سندھیانی تحریک: تاریخ اور اسباق

سندھیانی تحریک کا تجربہ، اور حالیہ سوشلسٹ فیمنسٹ تحریک کو درپیش سیاسی اور تنظیم چیلنجز

تحریر: شہزادی حسین

سندھیانی تحریک کی نظریاتی اور سیاسی جڑیں ترقی پسند سندھی قومی تحریک میں ہیں جو کہ طبقاتی اور قومی جدوجہد کا مارکسی نظریہ رکھتی تھی۔ سندھیانی تحریک نے ‘عوامی تحریک’ (جو کہ سندھی مارکسسٹ، ترقی پسند قومی پرست سیاسی جماعت ہے) کی کوکھ سے ایک ذیلی تنظیم کے طور پر 1982ء میں جنم لیا۔ عوامی تحریک 5 مارچ 1970ء کو رسول بخش پلیجو کی رہنمائی میں بنی اور قومی جمہوری انقلاب کی حامی جماعت تھی۔ ۔

سندھیانی تحریک ضیاء دور میں جمہوریت کی بحالی اور عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین کے خلاف جدوجہد کے پس منظر میں وجود میں آئی۔ سندھیانی تحریک عورت کے سوال کو طبقاتی اور قومی سوال، سیکولرازم اور سامراجیت کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کا نُکتہ نظر رکھتی تھی۔

سندھیانی تحریک سندھی عورتوں کی نمائندہ سیاسی تحریک کے طور پر اُبھری اور اس نے پورے پاکستان میں سیاسی اور عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے پذیرائی حاصل کی۔ نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں ان کا نام روشن ہوا۔ سندھیانی تحریک کی تشکیل میں عوامی تحریک سے منسلک اُن سیاسی عورتوں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا جن عورتوں نے ووٹر لسٹیں سندھی میں چھاپنے کے لئے بھوک ہڑتال کی تھی، جن میں اختر بلوچ، نسیم سندھی، ریاض میمن اور دیگر خواتین شامل تھیں جنہیں گرفتار بھی کیا گیا۔

ایم.آر.ڈی کی تحریک میں بھی سندھیانی تحریک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جس میں جیل بھرو تحریک کی ایک شاندار مثال ہے۔ درجنوں ممبران نے گرفتاریاں پیش کیں اور مارشل لاء کی سزائیں کھائیں۔ وہ کئی سالوں تک جیلوں میں رہیں۔ عورتوں کی اِس جدوجہد نے ایم.آر.ڈی کو ایک نئی روح بخشی اور پوری دنیا میں سندھیانی تحریک کا نام مشہور ہوا کیونکہ اُس دور میں شدید ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت بڑی دلیری تھی۔ یہ گرفتاریوں کے علاوہ آئے دن ہونے والے مظاہروں میں شامل ہو تی رہیں۔ سندھیانی تحریک کی رہنما اور کارکن زیادہ تر عوامی تحریک کے کارکنوں کے خاندانو ں پر مشتمل تھیں جن کی باقاعدہ سیاسی تعلیم و تربیت کی جاتی تھی جس کی ذمہ داری رسول بخش پلیجو، فاضل راہو، محسن عباسی، شہناز راہو، مریم راہو، خدیجہ کیڑانو، حور پلیجو اور دیگر پڑھی لکھی خواتین کے اوپر تھی۔

سندھیانی تحریک میں اکثریت دیہی اور ہاری عورتوں کی تھی۔ ان کے علاوہ اندرون سندھ کی چند پڑھی لکھی ’لوئر مڈل کلاس‘ عورتیں بھی تھیں اور یہ سندھ کی طبقاتی جدوجہد کی سب سی منظم، ترقی پسند جماعت ‘عوامی تحریک’ کا حصہ تھیں۔

