواہ تحریک چلائی ہے۔
پاکستان لیبر فورس سروے 2014-2015 ء کے مطابق پاکستان بھر میں غیر زرعی شعبے سے وابستہ خواتین ورکرز کا 74 فیصد حصہ غیر رسمی معاشی شعبے سے وابستہ ہے جب کہ رسمی شعبے میں خواتین ورکرز کا صرف 26 فیصد ہیں۔غیر رسمی شعبے میں عورتوں کی بڑی تعداد64)فیصد)مینو فیکچرنگ شعبے میں کام کر رہی ہے۔ کمیونٹی، سوشل اور پرسنل سروسز کے شعبے میں 28 فیصد خواتین کام کر رہی ہیں۔

ہوم بیسڈ ورکرز کی جدوجہد سے پنجاب اور سندھ میں اُن کے لئے پالیسی بن چکی ہے، جب کہ سندھ میں ان کے لئے قانون بھی بن گیا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والوں کی کوشش ہے کہ ان کے لئے کم از کم اجرت مقرر ہو اور انہیں تنظیم سازی کا حق ملے۔ صوبائی لیبر محکموں میں ان کی رجسٹریشن ہو۔ ای او بی آئی اور سیسی جیسے اداروں میں رجسٹریشن کے تحت صحت کی سہولیات، سماجی تحفظ اور بڑھاپے میں ملنے والی پنشن اور دیگر فوائد کو یقینی بنایا جائے۔ تنظیم سازی اور اجتماعی لین دین کے حق کو ممکن بنایا جائے۔

کارل مارکس نے کہا تھا کہ بنی نوع انسانیت کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ گزشتہ ادوار کے مقابلے میں سرمایہ داری دور میں طبقاتی تفریق بہت واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ اب دو طبقات ہیں، ایک وہ جو ذرائع پیداوار کا مالک ہے اور دوسرا محنت کش طبقہ جس کے پاس کوئی نجی ملکیت نہیں ہے۔ محنت کش طبقے کو منظم کرنے کے لئے ٹریڈ یونینیں انتہائی ضروری ہیں۔

پاکستان میں ٹریڈ یونین کی قیادت زیادہ تر مردوں کے ہاتھ میں رہی ہے، اور پدر شاہانہ رجحانات کا بھی شکار رہی ہے۔ مگر پچھلی جند دہائیوں میں خواتین ورکرز کی لیڈرشپ اُبھری ہے جنہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ لائلپورکی صبیحہ شکیل، پی ٹی یو ایف کی کنیز فاطمہ، آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی روبینہ جمیل، اور اسٹیل مل کی گلزار بیگم، سب کے نام پاکستان کی ٹریڈ یونین کی تاریخ میں جگمگا رہے ہیں۔ حالیہ ادوار میں بھٹہ مزدور تحریک کے حوالے سے غلام فاطمہ اور منظوراں بی بی، انجمن مزارعین اوکاڑہ کی عقیلہ ناز اور سرداراں بی بی، لیڈی ہیلتھ ورکرز کی بشریٰ ارائیں اور دیگر کے نام سامنے آئے ہیں۔پبلک سیکٹر میں عورتیں تعلیم، صحت،پی ٹی سی ایل، پی آئی اے، واپڈا، پوسٹ آفس، ریلوے، بینکوں اور دیگر اداروں میں منظم جدوجہد کا حصہ ہیں۔

ضیاء ا لحق کے دور میں ٹریڈ یونینوں پر پابندی سے پہلے سیاسی شعور رکھنے والی عورتیں ٹریڈ یونینوں میں فعال کردار ادا کر رہی تھیں۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران عورتوں نے اسپتالوں کی ہڑتالوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھااور نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔ تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین بھی ڈاؤن سائزنگ کے خلاف ہڑتالوں میں حصہ لیتی رہیں اور ریاستی تشدد کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ نجی صنعتی شعبے میں عورتیں زیادہ تر ٹیکسٹائل، گارمنٹس، فارماسیوٹیکل اور کھیلوں اور سرجری کے اوزار بنانے والی فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں۔ زیادہ تر عورتیں روزانہ اجرت یا کنٹریکٹ پر کام کرتی ہیں۔ یہ خواتین انتہائی بُرے حالات میں بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں اور انہیں مردوں کے مقابلے میں کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔

بہت سی فیکٹریوں میں ٹریڈیونینیں موجود نہیں ہیں۔ فری مارکیٹ اور لبرلائزیشن کی پالیسیوں، مزدور دشمن اور ٹریڈ یونین مخالف پالیسیوں نے ٹریڈ یونین کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ جہاں تک ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے دفاتر، ٹریول ایجنسیوں، پرائیویٹ اسکولز، بڑے ہوٹلوں اور اسٹورز میں کام کرنے والی خواتین کا تعلق ہے، انہیں ٹریڈ یونین بنانے کی اجازت نہیں ہے۔جب کہ گھروں اور کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کی حالت زار غلاموں سے بھی بد تر ہے۔اس وقت 40 فیصد عورتیں دیہی معیشت میں سرگرمی سے حصہ لے رہی ہیں لیکن انہیں کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ عورتوں کے انسانی حقوق، چائلڈ لیبر اور جمہوریت کے لئے آواز اٹھانے والی خواتین، اور این جی اوز میں کام کرنے والی خواتین خود بھی ان حقوق سے محروم ہیں۔ ان غیر سرکاری تنظیموں نے بھی ٹریڈ یونینوں کے انحطاط میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

نظریاتی لوگوں کے نقطہء نظر سے اس وقت ٹریڈ یونین تحریک کی خامی صرف سودے بازی تک محدود ہو جانا اور نظام میں تبدیلی یعنی سوشلزم اوریا فلاحی ریاست کے لئے جدوجہد نہ کرنا ہے۔ ٹریڈ یونین رہنماؤں کو اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ ان کے مسائل کا اصل مُحرک ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت ہے۔ جب کہ محنت کش طبقے کے پاس کوئی املاک نہیں ہوتیں۔ ٹریڈیونینوں سے تعلق رکھنے والے محنت کش طبقے کو متحد ہو کر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑنا ہو گا تاکہ ذرائع پیداوار نجی ملکیت سے نکل کر سماجی ملکیت بن جائیں۔ٹریڈ یونین طبقے کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ ان کی کوششوں کا مقصد سیاسی طاقت حاصل کرنا بھی ہے۔ صنعتی شعبے میں ان کی جدوجہد ایک سوشلسٹ یا فلاحی حکومت کے قیام کی جدوجہد سے جڑی ہونی چاہیئے۔

نظام کی تبدیلی کی جدو جہد کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونین کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ منظم جدوجہد کے نتیجے میں بہتر اُجرت ملتی ہیں۔ یونین کی رکنیت کے نتیجے میں ہیلتھ کئیر تک رسائی ہوتی ہے۔ بامعاوضہ چھٹیوں کی سہولت بھی ٹریڈ یونین کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ سماجی اور اقتصادی زندگی میں عورتوں کی مساوی شراکت کے لئے ان کی تولیدی صحت کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔تولیدی دیکھ بھال صرف سماجی مسئلہ نہیں بلکہ اس کا تعلق سماجی انصاف سے بھی ہے۔ عورتوں کے لئے اس کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ اپنی تولیدی ذمہ داریوں کے علاوہ خاندان کی دیکھ بھال کے لئے بھی عورت کو چُٹھیوں کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ یاد رہے کہ عورت کو کام کی جگہ پر جو سہولتیں اور مراعات ملتی ہیں، اس کا فائدہ معیشت اور معاشرے دونوں کو ہوتا ہے۔

اس تجزیے سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ پاکستان کا مزدور، چاہے مرد ہو یا عورت، اکیسویں صدی میں بھی اپنے اُس بنیادی حق کے لئے لڑ رہا ہے، جو کہ مطلق العنان حکومتوں اور بادشاہتوں کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک کے مزدور بیسویں صدی میں حاصل کر چُکے ہیں، یعنی تنظیم سازی کا حق!۔

خواتین مزدوروں کی اکثریت غیر رسمی شعبوں میں ہونے کی وجہ سے غیر منظم ہیں۔ جہاں کہ مزدور عورت کے صنفی بنیادوں پر استحصال کا سوال مرکزی دھارے کی ٹریڈ یونین سیاست کے ایجنڈا پر بہت کم رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت ملک میں خواتین ورکرز کی سب بڑی اور منظم یونین ہیلتھ ورکرز، ٹیچرز اور ہوم بیسڈ ورکرز کی ہیں، مگر یہ سب ہی تحریکیں موجودہ نظام کے اندر ہی مراعات کے لئے جدو جہد کر رہی ہیں۔ اس منظم طاقت کو ترقی پسند سیاست سے جوڑنا، انکی باہمی یکجہتی تشکیل دینا بائیں بازو اور سوشلسٹ فیمنسٹ تنظیموں کا کام ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .