پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک: ایک سیاسی جائزہ

The mass uprising of 1969 the then East Pakistan (Bangladesh) — Photo: public domain
The mass uprising of 1969 the then East Pakistan (Bangladesh) — Photo: public domain

تاریخی پس منظر، اس کی ارتقاء میں بائیں بازو کا کردار، اور پاکستان میں جمہوریت کے قیام میں ٹریڈ یونین تحریک کا کردار: ایک مختصر جائزہ

تحریر: عصمت شاہ جہان

تعارف

ٹریڈ یونین کے تصور نے صنعتی سرمایہ دارانہ دور میں جنم لیا۔ صنعتی سرمایہ داری نے جہاں پُرانے جاگیردارانہ طرزِ پیداوار سے جنم لینے والی سماجی اور سیاسی جکڑ بندیوں اور غُلامی سے محنت کش طبقے کو آزاد کیا، وہاں سرمایہ داری نظام اپنے ساتھ نئے طرز کی جکڑ بندیاں لے کر آیا۔ ایک طرف، سرمایہ داروں نے منافع خوری کے لئے ورکرز کو کم اور غیر مساوی اُجرت، جسم و جان کے خطرات، بیماریوں، قوت نچوڑنے لینے والے اوقاتِ کار، اور شدید استحصال سے دوچار کیا۔ جس کے نتیجے میں ورکرز نے ٹریڈ یونین میں منظم ہونا شروع کیا۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ ریاستوں نے جبر اور تشدد سے ورکرز کے منظم آواز کو دبایا۔

شکاگو میں 1886ء میں مزدور احتجاج (جس کی یاد میں یکم مئی کو عالمی یومِ مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے) پر گولیاں چلانے سے لیکر آج تک مزدور تحریک کو کُچلنے اور احتجاج کرنے والے مزدوروں پر گولیاں چلانے سے لے کر لاٹھیاں برسانا، اور جیلوں میں ڈالنا سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ رہا ہے، خاص طور پر پاکستان میں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی جُغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے مزدور تحریک پر کچھ زیادہ ہی ریاستی جبر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب روس (جس نے طبقاتی نظام کو گِرا کر مزدور راج قائم کیا تھا) کے بعد سامراجی ممالک نے سوشلزم کے خلاف کولڈ وار کے لئے اپنے مورچے/چھاؤنی کے طور پر پاکستان کو ایک ردِ انقلاب ریاست اور ایک بفر ریاست کے طور پر تشکیل دیا۔ سوشلزم کے خلاف ایک چھاؤنی ریاست کے ناطے، پاکستان کی ریاست نے پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب میں مرکزی کردار ادا کر سکنے والے مزدور تحریک کو سوشلزم کے خوف سے ہمیشہ نا ہی بننے دیا، اور جو بنی بھی، اُسے بھی کُچل دیا، خاص طور پر مزدور حلقوں کے اندر کمیونسٹ مزدور حلقے کو۔ رہی سہی کسر نیو لبرل پالیسیوں اور معیشت کی انفارملائزیشن اور پرائیوٹایزیشن نے پوری کی۔

اِس پوری کہانی میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ پاکستان میں مزدور تحریک کا ’’سیاسی کردار‘‘ ہی تھا، وہ بھی ترقی پسند، جس سے ریاست اور سامراجی ممالک خار کھاتی تھی۔ اور ترقی پسند مزدور تحریک کو کاٹنے کے لئے منظم طور پر مذہبی رائٹ ونگ کو بھی مزدور تحریک میں اُتارا گیا۔ مثال کے طور پر فوجی آمر ایوب خان کے خلاف ترقی پسند مزدور تحریک کی طرف سے بھرپور جدوجہد کی نظریاتی اور سیاسی جڑیں کاٹنے کے لئے جُماعتِ اسلامی کی ’نیشنل لیبر فیڈریشن‘ جیسی تنظیموں کو 1969ء میں بنایا گیا۔ ترقی پسند مصنفین طارق علی اور لال خان اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں 1968-69ء کی ایوب خان کی آمرانہ حکومت کے خلاف احتجاج ایک جمہوری انقلاب تھا، جس نے مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں کے طلباء اور محنت کشوں کی ایک عوامی بغاوت کی شکل اختیار کی تھی، جس نے ہر طبقے کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ بغاوت نومبر 1968ء کے اوائل سے مارچ 1969ء کے آخر تک ہوئی جس میں تقریباً 10-15 ملین لوگ شامل تھے ۔1 2 اس تحریک کے نتیجے میں ایوب خان کی حکومت گرائی گئی، جس کے بعد پاکستان میں تاریخ میں بہلی بار جنرل ایکشن ہو سکے۔

یہ مضمون پاکستان میں مزدور تحریک کے تاریخی پس منظر، ارتقاء میں بائیں بازو کے کردار، اور جمہوریت کے قیام میں اِس کے کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔

مزدور تحریک کا تاریخی پس منظر اور ارتقاء

پاکستان کی ٹریڈ یونین تاریخ کی نظریاتی اور سیاسی جڑیں برصغیر کی ترقی پسند مزدور جدوجہد اور برطانوی سامراج سے آزادی کی تحریک میں ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی راج کے ہندوستان کی کالونائزیشن اور استعماری قبضے کے خلاف 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد تاج برطانیہ نے برصغیر پر باقاعدہ قبضہ کیا، اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے سو سال حکومت کرنے کے بعد ہندوستان کا ڈائریکٹ کنٹرول سنبھال لیا۔ معیشت پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے سخت قانون سازی کے ساتھ ٹیکسٹائل کے سامان اور مصنوعات کے تمام ہندوستانی حریفوں پر پابندی لگا دی۔ مزدوروں کو کام کے غیر انسانی حالات کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں مزدور احتجاج کا آغاز ہوا۔ تاہم کوئی منظم تحریک نہیں تھی (شوہانگ اور ملک:2017ء)۔3

برطانیہ نے ہندوستان کی کالونائزیشن سے بے بہا دولت لُوٹی۔ مارکسی اکانومسٹ ’اُتسا پٹنائک‘ کی حالیہ کتاب ’ایگریرین اینڈ اَدر ہِسٹریز‘ کے مطابق برطانیہ نے ہندوستان سے 1765ء سے 1938ء کے دوران 45$ ٹریلین ڈالرز دولت لُوٹی، 4 جو کہ برطانیہ کی حالیہ دولت سے سترہ بار زیادہ ہے (ہِکل :2018ء)۔5 اس میں برِصغیر کے قومی وسائل اور مزدوروں کے خون پسنے سے بنائی گئی پیداوار شامل تھی۔ اب تو مورخین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ برصغیر میں سال 1920ء – 1880ء کے درمیان چالیس سالوں میں برطانیہ نے کالونائزیشن کے تحت استحصال، خون ریزی، جنگوں، اور غربت، اور خود سے لگائی گئی قحطوں سے 100 ملین انڈین موت کے گھاٹ اُتارے۔ اور اِسی استحصال، لوٹ مار، جبر، اور قتل عام نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو جنم دیا، اور مزدور تحریک نے بھی اسی کے رِحم سے جنم لیا ۔

اُنیسویں صدی کی پہلی دہائی میں برصغیر ہند میں جدید صنعت وجود میں آ چکی تھی، ریلوے کا نظام بن چکا تھا، ٹیکسٹائل اور سٹیل کی صنعت بن چُکی تھی، اور صنعتی مزدور نے جنم لے لیا تھا۔ صنعتی مزدور، طبقاتی استحصال اور ناانصافیوں کے خلاف گاہے بگاہے غیر منظم ایکشن لے رہے تھے۔ جس کے نتیجے میں سال 1813ء میں کولونیل گورنمنٹ نے پہلی بار صنعت سازی کے بارے میں چند قوانین بنائے گئے۔ اس کے بعد مزدوروں کی بڑھتی ہوئی ہڑتالوں کے نتیجے میں 1881ء میں برطانوی حکومت کو پہلا فیکٹریز ایکٹ لانا پڑا۔ 1895ء تک انڈیا کے ٹریڈ یو نینز نے مختلف صنعتی شعبوں میں بڑے پیمانے پر ہڑتالیں کیں، جس نے انڈیا میں منظم مزدور تحریک کو جنم دیا۔

بیسویں صدی کے شروعات تک انڈیا میں کوئی منظم اور ملک گیر ٹریڈ یونین تحریک نہیں تھی اور 1918ء تک صرف چند وائٹ کالر ٹریڈ یونینیں تھیں۔ لیکن پہلی جنگِ عظیم (1914ء-1918ء) کے بعد برطانوی سامراج کے خلاف اٹھنے والی سیاسی تحریکوں, انقلاب روس اور 1919ء میں آئی.ایل.او کے زیرِ اثر منظم ٹریڈ یونین تحریک کی اِرتقاء ہوئی۔ مزدوروں نے پہلی بار بڑے پیمانے پر بمبئی میں جنرل سٹرائیک کی، جس میں ایک لاکھ بیس ہزار مزدوروں نے شرکت کی، جن کی اکثریت ٹیکسٹائل ورکرز کی تھی (مکھر جی: 1922ء)۔6 ٹریڈ یونینز نے بھی پیمانے پر برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمتی تحریک میں شرکت۔ کانگریس پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی سے جُڑت نے منظم تحریک کو جنم دیا۔ جائنٹ آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس کو 30 اکتوبر 1902ء کو بمبئی میں تشکیل دیا، جو کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے جڑی ہوئی تھی۔ اِس منظم ٹریڈ یونین جدوجہد، سیاسی اور طبقاتی جدوجہد کے نتیجے میں برٹش راج کو 1911ء سے 1926ء کے درمیان مزدوروں کے حقوق پر قانون سازی کرنی پڑی۔ اِن قوانین میں سب سے اہم ٹریڈ یونین ایکٹ 1926ء، مائنز ایکٹ 1923، ورکرز کمپنسیشن ایکٹ 1923 اور ٹریڈ ڈسپیوٹ 1929ء ایکٹ بنائے گئے(خلیل:2018)۔7 1947ء کے بعد یہی مزدور قوانین پاکستان نے جاری رکھے۔ انڈین ٹریڈ یونین تحریک نے برطانوی سامراج سے آزادی کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔

پاکستان بننے کے وقت انڈیا میں دو بڑی تنظیمیں مزدور تحریک کی نمائندگی کرتیں تھیں: (1) آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس (اے.آئی.ٹی.یو.سی) جو کمیونسٹ پارٹی سے جڑی ہوئی تھی، سرمایہ داری نظام کی مخالف تھی، اور (2) طبقاتی جدوجہد کا حصہ تھی، اور انڈین فیڈریشن آف لیبر(آئی.ایف.ایل) جو کہ ریفارمسٹ تھی، سرمایہ داری نظام کے اندر جدوجہد کی بات کرتی تھی۔

سال 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد درج بالا تنظیموں کے نام پاکستان میں بدلے گئے: اے.این.ٹی.یو.سی کو پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن (پی.ٹی.یو.ایف)، جس کی لیڈر شپ ترقی پسند مزدور رہنما اور ریلوے یونین لیڈر مرزا ابراہیم نے سنبھالی۔ جبکہ آئی.ایف.ایل کو آل پاکستان فیڈریشن آف لیبر(اے.پی.ایف.او.ایل) بنایا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد پی.ٹی.یو.ایف میں 38 ممبر ٹریڈ یونینز کے ساتھ 20,000 مزدوروں کی ممبرشپ تھی, جن کی اکثریت ریلوے ورکرز پر مشتمل تھی۔ اور اے.پی.ایف.او.ایل میں 39 ممبر یونینوں کے ساتھ 95,000 مزدور ممبران پر مشتمل تھی، جن کی اکثریت پورٹ اور دوسرے شعبوں سے تھی (رضا:1967ء)۔8

تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے حصے میں صرف 9 فیصد صنعت آئی۔ یہ اَمر ایک دلچسپ تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کے حصے میں آنے والی75 ملین آبادی میں صرف 482,000 (0.63) فیصد صنعتی مزدور تھے (این.ٹی.یو ایف:2015)۔ 9 10 گویا صنعت اور صنعتی مزدور نہ ہونے کے برابر تھے۔ پاکستان کو کالونیل ورثے میں جاگیرداری، محدود صنعتی انفراسٹرکچر، چند بڑے شہر، کمزور ٹریڈ یونینز، اور بوسیدہ سیاسی ادارے ملے!۔

سال 1947ء میں بڑی انڈسٹریز جن میں یونین تھیں، میں ریلوے، اٹک آئل ریفائنری، لائلپور کاٹن ملز، کیھوڑہ سالٹ مائنز، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پوسٹل اینڈ ٹیلیگراف، الیکٹرسٹی ڈیپارٹمنٹ، اور باٹا شُو کمپنی شامل تھیں، مگر آہستہ آہستہ پبلک سیکٹر میں لازمی سرویسز ایکٹ کے بار بار نفاز، نجکاریوں، جبری گولڈن ہینڈ شیکس، اور کانٹریکٹ سسٹم کے ذریعے یونین ختم کر کے ورکرز کا رائٹ آف ایسوسی ایشن ختم کر دیا گیا۔

درج بالا دو فیڈریشنوں کے علاوہ پاکستان میں دیگر قابلِ ذکر فیڈریشن میں پاکستان نیشنل فیڈریشن آف ٹریڈ یونین، آل پاکستان ٹریڈ آرگنائزیشن، متحدہ مزدور مجلس عمل، پاکستان سنٹرل فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز، فیڈریشن آف ایمپلائیز آف بینکس اینڈ فنانشل انسٹی ٹیونشنز، نیشنل لیبر فیڈریشن، اور بلوچستان لیبر فیڈریشن شامل ہیں۔ 1992ء میں ٹریڈ یونینز ایکشن کمیٹی عمل میں لائی گئی، جس میں زیادہ تر فیڈریشنز شامل تھیں، جبکہ 1994ء پاکستان ورکرز کنفیڈریشن بنی مگر پھر 2009 میں اندرونی تقسیم کا شکار ہوئی، اور ان میں ایک اِسی نام سے کام کر رہی ہے۔ جبکہ دوسری اہم پیشرفت آل پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کی صورت میں ہوئی، جس میں واپڈا اور دیگر اداروں کی ٹریڈ یونین شامل تھیں۔

ویسٹ پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک کی قیادت میں عورتیں بہت کم رہی ہیں۔ زیادہ تر قیادت مرد مزدوروں اور رہنماؤں کے ہاتھوں میں تھی۔ اِن میں مرزا ابراہیم، بشیر احمد بختیار، جے بی ملر، ایم سے خطیب، ملک فضل الہیٰ، دادا فیروز دین منصور، نبی احمد، طفیل عباس، کنیز فاطمہ شامل ہیں۔ فیض احمد فیض نے بھی کچھ عرصہ ٹریڈ یونین عہدیدار کے طور پر کام کیا۔

پاکستان میں جمہوریت قائم کرنے میں کردار

پاکستان میں ترقی پسند مزدور تحریک نے جمہوریت قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1948ء میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن تشکیل دی گئی ،جو کہ لیفٹ ونگ ٹریڈ یونین ازم کی حامی تھی، اس کے بانی صدر مرزا ابراہیم تھے، نائب صدر فیض احمد فیض، ڈاکٹر ایم اے مالک جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے تھے۔ پی.ٹی.یو.ایف کے سر کردہ انقلابی رہنماؤں مرزا ابراہیم، فیض احمد فیض، اور فضل الہی قربان کو ریاستی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مرزا ابراہیم کو پاکستان بننے کے بعد 1948ء میں ہی جیل میں ڈال دیا گیا اور چند سال بعد فیض پر غداری کا مقدمہ چلا دیا گیا۔ جبکہ فضل الہی قربان نے جان بچانے کے لئے سوویت یونین میں پناہ لی۔ کمیونسٹ پارٹی پر 1954ء میں پابندی لگا دی گئی۔ اور اس طرح پی,ٹی.یو.ایف کو غیر فعال کر دیا گیا۔ پی.ٹی.یو.ایف پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے بعد 1971ء میں دوبارہ منظم ہوئی۔

پاکستان 1947ء تا 1956ء براہ راست برطانوی راج کے زیرِ حکمرانی رہا اور 1956ء میں پاکستان کو اسلامک ریپلک آف پاکستان بنایا گیا۔ جلد ہی 1958ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کرکے تمام سیاسی تنظیموں بشمول طلباء، پروفیشنل اور ٹریڈ یونین تنظیموں پر پابندی لگا دی۔ یاد رہے کہ ترقی پسند ٹریڈ یونین کے اکثر رہنما کمیونسٹ سٹوڈنٹس تنظیم ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن سے (ڈیی.ایس.ایف) سے بھی آئے تھے۔ ماضی کی شاندار ترقی پسند روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پی.ٹی.یو.ایف نے سیاسی جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا۔ پی.ٹی.یو.ایف کے دفاتر کو بند کرایا گیا، اثاثوں کو ضبط کیا گیا، اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر پی.ٹی.یو.ایف کے رہنماؤں کو بھی زندانوں میں ڈال دیا گیا۔ پی.ٹی.یو.ایف نے یحیٰ خان کے خلاف جمہوریت کی بحالی کے لئے بھی سیاسی جنگ لڑی، اور بنگلہ دیش کی آزادی کی سیاسی تحریک میں بھی حصہ لیا۔

پاکستان بننے کے بعد یہاں ریلوے اور پورٹ کی مضبوط یونینیں موجود تھیں۔ لاہور ریلوے ورکشاپ یونین کی قیادت مرزا ابراہیم کے ہاتھ میں تھی، ہائیڈرو الیکٹرک سنٹرل لیبر یونین کے سر براہ بشیر بختیار تھے۔ جبکہ سندھ میں نارائن داس نے یونینیں منظم کی تھیں۔ پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد ہی 1954ء میں راول پنڈی سازش کیس کے نتیجے میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگ گئی تھی اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنماء زیرِ زمین رہ کر کام کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ عوام کے سامنے آ کر پسے اور کچلے ہوئے طبقات کے لئے کام کرنے کا سیاسی پارٹیوں کے علاوہ ایک ہی پلیٹ فارم ان کے پاس بچا تھا اور وہ تھا ٹریڈ یونین کا پلیٹ فارم، جو شروع سے بائیں بازو کے ہاتھ میں رہا مگر پھر صنعتکاروں، جماعت اسلامی اور فوجی آمروں نے اِن مضبوط یونینوں کو توڑا اور متوازی اور پاکٹ یونینیں بنوانا شروع کیں۔

پاکستان بنتے ہی جمہوریت کے ساتھ، ٹریڈ یونین تحریک بھی پے در پے مارشل لائی حملوں کی وجہ سے اکثر معطل رہی، اور تنظیم سازی کے بنیادی حق کے لئے ڈکٹٹیروں کے خلاف مسلسل لڑتی رہی۔ پاکستان میں ٹریڈ یونین کا بڑا ابھار 1968ء کی سیاسی تحریک کے دوران دیکھنے میں آیا۔ جب مزدور رہنما ایوب خان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، خاص طور پر ون یونٹ کے خلاف تحریک میں ( 1954-1970ء) ۔ سیاسی جلسے، جلوسوں اور مزدوروں کی ہڑتالوں کے نتیجے میں ایوب خان کو مار پڑی اور وہ اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار یحییٰ خان کو سونپ کر چلے گیا۔

بھٹو اقتدار میں آئے تو بائیں بازو کے طلباء، مزدوروں اور کسانوں کی حمایت سے لیکن ان ہی کے دور میں بھی پولیس نے ہڑتالی مزدوروں پر گولیاں بھی چلائیں۔ کراچی میں 1972ء کی مزدور جدوجہد مزدور تاریخ کا اہم باب ہے۔ کراچی سائیٹ میں ٹیکسٹائل ورکرز کے احتجاج پر گولیاں چلا کر درجنوں مزدور شہید کئے ۔ بھٹو نے صنعتوں کو نیشنلائز کی پالیسی اپنائی مگر بعد میں بے نظیر اور نواز شریف نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے دباؤ پر نجکاری کا سلسلہ شروع کیا (دنیب: 2017 )۔11

جنرل ضیاء کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ورکنگ جرنلسٹس کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس خوب لڑی۔ صحافیوں کو زندانوں میں ڈالا گیا اور سرِعام کوڑے لگائے گئے۔ مئی 1979ء میں پی ٹی یو ایف کی ممبر ٹریڈ یونین نے کراچی شپ یارڈ میں سب سے بڑی ہڑتال کی جو کہ تین مہینے جاری رہی، ملٹری گورنمنٹ نے ردِ عمل میں 7000 ورکرز کو نوکری سے جبراََ نکال دیا۔

ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کے ہڑتالی مزدوروں پر 2 جنوری 1978ء کو گولیاں چلائیں۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق 22 مزدور شہید ہوئے مگر غیر سرکاری رپورٹس یہ تعداد 150 تک بتاتی ہیں۔ ضیاء آمریت کے دور میں ٹریڈ یونینز پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور تمام لیفٹ ٹریڈ یونین کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ آمریت کے خلاف 1983ء کی تحریک میں لاہور ریلوے کے مزدوروں نے اہم کردار ادا کیا، اور آمریت کے خلاف مزدوروں کا پہلا جلوس ریلوے ورکرز یونین کی قیادت نے لاہور سے نکالا گیا، جس میں تین ہزار مزدور شریک ہوئے۔ اس کے بعد اہم رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔

واپڈا کے ورکرز نے نواز شریف کے دور 2013ء-2018ء کے دوران اپنی جدوجہد سے واپڈا کی نج کاری کی کوششوں کو ناکام بنایا۔ جنرل مشرف کے دور میں اہم ترین جدوجہد فیصل آباد کے پاور لُوم مزدوروں کی تھی، جنہوں نے فیصل آباد میں ہزاروں مزدوروں کو منظم جدوجہد کا حصہ بنایا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس جدوجہد میں مزدور عورتوں کا اہم کردار ہے۔۔

سال 2013ء سے 2019ء تک سروسز سیکٹر میں کانٹریکٹ ملازمت اور تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں اور نجکاری کے خلاف مزاحمت تیز رہی۔ پی.آئی.اے، اور پی.ٹی.سی.ایل کے علاوہ اہم ترین جدوجہد کرنے والوں میں نرسوں، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ٹیچرز تھیں۔ انہوں نے لاہور، کراچی، پنڈی، اسلام آباد، پشاور اور دیگر شہروں میں دھرنے اور احتجاج کئے۔ 14 مارچ 2014ء کو شہباز شریف کی گورنمنٹ نے احتجاجی نرسوں کے خلاف ریاستی طاقت اور تشدد کا استعمال کیا۔ 2,800 نرسوں نے آخر کار کنٹریکٹ سسٹم اور نوکریوں سے برطرفی کے خلاف جدوجہد میں اپنے مطالبات منوانے میں کامیابی حاصل کی۔ نرسوں اور ہیلتھ ورکرز نے اپنے مطالبات کے منوانے تک کئی روز سڑکو ں پر دن رات گزار کر جدوجہد کی نئی تاریخ رقم کی اور دوسرے شعبوں میں خواتین مزدوروں کو جدوجہد کی راہ دکھلائی۔

زرعی مزدور کو لیبر لاء کے تحت لانے کے ضمن میں ایک لمبی جدوجہد کے بعد پہلی ایگریکلچر اینڈ ہوم بیسڈ ورکرز یونین 2015ء میں سندھ میں رجسٹر کی گئی۔ اِس دوارن آل پاکستان کلرک ایسوسی ایشن نے تنخواہوں کی ادائیگیوں اور حقوق کے لئے بھر پور تحریک چلائی۔ اور 2017ء میں ملک بھر سے کلرک مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد آئے اور دھرنا دیا، جس کو کئی ٹریڈ یونین فیڈریشنوں نے سپورٹ کیا۔ اِس وقت پاکستان میں، جب میں یہ آرٹیکل رقم کر رہی ہوں، حالیہ وقتوں میں سب سے لمبا احتجاج پورٹ قاسم ڈوک ورکرز کر رہے ہیں جو پچھلے تین مہینوں سے کراچی میں چائنیز کمپنی کی طرف سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف جاری ہے۔

کانٹریکٹ سسٹم نے ٹریڈ یونین تحریک کو توڑنے ایک اہم کردار ادا کیا ہے، کیونکہ یہ یونین سازی کو تسلیم نہیں کرتا۔ اب اکثر کارخانوں اور سروسز سیکٹر میں ٹھیکہ داری نظام رائج ہو چکا ہے، جہاں مزدوروں کو فیکٹری کارکن تسلیم نہ کر کے، حقِ تنظیم سازی سے ہی محروم کیا جاتا ہے۔ یہی حال دفاتر اور تجارتی مراکز کا ہے۔ لازمی سروس ایکٹ 1952ء کے ذریعے بھی مزدوروں کو تنظیم سازی کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں تمام لیبر قوانین میں درج ہے کہ اس ایکٹ کا اطلاق فوج، پولیس، محکمہ صحت و تعلیم، اور ایسے مینو فیکچرنگ سیکٹرز پر نہیں ہو گا، جن کی اشیاء فوج استعمال کرتی ہو۔ اس طرح کبھی ریلوے اور کبھی پی آئی اے اور دوسرے خود مختار اداروں کو لازمی سروس ایکٹ لگا کر ملازمین کو ٹریڈ یونین اور احتجاج کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔ بلکہ اس کا استعمال ہی ٹریڈ یونین پر پابندی کے لئے کیا جاتا ہے۔ حد ہے، کہ اب ایک حاضر سروس ایئرمارشل ہی پی آئی اے کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے۔

تقسیم ہند سے پہلے، فوج کے علاوہ تمام اداروں میں یونین بنانے کی اجازت تھی۔ مگر اس کے بعد، تاریخی طور پر زیادہ تر وقت ٹریڈ یونینز اور سیاست فوجی حکمرانوں نے معطل ہی رکھیں۔ یہ سلسلہ جو 1958-62ء سے جنرل ایوب خان نے شروع کیا تھا اور گاہے بگاہے جاری رہا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت جس کی بھی ہو، اگر طرِز پیداوار سرمایہ دارانہ ہے، اور وہ بھی جنگی اقتصاد کے زیرِ دست ہے، تو ریاست پر اُسی سرمایے کا کنٹرول ہوگا، جس نوعیت کا سرمایہ ہو گا۔

معیشت اور صنعت کی ملٹرائزشن کے اثرات

پاکستان بننے کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مُلکی معیشت میں فوج کے بڑھتے ہوئے عمل دخل کی وجہ سے اسلحہ سازی کی صنعت نے سب سے زیادہ ترقی کی، مگر اس صنعت میں کبھی بھی مزدوروں کے تنظیم سازی کا حق نہیں مانا گیا۔ ایک سیکیورٹی سٹیٹ ہونے کے ناطے پاکستان کی ریاست نے آج تک سویلین صنعت سازی پر کوئی توجہ نہیں دی، جبکہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لے لے کر ملک کے پیداواری اور مالی بحرانوں کو ایڈہاک بنیادوں پر آج تک وقتی طور پر ٹالا جاتا رہا ہے۔ سویلین کارخانے اور کانیں اب اتنی خستہ اور بوسیدہ ہیں کہ قاتل بن چُکی ہیں۔ کارخانوں کے بوائلر سو سو سال سے بھی پُرانے اور جان لیوا ہیں آئے روز بوائلر پھٹنے سے مزدور جل کر مرتے ہیں، اور کانیں گرنے سے دب کر مرتے ہیں۔ آپ انٹرنیٹ پر صرف دو الفاظ ٹائپ کریں ’’بوائلر پھٹنے سے مزدور ہلاک، اور کان گرنے سے مزدور ہلاک‘‘، تو ہزاروں واقعات کی خبریں آپ کے سامنے آ جائیں گی۔ مثال کے طور صرف گوجرانوالہ میں پچھلے تین 12سالوں میں 40 مزدور بوائلر پھٹنے سے جل کر مر گئے اور 175 جھلس گئے (محمود:2019ء)۔

اس کے بر عکس، فوج نے اپنی ملکیت میں ہر طرح کی صنعت سازی کی، اور عوامی وسائل اُن پر خرچائے۔ دوسری طرف، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی امپورٹس کی بھر مار، توانائی کا بحران، بد امنی اور دہشت گردی کی وجہ سے صنعت سازی نہ ہونے کی وجہ سے بڑھتی بیروزگاری کے نتیجے میں اکثر مزدوروں کو گلف اور دوسرے ممالک کا رُخ کرنا پڑا۔ اس طرح ٹریڈ یونین تحریک نہ صرف کمزور ہوتی چلی گئی بلکہ سیاسی مداخلتوں اور پاکٹ یونین بازی رجحان سے اندرونی توڑ پھوڑ اور خلفشار کا بھی شکار ہوئی۔

جدوجہد اور قربانیوں کی اس شاندار ماضی کے باوجود، ٹریڈ یونین تحریک اِس وقت موت کے دہانے پر کھڑی ہے۔ خلیل کے مطابق قیامِ پاکستان کے وقت 25 فیصد فیکٹری ورکرز ٹریڈ یونینز میں منظم تھے جو اب گھٹ کر 2 فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں رسمی اور غیر رسمی دونوں شعبوں میں 61 ملین کی ورک فورس میں سے صرف دو فیصد یوننیز میں منظم ہے۔ کُل 7,096 یونیز میں سے صرف 1,390 (19.58%) کولیکٹیو بارگینگ ایجنٹ (سی.بی.اے) ہیں، اور رسمی شعبوں میں صرف %15.55 سی بی اے ہیں۔ جہاں کہ بسا اوقات سی.بی.اے سرکار کے ساتھ نجکاریوں میں گٹھ جوڑ کر رہی ہیں۔ یاد رہے کہ قانون کے مطابق کسی ادارے میں جب ایک سے زیادہ یونین ہوں تو ورکرز خفیہ بیلٹ کے ذریعے ایک یونین کو سی بی اے منتخب کرتے ہیں، جو کہ ورکرز کی طرف سے انکے حقوق کے لئے ایمپلائرز کے ساتھ مذاکرات کرنے کا قانونی اختیار رکھتی ہے، جیسے کہ ورکرز کی ملازمت کی شرائط، اوقاتِ کار اور حالاتِ کار، تنخواہ، ہڑتال و تالا بندی، اور پراویڈنٹ فنڈ بورڈ اور ورکرز پارٹیسپیشن فنڈ بورڈ پر نمائندگی وغیرہ۔

پاکستان بننے کے وقت دو فیڈریشنز تھیں مگر آج نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن (این.آئی.آر.سی) کے پاس 15 سے زیادہ لیبر فیڈریشنز اور 28 شعبہ جاتی انڈسٹریل فیڈریشنز رجسٹرڈ ہیں۔ مگر اس وقت پاکستان کی ٹریڈ یونین تحریک تقسیم در تقسیم ہے اور اس کا بہت ہی محدود حصہ طبقاتی سوال اُٹھانے کا حامی ہے۔ اس وقت اکثریت ترقی پسند فیڈریشنز سیاست سے کنارہ کشی کر چکے ہیں۔ پاکستان ورکرز کنفیڈریشن بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے، ایک کی قیادت ظہور اعوان کے پاس ہے اور دوسری کی قیادت روبینہ جمیل اور خورشید احمد کے پاس ہے۔ یہی حال پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کا بھی یہی حال ہے۔ متحدہ لیبر فیڈریشن کی لیڈر شپ اسی کی دہائی میں کمیونسٹ تحریک سے جُڑی ہوئی تھی، مگر پارٹی ٹوٹنے کے بعد وہ لیفٹ کا حصہ نہیں رہی۔

پاکستان میں مزدور ایکتا کو کئی عوامل نے نقصان پہنچایا ہےجن کی وجہ سے نے نہ صرف ٹریڈ یونین تحریک ٹکڑوں میں بٹ کر تقسیم ہو گئی، بلکہ طبقاتی جدوجہد کرنے والی ٹریڈ یونینز اور فیڈریشنز بھی سکڑ گئی: جیسے کہ صنعت سازی کی سُست رفتاری اور سرمایے اور طرز پیداوار کی غیر رسمی شعبے میں منتقلی، صنعتوں میں جمہوری حقوق پر سرمایہ داروں کے حملے، مارشل لاؤں کے نتیجے میں رائٹ آف ایسوسی ایشن کی مسلسل معطلی، ٹریڈ یونین تحریک پر ملٹری ڈکٹیٹروں کی طرف سے پے در پے حملے اور ریاستی طاقت و سیاسی حربوں کے استعمال، نیو لبرل مالیاتی سرمایہ داری اور غیر ملکہ قرضوں کی شرائط کے لئے نج کاریاں، سرمایہ کاری کی غیر رسمی شعبوں میں منتقلی کی نتیجے میں ٹریڈ یوننز کا خاتمہ، ٹریڈ یونینوں کا صرف مراعات کی سیاست کرنا اور اس سے جُڑے تنازعات میں اُلجھے رہنا، سرمایہ دار طبقے/ مالکان اور ریاستی اداروں سے گٹھ جوڑ۔ ان کے علاوہ، این جی اوز کے عمل دخل کے نتیجے میں آپسی چپقلشوں، اور سب سے اہم، سوویت یونین کے انہدام کے بعد بائیں بازو کے بکھرنے کے بعد مزدور تحریک بھی مزید کمزور ہو گئی۔

تشکیلِ نو کی ضرورت

ضرورت اِس امر کی ہے کہ بایاں بازو مزدور تحریک کی نئی ترقی پسند بنیادوں پر تشکیل کے لئے لائحہ عمل تیار کرے, اور خود کو اُس کے ساتھ جوڑے۔ غیر رسمی شعبے کی از حد بڑھوتری اور اس شعبے میں ٹریڈ یوننز پر پابندی کی وجہ سے اب مزدور تحریک کو منظم کرنے کے لئے روایتی ٹریڈ یونین سیاست کے بجائے تنظیم سازی کے نئے اور فیوچرسٹک طریقے ڈھونڈنے ہوں گے، مثال کے طور پر ترقی پسند سیاسی جماعتوں اور مزاحمتی تحریکوں میں منظم کرنا، اور سیکٹر یونین بنانا۔


References:

  1. Khan Lal. (2009). Pakistan’s Other Story: The Revolution of 1968-69.  Akhtar Books/marxist.com. ↩︎
  2. Tariq Ali (2008). The duel: Pakistan on the flight path of American power. Sydney : Simon & Schuster ↩︎
  3. Shuhong, Yu & Zia Ud Din, Malik. (2017). Analyzing the Labour Issues in Pakistan: A Historical Background of Labour Laws and Labour Unions. Labour & Law Issues. 3. 10.6092/issn.2421-2695/7577. researchgate.net. P.14 ↩︎
  4. Patnaik Utsa and Shubhra Chakrabarti (March 2018) Agrarian and Other Histories .Tulika Books ↩︎
  5. Hickel Jason. How Britain stole $45 trillion from India. 19 December 2018. aljazeera.com ↩︎
  6. Mukherji Abani. September 1922. Indian Labour Movement: A Review of the Situation. The Communist Review,  Vol. 3, No. https://www.marxists.org/history ↩︎
  7. Kahlil, Zakaullah Khan. 2018. A Profile of Trade Unionism and Industrial Relations in Pاkistan. ILO ↩︎
  8. M. Ali Raza, April 1967. Alternatives in Pakistan Trade Union Development and Ideologies. The Journal of Developing Areas, Vol 1, No 3 ↩︎
  9. National Trade Union Federation. History of Labour Movement in South Asia ↩︎
  10. Ahmad, Shahbaz. (2016 ). Labour Movement in West Pakistan 1947-1958: A Perspective on Punjab. Orient Research Journal of Social-SciencesI. December 2016, Vol.1, No.2 [95-119], PDF. gcwus.pk ↩︎
  11. Sumbal, Deneb. Labour the Unkindest Cut. May Issue 2017. Newsline Magazine. newslinemagazine.com    ↩︎
  12. Mahmood Waqas, گوجرانولہ: کتنی فیکٹریوں کے بوائلر پھٹے اور کتنے مزدور زخمی ہوئے؟ مکمل اعداد و شمار. 25 January 2019. gnews.pk ↩︎

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس

/* Use the Inter Font */ @import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Gulzar&display=swap'); #printfriendly { font-family: 'Gulzar', sans-serif !important; line-height: 50px !important;; } .