سال 1990ء کے بعد سندھیانی تحریک نے سندھ کی مزاحمتی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ سندھ کی قومی جدوجہد سے لے کر، طبقاتی جدوجہد اور صنفی جدوجہد کے لئے مسلسل جلسے، جلوس، مظاہرے اور مارچ کئے۔ سندھ میں رائج جاگیردارانہ پدر شاہی روایات جیسے کاروکاری اور وٹہ سٹہ کی شادی کے خلاف بھر پور عوامی رابطہ مہم چلائی۔ سکھر تا کراچی کالاباغ ڈیم کے خلاف پیدل لانگ مارچ میں شامل رہیں، گاؤں گاؤں، شہر شہر، عوام کو متحرک کیا، اور جہاں رات ہوئی وہاں بسیرا کر لیا۔ سرخ پرچم ہاتھوں میں تھامے ہزاروں لوگو ں کے جلوس عجیب منظر تھے۔

سندھیانی تحریک نے عوامی تحریک کے تمام ذیلی تحریکوں بشمولِ سندھی ہاری تحریک، سندھی شاگرد تحریک اور سندھی مزدور تحریک میں بھی کلیدی کردار کیا۔ ہر جدوجہد میں شانہ بشانہ کھڑی رہی، خاص طور پر ایم آرڈی تحریک میں، کالا باغ ڈیم خلاف لانگ مارچ میں، اور ضیاء کے امتیازی قوانین کے خلاف جدوجہد میں۔

مشرف کی مارشل لاء کے خلاف جب بھٹ شاہ سے کراچی لانگ مارچ شروع کی گئی تو پہلے دن حیدرآباد سے سندھیانی تحریک کی کارکنان اور پلیجو صاحب کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا لیکن اس کے باوجود سندھیانی تحریک کی خواتین کارکنان اور عوامی تحریک کے مرد کارکنان روزانہ جلوس نکالتے اور گرفتار ہوتے رہے۔ اس طرح یہ لانگ مارچ 14 دنوں میں کراچی جا پہنچی۔ 2007-2008ء عدلیہ بحالی تحریک میں بھی سندھیانی تحریک کی کارکنان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ سندھیانی تحریک کی کارکنان عوامی تحریک کے جلوسوں کی جان ہوتی تھیں۔ جلسے کی اعلانات کرنا ،نعرے لگانا، گیت گانا، ٹیبلوز، تھیٹر پیش کرنا، یہ سب فن انہیں باقاعدہ سکھائے جاتے ہیں۔ سندھیانی تحریک پاکستان میں عورتوں کی مزاحمتی تحریک کا ایک درخشاں باب ہے۔

بدقسمتی سے عوامی تحریک مستقل طور پر توڑ پھوڑ اور تنظیمی افراتفری کا شکار رہی۔ 1987 میں پارٹی کے ایک بڑے ہاری رہنما فاضل راہو بھی شہید کر دئے گئے۔ نوے کے عشرے میں بڑی تعداد میں کارکن اسے چھوڑ کے چلے گئے۔ اسی طرح یہ توڑ پھوڑ جاری رہی۔ آج عوامی تحریک کے علاوہ ا اس سے نکلنے والے لیڈران اور کارکنوں کی درج ذیل تنظیمیں ہیں: (1) خود عوامی تحریک (2) قومی عوامی تحریک، اور(3) عوامی جمہوری پارٹی۔ اسی طرح پارٹی کی ذیلی تنظیم ہونے کے ناطے سندھیانی تحریک بھی توڑ پھوڑ کا شکار ہوئی۔ سندھیانی تحریک سے نکلنے والی عورتوں کی اکثریت عوامی جمہوری پارٹی میں چلی گئیں اور اِنہوں نے اپنی پارٹی کی ذیلی تنظیم کے طور پر “سندھی عورت تنظیم” بنا لی۔ راقم خود 1990ء میں سندھیانی تحریک کی مرکزی کمیٹی کی ممبر بنی اور ان تمام جدوجہدوں میں شامل رہی، اور تقسیم در تقسیم کے بعد 2013ء میں سندھیانی تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی۔

میری نظر میں پارٹی کی توڑ پھوڑ کسی بڑے نظریاتی یا تنظیمی بحران کی وجہ سے نہیں بلکہ پارٹی کے اندر پاور پالیٹکس اور پارٹی پر گرفت رکھنے کی کھینچا تانی میں شخصی اختلافات، اور آئین پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہوئی۔ پارٹی مزاحمتی اور پارلیمانی سیاست کے درمیان میں توازن نہیں بنا سکی، نہ ہی کوئی منصوبہ بندی کی جس کی وجہ سے کہیں سے بھی کوئی ایک کاؤنسلر منتخب نہ ہو سکا۔ پارٹی کارکنان کا شعور آگے بڑھ گیا مگر تنظیم کی بیوروکریسی نے تنظیم کو بدلتے حالات کی روشنی میں بدلنے نہیں دیا اور نئی لیڈرشپ کو بھی آگے آنے نہیں دیا۔ عوامی تحریک انتخابات میں پی پی پی کے امیدواروں کو جتانے میں مدد کرتی رہی تھی جسے پارٹی کے ایک حصے نے قبول نہیں کیا اور پارٹی کو خیر باد کہہ دیا۔ سندھیانی تحریک اور دوسری ذیلی تنظیموں کے مدرپارٹی عوامی تحریک سے رشتے کے مسائل، اور پارٹی کے اندر غیر جمہوری فیصلہ سازی اور رویوں کی وجہ سے لوگوں کو پارٹی سے فارغ کرنے کا سلسلہ چلتا رہا، پارٹی سُکڑتی رہی اور نئے لوگ بھی شامل نہیں ہوئے۔

سندھیانی تحریک کی کارکنان کو پارٹی کے اندر کافی معاملات میں رجعت پرستانہ پدرشاہانہ رویو ں کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا، نا صرف نچلی قیادت کی طرف سے بلکہ اعلیٰ قیادت کی طرف سے بھی۔ تنظیم کو جمہوری انداز میں نہیں چلایا گیا، اور سندھیانی تحریک پر ’مدرپارٹی‘  کی طرف سے فیصلے مسلط کئے جاتے تھے۔  پارٹی کے اندر پدر شاہی رویوں نے سندھیانی تحریک کو ایک آزاد اور مضبوط فیمنسٹ تحریک کے طور پر پنپنے نہیں دیا۔ تمام بڑے سیاسی فیصلے، جدوجہد کرنے یا نا کرنے، کیسے کرنے، کب کرنے کا پورا اختیار عوامی تحریک ہی کو تھا اور اس میں بھی صرف پارٹی کے صدر کو۔ گو کہ سندھیانی تحریک نے شاندار جدو جہد کی مثال قائم کی، لیکن ان تمام تحریکوں کی فیصلہ سازی کا اختیار اُن کے پاس نہیں، بلکہ مدرپارٹی کے پاس تھا۔ ذیلی تنظیموں کو چلانے کے لیے مدرپارٹی کچھ مرد کارکنان کی ڈیوٹی لگائی جاتی تھی جو کہ عورتوں کو رہنمائی کرے اور ان کی نگرانی بھی کرے۔ گویا سندھیانی کے لئے مدرپارٹی، ’مدرپارٹی‘ نہیں، بلکہ ایک ’فادرپارٹی‘ تھی۔ اس رویے نے سندھیانی تحریک کو خودمُختار نہیں بننے دیا، اور وہ ’مدر پارٹی‘ کی مرہونِ منت ہی رہ

اس سب کے باوجود، سندھیانی تحریک نے پورے سندھ میں ایک ایسے سیاسی ماحول کی تشکیل کی جس میں عام عورتیں سیاسی جدوجہد کا حصہ بن سکیں۔ عورتوں کی سیاسی تعلیم بھی کی۔ ’’فیمنسٹ ایجنڈا‘‘ کو عمومی طور پر سندھی قوم پرست سیاست کا حصہ بنانے میں کردار ادا کیا، اور نا صرف عوامی تحریک کے اندر فیمنسٹ سیاست کی تشکیل کی، بلکہ تمام سندھی قوم پرست پارٹیوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ عورت کے سوال پر بات رکھیں۔ کئی سندھی قوم پرست پارٹیوں نے عورتوں کی ذیلی تنظیمیں بنانے کی کوششیں کیں مگر وہ تنگ نظر قوم پرستانہ سیاست سے میل نہ کھاتے ہوئے اوائل میں ہی ٹوٹ گئیں۔

ذیلی تنظیم ہو نے کے ناطے سندھیانی تحریک اُتنی ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی جتنی کہ اُس کی مدرپارٹی (عوامی تحریک) ہوئی۔ جس تعداد میں سندھیانی تحریک میں عورتیں تھیں اور جس جذبے کے ساتھ کام کر رہی تھیں، اُن کو اگر فیصلے سازی کے اختیارات ملے ہوتے اور تنظیم ایک ذیلی تنظیم کے بجائے ایک آزاد تنظیم ہوتی، تو آج شاید وہ ٹوٹ پھوٹ سے بھی بچ جاتی اور ایک بڑی تحریک کے طور پر برقرار رہتی۔

سندھیانی کا تجربہ یہ واضح کرتا ہے کہ عورتوں کے لئے طبقاتی و قومی جدو جہد اور صنفی جدوجہد تینوں اہم ہیں، اور ان کے درمیان سیاسی رشتے کو سمجھنا ضروری ہے۔ سندھی عورت نے جبر و استحصال کی اِن تینوں شکلوں کے خلاف جدوجہد کی۔ جو لوگ فیمنسٹ تنظیموں سے ڈرتے ہیں کہ وہ طبقاتی اور قومی جدوجہد کو کاٹتی اور بانٹتی ہیں، اس تجربے سے سیکھنا چاہیئے، کہ عوامی پارٹی نے سندھیانی کو توڑا، سندھیانی نے پارٹی کو نہیں توڑا!۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامے اور سندھیانی تحریک کے تجربے سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ پاکستان کی جن پارٹیوں نے عورتوں کے ونگ بنائے ہیں، اُن میں اکثر پارٹیوں کے پاس ’فیمسنٹ ایجنڈا‘ نہیں ہے اور و ہ صرف انتخابی فتح کے لئے عورتوں کو عددی برتری کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ مگر جن پارٹیوں نے فیمنسٹ شناخت سے عورتوں کی ذیلی تنظیمیں بنائی ہیں، وہ فیمنسٹ ایجنڈا تو رکھتی ہیں، مگر اُن پارٹیوں کے اندر پاور پالیٹکس اور پدرشاہانہ کنٹرول کی وجہ سے فیمنسٹ تنظیمیں توڑ پھوڑ کا شکار ہوتی ہیں۔

ان تنظیمی لائحہ عمل سے متعلقہ مسائل کا حل شاید آزاد فیمنسٹ تنظیمیں بنانے میں ہے، جو پارٹیوں سے صرف یکجہتی کا رشتہ رکھیں۔ فیمنسٹ تنظیموں کا ہم خیال سیاسی پارٹیوں سے یکجہتی کا رشتہ فیمنزم کو سیاسی تحریک بنانے اور نظام میں بنیادی تبدیلی کی اکٹھے جدوجہد کے لئے رستے کھولتا ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ فیمنزم ایک سیاسی جدوجہد ہے، اور یہی پاکستان میں سب سے بڑا چیلنج ہے کہ فیمنسٹ نکتۂ نظر کو کیسے سیاسی اور ریاستی منظر نامے پر لایا جائے؟


شہزادی حسین لکھاری اور محقق ہیں، اور سیاسی طور پہلے سندھیانی تحریک اور اب ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ سے وابستہ ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .